حالات کو بدلنے کے لئے پہلے اپنے آپ کو بدلیں
ابو حمدان اشرف فیضی رائیدرگ
———————————————-
موجودہ حالات جس سے ہم گزر رہے ہیں انتہائی ناگفتہ بہ ہیں، متنوع مسائل میں ہم گھرے ہوئے ہیں، آئے دن حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، ہر شخص کی زبان پر صرف شکوے اور گلے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص حالات کا رونا روتا ہے اور مناسب تبدیلی چاہتا ہے مگر اپنے اعمال و کردار کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہے، ہمارے اندر جو خامیاں کوتاہیاں پہلے تھیں ابھی بھی باقی ہیں، اس پر آشوب اور پرفتن دور میں ہمیں ہر طرح سے اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہئے کہ :
ہم فرائض و واجبات کی ادائیگی کہاں تک کررہے ہیں؟
اللہ اور اس کے رسول کے احکام و قوانین کی پابندی کہاں تک کر رہے ہیں؟
اللہ رب العالمین کی بےشمار نعمتوں کا کیا ہم شکر ادا کر رہے ہیں؟
لوگوں کے ساتھ ہمارے معاملات کیسے ہیں؟
والدین، بھائی بہنوں، رشتے داروں، پڑوسیوں، غریبوں اور کمزوروں کا کیا ہم حق ادا کر رہے ہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں بھی کسی طرح ہم اپنی زندگی میں تبدیلی نہیں چاہتے اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حالات بدل جائیں گے، کیا یہ ممکن ہے؟یاد رکھیں جب تک ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے حالات نہیں بدل سکتے کیونکہ رب العالمین کا قانون ہے :
إِنَّ ٱللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ یُغَیِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمۡۗ وَإِذَاۤ أَرَادَ ٱللَّهُ بِقَوۡمࣲ سُوۤءࣰا فَلَا مَرَدَّ لَهُۥۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَالٍ﴾ [الرعد ١١] ترجمہ : کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلے جو ان کے دلوں میں ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اور سوائے اس کے کوئی بھی ان کا کارساز نہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے تبدیلی لائیں، اپنے آپ کو بدلنے کے ساتھ سماج اور معاشرے کی بھی اصلاح کی فکر کریں، فواحش و منکرات کو دیکھ کر خاموش نہ رہیں بلکہ حتی المقدور روکنے کی کوشش کریں،
یہ ہماری ذمہ داری ہے، ورنہ اگر ہم خود نیک رہے اور دوسروں کی اصلاح کی فکر نہیں کئے تو ہم عذاب الہی سے محفوظ نہیں رہ سکتے جیسا کہ ایک مرتبہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے کہا:
أنَهْلِكُ وفينا الصّالِحُونَ؟
کیا صالحین کی موجودگی میں ہم ہلاک ہو سکتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
نَعَمْ، إذا كَثُرَ الخَبَثُ.
ہاں، جب برائی زیادہ ہوجائے.
(صحيح البخاري ٧٠٥٩)
لیکن اگر کسی بستی میں صالحین کے ساتھ مصلحین بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ اس بستی کو ہلاک نہیں کر سکتا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهۡلِكَ ٱلۡقُرَىٰ بِظُلۡمࣲ وَأَهۡلُهَا مُصۡلِحُونَ. ﴾ [هود: ١١٧]
اسی طرح حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما من قومٍ يُعمَلُ فيهم بالمعاصي، ثمَّ يقدِرون على أن يُغيِّروا، ثمَّ لا يُغيِّروا إلّا يوشِكُ أن يعُمَّهم اللهُ منه بعقابٍ
(صحيح أبي داود ٤٣٣٨)
جس قوم میں معاصی کا ارتکاب ہو اور لوگ روکنے کی طاقت رکھتے ہوں پھر بھی نہ روکیں تو ایسی قوم پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ سکتا ہے.
یہ سنت الہیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر کا فریضہ انجام دینے والوں کو عذاب اور ہلاکت سے بچا لیتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
﴿فَلَمَّا نَسُوا۟ مَا ذُكِّرُوا۟ بِهِۦۤ أَنجَیۡنَا ٱلَّذِینَ یَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلسُّوۤءِ وَأَخَذۡنَا ٱلَّذِینَ ظَلَمُوا۟ بِعَذَابِۭ بَـِٔیسِۭ بِمَا كَانُوا۟ یَفۡسُقُونَ﴾ [الأعراف ١٦٥]ترجمہ: سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے
تفسیر سعدی میں ہے :
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أي: تركوا ما ذكروا به، واستمروا على غيهم واعتدائهم. أَنْجَيْنَا من العذاب الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وهكذا سنة اللّه في عباده، أن العقوبة إذا نـزلت نجا منها الآمرون بالمعروف والناهون عن المنكر. وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا وهم الذين اعتدوا في السبت بِعَذَابٍ بَئِيسٍ أي: شديد بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
( تفسير السعدی آیت : 165)
معلوم ہوا کہ عذاب الٰہی سے حفاظت کے لئے ہر ایک کو صالح ہونے کے ساتھ حسب طاقت مصلح ہونا بھی ضروری ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے آمین
اسی طرح عذاب الہی سے حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گناہوں کو یاد کر کے اللہ کی بارگاہ میں توبہ واستغفار کریں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
وَمَا كَانَ ٱللَّهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ یَسۡتَغۡفِرُونَ ( الأنفال : ٣٣) ترجمہ:اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں.
جب ہم سچے دل سے توبہ واستغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ہم پر نازل ہوگی جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
لَوۡلَا تَسۡتَغۡفِرُونَ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ. ﴾ [النمل:٤٦] ترجمہ:تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے.
آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں گے، استغفار کو اپنا وظیفہ بنائیں گے،عقائد کی اصلاح کریں گے، شرک و بدعت اور غلط رسم و رواج سے بچیں گے، فرائض و واجبات کما حقہ ادا کریں گے، اللہ اور اس کے رسول کے احکام و قوانین کی مکمل پابندی کریں گے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا لسانی، قلبی اور عملی ہر طرح سے شکر بجا لائیں گے، ہر ایک کے ساتھ حسن اخلاق اور حسن تعامل کا مظاہرہ کریں گے، معاملات کو پاک صاف رکھیں گے، حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی فکر کریں گے، اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کریں گے، ہر اعتبار سے اپنی زندگی میں خوشگوار اور مثبت تبدیلی لائیں گے.ہم خود نیک بنیں گے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دیں گے، خود گناہوں سے باز رہیں گے اور دوسروں کو بھی منع کریں گے.یتیموں، غریبوں اور بیواؤں کی ہر ممکن مدد کریں گے، کمزوروں کا ساتھ دیں گے. ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور ہم پر رحم فرمائے آمین
———————————————-
ابو حمدان اشرف فیضی
ناظم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ آندھرا پردیش
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/