ملک عبد العزیز سے قبل‌ کے سیاسی وامنی حالات

ملک‌‌ عبد‌ العزیز سے قبل‌ کے سیاسی وامنی حالات

از‌‌ ساجد ولی

چونکہ مملکت‌ سعودی‌ عرپ کی تاریخ موضوع بحث ہے، جس کی تکمیل یہ جانے بغیر نا ممکن ہے، کہ کسی بھی کامیاب حکمراں، یا‌ دور حکومت‌ سے قبل کے حالات کیسے تھے، بالخصوص سیاسی وامنی حالات پر گفتگو کئے‌ بغیر نہ تو یہ سمجھ پانا ممکن ہے کہ سابقہ دور اور اس تبدیل شدہ دور میں کیا فرق ہے، دونوں میں نواقص‌ وامتیازات کیا کیا‌ ہیں، اور دونوں ادوار‌ میں کامیاب وناکام دور‌ کسے‌ کہا جائے، چونکہ ہر دور پر گفتگو کرتے ہوئے اس‌‌ قسم کے‌ احوآل جاننے کی کوشش کی گئی ہے، اسی‌‌ لئے‌ یہاں بھی‌ ملک صالح ملک‌ عبد العزیز ‌- جنہیں صقر‌ العروبہ بھی کہا جاتا ہے – کے دور حکومت سے قبل کے سعودی سیاسی وامنی احوال کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ سے قبل کے سیاسی حالات:
حجاز کے احوال:
حجاز‌ ہمیشہ سے عثمانی خلفاء کا مرکز توجہ رہا ہے، ہمیں‌ معلوم ہے کہ جب سنہ ١٢٢٠ھ میں یہ علاقہ پہلی سعودی حکومت کے زیر اثر‌ آیا، تو عثمانی سلطنت نے اس حکومت سے ٹکرانے،‌ اس کا خاتمہ کرنے، نیز‌ بالخصوص حجاز کو اس‌ سے آزاد کرانے کا پختہ عزم کر لیا، اس کے‌ لئے مصر کے‌ والی محمد علی پاشا کو مقرر کیا گیا، جس نے سنہ ١٢٢٧ھ میں اس‌ علآقے‌ کو لوٹا لیا، اور دوبارہ اشراف کو یہاں نظم ونسق سونپ‌ دیا، جنہوں‌ نے سنہ‌ ١٣٤٤ھ یہاں پر حکومت‌ کی، پھر اسی سنہ میں ملک عبد‌ العزیز حجاز‌ کو دوبارہ تیسری سعودی حکومت کے ماتحت کر لیا۔
علاقہ عسیر کے‌ سیاسی حالات:
پہلی سعودی حکومت کے خاتمے کے دوران عثمانی خلافت کی‌ طرف سے مصر کے والی محمد علی پاشا کی فوج نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، لیکن عسیر کے حکمرانوں نے لگاتار عثمانیوں کی فوج سے مقابلہ جاری رکھا، بالآخر اس علاقہ کی امارت آل‌عائض‌ کے ہاتھوں میں منتقل ہوگئی،‌ اور سنہ ١٣٣٨ھ میں ملک عبد‌ العزیز کے زیر انتظام آنے تک‌ یہ علاقہ انہیں کے ماتحت رہا۔
جازان کے سیاسی حالات:
یہ علاقہ عثمانیوں کے ماتحت تھا، پھر اشراف اس پر حکومت کرتے رہے، پھر ادارسہ نے اس پر حکومت کی، سنہ ١٢٤٦ھ میں یہ خلافت عثمانیہ کے تسلط سے آزاد ہو گئے، اور لگاتار سنہ ١٣٥١ھ میں ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے زیر انتظام آنے تک انہیں کے ماتحت رہا۔
شرقیہ کے سیاسی حالات:
عراق کی عثمانی قیادت نے امام عبد اللہ بن فیصل کی طرف سے مدد کی درخواست کآ فائدہ اٹھاتے ہوئے اس علاقے پر حملہ کیا، جس کو احساء اور قطیف پر سنہ ١٢٨٨ھ میں کامیابی ‌ملی، اس کے بعد یہ علاقہ دوسری سعودی‌ حکومت کے ہاتھ سے جاتا رہا، اور سنہ ١٣٣١ھ تک انہیں کے زیر کنٹرول رہا، پھر ملک عبد‌ العزیز نے اسے دوبارہ سعودی مملکت کا حصہ بنا لیا۔
نجد کے سیاسی حالات:
دوسری سعودی حکومت کے آخری عہد میں آل سعود کے باہمی اختلاف کا نقصان یہ ہوا کہ جبل شمر کے امیر محمد بن عبد اللہ بن رشید کو نجد میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل گیا، پھر اس نے اس پر مکمل قبضہ کرنے کی غرض سے راستہ ہموار کیا، اور سنہ ١٣٠٨ھ ملیداء کی جنگ میں اہل قصیم کو شکست فاش سے دوچار کیا، پھر یہاں سے اپنی فوج لے کر ریاض کی طرف بڑھا، اس کے بعد دوسری سعودی‌ حکومت کے آخری فرماں روا امیر عبد الرحمن بن فیصل نے سنہ ١٣٠٩ھ میں کویت کا رخ کیا، جس سے دوسری سعودی‌ حکومت کا خاتمہ ہو گیا، اور ابن رشید نجد کے حاکم قرار پائے۔
ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ سے قبل جزیرۃ العرب کے سیکورٹی حالات:
تیسری صدی ہجری کے نصف سے لے کر چودھویں صدی ہجری کے نصف تک جزیرۃ العرب کے سیکورٹی حالات غیر اطمینان بخش تھے، حج کے راستے غیر محفوظ تھے، تقریبا ایک ہزار سال تک جزیرۃ العرب ہر طرح کے فتنوں، قتل وغارت گری، لوٹ کھسوٹ کی آماجگاہ رہا، وجہ یہ تھی کہ یہ علاقہ ایسے مضبوط نظام حکومت سے خالی تھا، جو ان جرائم کو لگام لگا سکے۔
چودھوی صدی ہجری کے اوائل میں حجاز پر اشراف کی حکومت تھی، اس وقت یہ علاقہ قتل وغارت گری، ڈکیتی، لوٹ کھسوٹ کی آماجگاہ تھا، چوری جیسے جرائم, اور حاجیوں کی لوٹ کھسوٹ کے لئے بہت سارے جرائم پیشہ افراد کے سر گرم عمل ہونے کی وجہ سے سفر حج جان کو جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا، جو حج کا ارادہ کرتا وہ اپنے اہل وعیال کو ایسے الوداع کہتا گویا اب دوبارہ اسے لوٹ کر نہیں آنا ہے، اس زمانے میں حاجیوں کے لئے یہ مقولہ عام تھا ( الذاھب الی الحج مفقود، والعائد منہ مولود یعنی سفر حج پر جانے والا مفقود ہو جاتا ہے، اور جو جو لوٹ آتا وہ دوسری زندگی پاتا ہے)، جیسا جبرتی نے اپنی تاریخ (عجائب الآثار) میں نقل کیا ہے، کہ حج بیٹ اللہ جنگ کے قائم مقام ہوتا تھا جس کے لئے انسان کو سامان سفر کے ساتھ ہتھیار کی بھی ضرورت ہوتی ہے, وہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ بعض سالوں میں موت کے خوف سے ایک بھی حاجی حج کرنے نہیں آتا، احمد شوقی نے الشریف عون الرفیق کے زمانے میں اپنے ایک قصیدے کے اندر حاجیوں کی مشکلات، پریشانیوں، ان پر کئے جانے والے ظلم وستم کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے.
ضج الحجاز وضج البيت والحرم
واستصرخت ربها في مكة الامم
قد مسها في حماك الضر فاقض لها
خليفة الله أنت السيد الحكم
تلك الربوع التي ريع الحجيج لها
آلشريف لها أم لك العلم؟
أهين فيها ضيوف الله واضطهدوا
إن أنت لم تنتقم فالله منتقم
الحج ركن من الاسلام نكبره
واليوم يوشك هذا الركن ينهدم
جاری۔۔۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *