تاریخِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم
✍: شریف اکرام کٹیہاری
بلا شبہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس کے تمام اصول و ضوابط، احکام وفرامین، عقائدو نظریات روز زوشن کی طرح عیاں و بیاں ہیں۔ اس میں اب کوئی نئی چیز داخل کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ “اليوم أكملت لكم دينكم و أتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا ً”کے ذریعےاس کی تکملہ کا اعلان تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود بھی ہم لوگ آئے دن یہ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ دین میں نئی نئی چیزیں آتی جا رہی ہیں جبکہ فرمان نبوی ہے “من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد”(متفق عليه)اوردوسری حدیث میں ہے کہ “وإياكم و محدثات الأمور ،فإن كل محدثة بدعة ،وكل بدعة ضلالة “(أبوداؤد ) عصر حاضر کے ان ہی بدعات میں سے ایک بارہ ربیع الاول کو عید میلادالنبی یا جشن میلادالنبی منانا ہے۔ اس لئے ہمیں جاننا ضروری ہے کہ اس کی تاریخ کیا ہے ؟ امید ہے کہ اگر اس کی حقیقت کی نقاب کشائی کی جائے تو سنتِ رسول اللہ کے شیدائیوں اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دم بھرنے والے مسلمانوں کی سمجھ میں بات ضرور آئےگی اور پھر اس سے تائب ہو کران شاءاللہ راہ راست پرآئیں گے.
قارئین کرام! خیر القرون کی تین صدیاں گذر گئیں لیکن تاریخ میں کہیں بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین یا ائمہ اربعہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں میں سے کسی ایک شخص نے بھی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منایا ہو حالانکہ وہ نبی سے بے پناہ محبت کرنے والے, سنت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والےاور آپ کی شریعت کی تابعداری کرنے کے بڑے حریص تھے کیونکہ رسول اللہ سے محبت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ فرمان نبوی ہے “لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين (مسلم ).رسول سے محبت کا مطلب ان کے سارے احکام وفرامین کے سامنے اپنا سر خم تسلیم کرنا ہے اور اللہ تعالی نے رسول کی اطاعت ہی کواپنی اطاعت قرار دیتے فرمایا”من يطع الرسول فقد أطا ع الله “.ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کامصدر و مرجع صرف قرآن اور حدیث ہے اور ان میں سے کسی میں بھی اس کا وجود نہیں پایا جاتا ہے اس لئے یہ بدعت ہے.
اب میں عید میلادکی ابتدائی تاریخ کو بھی ذکر کرتا چلوں تاکہ اس کے بدعت ہونے میں کسی بھی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہ رہے. سب سےپہلے قاہرہ میں فاطمی خلفاء نے عید میلا د کو ایجاد کیا تھا اور ان میں سب سے پہلا “المعز لدین اللہ “تھا جو کہ شوا ل 361ھ میں مغرب سے مصر آیا اور 362ھ تک سکندریہ کی سرحدوں تک پہنچ گیا اور اسی سال رمضان المبارک کو قاہرہ پہنچ کر انہوں نے چھ میلادیں ایجاد کیں: میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،میلاد امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، میلاد سیدہ فاطمہ الزہراہ رضی اللہ عنہا، میلاد حسن، میلاد حسین اور خلیفہ کا میلاد. یہ میلادیں جاری رہیں یہاں تک کہ 465ھ میں افضل بن امیرالجیوس نے اسے ختم کر دیا. اس کے بعد چھٹی صدی ہجری کے ابتدائی دور 516ھ میں “الأمر بأحکام اللہ” نے اسے دوبارہ شروع کیا. اسی طرح موصل شہر میں سب سے پہلے مشہور صوفی عمر بن محمد الملا نے اسے ایجاد کیا اور شاہِ اربل نے بھی اس مسئلہ میں اس کی پیروی کی. شاہِ اربل کا نام ابو سعید کو کبوری بن ابو الحسن علی ہے اور لقب ملک اعظم مظفر الدین ہے، یہ 10 ذوالقعدہ 563ھ کو اربل کا بادشاہ بنا یعنی چھٹی صدی ہجری کے اواخر 563ھ میں شہرِ اربل میں بھی یہ موالید شروع ہو گئے تھے جن کے موجد فاطمی رافضی بادشاہ تھے اور جب عمر بن الحسن المعروف ابوالخطاب ابن دحیہ کلبی 604ھ کو خراسان جاتے ہوئے اربل پہنچا تو دیکھا کہ شاہِ اربل ملک مظفرالدین میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت دلدادہ ہے تو اس نے بادشاہ کو خوش کرنے کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نے “التنویر فی مولد السراج المنیر “رکھا اور خودوہ کتاب بادشاہ کو پڑھ کر سنائی اور جب اس نے یہ کتاب لکھی ملک اعظم نے اسے ایک ہزار دینار بطور انعام دیا.
امام ذہبی ابن دحیہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ جھوٹا ہے، در اصل اس نے مذکورہ کتاب میں قرآنی آیات اور احادیث کو اپنے سیاق وسباق سے ہٹا کر غلط تاویلات کرکے کتاب تیار کیا اور بادشاہ سے خوب واہوائی لوٹی . ہر زمانہ میں اس طرح کے تملق پسند، خصیہ بردار ، چاپلوس قسم کا شخص اپنے ضمیر کا سودا کرکے اپنا الو سیدھا کرتا رہا ہے اور صرف اپنے مفاد کی خاطر دن کو رات اور رات کو دن کہتا رہا ہے تاکہ اس کا آقا اس سے خوش ہوکرکچھ نواز دے. آج اس طرح کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں چاہے وہ سیاسی میدان ہو یا تعلیمی میدان یا کوئی اور میدان ، یہاں تک کہ دینی ادارے بھی اس قبیح صفت سے محفوظ نہ رہ سکے اور اس مذموم صفت کو دینی ادارے میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی ملی ہے جس کی وجہ سے ہر جگہ کے ہر سسٹم میں چھید نظر آنے لگا ہے, اس چاپلوسی سے دینِ اسلام کو خاص طور سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے اور دن بدن اسے بڑھاوا ملتا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے کہ بضابطہ سبجیکٹ کے طور پراس کی تعلیم دی جانے لگی ہے .اس لئے ضرورت اس بات کی ہےکہ اس پر قدغن لگایا جائے ورنہ یہ دینی ادارے مکمل طور پر پٹری سے اتر جائیں گے۔ بہر حال ابن دحیہ نے صرف اپنے مفاد کے لئے قرآن و حدیث کی بیجا تاویلات کرکے عید میلاد کے جواز کا فتوی دیا جس کی وجہ سے امت کا ایک بڑا طبقہ گمراہی کا شکار ہو گیا ، یہ تاریخ کے باب کا بہت بڑا المیہ ہے.
حاصل کلام یہ ہے کہ عید میلا النبی کے موجد چوتھی صدی ہجری کے شیعہ رافضی ہیں اور اس میلاد کا سلسلہ رافضیوں سے نکل کر سنیوں تک پہنچا۔ سنیوں نے صرف میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہی اختیار کیا اور شاہِ اربل نے اس بدعت کو ابن دحیہ کے جواز کا فتوی دینے پر بڑے ہی دھوم دھام سے سرکاری طور پر منا کر بہت زیادہ فروغ دیا.اسی وجہ سےبعض لوگ شاہِ اربل کو ہی عید میلاد کی روحِ رواں سمجھ بیٹھے ان ہی میں سے ایک نام علامہ سیوطی کا ہے.
اللہ تعالی سے دعاہے کہ وہ ہم سب کو راہِ راست کی توفیق دے (آمین
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/