ہسپانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خون مسلماں کا امین

ہسپانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خون مسلماں کا امین

ریاض فردوسی۔9968012976

ہسپانیہ توخون مسلماں کا امین ہے

مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں

 یورپ براعظم میں فرانس کے جنوب میں اسپین نامی ایک ملک ہے جسے عرب اندلس کے نام سے جانتے تھے، اسے ہسپانیہ بھی کہا جاتا ہے، اسپین بشمول پرتگال کو Iberia یا Iberian peninsula بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ مغرب،جنوب اور مشرق تین اطراف سے  سمندروں سے گھرا ہوا ہے،اسپین کے  مشرق شمال میں جبل البرتات ( Pyrenees mountain ) واقع ہے۔برِاعظم یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر موجود جزیرہ نما آئبیریا (Iberian Peninsula) جو ’کوہستانِ پیرینیز‘ (Pyrenees) کی وجہ سے باقی برِاعظم سے کافی حد تک کٹا ہوا ہے،اور آج کل ہسپانیہ (Spain) اور پرتگال(Portugal) نامی دو ممالک پر مشتمل ہے، مسلمانوں نے اُس پر تقریباً 800 برس تک حکومت کی۔ اِسلامی تاریخ میں اس ملک کو ’اندلس‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اندلس جو کبھی اپنی وُسعت میں پھیلتا ہوا موجودہ ہسپانیہ اور پرتگال کے ساتھ ساتھ فرانس کے جنوبی علاقوں اربونہ (Narbonne)، بربنیان (Perpignan)، قرقشونہ (Carcassonne) اور تولوشہ (Toulouse) وغیرہ تک جا پہنچا تھا،دورِ زوال میں اُس کی حدُود جنوب مشرقی سمت میں سکڑتے ہوئے محض ’غرناتا (Granada) تک محدُود ہو گئیں۔

مسلمانوں کے فتح سے پہلے  اسپین میں  گاتھ قوم کی حکومت

 ( Visigothic kingdom) ہوتی  تھی، گاتھ ایک وحشی غیر مہذب قوم تھی جو زمانہ ہجرت ( Migration period)  میں جرمنی سے منتقل ہوکر  یہاں آباد ہو گیے تھے اور عیسائی مذہب اختیار کر چکے تھے, گاتھ سلطنت کا آخری بادشاہ راڈرک

( Roderick)

 تھا۔

 اٹھویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی حکومت مغربی ایشیا میں شام، عراق، ایران، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ کے ساحلی ممالک تک وسعت کر چکا تھا اور دمشق میں بنو امیہ کی خلافت قائم تھی اور اس وقت اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک بن مروان تھا۔

 مراکش کے بالایی سرحد پر واقع سبطہ (Ceuta)  کے گورنر کاونٹ جولین ( Count Julian ) کی بیٹی  فلورنڈا (Florinda) ایک رسم قدیم کے مطابق آداب دربار سیکھنے اور شایستگی حصول  کے غرض سے گاتھ راجہ راڈریک کے شاہی محلات میں موجود تھی، جب کاونٹ جولین کو معلوم ہوا کہ راجہ راڈریک نے اس کی بیٹی کی عصمت دری کی ہے تو وہ عزم کیا کہ ایک دن راڈریک کی حکومت برباد کرکے رہیگا، وہ قیروان کے اموی گورنر موسی بن نصیر کی خدمت میں حاضر ہوا  اور اندلس پر حملہ آوری  کی دعوت دی، موسی بن نصیر کے حکم پر مراکش کے شہر طنجہ (Tangier) کے  ایک بربری النسل گورنر طارق بن زیاد نے سال 711 میں ہسپانیہ یعنی  جنوبی اسپین میں فوج کشی کی اور گاتھ حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالی،

موسیٰ بن نصیر نے سال 711ء بمطابق 92ھ بربر جنرل ’طارق بن زیاد‘ کو 7,000 فوج کے ساتھ ہسپانیہ پر لشکر کشی کے لیے روانہ کیا۔ افریقہ اور یورپ کے درمیان میں واقع 13 کلومیٹر چوڑائی پر مشتمل آبنائے کو عبور کرنے کے بعد اِسلامی لشکر نے ہسپانیہ کے ساحل پر جبل الطارق (Gibraltar) کے مقام پر پڑاؤ کیا۔
’طارق‘ کا سامنا وہاں ہسپانیہ کے حکمران ’راڈرک‘ کی ایک لاکھ سے زیادہ اَفواج سے ہوا۔ تین روز گھمسان کی لڑائی جاری رہی مگر فتح کے آثار دِکھائی نہ دیے۔ چوتھے دِن طارق بن زیاد نے فوج کے ساتھ اپنا تاریخی خطاب کیا، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :

أيها النّاسُ! أين المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و ليس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر۔

(دولةُ الاسلام فی الاندلس، 1 : 46)

اے لوگو! جائے فرار کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمہارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

شریف اِدریسی نے اپنی کتاب ’’نُزھۃُ المشتاق‘‘ میں لکھا ہے کہ اِس خطاب سے قبل ’طارق‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے مسدُود ہو جائیں۔ چنانچہ مسلمان فوج بے جگری سے لڑی اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں ہسپانیہ کے عوام نے یومِ نجات منایا۔

 بعد میں موسیٰ بن نصیر  بھی فوج لیکر اندلس پہونچ گیا اور تمام جزیرہ نما اندلس کو کوہ پیری نیز تک فتح کر لیا لیکن اس دوران خلیفہ ولید سے ایک غلطی یہ ہویی کہ اس نے موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد دونوں کو دمشق واپس بلا لیا ورنہ دونوں کا ارادہ یورپ کو فتح کرتے ہوئے قسطنطنیہ تک پہونچنا تھا۔

اس وقت پورے ہسپانیہ میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا، وہاں صرف عیسائی قوم آباد تھی، فتح اسپین کے نتیجہ میں وہاں مسلمان عرب ممالک  اور شمالی ساحلی  افریقہ سے  اکر آباد ہونے لگے اور آہستہ آہستہ عیسائی قوم اسلام مذہب قبول کرکے مسلمان ہونے لگیے،  مسلمان اہل کتاب  کی لڑکیوں سے  نکاح بھی کرنے لگے، عیسائیوں کا ایک طبقہ جنوبی اسپین سے  فرار ہوکر ہسپانیہ کے شمال مغرب میں واقع  آسٹوریا ( Asturias) کے پہاڑی علاقوں  میں جاکر پناہ گزیر ہویے، اس طرح اسپین جو  پہلے ایک مسیحی   مملکت تھی وہ اب اسلامی مملکت  میں تبدیل ہو گیی ،اس کا ایک متوازی مثال جدید دور میں فلسطین میں یہودیوں کے آباد ہونے کی ہے، اٹھارویں صدی کے آخری عصرہ اور انیسویں صدی کے اول سے ہی یہودی یورپ کے مختلف ملکوں سے شہر فلسطین میں مرتکز ہونے لگے تھے، اس وقت فلسطین ایک مسلم کثیر ملک تھا جب کہ یہودیوں کی آبادی  یہاں دو یا تین فیصد تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے ہٹلر کے ذریعہ یہودیوں کی نسل کشی کے سبب برطانیہ عظمی کے سرپرستی میں یہودی قوم یہاں آکر  بس گیے اور خود حاکم بن گیے اور مسلمان محکوم ہوکر رہ گیے یعنی فلسطین یہودیوں کے لیے اندلس ثابت ہوا۔

اندلس میں 750-711 تک کم و بیش 21 حکمرانوں نے حکومت کی، انہیں امیران اندلس کہا جاتا ہے، یہ سبھی دمشق کے  اموی خلفاء کے ماتحت تھے، انکی حکومت جمہوری اصولوں پر مبنی تھی، تمام امیران کبھی بھی ایک خاندان سے نہیں ہویے، امیر کا انتخاب قیروان کے گورنر یا کبھی  کبھی اموی خلیفہ بھی  کرتے تھے لیکن رعایا کی شکایت پر  قیروان کے گورنر  امیر  کو معزول کرکے کسی دوسرے  شخص کو امیر  منتخب کرتے تھے۔

ہسپانیہ کی تاریخ درج ذیل بڑے اَدوار میں منقسم ہے :

