ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور حکومت میں مملکت کے اندر پانی کی فراہمی اور کھیتی باری کا نظم ونسق۔
از ساجد ولی
ملک کے بعض علاقوں میں پانی بڑی کثرت کے ساتھ پایا جاتا تھا، جبکہ بعض علاقوں میں اس کی بڑی قلت تھی، بعض دوسرے علاقوں میں بہتے ہوئے پانی کے چشمے بھی موجود تھے،جیسا کہ احساء، خرج، اور قصیم شہروں میں، اسی طرح کچھ نہریں ایسی بھی تھیں، جنہیں مکہ، جدہ اور مدینہ کے درمیان قرون اولی میں مسلمانوں نے کھدوایا تھا، تاکہ ان تک آسانی سے پانی پہونچایا جا سکے، جیسا کہ مکہ میں زبیدہ نامی چشمہ مدینہ میں زرقاء نامی چشمہ، جدہ میں وزیرہ نامی چشمہ، ان سب کے با وجود دن بدن پانی میں قلت آتی جا رہی تھی، اس لئے موجودہ پانی کے مصادر کی اصلاح، اور نئے مصادر کی تلاش ناگزیر تھی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے یہ بات سمجھ لی تھی، کہ مملکت کی خوشحالی کے لئے پانی مہیا کرانا، اور زراعتی طور طریقوں کی جدید کاری ضروری ہے، ساتھ ساتھ آپ نے اس بات کا بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ حجاز کے بڑے شہروں کو کتنے پانی کی ضرورت ہے، اس لئے آپ نے اس پریشانی کے حل کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا، اس ضمن میں سب سے پہلی کوشش آپ کے حکم سے ١٣٥٠ھ میں امریکی انجینئر ٹوچل کے ذریعے پانی کی تلاش کے طور پر کی گئی، اس مقصد کی بر آوری کے لئے سنہ ١٣٦٧ھ میں ادارہ برائے آبی توفیر وزراعت کا قیام ایک اہم ترین پیش رفت تھی، جو آپ کی وفات کے بعد وزارت میں بدل دیا گیا، اور سلطان بن عبد العزیز کو اس وزارت کا پہلا وزیر مقرر کیا گیا، پانی مہیا کرانے، اوراگریکلچر کی ترقی میں ملک عبد العزیز کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا مختصر خاکہ مندرجہ ذیل ہے:
١-سنہ ١٣٤٥ھ میں جدہ شہر میں دو بڑی مشینیں نصب کیں، وزیریۃ چشمے کمیٹی، اور اس کے بعد جدہ کے اندر سنہ ١٣٦٦ھ میں عزیزیہ چشمے کی بنیاد رکھی، اور وادی فاطمہ سے وہاں تک پانی پہونچایا۔
٢-مدینہ کے اندر الزرقاء سر چشمے کای تجدید کی، اسکی صفائی کرائی، اور مدینہ کے باشندوں تک اس سے پینے کا پانی مہیا کرانے کی غرض سے پائپ لائنیں بچھائیں۔
٣-زبیدہ نامی چشمے کی تجدید کی، اس تک پانی پہونچانے والے مصادر کی اصلاح کرائی، اور اہل مکہ کے یہاں پانی کی قلت کو دور کرنے کے لئے قرب وجوار سے پانی کا انتظام کیا۔
٤-بہت سارے آبی بندوں کی اصلاح کرائی، نئے نئے کویں کھدوائے۔
٥-کسٹم ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کی مدد سے زراعتی آلات تیار کرائے، دوسرے ملکوں سے بہت سارے زراعتی آلات منگوائے تاکہ کسانوں میں انھیں معمولی قیمت پر، یا ان کے محصول سے ان کی قیمت کی ادائگی کی شرط بر انہیں فروخت کیا جا سکے، اسی طرح چھوٹے زمیں داروں کی مدد کرنا، انہیں غیر سودی قرض دینے کےلئے خاص ادارے قائم کرنا بھی اسی مہم کا حصہ تھے۔
٦-کسانوں کو کھیتی باڑی کے نئے طریقے سکھانا، تاکہ پیداوار میں اضافہ بھی ہو، اور مختلف قسم کی کھیتیاں اپجائی جائیں، اور انہیں برباد ہونے سے بھی بچایا جاسکے۔
٧-میکینیکل ٹریننگ کا انتظام کیا، تاکہ پانی پٹانے، اور آلات زراعت میں پائے جانے والی کمی کی اصلاح کی جا سکے۔
جاری۔۔۔۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/