فولادی ارادوں کا مالک شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اور ریاض میں ان کا داخلہ

فولادی ارادوں کا مالک شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ اور ریاض میں ان کا داخلہ
از قلم ساجد ولی
ملک عبد‌ العزیز کا نام ونسب, جائے ولادت، اور نشو ونما:
ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ بن عبد الرحمن بن فیصل بن ترکی بن عبد‌ اللہ بن محمد بن سعود ریاض میں سنہ ١٨٧٦ھ میں پیدا ہوئے، اور اپنے خاندان کے سائے عاطفت میں پرورش پاتے ہوئے وہ ساری مہارتیں سیکھتے ہوئے پروان چڑھے جو عام طور پر اس خاندان میں رائج تھے، مثلا: تیر اندازی اور گھڑسواری وغیرہ،‌ ساتھ ساتھ آپ نے پڑھنا لکھنا، قرآن کریم کی تعلیم بھی حاصل کی، بچپن ہی سے آپ کے ہونہار ہونے کی علامتیں نظر آنے لگیں، اس بات کی واضح دلیل یہ ہے کہ آپ سنہ ١٣٠٨ ھ کی شروعات میں امیر محمد بن رشید سے تبادلہ خیال کرنے ریاض سے باہر جانے والے وفد میں شامل تھے، امام عبد الرحمن بن فیصل ریاض چھوڑنے کے بعد کچھ عرصہ احساء کے قریب رہے تھے، جہاں پر کچھ ہی لوگ آباد تھے، آپ اس کوشش میں تھے کہ کویت کو اپنے اور اپنے خاندان کی جائے سکونت‌ بنا لیں، لیکن اس وقت کے امیر کویت نے عثمانیوں کے دباؤ میں آکر آپ کو اجازت نہیں دی، چند ماہ بعد عثمانی قیادت کی سمجھ میں آیا کہ آپ کا کویت میں رہنا احساء کے بالمقابل زیادہ بہتر ہے، اس لئے آپ کی منتقلی کا راستہ صاف ہوگیا، آپ کویت منتقل ہو گئے، سلطنت عثمانیہ کی طرف سے آپ کے لئے مشاہرہ بھی مقرر کر دیا گیا، سعودی خاندان کے کویت میں ٹھہرے رہنے کے دوران ہی امیر کویت مبارک بن صباح اور امیر نجد ‌عبد العزیز بن رشید کے تعلقات میں دراڑ پڑ گئی, یہاں تک کہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کے علاقے پر چڑھائی کی پلاننگ کرنے لگا، اب اس‌ واقعے کے بعد آل سعود اور آل صباح اپنے مشترک دشمن کے خلاف ایک ساتھ ہو گئے، جس سے ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ نے دوبارہ سعودی مملکت کے قیام پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا۔
امیر نجد اور امیر کویت کے مابین اختلافات سنہ ١٣١٨ھ میں اتنے زیادہ بڑھ گئے کہ مبارک بن صباح کویت سے فوج لے کر نکلے، آپ کی صحبت میں عبد الرحمن بن فیصل اور آپ کے بیٹے عبد العزیز، بریدہ وعنیزہ کے کچھ امراء، اور عجمان نیز مطیر قبیلے کے کچھ افراد بھی تھے، اس سفر میں یہ بات طے پائی کہ فوج کا ایک حصہ لے کر عبد العزیز ریاض پر چڑھائی کرے، اور فوج کا باقی ماندہ حصہ مبارک بن صباح کی قیادت میں القصیم کی طرف کوچ کر دے، ملک عبد‌ العزیز اپنی فوج کے ساتھ ریاض میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، اور وہاں پر ابن رشید کے عامل کے محاصرے میں لگ گئے، لیکن سوء اتفاق یہ رہا کہ سنہ ١٣١٨ھ میں مبارک کی فوج کو ابن رشید سے مٹ بھیڑ میں شکست فاش کا سامنا ہوا، ملک عبد‌ العزیز کو اس کی خبر لگی تو آپ ریاض چھوڑ کویت لوٹ آئے۔
ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کا ریاض پر دوبارہ قبضہ کرنا اور مملکت سعودی عرب کی دوبارہ بنیاد رکھنا:
ملک عبد العزیز نے یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ وقت مستقل طور پر‌ دوبارہ سعودی مملکت کے قیام کے لیے فوجی کارروائی آگے بڑھانے کا مناسب وقت ہے، آپ پہلے بھی سنہ ١٣١٨ھ کے اندر ریاض داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، آپ کی قائدانہ صفات،‌ نیز آپ کے خاندان کی روشن تاریخ نے آپ کے حوصلے کو مزید بڑھا دیا تھا، ١٣١٩ھ کے ابتدائی مہینوں میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ امیر کویت سے ٤٠اونٹ، اور کچھ ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، خود امیر کویت کی ذاتی خواہش بھی تھی کہ یہ نوجوان حرکت میں آئے، اور ابن رشید کی توجہ کویت سے ہٹا دے، آپ تقریبا ٤٠-٦٠ لوگوں کی صحبت میں اس مہم پر نکلے، جن میں کچھ آپ کے خاندان کے لوگ تھے، اور کچھ آپ کے ہمدرد، جب آپ کے خروج کی خبر ان قبائل کو لگی، جنہیں آل سعود سے ہمدردی تھی، وہ بھی آپ کے اس قافلے میں شامل ہو گئے، جب آل رشید کی تائید کرنے والے عثمانیوں کو اس بات کا علم ہوا تو خطرہ محسوس کر ہر اس شخص کو احساء میں داخل ہونے سے روک دیا، جنہوں نے آپ کے ساتھ پہلے تعاون کیا تھا، یہ دیکھ کر قبائلی علاقوں سے آپ کے لشکر میں شامل ہو چکے سارے افراد آپ سے الگ ہو گئے، گنے چنے وہی لوگ آپ کے ساتھ رہ گئے، جو کویت سے ساتھ لگے تھے، آپ نے انہیں لے کر احساء کے قریب کسی جگہ کا رخ کیا، اور ٢١ رمضان ١٣١٩ھ کو وہاں سے ریاض کا رخ کیا، آپ رات میں چلتے اور دن میں کہیں چھپے رہتے، تاکہ آپکی نقل وحرکت پر کسی کی نظر نہ پڑے، اور یہ مہم لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے، اسی سال ٥ شوال کو آپ ریاض کی حدود کے پاس پہونچ گئے، اور آپنے رفقاء سفر کو تین حصوں میں بانٹ دیا۔
-یک جماعت: فوج اور اونٹوں کے پاس اس وقت تک ٹھہری رہے گی جب تک کہ ان کی طرف سے کوئی حکم نہیں آجاتا، یا صبح نہ ہو جائے، تو پھر نجات کے لئے وہاں سے ہٹ کر کوئی اور جگہ تلاش کریں۔
دوسری جماعت: آپ کے بھائی محمد بن عبد الرحمن کی قیادت میں ریاض کے‌ جنوب میں واقع ایک کھلیان کے اندر اس وقت تک انتظار کریں گے، جب تک کہ آگے بڑھنے کا اشارہ نہ مل جائے۔
تیسری جماعت: ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کی قیادت میں ریاض شہر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گی، اور حقیقت میں ہوا بھی ایسا ہی کہ آپ بآسانی شہر کے اندر اپنی جماعت کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے، کیونکہ شہر کی فصیل منہدم تھی، آپ ابن رشید کے عامل عجلان بن محمد العجلان کے پڑوس کے ایک گھر تک پہونچ گئے، یہاں پر آپ نے اپنے بھائی محمد ‌اور ان کے ساتھیوں کو بھی بلا لیا، پھر اس کے بعد آپ سب دیوار پھلانگ کر عجلان کے گھر میں داخل ہونے، تاکہ اس کا صفایا کر دیں، لیکن انہیں پتہ چلا کہ اس نے ابن رشید کی سیرگاہ میں واقع محل میں رات گزاری ہے، سارے لوگوں نے یہاں پر اس کے (المسمک) نامی اس محل سے نکلنے کا انتظار کیا، جب وہ نکلا تو اچانک عبد العزیز رحمہ اللہ سے ان کی مٹ بھیڑ ہوئی، وہ محل کی طرف بھاگا،‌ لیکن ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کے ساتھی محل کے گیٹ پر ہلہ بولنے، اور محل کے اندر جانے میں کامیاب ہو گئے، اس کے بعد عجلان عبد اللہ بن جلوی کے ہاتھوں قتل ہو گئے، ان کے کچھ ساتھیوں کا بھی قتل ہوا، جو بحے‌ تھے انہوں نے خود سپردگی کو امان سمجھا، اس واقعے کے بعد ہی شہر میں اعلان ہو گیا، شہر ریاض میں اللہ کی،‌ اور‌ پھر ملک عبد العزیز کی حکومت آگئی ہے، یہ ٥ شوال ‌سنہ ١٣١٩ھ موافق ٢ جنوری ١٩٠٢ء کا واقعہ ہے، اس‌ طرح خطروں کا یہ کھلاڑی نوجوان شہر ریاض کو ابن رشید سے چھیننے میں کامیاب ہو گیا، اور اس راستے میں آپ نے پہلا قدم رکھا، جس سے ملک کے مختلف علاقے متحد ہوئے، اور اس طرح سے یہ سعودی حکومت کے تیسرے دور حکومت کی ابتداء ہوئی ( یعنی‌ مملکت سعودی عرب کی)…
جاری۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *