بر صغیر میں عیدِ میلاد کا آغاز

بر صغیر میں عیدِ میلاد کا آغاز

از۔.شریف اکرام کٹیہاری
(استاد : ہولی فیتھ اکیڈمی شریف گنج، کٹیہار، بہار )

بر صغیر ہند وپاک میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن بڑے تزک واحتشام سے مناتی ہے اور بہت دھوم دھام سے 12ربیع الاول کو اس کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بہت ساری برائیاں وخرابیاں نظر آتی ہیں مثلاً غیر محرم مردو زن کا اختلاط ہوناہونا، نبی کی موت کے بعد بھی ان کی آمد کا اعتقاد رکھتے ہوئے تعظیم کے لئے کھڑا ہونا، نبی کا عالم الغیب ہونے کے عقیدہ کو ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرنا، موسیقی کے آلات کا استعمال کرنا، قوالیاں بجانا وغیرہ۔ یہ چیزیں صحیح ہیں یا غلط ان سے قطع نظر سب سے پہلے میں آپ قارئین کی نظر رسم میلاد کی مختصر طورپرابتدائی تاریخ کو ذکر کر کے بر صغیر میں اس کی آمد کب ہو ئی، اسے بیان کرنے کی کوشس کرونگا .

محترم قارئین ! یہ عید میلاد النبی چوتھی صدی ہجری میں شیعہ رافضی سے شروع ہوئی کیونکہ اس سے پہلے کے تین صدیوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے، پھر یہ عید رافضیوں سےنکل سنیوں تک پہنچی اور شاہِ اربل ابو سعید کوکبوری ملک مظفرالدین نے عمر بن الحسن المعروف ابن دحیہ کے جواز کا فتوی دینے پر اس عید کو بڑے دھوم دھام سے سرکاری طور پر منایا اور اسے خوب خوب فروغ دیا، پھر اس رواج کودھیرے دھیرے ترقی ملتی رہی اور آج پوری دنیامیں اسکا چرچاو غوغا ہے۔

بر صغیر ہند وپاک میں اس بدعت کا آغاز چودہویں صدی ہجری 1352ھ بمطابق بیسویں صدی عیسوی 1933 ھ میں ہوا، اس کے بارے میں مشہور ناول نگار “نسیم حجازی “کے اخبار “روزنامہ کوہستان “22جولائی 1962ء کے شمارہ میں جناب احسان صاحب لکھتے ہیں:
“لاہور میں عید میلاد النبی کا جلوس سب سے پہلے 5جولائی 1933ء بمطابق 12 ربیع الاول 1352ھ کو نکلا، اس کے لئے انگزیزی حکومت سے با قاعدہ لائسنس حاصل کیا گیا تھا, اس کا اہتمام انجمن فرزندان توحید موچی دروازہ نے کیا، اس انجمن کا مقصد ہی اس جلوس کا اہتمام کرنا تھا……”

بہر حال تحریر تھوڑی لمبی ہے اس لئے میں صرف ان باتوں کو مختصر طور پر ذکر کرتا ہوں جو اس تحریرسے کھل کر سامنے آتی ہیں.
1-بر صغیر میں اس جلوس کا آغاز 1933ء میں ہوا.
2-برصغیر میں اس جلوس کا مفکر و موجد حافظ معراج الدین تھا .
3-جلوس کےلئے حکومت برطانیہ کی طرف سے با قاعدہ لا ئسنس جاری کیا گیا.
4-جلوس کے لئے اشتہار بازی کی جاتی تھی.
5-قیام پاکستان کے بعد اسے حکومت کی سرپرستی حاصل ہو گئی.
اسی طرح سے مصطفی کمال پاشا نے روزنامہ مشرق 26 جنوری 1984ءکے شمارہ میں اسی حوالہ سے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس کا لب لباب اور حاصل کلام مذکورہ باتوں ہی کی طرح ہے اور اس میں مزید کچھ اور باتیں واضح ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں:
1-.جلوس ہندؤوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کی بھی نقالی کرتا تھا.
2-ربیع الاول کی 12 تاریخ کو 1933ء سے قبل بارہ وفات کے نام سے جانا جاتا تھا، پھر اس کے بعد ایک قرار داد کے ذریعہ اس دن کو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نام دیا گیا.

یہ تھا مختصر طور پر بر صغیر میں عید میلا د النبی کا آغاز اور جہاں تک صحیح اور غلط کی بات ہے تو قارئین خود اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا وجود تین صدیاں گذر جانے کےبعد ہوا اور بر صغیر میں چودہویں صدی ہجری میں آغاز ہوا تو کیا ایسا رواج جواتنے دنوں بعد وجود میں آیا قابل حجت ہو سکتا ہے ؟اگر بعد کے اس چیز کو تھوڑی دیر کے لئے حجت مان بھی لیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولات میں شدید اختلاف ہے جس میں زیادہ تر لوگوں کا قول یہ کہ تاریخ ولادت 9 ربیع الاول ہے یہی قول صفی الرحمان مبارکپوری کا “الرحیق المختوم” میں اور سلیمان منصور پوری کا “رحمۃللعالمین “میں ہے مگر تاریخ وفات کے بارے متفقہ رائی یہ کہ 12 ربیع الاول ہے تو 12 ربیع الاول کو گویا یہ حضرات یومِ وفات کی خوشیاں مناتے ہیں!
الله تعالٰی سب کو صحیح فہم وادراک اور عقل سلیم سے نوازے!

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *