جزیرۃ العرب کی بکھری ہوئی ریاستیں، اور ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کا انہیں متحد کرنا۔

جزیرۃ العرب کی بکھری ہوئی ریاستیں، اور ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کا انہیں متحد کرنا۔
از ساجد ولی
مکمل علاقہ نجد کا نئی سعودی مملکت میں ضم کرنا:
ابن رشید کی‌ ادارتی بے وقوفی یہ‌ رہی کہ انہوں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کی کامیابی پر فورا کوئی معقول ایکشن نہیں لیا، بلکہ کویت کے قریبی علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں لگا رہا، جس سے ملک عبد العزیز کو اتنی مہلت مل گئی کہ آپ شہر ریاض کے ارد گرد فصیل قائم کرلیں، آپ نے شہر پر قبضہ کرتے ہی اس کام کی شروعات کر دی تھی، اور پانچ ہفتے کے اندر اندر اس مہم کو پورا کر لیا، جب آپ شہر ریاض کے دفاعی انتظامات سے مطمئن ہو گئے، تو علاقہ نجد کو ایک کرنے کے مقصد سے جنوب ریاض کی بستیوں سے شروعات کی، کیوں کہ یہ بستیاں -خرج، افلاس وغیرہ- ابن رشید کے مرکز حکومت حائل‌ سے دور بھی تھیں، اور ان پر اس کی اتنی قوی پکڑ بھی نہیں تھی، آپ نے سنہ ١٣٢١ھ میں قصیم کو متحد کرنے اور اسے نئی مملکٹ میں شامل کرنے کی شروعات کی، چونکہ یہ علاقہ نسبتی طور پر‌ مال دار علاقہ تھا، اور جبل شمر- جو کہ ابن رشید کا فوجی ٹھکانہ تھا -سے قریب بھی تھا اس لئے اس کی بڑی اہمیت تھی، اس طرح سے سنہ ١٣٢٢ھ میں شہر عنیزہ اور شہر بریدہ ابھرتی ہوئی مملکت سعودی عرب کا حصہ بن گئے۔
بکیریہ‌ کا معرکہ:عثمانیوں نے مال وسلاح کے ذریعے ابن رشید کی خوب مدد کی، جسے لے کر انہوں نے قصیم کا رخ کیا، جب وہ وہاں پہوچے تو بکیریہ نامی معرکے میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ اور آپ کی فوج سے مٹ بھیڑ ہوئی، ابن رشید نے گھڑ سواروں، اور اپنے دفاعی دستے کے ساتھ مخالف لشکر کے قلب پر پوری طاقت جھونکے رکھی، جس میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ موجود تھے، آپ کی فوج کے کئی سو فوجی شہید ہوئے تو آپ وہاں سے پیچھے ہٹ گئے، لیکن اہل قصیم ‌نے -جو کہ آپ کی فوج کے میمنہ اور میسرہ میں شامل تھے- ابن رشید کی فوج کو چاروں اور سے گھیر کر اس کی فوج کو بڑا نقصان پہونچایا، تو وہ بھی میدان چھوڑنے پر مجبور ہوا، اس طرح سے یہ معرکہ عجیب نتیجے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس میں دونوں فوجوں کے قائد پسپا ہوکر اپنے علاقے لوٹ گئے۔
معرکہ نشانہ:
ابن رشید نے سنہ ١٤٢٣ھ میں پیش آنے والی بکیریہ کی لڑائی کے بعد مقام شنانہ پر پڑاو ڈالا، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ بھی اپنی فوج کو جمع کر ابن رشید سے مقابلے کے لیے نکلے، دونوں فوجوں کے درمیان تین ماہ تک جھڑپیں جاری رہیں، اس کے بعد ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ نے اپنے دشمن پر ایسا حملہ کیا کہ اس کی ہوا اکھڑ گئی، اور آپ فتحیاب ہو کر بہت سارے اموال، ہتھیاروں پر قابض ہوگئے، اس کے بعد عثمانی قیادت نے آپ کی طاقت کا احساس کرتے ہوئے مذاکرات کی شروعات کی جن میں یہ طے پایا کہ وہ اپنی فوج کو قصیم سے ہٹا لیں۔
روضۃ المہنا کا معرکہ:
سنہ ١٣٢٣ ھ کے اواخر ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ قطر کے حاکم قاسم بن ثانی کی مدد کے لئے جب اس کے یہاں پہونچے، تو ابن رشید نے آپ کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھانے کی غرض سے قصیم کا رخ کیا، ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کو جب اس بات کی خبر لگی تو ابن رشید سے لوہا لینے دوبارہ قصیم پہونچ گئے، اور ١٧ صفر ١٣٢٤ھ کو اپنے دشمن پر بریدہ کے قریب روضہ المھنا نامی جگہ پر رات میں اچانک حملہ کیا، اور بالآخر نتیجہ یہ ہوا کہ متعب بن رشید قتل ہو گیا، جس کے بعد آپ کو‌ ایک ایسے پریشان کن دشمن سے چھٹکارا مل گیا، جو نجد میں آپ کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا، اس کے بعد آپ نے راحت کی سانس لی، اور نسبتا نجد پر آپ کو استحکام نصیب ہوا۔
احساء اور قطیف کو ممکت سعودی عرب میں ضم کرنا:
١٣٢٣ھ میں ایسے اسباب مہیا تھے جن کی بنیاد پر ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ احساء اور قطیف کو سعودی مملکت میں شامل کرنے کی کوشش کی ابتدا کرتے، چونکہ آپ کو نجد میں استحکام مل چکا تھا، اور ان دونوں علاقوں میں ترکی منتظمہ کا تسلط صرف شہروں تک محدود ہو چکا تھا، یہاں کے لوگ بھی اس بات کے منتظر تھے کہ کوئی انہیں ترکی تسلط سے آزاد کرائے،‌ جو اب بعض بدویوں کے شب وخون سے ان کی حفاظت کے قابل نہیں رہا تھا، یہاں سے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ اور احساء کے بعض معزز لوگوں کے درمیان ملاقاتیں شروع ہوئیں، انہوں نے آپ کو اطمینان دلایا کہ اگر آپ حملہ کرتے ہیں تو ہم ترکی تسلط کے خلاف آپ کا ساتھ دینگے، چنانچہ سنہ ١٣٣١ھ میں ملک عبد‌ العزیز نے خود فوج کی قیادت کرتے ہوئے احساء پر چڑھائی کی، آپ مقام ہفوف میں واقع حریف فوج کے ٹھکانے تک پہونچ گئے، یہاں پہونچتے ہی آپ کے کچھ فوجی فصیل شہر پر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے، جنہوں نے شہر کے دروازے کو باقی فوج کے لئے اندر سے کھول دیا، ترکی فوجی اڈے میں موجود فوج نے اچانک جب ملک عبد‌ العزیز کے حملے کو دیکھا تو مقابلے کی تاب نہ لا سکے، اور ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، آپ نے انہیں، بحرین کے راستے عراق بھیجنے کا حکم دیا، اور اس طرح سے یہ اہم ترین علاقہ بھی سعودی مملکت میں شامل ہو گیا۔
علاقہ عسیر کا مملکٹ سعودی عرب میں شامل ہونا:
سنہ ١٩١٤ء کی عالمی جنگ کے اندر ترک کی شکست فاش کے بعد علاقہ عسیر پر حسن بن عائض آزاد حکمراں کے طور پر‌ ابھرا، لیکن ایک وقت گزرنے کے بعد اس کے مابین اور علاقے کے کچھ قبائل کے ذمے داروں کے درمیان اختلاف رونما ہو گیا، کیونکہ اس وقت ملک عبد العزیز کی پوزیشن بری مضبوط تھی، ان لوگوں ‌نے آپ سے حسن بن عائض کی شکایت کی، آپ نے بیچ بچاؤ کی کوشش تو کی، لیکن کامیابی نہ ملی، کیونکہ وہ اس پر راضی نہ ہوا، اب دونوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی، پھر سنہ ١٣٣٨ھ میں ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے اس کی سرکوبی کے لیے امیر عبد العزیز بن مساعد کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، مقابلے کی تاب نہ لاکر ابن عائض نے ہتھیار ڈال دیے، اسے مع اس کے خاندان کے ریاض لایا گیا، اور چند ماہ کے بعد دوبارہ اسے عسیر لوٹ جانے کی اجازت دے دی گئی، کچھ دن اس نے وہاں سکون سے گزارے، لیکن پھر اس نے خیانت کی، اور امیر عبد العزیز بن مساعد کو گرفتار کر لیا، پھر دوبارہ ملک عبد العزیز نے اپنے بیٹے فیصل بن عبدالعزیز کی قیادت میں اس کی تادیب کے لئے ایک لشکر روانہ کیا، اس نے اسے کئی مرتبہ شکست فاش سے دوچار کیا، اور اہل وعیال،نیز رشتے داروں کے ساتھ گرفتار کر دوبارہ ریاض لایا گیا، یہاں پر خوب عزت وتکریم ساتھ انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، اور باقی زندگی انہوں نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی رعایا کے طور پر گزاری، اس طرح سے علاقہ عسیر بھی مملکت سعودی عرب میں شامل ہو گیا۔
حائل کی مملکت سعودی عرب میں شمولیت:
سنہ ١٣٢٤ ھ کے اندر روضۃ ‌المھنا کے معرکے میں امیر عبد العزیز بن متعب بن رشید کے قتل ہو جانے کے بعد جبل شمر کی امارت کے امیر متعب بن عبد العزیز بنے، لیکن اب آل رشید کے مابین سیاسی اختلاف رونما ہو گیا، پھر سنہ ١٣٣٣ھ میں ملک عبد‌ العزیز اور متعب بن عبد العزیز کے تعلقات خراب ہو گئے، نتیجتاً جراب نامی جگہ پر دونوں قائدوں کے درمیان لڑائی ہوئی، جس میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کی فوج کے کئی کمانڈر اور علم بردار شہید ہوے، سنہ ١٣٣٨ھ میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ نے آل رشید کے امراء کو اس بات پر راضی کرنے کی خوب کوشش کی کہ وہ ماتحتی قبول کر لیں، اور مملکت سعودی عرب کا حصہ بن جائیں، لیکن انہوں نے آپ کی تجویز کو ٹھکرا دیا، اس کے بعد ٢٩ صفر سنہ ١٣٤٠ھ میں ملک عبد العزیز نے ایک لشکر بھیج کر حائل کا کئی جانب سے محاصرہ کیا، جسے دیکھ آل رشید کے امراء ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے، آل رشید کے سارے اعزاء و اقارب کو مع اہل وعیال ریاض لایا گیا، انہیں عزت دی گئی، اچھے شہری کی طرح زندگی گزارنے کا حق دیا گیا، سیاسی قیدی سمجھ کر تکلیف نہیں دی گئی، اور پھر اس طرح سے جبل شمر بھی ان علاقوں میں شامل ہو گیا جنہیں مملکت سعودی عرب میں ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کے ذریعے ضم کیا کر لیا گیا۔
سنہ ١٣٤٤ میں علاقہ حجاز کی مملکت سعودی عرب میں شمولیت:
عثمانیوں نے حسین بن علی کو سنہ ١٣٢٦ھ میں مکہ مکرمہ کا حاکم مقرر کیا تھا، لیکن آٹھ سال بعد سنہ ١٣٣٤ھ میں برطانیہ کی مدد سے اس نے بغاوت کی، اور حجاز کا خود مختار حکمراں بن گیا- یہ پہلی جنگ عظیم کا شروعاتی زمانہ تھا- پھر ایک وقت آیا کہ تربہ اور خرمہ جگہوں پر ملک عبد العزیز رحمہ اللہ اور اس کے درمیان نا اتفاقی پیدا ہوئی، وجہ یہ بنی کہ خرمہ کے امیر خالد بن لؤی کا جب حسین بن علی سے اختلاف ہوا، تو اس نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ سے مدد کی گہار لگائی، آپ نے اس کی مدد کو ایک فوجی دستہ بھیجا، جس نے امیر خرمہ کی سرکوبی کے لیے حسین بن علی کی طرف سے بھیجی گئی فوجی ٹکڑیوں کو پسپا کیا، سنہ ١٣٣٨ھ میں ملک حسین نے اپنے بیٹے عبد اللہ بن حسین کی قیادت میں تربہ کی طرف کلاشنکوفوں، اور توپوں سے لیس ایک دستہ بھیجا، تاکہ خالد بن لؤی کے ہمدردوں کی سرزنش کرے، ادھر ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی بن لؤی کے ماتحتوں کی مدد کے لئے سلطان بن بجاد کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، جب یہ لشکر اپنی جگہ پہونچا تو اس کے کمانڈروں نے عبد اللہ بن حسین کی فوج پر حملے کے لئے ایک مضبوط پلاننگ کی، انہوں نے اس کی فوج پر رات میں حملہ کیا، یہ حملہ نہایت سخت تھا، قریب تھا اس میں عبد اللہ بن حسین کی ساری فوج کا صفایا ہو جاتا، اور اس کے سارے اسلحے کو لوٹ لیا جاتا، اس شدید ناکامی اور ہزیمت کا رد عمل یہ سامنے آیا کہ حسین بن علی نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی رعایا، اور ہم دردوں کو حج کی ادائگی سے روک دیا، جس سے ملک عبد العزیز کے ہمدردوں میں شدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی، اس ہنگامی صورت حال میں ملک عبد العزیز کو حالات کا جائزہ لینے، اور آگے کی پالیسی طے کرنے کے مقصد سے ریاض میں ایک کانفرنس بلائی پڑی، جس میں سب کے اتفاق سے یہ طے پایا کہ حجاز کو ملک حسین کے تسلط سے آزاد کرانا چاہئے، اس رائے کی تنفیذ کے لئے آپ کی فوج کا‌ اخوان‌ نامی دستہ – یہ ان دیہاتی لوگوں کا گروہ تھا جو ہجر نامی نو آبادیاتی علاقوں میں سکونت پذیر ہو گئے تھے، انہیں اخوان اس لئے کہا جاتا تھا کیوں یہ اپنے آپ کو ایمانی بھائی کہتے تھے، یہ حسن البنا کے گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے- سلطان بن بجاد العتیبی کی قیادت میں اس مہم کو سر کرنے نکلا، اور ماہ صفر سنہ ١٣٤٣ھ میں طائف کے مضافات تک پہونچ گیا، حسین بن علی نے اخوان کو روکنے کی کوشش کی مگر روک نہ پایا، اور شہر سے فرار ہو گیا، آخوان دستے نے شھر پر چڑھائی کی، اسے فتح کر مکہ گا رخ کیا،‌ اس کے بعد اہل حجاز نے ملک حسین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ اپنے بیٹے علی کے لئے حکومت سے اپنے آپ کو معزول کر لے، اس نے ان کی بات مان لی، لیکن علی نے اپنی کمزوری کا احساس کر مکہ چھوڑ کر جدہ میں پناہ لی، اور ان طرح سے ٧ ربیع الاول سنہ ١٣٤٣ھ کو اخوان بلا جنگ مکہ میں داخل ہو گئے، انہوں‌ نے پہلے عمرہ کیا پھر سب کو امان دینے کی منادی کرائی، اس کے بعد ١٣‌ ربیع الثانی سنہ ١٣٤٣ھ کو بعض شہری فوجیوں، اور اخوان کے ساتھ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے‌ مکہ گا رخ کیا، پہلے عمرہ ادا کیا اور پھر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آیا یہیں پر بس کیا جائے یا پھر آگے بڑھ کر جدہ کو بھی ملک حسین کے تسلط سے آزاد کرایا جائے، سب کی رائے یہ بنی کہ جدہ کی طرف پیش قدمی کی جایے، آپ‌ نے رغامہ نامی جگہ پر -جسے ابرق الرغامہ بھی کہتے ہیں- پڑاؤ ڈالا، اور یہاں سے حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف فوجی دستے روانہ کئے، انہوں نے ان علاقوں کو فتح کیا، پھر آپ نے سنہ ١٣٤٤ھ میں اپنے بیٹے محمد بن عبد العزیز کی قیادت میں ایک لشکر مدینہ منورہ کی جانب بھی روانہ کیا، انہوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا، یہاں تک کہ وہاں کی فوجی چھاؤنی آپ کے ماتحت آ‌گئی،‌ جوں جوں وقت گزرتا گیا علی بن حسین کی طاقت کمزور پڑتی گئی، بالآخر اسے اس بات کا یقین ہو گیا کہ اب مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں، اس لئے اس نے ملک عبد العزیز سے مصالحت کر اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ملک اس کے حوالے کر کے ملک چھوڑ دیگا، بس شرط یہ ہے کہ وہاں کے باشندوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا، یہ اتفاق جمادی الثانی ١٣٤٤ھ میں پیش آیا، جس کے بموجب علی بن حسین نے حجاز کو چھوڑ دیا، اور اس طرح سے ‌پورا حجاز مملکت سعودی عرب کے ساتھ ملکر مملکت‌ سعودی عرب کا حصہ بن گیا، اور اللہ کی عطا سے حرمین شریفین کی خدمت ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو نصیب ہوئی۔
علاقہ جازان کا مملکت سعودی عرب میں ضم کیا جانا:
جازان کی امارت محمد بن علی الادریسی کے ہاتھ میں تھی، ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند علی بن محمد بن علی امیر جازان مقرر ہوئے، لیکن اس کے باشندوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی،‌‌ اور‌ اس کے چچا حسن الادریسی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے، اب اسے گرد وپیش کے حالات نے اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ملک عبد‌ العزیز کی حمایت حاصل کر لے، یہ بات سنہ ١٣٤٥ھ کی ہے، ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ نے اس کی مدد کے لئے اپنا ایک نائب ان کے پاس بھیجا، لیکن سوء اتفاق کہئے کہ سعودی مملکت کے دشمنوں نے اسے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے خلاف ورغلایا، تو اس نے احسان فراموشی کی، اور بار بار سمجھانے کی کوشش کے باوجود وہ اپنی نادانی پر بضد رہا، اور لگاتار شرارتیں کرتا رہا، اس پر مستزاد یہ کہ اس نے ملک عبد العزیز کے کارندے، اور اس کے معاونین کو سنہ ١٣٥١ھ میں قید کر لیا، ملک عبد‌ العزیز نے اس کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر بھیجا، جس کی وجہ سے وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا، اور اس طرح سے جازان بھی مملکت سعودی عرب کا حصہ قرار پایا۔
جاری۔۔۔۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *