لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں طلباء کی جانب سے یوم اساتذہ کی مناسبت سے ایک شاندار جلسہ کا انعقاد کیا گیا.
جس کی صدارت پروفیسر عمر کمال الدین صاحب سابق صدرِ شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی نے کی جب کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سےڈاکٹر سید غلام نبی احمد صاحب (شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی) ڈاکٹر ارشد القادری صاحب (شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی) و ڈاکٹر شبیب انور علوی صاحب (شعبہ فارسی لکھنؤ یونیورسٹی) موجود رہے.
اس موقع پر اساتذہ کی عظمت اور اہمیت پر پُر مغز تقریریں ہوئیں. جس میں شعبہ کے طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. پروگرام کے آغاز سے قبل طلباء نے اساتذہ کو گلدستہ پیش کیا. ریسرچ اسکالرز- علی عباس، مہدی رضا، عرشی بانو، سنا ازہر، عاطفہ جمال، اور صالح ظفر نے گلدستہ پیش کرکے تمامی طلباء کی جانب سے اساتذہ کا والہانہ انداز سے استقبال اور خیر مقدم کیا.
ریسرچ اسکالر سید انوار صفی (صفی ابن صفی) نے نظامت کرتے ہوئے پروگرام کا آغاز کیا اور کہا کہ. اساتذہ کو قوموں کا معمار کہا گیا ہے. قوموں کی تعمیر اساتذہ کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے. ماں کی گود کے بعد تربیت کا دوسرا مرحلہ اساتذہ کے ہاتھوں ہی شروع ہوتا ہے. جس طرح ایک کمہار مٹی کے ڈھیر کو بڑے جتن سے اپنے چاک پر سجا کر شہکار برتن بناتا ہے. جس طرح ایک معمار اینٹ اور پتھر کی مدد سے ایک خوشنما محل تعمیر کرتا ہے. اسی طرح ایک استاد بڑی ہنرمندی سے اپنے شاگرد کا مستقبل سنوارتا ہے. قوموں کو خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے میں اساتذہ بہت اہم رول ادا کرتے ہیں. دنیا کی تمام ترقی اور علم کی چمک اساتذہ کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہے.
دولتِ علم و ہنر جن سے ملی ہے مجھ کو
ہر معلّم کو میرے اس کا صلہ دے مولیٰ
اس کے بعد ریسرچ اسکالر عرشی بانو نے بہت ہی خوبصورت انداز میں ایک نظم پیش کی جس کا عنوان تھا” استاد ہمارے” جس کا پہلا شعر کچھ اس طرح ہے کہ.
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
ان ہی سے ہیں افراد ضیاء بار ہمارے
پھر ڈاکٹر ناظر حسین نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ. استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے. استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے.
ریسرچ اسکالر علی عباس نے معلم کے عنوان سے ایک بہترین نظم پڑھی.
ریسرچ اسکالر سنا ازہر نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں. مختلف شعبہ جات میں ہم جتنی بھی کامیابی اور بلندی حاصل کرتے ہیں اس کے پیچھے اساتذہ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے.
ریسرچ اسکالر عاطفہ جمال نے اپنے منفرد اور دلکش انداز میں کلام پیش کر کے سامعین کا دل جیت لیا.
ریسرچ اسکالر صالح ظفر نے اپنی تقریر میں استاد کی عظمت اور اہمیت پر روشنی ڈالی.
طلباء کی جانب سے ڈاکٹر خبیب نے سب کا شکریہ ادا کیا.
صدرِ جلسہ پروفیسر عمر کمال الدین صاحب نے فرمایا کہ میں طالب علموں کی توجہ اس طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ طالب علمی کا زمانہ خوشیوں اور امنگوں بھرا ہوتا ہے. اس لیے طالب علم کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ اپنے ساتھ مسیحا اور وفادار رہے، وقت کی قدر کرے، خدا نے اسے جو رحمت وقت کی صورت میں عطا فرمائی ہے اسے صحیح طور پر استعمال کرے جو طالب علم وقت کی قدر نہیں کرتا وہ ہمیشہ ناکام رہتا ہے. طالب علمی کے زمانے میں اگر نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا جائے تو انسان ساری زندگی با اصول اور باکردار رہتا ہے. استاد ہی طالب علموں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرکے اسے انسان بناتا ہے اس لیے ہمیں اساتذہ کا احترام کرنا بہت ضروری ہے.
ڈاکٹر سید غلام نبی احمد صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اساتذہ کی حالت پہلے سے ضرور بہتر ہوئی ہے. ان کی ہر طرح مادی ترقی بھی ہوئی ہے ہے. مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے اس کا دوسرا پہلو اتنا ہی دھندلا اور قابلِ غور ہے. آجکل صورتحال یہ ہے کہ تدریس ایک ایسی تجارت بن گئی ہے جس کے لیے کسی سرمایہ اور دکان کی ضرورت نہیں. اکثر اساتذہ تاجر بن چکے ہیں اور طلباء گاہک. اساتذہ اسکولوں اور کالجوں میں قصداً غیر معیاری اسباق دیتے ہیں اور اسباق کو تشنہ رکھتے ہیں تاکہ طلباء ان سے ٹیوشن پڑھیں اور کم وقت کی زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ ہوں. یہ ایسی شرمناک بات ہے کہ شریف النفس لوگوں کے لیے اس کا تذکرہ بھی گراں خاطر ہے. استاد اور شاگرد کا رشتہ اتنا مقدس ہوتا ہے جو کہ مکمل طور پر بے غرضی پر مبنی ہے. جو ایک دوسرے سے بے لوث محبت اور بے پناہ شفقت کا متقاضی ہے. آج نہ اساتذہ وہ فرائض انجام دے پا رہے ہیں اور نہ ہی طلباء میں وہ عقیدت باقی ہے. آج ہم محسوس کرتے ہیں کہ اساتذہ اور طلباء کا رشتہ کافی کمزور ہوگیا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اساتذہ تدریس کو اپنا فرض سمجھ کر نہیں بلکہ صرف پیشہ سمجھ انجام دے رہے ہیں. انہیں طلباء کے مسائل سے زیادہ اپنے معاشی اور اقتصادی مسائل کی فکر رہتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ کا رشتہ دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے.
ڈاکٹر ارشد القادری صاحب نے حال ہی میں اپنے اسپین کے ایک سیمینار میں بلائے جانے سے لیکر واپسی تک کا حال بیان کیا اور فرمایا کہ دنیا کے تمام مذاہب نے اللہ کے حقوق کے ساتھ والدین اور استاد کے حقوق و احترام ادا کرنے کی تلقین کی ہے. ایک بچہ کی تربیت میں جو حصہ ماں ادا کرتی ہے وہی بعد میں ایک استاد نبھاتا ہے. استاد صرف نصاب تعلیم نہیں پڑھاتا وہ شخصیت سازی کا کام بھی کرتا ہے. تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دیتا ہے. استاد اپنے شاگردوں کی شخصیت اور کردار کو بالکل اسی طرح سنوارتا ہے جس طرح چمن میں مالی ننھے ننھے پودوں کو کھاد پانی دیکر ان کی غذا کا اہتمام کرتا ہے. اور حسب ضرورت ان بڑے ہوتے ہوئے بے ترتیب پودوں کی تراش، خراش کرکے انہیں اس لائق بناتا ہے کہ وہ چمن کی زینت بن سکیں. اساتذہ ننھے پودوں کی طرح اپنے طلباء کی شخصیت کو سجانے سنوارنے اور کردار سازی میں اہم رول ادا کرتے ہیں.
ڈاکٹر شبیب انور علوی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ شفقت و تعظیم استاد اور شاگرد کے رشتے کی ایک بنیادی کڑی ہے. مگر یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ شفقت و تعظیم لازم و ملزوم ہیں کبھی تعظیم سے شفقت پیدا ہوئی ہے اور کبھی شفقت تعظیم کو جنم دیتی ہے. شفقت و محبت وہ چیز ہے کہ اس سے برف کی سلوں اور پتھر کی چٹانوں کو پگھلتے ہوئے دیکھا گیا ہے. خلوص و محبت ہمیشہ دلوں کو فتح کرتے ہیں اور جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ ہے. استاد اور شاگرد کے رشتوں کی تمام پیچیدگیاں شفقت و تعظیم کے آزمودہ نسخے سے ہی دور ہو سکتی ہیں.
پروگرام کے اختتام پر طلباء نے اپنے اساتذہ کو مختلف قسم کے تحائف پیش کیے. ساتھ ہی شعبہ کے شنکر لال جی اور راجیش کمار جی کو بھی تحائف پیش کیے گئے.
اس موقع پر عباس رضا، فصیح الزماں، وقار حسین، حبیب الرحمن، عمرین فاطمہ، محمد نسیم اختر، مرزا محمد حیدر، کمیل عباس، ارشد علی، زین الحسن، محمد شاہ جہاں، آفاق فاروقی، سعیدہ کے علاوہ شعبہ کے دیگر طلباء بڑی تعداد میں موجود رہے.
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/