فتوحات و عصرِ اولیٰ 19جولائی 711ء تا 773ء

دورِ بنو اُمیہ 773ء تا 1008ء

طوائف الملوکی 1008ء تا 1091ء

دورِ المُرابطون 1091ء تا 1145ء

دورِ الموحدون 1147ء تا 1214ء

طوائفُ الملوکی 1214ء تا 1232ء

دورِ بنو نصر (غرناتا) 1232ء تا 2 جنوری 1492ء

 اندلس فتح کے بعد مسلمان  صرف اندلس تک  ہی محدود نہیں رہے بلکہ  مسلمان اندلس کے گورنر سمح بن مالک خولانی کی قیادت میں اسپین کے شمال میں واقع جبل البرتات (Pyrenees) پہاڑ تک کو عبور کیا اور  یورپ کے ایک اور ملک جنوبی فرانس کے اندر پیش قدمی کی اور طو لوز (Toulouse) شہر کا محاصرہ کیا، علاوہ ازیں اس نے آخری گاتھ راجہ آرڈو (Ardo) کو شکست دیا اور ناربون ( Narbonne)  کو فتح کیا؛ گورنر عبدالرحمن غافقی فرانس کے جنوب مغرب میں شہر ٹورس( Tours) کے مقام پر   فراسیسی فوج سے زبردست مقابلہ (732) کیا لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست ہوئی اور  امیر عبدالرحمن شہید ہوگۓ۔

امیر عنبسہ بن سحیم کلبی کے عہد حکومت میں اسپین کے شمال مغرب میں آسٹورریہ کے پہاڑی علاقوں میں مقیم عیسائی لٹیروں کے ساتھ722 میںBattle of Covadanga ہویی  اور اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست ہوئی، 711 میں مسلمانوں کے اسپین فتح کے بعد  عیسائیوں کی اس جنگ کی جیت کو عیسائیوں کے  دوبارہ اسپین فتح ( Reconquista) کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے۔

امیر عطبہ بن حجاج سلولی نے سال 737 میں فرانس کے راجہ چارلس مارٹل ( Charles Martel) کے فوج کے خلاف دریا Berrr کے پاس ناروون کے محاصرہ کو اٹھانے کے لیے فوج کشی کی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست ہوئی، چارلس مارٹل اور اوڈو دی گریٹ ( Odo the Great) کے مزاحمت کے وجہ سے مسلمانوں کی حکومت جنوبی فرانس سے اگے تک نہیں بڑھ پایا۔
سال 750 میں عراق میں دریا زاب کے کنارے جنگ زاب ( Battle of Zab)  ہوا جس میں دمشک  سے بنو امیہ خلافت کا خاتمہ ہوا اور خلافت کا اقتدار عباسیوں کو منتقل ہو گیا، جنگ زاب کے بعد عباسیوں نے جو ظلم و ستم  بنو امیہ کے لوگوں پر کیا ہے وہ تاریخ میں درج ہے، اسی خاندان کا ایک فرد عبدالرحمن بن معاویہ ( 788-756) کسی طرح اپنی جان بچاکر ملک شام، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ ہوتے ہویے اندلس پہونچا اور نصرت الہی سے وہاں کا امیر بننے میں کامیاب یوا اور اموی سلطنت کا سنگ بنیاد رکھا اور اندلس کا پہلا اموی امیر مقرر ہوا اور اسنے  اپنے دور حکومت میں جامع قرطبہ کی بنیاد رکھی جسے بعد میں انکے جانشینوں کے توسیعی عمل سے  نے ایک شاندار عظیم الشان مسجد قائم ہو گیا۔

بغداد سے عباسی خلفاء ہمیشہ اس بات کے لیے کوشش کرتے کہ کسی طرح اندلس میں قائم شدہ  اموی  سلطنت  کو کمزور، غیر مستحکم  اور ختم کیا جا سکے، اس کے لیے وہ اندلس کے بعض صوبوں کے گورنروں جو انکے حامی تھے اور زیر دست تھے  ان کے ذریعہ بادشاہ فرانس شارلیمین ( Charlemagne) کو دعوت بھیجتے کہ وہ اندلس پر فوج کشی کریے، قرطبہ کے اموی امیر حکم اول( 822-796) کے اپنے چچاوں نے اپنے بھتیجا کے خلاف شارلیمین کو اندلس پر حملہ آور ی کے لئے دعوت بھیجا لیکن اموی امیروں نے بخوبی ان باغیوں کا استیصال کیا، عباسی خلیفہ المامون  بادشاہ فرانس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات بنایا، تو دوسری طرف عباسیوں اور فرینکس کے سیاسی تعلقات کے جواب میں امیر   عبدالرحمن ثانی( 852-822) نے اپنے دور حکومت میں قرطبہ اور قسطنطنیہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کیے، ایسی سیاسی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلم علاقے مسلم اقتدار سے نکل کر عیسائی اقتدار میں چلے جاتے۔

خلیفہ عبدالرحمن ثالث ( 961-912) کو  تخت نشینی کے وقت جو دارالحکومت حصول ہوا تھا وہ قرطبہ کے سرحد تک سمٹ کر محدود ہو چکا تھا خلیفہ عبدالرحمن ثالث نے اپنے دور خلافت کے سب سے بڑے باغی عمر بن حفصون کا سرکوبی کیا  اور جنوبی اندلس میں اس کے تمام قلعوں کو  فتح کیا ، اس نے فوج کشی کے ذریعہ قرطبہ کے ہر جانب اپنے سلطنت کی توسیع کی اور بہت سارے علاقوں کو جیت کر اس پر قابض اور متصرف ہو گیا، اندلس کے مغرب شمال میں واقع عیسائی سلاطین کے علاقوں کو بھی فتح کیا،  بارسلونا  ( Barcelona) کے راجہ نے بھی عبدالرحمن ثالث کے سیادت کو تسلیم کیا ، خلیفہ عبدالرحمن کا رتبہ اتنا بلند یو گیا تھا کہ عیسائی سلطنت لیون ( Leon) کے راجہ جس کو معزول کر دیا گیا تھا  اس کے مداخلت سے اسے دوبارہ حکومت واپس مل جاتا ہے۔

خلیفہ ہشام ثانی ( 1013-976) کے تخت نشیں کے بعد تمام امور سلطنت محمد بن عامر منصور نامی ایک شخص جو ہشام کا اتالیق تھا کے ہاتھوں میں آ گیا اور غیر معمولی اختیارات کا مالک بن بیٹھا،  ہشام  برائے نام ایک  خلیفہ رہ گیا، المنصور نے اندلس کے شمالی عیسائی سلطنتوں کو شکست دیکر انہیں قرطبہ کے  سیادت کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا، المنصور کا نام خلیفہ ہشام کے ساتھ جمعہ کے خطبہ میں بھی لیا جاتا تھا، اس کا نام شاہی  سکوں پر خلیفہ کے ساتھ بھی درج تھا۔

جب خلیفہ ہشام کو معزول کر دیا گیا تو اس کے بعد امور سلطنت میں بربری افواج کا اقتدار بہت زیادہ بڑھ گیا  بربریوں نے ایک اموی شہزادہ سلیمان بن حکم کو قرطبہ کا خلیفہ بنایا لیکن اس کے قتل کے بعد دوبارہ ہشام ثانی قرطبہ کا خلیفہ بن جاتا ہے لیکن ہشام کے وفات کے بعد قرطبہ سے  اموی خلافت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور طوائف الملوکی یعنی بد نظمی،بد انتطامی کا دور شروع ہوتا ہے۔

قریب 300 سالوں کے بعد 1030  میں  قرطبہ سے بنوامیہ کے خلافت ختم ہوتے ہی  جزیرہ نمایے اندلس میں بہت  سی خود مختار اسلامی سلطنتیں الگ الگ قائم  ہو گیی تھیں ، کم و بیش 33 مسلمانوں کی خود مختارانہ ازاد مملکتیں جنہیں طوایف ( واحد، طایفہ ) کہا جاتا ہے قائم ہو گیی، مثلاً طایفہ طلیطلہ، طایفہ سرقسطہ، طایفہ قرطبہ، طایفہ غرناطہ، طایفہ اشبیلیہ، طایفہ مالقہ، طایفہ المیرہ، طایفہ مرسیہ، وغیرہ ؛ قرطبہ میں بنو حمود کی،  اشبیلیہ میں بنو عماد کی،سرقسطہ میں بنو ھود کی اور طلیطلہ میں بنو ذی النون کی حکومتیں قائم تھیں،طوایف الملوکی کے منفی نتائج برامد ہویے اول یہ کہ یہ تمام طوایف ایک دوسرے کے مخالف اور حریف تھے اور آپس میں لڑتے اور ایک دوسرے کو شکست دینے کے غرض سے اندلس کے شمال میں واقع قسطلہ، لیون، برشلونہ، ناوار جیسے عیسائی سلطنتوں سے دوستی رکھتے؛ دوسرہ یہ کہ  اس آپس کے خانہ جنگی کا عیسائی بادشاہوں نے  خوب فایدہ اٹھایا  اور اپنی حدود کو وسیع کرکے اسلامی حکومت کا رقبہ کم کر دیا، طوایف الملوکی کا دور تقریباً  سو سال تک قائم رہا اور عین ممکن تھا کہ اس طوایف الملوکی کے باعث اندلس سے مسلمانوں کی حکومت بارہویں صدی کے آغاز میں ہی ختم ہو جاتی  اگر اندلس کے جنوب میں واقع مراکش سے  مرابطون ( Almoravid rule: –1050-1147) اور بعد میں الموحدون (Almohad rule:-:1147-1269) کی طاقتیں اندلس میں اپنا اقتدار اور حکومت قائم نہ کر لیتی؛  مرابطین کی سلطنت جب برباد ہویی اور اسکی جگہ موحدین کی حکومت قائم ہویی تو عیسائیوں نے ایک قلیل حصہ اندلس کا دبا لیا اور عیسائی مقبوضات اندلس میں زیادہ وسیع ہو گیے، موحدین کی سلطنت جب  اندلس سے ختم ہویی تو  اندلس کا نصف سے  زیادہ شمالی حصہ اور قریباً تمام مغربی صوبے  عیسائیوں کے قبضہ اور تصرف میں پہونچ چکے تھے ،  مسلمان ہٹتے اور سمٹتے ہویے  جنوب اور مشرق کے طرف آ  گیے تھے، اس طرح اسلامی اندلس کا رقبہ بہت مختصر اور محدود رہ گیا تھا۔
سال 1228 سے لیکر 1248 تک اس بیس سالوں میں قسطلہ  ( Castile) کے بادشاہ فردی نند ثالث ( Ferdinand) نے ایک ایک کرکے اندلس کے جنوب کے تقریباً سارے علاقوں کو فتح کرکے  اپنے مملکت میں شامل کرلیا سوایے ایک علاقہ غرناطہ ( Granada) کے جہاں ابن الاحمر نامی ایک  شخص نے یہ دانائی کا کام کیا کہ فردی نند ثالث سے صلح کر کے اور بعض شہر و قلعے کو دیکر غرناطہ میں ایک مضبوط ریاست قائم کر لی جو ایندہ ڈھایی سو سال تک قائم رہی، اور قرطبہ کے مقام پر غرناطہ اسلامی اندلس کا دارالحکومت قرار پایا۔

والیان اُندلس!

طارق بن زیاد (شوال 92 ھ ۱ جولائی711ء) (جمادی الاول 93ھ مارچ یا اپریل 714ء (

موسیٰ بن نصیر ۔ذی الحجہ 95ھ ( ستمبر 714ء تک (

عبد العزیزبن موسیٰ۔ذی الحجہ 97ھ اگست 716ء تک

 ایوب بن حبیب اللخمی ۔ذی الحج98 ھ جولائی یا اگست 717ء تک

الحر بن عبد الرحمن الثقفی۔رمضان 100ھ مارچ یا اپریل 719ء تک

السمح بن مالک الخولانی ۔ ذی الحجہ 102 ھ مئی 721ء تک

عبد الرحمن الغافقی ۔ صفر 103 ھ اگست 721 ء تک

عنبسہ بن سحیم کلبی۔شعبان 107 ھ دسمبر 725 ء یا جنوری726 ء تک۔۔(قرطبہ دارالحکومت ہو گیا)

عذرہ بن عبداللہ الفہری ۔ شوال 107ھ مارچ 726 تک

یحیی بن سلمہ االکلبی۔ ربیع الثانی 108 ھ ستمبر 726 تک

عثمان بن ابی عبدہ ۔شعبان 109ھ نومبر 727ء تک

عثمان بن ابی نسعہ الخثعمی ۔ربیع الاول 110ھ جون یا جولائی 728 تک

حذیفہ بن احوص قیسی ۔ محرم 111ھ اپریل 729ء تک

ہیثم بن عبید کلابی ۔ جمادی الاول 113ھ اگست 731 تک

محمد بن عبد اللہ اشجعی۔ شعبان 113 ھ اکتوبر 731ء تک

عبد الرحمن بن عبد اللہ غافقی۔ رمضان 114ھ اکتوبر 732ء تک

عبد الملک بن قطن فہری ۔ رمضان 116 ھ اکتوبر یا نومبر734ء تک

عقبہ بن حجاج سلولی۔ صفر 121 ھ 739ء تک

عبد الملک بن قطن فہری۔124 ھ 742ء تک

بلج بن بشر القثیری ۔ شوال 124 ھ ستمبر 742ء تک

ثعلبہ بن سلامہ ۔ رجب 125 ھ مئی 743ء تک

ابو الحظار حسام بن ضرار کلبی ۔ رجب127ھ اپریل ۔ مئی 745ء تک

ثوابہ بن سلمہ ۔ ربیع الثانی 129ھ دسمبر 746یا جنوری 747 ء تک

یوسف بن عبدالرحمن ۔ذی الحجہ138ھ مئی 756ء تک۔ (بعض مورخین نے طارق کواس فہرست میں داخل نہیں کیا۔اور ان کا ایسا کرنا بلاوجہ نہیں۔طارق، موسیٰ بن نصیر امیرآفریقہ کا محض ایک ماتحت افسر تھا۔طارق اور موسیٰ کی مکمل تفصیل کے لئے۔۔تاریخ مغرب ۔ ابن عذاری ترجمہ اردو ۔ص ،43 تا46 )(تاریخ اندلس ، سید ریاست علی ندوی، حصہ اول ص ،106۔109۔اندلس کا تاریخی جغرافیہ ،عنایت اللہ،ص ، 346۔ 347۔البيان المغرب فی أخبار الأندلس والمغرب ، ابن عذاری المراكشی،أبو عبد الله محمد بن محمد ،ج ،1۔ص ،321)

ہسپانیہ کے کارنامے !

ہسپانیہ کی سرزمین اِسلام کی علمی تاریخ میں بڑی زرخیز ثابت ہوئی۔ہسپانیہ کا مقام مردم خیزی میں کسی طرح بھی بغداد (Baghdad) اور دمشق (Damascus) کی

دار العلوم سے کم نہیں۔اسپین کے عظیم سائنسدانوں کا کسبِ کمال تھا جس کی بدولت قرطبہ (Cordoba) جیسا عظیم شہر قرونِ وُسطیٰ میں رشکِ فلک بنا۔

اندلس کی تمدّنی زندگی اور عروج کے پیچھے اُس کے جلیل القدر سائنسدانوں ہی کا ہاتھ تھا۔قرونِ وُسطیٰ کی بہت سی نامور شخصیات اندلس ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔مثلاعظیم مفسرِ قرآن اِمام شمس الدين قرطبی،مشہورِ عالم سیاح ابن بطوطہ اور ابن جبیر،

موجدِ سرجری و ماہرِاَمراضِ چشم ابو القاسم الزہراوی، معروف فلسفی و طبیب ابن باجہ،خالق فلسفۂ وحدتُ الوُجود ابن عربی،عظیم فلسفی و طبیب ابن رشد،

بطلی موسی نظریۂ کواکب کا دلائل کے ساتھ ردّ کرنے والے عظیم اِسلامی ماہرینِ فلکیات ابو اسحاق الزرقالی اور ابو اسحاق البطروجی، تاریخ و عمرانیات کے اِمام ابن خلدون، نامور طبیب یونس الحرانی،معروف جغرافیہ نگار و ماہرِ فلکیات شریف الادریسی،ہوائی جہاز کا موجد عباس ابن فرناس،نامور طبیب ابن الہیثم،ماہرِ فلکیات و الجبراء نصیر الدین طوسی اور دِیگر بے شمار علمی و ادبی شخصیات کا تعلق ہسپانیہ ہی کی عظیم سرزمین سے تھا۔اسپین پر مسلمانوں کی حکمرانی کے ادوار میں یورپ جہالت کے اندھیروں میں گم تھا، جب کہ اسپین میں علم و حکمت، زرعی، صنعتی، معاشی ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ اور پورے یورپ ہی نہیں دنیا بھر سے طالبان علم یہاں فیض یاب ہونے آیا کرتے تھے۔مؤرخین تسلیم کرتے ہیں کہ اسپین کو جو عروج مسلم عہد میں حاصل ہوا، وہ دوبارہ اسے نصیب نہ ہو سکا۔

معروف مستشرق ’منٹگمری واٹ‘ لکھتاہے!

ترجمہ :جب مسلمانوں کی قسمت اپنے عروج پر تھی تو اُن کی تعلیمات نے تمام مذاہب کے ماننے والے طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔ ہسپانیہ کے یہودی بطورِ خاص عرب فکر سے متاثر ہوئے اور (عظیم میمونائیڈز سمیت) اُن میں سے بیشتر نے عربی بولنے والے اساتذہ سے زانوئے تلمّذ طے کیا اور عربی زبان میں کتابیں لکھیں۔

.  W.Montgomery Watt A History of Islamic Spain

(P.157)

ہسپانیہ کے اسباق!

 بغداد کی تباہی و بربادی،ڈھاکا کی شناخت ختم ہو جانا،جنگ پلاسی، میسور اور خلافت عثمانیہ کے زوال سے لیکر اندلس کے زوال تک کا جائزہ لیں تو ہمیں مسلمانوں کی شکست اور تباہی و بربادی میں غیروں کی اہلیت اور ہمت سے زیادہ اپنوں کی ناہلی ،غداری اور مال و دولت اور اقتتدار کی ہوس کارفرما نظر آتی ہے۔سقوط ہسپانیہ کی بھی بنیادی وجہ مسلمانوں کی باہمی رنجش اور اقتدار کا لالچ تھی۔باہمی لڑائیوں سے مسلمان بقیہ اسپین تو کھو ہی چکے تھے، غرناطہ کا بھی دفاع نہ کرسکے اور تاریخ میں ایسے فنا ہوئے کہ صدیوں بعد بھی اسپین کے در و دیوار ان کی بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہیں۔

سقوط ہسپانیہ کے 100 سال کے اندر عیسائی حکمرانوں کے ظلم و ستم کے باعث لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے مراکش اور شمالی افریقہ کے دیگر ممالک میں آباد ہوگئے جو آج بھی وہاں مہاجر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا،بے شمار ہماری ماں بہنوں کی عزت وعفت کا دامن چاک چاک کیا گیا،چند ماں بہنوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشی کر لی،چند نے اپنے بھائی اور والد کی موت کے ڈر سے خود کو ان وحشیوں کے حوالے کر دیا اور بیشمار اہل ایمان اور بےکس ہماری بیٹیاں،ماں اور بہنیں عیسائی ظلم و ستم کی تاب نہ لاکرعیسائی بن گئ۔ایک والد کے سامنے اس کی بچی کے ساتھ جبرازناکیا جاتا اور اسے دیکھنے پر مجبور کیا جاتا۔چھوٹے بھائی کے گلے پر خنجر رکھ اس کی بہن کو خود کو سپرد کرنے کے لۓ مجبور کیا جاتا۔

آہ ہماری وہ بہنیں جن کے لۓ ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے۔ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت سے نفرت گھر کر گئی ہے۔دعوت دین، اعلاء کلمۃ اللہ کی جد وجہد، شہادت حق، ایمان کے تقاضوں کی بجا آوری کے مقابل ہر محاذ کے محبت دنیا اور موت کا ڈر پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔کذب بیانی ہماری عقل مندی،وعدہ خلافی ہمارا شیوہ،سب وشتم اور گالی گلوج ہماری فطرت و عادت،امانت میں خیانت ہماری ضرورت،اللہ ورسول کے احکام کی خلاف ورزی ہماری حکمت،اللہ و رسول ﷺ کے فرامین سے حکم عدولی‌ہماری مشیت۔

سیدناابوبکر صدیقؓ کی ارتداد اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف تاریخ ساز الفاظ ’’اینقص الدین وانا حی‘‘۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *