رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی
پہلی قسط
خالدسیف اللہ موتیہاری
( آپ کے آنے سے پہلے دنیا کے حالات )
اگر تمام ادیان کا جائزہ لیا جائے اور اسکا مطالعہ کیا جائے تو انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی داعی مذہب آئیں سب کے آنے کا مقصد صرف اور صرف اخلاق و سیاست ، تہذیب و تمدن کی اصلاح اور راہ مستقیم کی ہدایت کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ، اور اللہ تعالی انبیاء کو اس وقت دنیا میں مبعوث کرتے تھے جب انسان اسلامی تعلیمات سے منھ موڑ کر شرک و بت پرستی میں مبتلا ہو جاتے تھے ۔ تو ذات واجب الوجو کسی نہ کسی نبی اور رسول کو مبعوث کرتے تاکہ وہ لوگوں کو وادئ ضلالت سے نکال کر اپنی مصلحانہ جدوجہد اور پر خلوص کوششوں سے راہ راست پر لاسکے ،
چنانچہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل سر زمین عرب ، فسق و فجور ، شراب نوشی اور زنا کاری کا گہوارہ بنا ہوا تھا ، لیکن جب نبوت کا آخری سورج طلوع ہوا تو کفر و شرک کی ظلمت و تیرگی کو ایمان کی روشنی سے دور کر دیا ،
اور دنیا آپ کی وجود سے مہک اٹھی ۔
زمانہ ہو گیا، گزرا تھا کوئی بزم انجم سے ،
غبار راہ روشن ہے بہ شکل کہکشاں اب تک ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ انسانیت کے لئے سراپا رحمت اور ایک بہترین نمونہ ہے اگر تاریخ عالم میں کوئی ایسی ہستی تلاش کی جائے جسکی پوری زندگی انسانی سماج کے ہر فرد کے لئے رہنما رکھتی ہو ، جسکی حیات طیبہ کو ہر شعبۂ زندگی کے لئے ایک بہترین آئیڈیل کے طور پر پیش کیا جاسکے تو وہ صرف ایک ہستی ہے اور وہ فخر کائنات سید الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسانی زندگی ہے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بہترین انسان وہ ہے جسکے اخلاق بہتر ہوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : کہ انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پا سکتا ہے ، جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے ،
اخلاق کو اتنی اہمیت اس لئے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل ، اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے ،
خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی ،
قرآن کہتا ہے :
{ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾
بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں ،
پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک :
حضرت ﷺ کا کافر پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا معمول تھا ؛ آپ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے ، آپ کسی بھی قسم کی کسی کو تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے تھے ۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ ایک دن ان کے گھر بکری ذبح ہوئی انھوں نے گھر والوں سے کہا
اہدیتم لجارنا الیہودی اہدیتم لجارنا الیہودی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول مازال جبرئیل یوصینی بالجار حتی ظننت انہ سیورّثہ․
تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا؟ تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کے لیے بھی ہدیہ بھیجا؟ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس قدر تاکید کرتے ہوئے سنا کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ اس کو وارث قرار دے دیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہے ، اللہ کی قسم اس میں ایمان نہیں ہے ، اللہ کی قسم ! وہ صاحب ایمان نہیں ہے۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول (ﷺ) کون مؤمن نہیں ہے؟ فرمایا : وہ شخص جس کا پڑوسی اس کے شرور اور تکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔(بخاری ، مسلم)
(تشریح)
اس حدیث میں اگر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کیسے جلال سے معمور ہے. اور جس وقت آپ صلی علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہوگا. اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب کا انداز کیا رہا ہوگا۔
بہرحال اس پُر جلال ارشاد کا مدعا اور پیغام یہی ہے کہ ایمان والوں کے لیے لازم ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ ان کا برتاؤ اور رویہ ایسا. شریفانہ رہے کہ وہ ان کی طرف سے بالکل مطمئن اور بے خوف رہیں، ان کے دلوں و دماغوں میں بھی ان کے بارے میں کوئی اندیشہ اور خطرہ نہ ہو۔ اگر کسی مسلمان کا یہ حال نہیں ہے اور اس کے پڑوسی اس سے مطمئن نہیں ہیں. تو رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ اسے ایمان کا مقام نصیب نہیں ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جنت میں داخل نہیں ہوگا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں اور شرور سے محفوظ نہ ہو۔ (مسلم)
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! فلاں عورت کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ دن میں بہت زیادہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجد پڑھتی ہے ، مگر اپنے پڑسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ عورت جہنمی ہے۔ اس شخص نے پھر کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت کا ذکر اسکی قلت صوم و صلاۃ کے ساتھ ہوتا ہے ، اور پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے ، مگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ جنتی ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/