|
اردو شاعری کا سلطان: مجروح سلطان پوری
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، پٹنہ
رابطہ نمبر:9199726661
اردو شاعری اور فلمی دنیا میں مجروح سلطان پوری کا مقام بہت بلند ہے۔ ان کا شمار اہم ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے۔ وہ اعلیٰ درجے کے فنکار، بلند پایہ شاعر اور ممتاز نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا۔ وہ اتر پردیش کے ضلع سلطان پور کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد کا نام محمد حسین خان تھا۔ ان کی ولادت یکم اکتوبر 1919 کو ہوئی تھی اور انتقال پر ملال 24 مئی 2000ء کو بمبئی میں ہواتھا۔ان کی ابتدائی تعلیم اعظم گڑھ میں ہوئی۔ انہوں نے عربی،فارسی اور دینیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔بعد ازاں طبابت کی پڑھائی کی۔ان کی شادی 1946ء میں لکھنؤ کی رہنے والی فردوس گل سے ہوئی تھی، جن سے پانچ اولاد ہوئیں، جن میں پہلے تین لڑکیاں اور بعد میں دو لڑکے ہوئے۔
مجروح سلطانپوری کو صغر سنی سے ہی اردو شعر و شاعری اور نغموں سے بے انتہا شغف تھا۔ محققین اور ناقدین کے مطابق انہوں نے 1940ء میں اپنی پہلی غزل کہی تھی جس کا مطلع ملاحظہ فرمائیں:
چشم تر ، لب خشک ، آہ و زاریاں
رنگ پر ہیں ان کی فتنہ کاریاں
کہا جاتا ہے کہ جب مجروح نے یہ غزل سلطان پور کے ادبی مشاعرے میں سنائی تو وہاں سامعین نے جم کر انہیں داد ودہش سے نوازا۔ ساتھ ہی اسٹیج پر جلوہ افروز بڑے بڑے شعراء نے بھی ان کی غزل کو سراہا، نہ صرف سراہا، بلکہ ان کی خوب خوب حوصلہ افزائی بھی کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شہرت کی بلندیوں پر جا پہنچے۔ وہ مشاعروں کی زینت بننے لگے اور ان کی شرکت مشاعروں کی ضمانت سمجھی جانے لگی۔مجروح سلطان پوری کا امتیاز و اختصاص یہ تھا کہ انہوں نے مشاعرہ لوٹنے والی سطحی شاعری سے ہمیشہ احتراز و اجتناب کیا۔ وہ سامعین سے داد و دہش نہیں ملنے پر کبھی اظہار ناراضگی نہیں کرتے اور ناہی آج کے شاعروں کی طرح بالجبر داد طلب کرتے تھے۔یہ بات مشہور ہے کہ شاعری سے جنون کی حد تک ان کے شغف اور مشاعروں میں کثرت شرکت کے سبب وہ اپنے پیشئہ طبابت سے دور بہت دور ہوگئے۔
مجروح سلطانپوری نے ابتداء میں اپنی غزلوں اور نظموں پر مولانا آسؔ لکھنؤی سے اصلاح لی تھی،مگر عدم اطمینان کے باعث جلد ہی یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ جگر مرادآبادی بذات خود ایک بڑے شاعر تھے، مگر وہ بھی مجروح کی عمدہ و معیاری شاعری کا کھلے دل سے اعتراف کرتے تھے۔مجروح کی جگر سے پہلی ملاقات1941ء میں جونپور میں ہوئی تھی، جس میں انہوں نے مجروح کو کئی نیک مشوروں سے نوازا تھا، جنہیں مجروح نے بصد شوق عملی جامہ پہنایا تھا۔ انہوں نے جگر مرادآبادی سے اپنے کلام کی اصلاح نہیں کرائی تھی پھربھی وہ ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ روایت ہے کہ 1945ء میں ممبئی میں ایک بڑا ادبی مشاعرہ منعقدہ ہوا تھا جس میں ملک کے نامور شعراء ، ادباء اور فنکاروں نے شرکت کی تھی، جگر مراد آبادی اور مجروح سلطان پوری نے بھی اس میں اپنی شرکت درج کرائی تھی۔ اس مشاعرے میں مجروح نے جو کلام پیش کیا تھا اس کو سامعین نے بہت پسند کیا۔ اس مشاعرے میں مشہور فلم ڈائریکٹر اے آر کاردار بھی شریک تھے۔انہوں نے جگر مرادآبادی سے اپنی فلم ’’ شاہ جہاں‘‘ کیلئے نغمہ لکھنے کی فرمائش کی جس کی تکمیل سے انہوں نے معذرت کی اور اس کے لئے انہیں مجروح کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا، چنانچہ انہوں نے اس کے لیے مجروح سے التماس کی۔ابتدا میں انہوں نے بھی انکار کیا، مگر جگر کے اصرار پر اپنی رضا مندی کی مہر ثبت کردی۔ اس کے بعد وہ مستقل طور پر ممبئی میں ہی قیام پذیر ہوگئے اور وہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوکر ایک بڑھ کر ایک نغمے قلمبند کرنے لگے۔ ان کا شمار فلمی دنیا کے کامیاب شاعروں اور نغمہ نگاروں میں ہونے لگا۔ان کا کمال یہ بھی ہے کہ انہوں نے فلمی نغموں میں ادبی معیار کو برقرار رکھا، بلکہ اسے مزید اعتبار و وقار بخشا۔ انہوں نے کئی فلمی کے لیے مقبول و مشہور نغمے تحریر کئے، مثلاً فلم ’’شاہ جہاں‘‘ کا ایک نغمہ جسے کے ایل سہگل نے اپنی آواز دی تھی اور جس کو آج بھی لوگ بصد شوق سنتے اور محظوظ ہوتے ہیں۔اس کا بول ملاحظہ فرمائیں :
غم دیئے مستقل کتنا نازک ہے دل
یہ نہ جانا ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ
مجروح سلطان پوری نے فلم ’’دوستی‘‘ کے لئے بھی کئی کامیاب و مقبول نغمے لکھے تھے، جنہیں مشہور مغنی محمد رفیع نے اپنی پرسوز آواز سے مزین کیا تھا اور خوب دھوم مچائی تھی۔اس فلم کے دو مشہور نغموں کے بول ملاحظہ فرمائیں:
اول: راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے
دکھ تو اپنا ساتھی ہے
دوم: چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے
پھر بھی کبھی اب نام کو تیرے
آواز میں نہ دوں گا
انہوں نے فلم ’’ انداز ‘‘ کے لیے بھی کامیاب نغمے لکھے تھے۔ فلمی نغمہ نگار کی حیثیت سے جاندار و شاندار خدمات انجام دینے کے عوض انہیں گراں قدر ” دادا صاحب پھالکے ایوارڈ ” اور ادبی شاعری کی دنیا میں ناقابل فراموش خدمات انجام دینے کے اعتراف میں ” اقبال سمان ” سے نوازا گیا تھا۔ پہلی بار ان کا مجموعہ کلام 1952ء میں ’’غزل‘‘ کے نام سے شائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا۔اس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ کتاب اردو شاعری کی کتب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
مجروح سلطان پوری نے فلمی دنیا سے وابستہ ہونے اور وہاں کی پرتعیش زندگی ملنے کے بعد اردو شاعری سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کیا اور نا ہی وہاں کی چکا چوند
دنیا میں کھو گئے، بلکہ اردو شعر و شاعری سے اپنا تعلق مزید گہرا و مضبوط اور مستحکم کیا۔ ممبئی میں دوران قیام ان کی ملاقات علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، سجاد ظہیر، ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، احسان دانش اور کرشن چندر جیسے بڑے بڑے ترقی پسند شعراء، ادباء اور فنکاروں سے ہوئی، جن سے انہیں ان کے حوصلوں کو اڑان ملا۔ حالانکہ یہ سبھی حضرات مجروح کی شخصیت اور شاعری کے مداح تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے ان سے حوصلہ پاکر اردو شاعری، بالخصوص اردو غزل کو ایک نئی سمت و رفتار دی۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے بعد اردو غزل انحطاط کا شکار ہوگئی تھی۔ ہم سب بخوبی یہ بھی جانتے ہیں کہ خواجہ الطاف حسین حالی نے غزل کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کی اصلاح کی تجاویز پیش کیں۔پروفیسر کلیم الدین احمد نے غزل کو نیم وحشی صنف سخن قرار دیا تھا۔ عظمت اللہ نے نہایت بے دردی سے غزل کی گردن زدنی کی بات کہی تھی۔ اسی طرح جدید نظم کی تحریک نے غزل کو عرش سے فرش پر پٹخ دیا تھا۔ایسے عالم میں مجروح سلطان پوری اور ان کے معاصرین نے صنف غزل کو سہارا دیا، قوت و توانائی بخشی،اس کے حق میں ماحول سازی کی اور اس کی تنگ کردی گئی زمین کو وسعت وفراوانی عطا کی۔ کہاجا سکتا ہے مجروح اور ان کے معاصرین نے اردو غزل کی صنف کی نشأۃ ثانیہ کی۔
مجروح سلطانپوری کی شاعری کے موضوعات اور کینوس بہت وسیع ہیں، جن میں عوامی مسائل، سیاسی حالات، سماجی ضروریات اور عشقیہ معاملات وغیرہ پر زور دیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی اور انسانیت سے ہمدردی وغمخواری، مروت، اخلاق مندی کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا دریا ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ وہ ’’ سبز انقلاب ‘‘ کے علمبردار تھے۔ وہ اپنے وطن عزیز ہندوستان کو امن و امان کا گہوارہ بنانا چاہتے تھے۔ وہ شدت سے اس بات کے خواہاں تھے کہ ہمارا ملک بھارت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جائے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ پوری دنیا سے تشدد، ظلم اور بربریت کا خاتمہ ہو اور ہر چہار سو امن و امان، شانتی، سکون، بھائی چارہ اور انسانیت کا پیغام عام ہو جائے۔ڈاکٹر محمد حسن نے کتنی فراخدلی سے مجروح کی شخصیت اور شاعرانہ عظمت اعتراف کیا، ملاحظہ فرمائیں :
” مجروح کی زبان سے تحریک بول رہی تھی اور بڑے وقار اور شکوہ سے بول رہی تھی۔ مجروح نے اردو زبان و ادب اور شاعری کی بے پناہ خدمات انجام دیں اور شاعری کو ساحری بنادیا۔ مجروؔح کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک عظیم شاعر اور مشہور گیت کار ہونے کے باوجود ہر ایک سے ملتے تھے اور غریبوں سے اکڑتے نہ تھے جہاں بھی موقع ملتا وہ یتیموں، مظلوموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے تھے اور ان کی طبیعت میں غرور، تکبر اور اکڑ نام کو نہ تھی۔ سادگی اور ہمدردی ان کے خاص جوہر تھے۔ یہ تھا شائستہ تہذیبی ورثہ جس کے مجروح تنہا وارث تھے۔ مجروح نے اپنی شاعری سے آدمیت کو انسانیت کا درس دیا ہے۔ نیک دل انسان اور شاعر پیدا نہیں کئے جاتے بلکہ پیدا ہوجاتے ہیں”۔
یقیناً مجروح سلطانپوری کے کلام کو پڑھ کر ایک عجیب کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ لیجیے چند کلام پیش ہیں، آپ بھی پڑھیے اور اندازہ لگائیے کہ ان میں کتنی حقیقت، صداقت اور معنویت ہے:
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لئے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
بچا لیا مجھے طوفان کی موج نے ورنہ
کنارے والے سفینہ مرا ڈبو دیتے
کتنی فسوں طراز ہے صیاد کی نظر
آکر قفس میں بھول گیا بال و پر کو میں
مجروح اب نہیں ہے کہ کسی کا بھی انتظار
اب لے کے کیا کروں گا دعا میں اثر کو میں
یہ ذرا دور پہ منزل، یہ اجالا، یہ سکوں
خواب کو دیکھ ، ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن، جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری کی یوں تو کئی شاہکار غزلیں ہیں، ان تمام کو یہاں پیش کرنا ناممکن ہے، البتہ ان کی ایک غزل جو مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے، وہ ملاحظہ فرمائیں:
جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا
سوز جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسم چمن
دھیرے دھیرے نغمہ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل، مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھردے ساغر ہر خواص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا
جس طرح بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستان بنتا گیا
شرح غم تو مختصر ہوتی گئی ، اس کے حضور!
لفظ جو منہ سے نہ نکلا، داستان بنتا گیا
دہر میں مجروؔح کوئی جاوداں مضمون کہاں
میں جیسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
یہ کہنا چنداں بےجا نہیں ہونا چاہیے کہ جہان اردو شاعری سے لے کر فلمی دنیا تک میں مجروح سلطان پوری کا مقام بہت بلند ہے۔ ان کے بہت سارے نغمے اور اشعار زبان زد خواص وعوام ہیں۔ اب آپ ہی دیکھیے اور بتائیے نا ! ان کا یہ شعر کسے یاد نہیں؟ :
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل، مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا
مجروح کے مذکورہ بالا شعر کو اکثر لوگ بات بات میں کوڈ کرتے اور اپنے بلند عزائم کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ یوں تو ان کے تمام تر کلام اردو شاعری میں بیش قیمتی اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں، مگر مجھے لگتا ہے اس شعر کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ صرف اس ایک شعر نے مجروح کو سلطان پور ہی نہیں، بلکہ اردو شاعری کی دنیا کا سلطان بنادیا تو شاید بےجا نہیں ہوگا۔ مجروح نے اس شعر میں جو پیغام دیا ہے وہ آفاقی ہے۔ ظاہر سی بات ہے ہر انسان کی زندگی میں کوئی نہ کوئی منزل مقصود ضرور ہوتی ہے جس کے حصول یا جس تک رسائی کے لیے وہ کبھی انفرادی اور کبھی اجتماعی طور پر سعی کرتا ہے۔ کئی بار انسان انفرادی طور پر یہ سوچ کر اس منزل کی طرح قدم نہیں بڑھاتا کہ وہ تنہا اس کو حاصل کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے سامنے یہ کہاوت بھی سینہ سپر ہوتی ہے کہ ” اکیلا چنا بھاڑ پھوڑے گا “، اس لیے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جاتا ہے اور کچھ بھی کرنے سے گریز کرتا ہے جبکہ کئی بار ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان اپنا حوصلہ جوان رکھتا ہے اور تنہا ہی بہت کچھ کر گزرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ ظفریابی و کامیابی ایسے ہی بلند حوصلہ اور فولادی انسان کے قدم کو چومتی ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل مقصود کو حاصل کرلیتا ہے۔ مجروح سلطانپوری ایسے ہی فولادی دل دماغ اور بلند حوصلہ انسان تھے، جنہوں نے یہ آفاقی شعر کہہ کر ہمیں تمثیلی طور پر یہ ترغیب و ترہیب دی ہے کہ وہ یکا و تنہا ہی جانب منزل چلنا شروع کیا اور نہایت آن بان اور شان سے اپنی منزل مقصود کی طرف رواں دواں رہے اور پھر لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ آتے گئے نیز ان کا کارواں بنتا چلا گیا۔ ان کا مذکورہ شعر بہت مقبولیت ، شہرت، اہمیت اور معنویت کا حامل ہے۔ اس شعر نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے بے کس و بے بس اور پست حوصلہ انسانوں کو بہت کچھ کر گزرنے اور آسمان کی بلندیوں میں اڑان بھرنے کا حوصلہ دیا۔ آج اس شعر کی حیثیت ضرب المثل کی ہوچکی ہے۔ صرف ادباء ، شعراء اور تعلیم یافتہ حضرات ہی نہیں، بلکہ بہت سارے عام لوگوں، حتیٰ کہ بعض مزدوروں اور رکشہ ڈرائیوروں تک کو بھی یاد ہے۔ میں نے کئی سیاسی لیڈروں کو سڑک سے لے کر اسمبلی اور پارلیمنٹ تک میں اس شعر کو اپنی باتوں اور دعوں کو مدلل و صیقل کرنے کی غرض سے پیش کرتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے، چنانچہ مجھے یہ کہہ لینے دیا جائے کہ اگر مجروح سلطانپوری صرف اسی ایک شعر کہنے پر اکتفا کرلیتے اور مزید کچھ بھی نہیں کہتے یا بعد میں بھی اردو شاعری اور فلمی نغموں سے ہمیشہ ہمیش کےلیے رشتہ منقطع کرلیتے تو بھی شاید یہ ان کی شہرت و عظمت کے لیے کافی ہوتا ، مگر انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ اس کا سلسلہ دراز کردیا۔ کئی شاہکار غزلیں کہیں اور مشہور نغمے لکھے جو ان کی عظمت و حشمت کا مظہر اور جہان اردو شاعری نیز فلمی دنیا میں بحیثیت شاعر و نغمہ نگار ان کے سلطان ہونے کا بین ثبوت بھی ہیں ۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/
loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں