كچھ یادیں کچھ باتیں: ڈاکٹر عبد المحسن تیمي

كچھ یادیں کچھ باتیں: ڈاکٹر عبد المحسن تیمي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2015ء کی بات ہے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم تھا، باوثوق ذرائع سے پتا چلا کہ شیخ عزیر شمس دہلی تشریف لائے ہیں۔ آپ کی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا، اساتذہ بیان کرتے تھے کہ تقریبا ہزاروں ائمہ و محدثین کے نام تاریخ ولادت و وفات کے ساتھ شیخ کو ازبر ہے، استاد محترم شیخ رحمت اللہ سلفی صاحب درس میں کہا کرتے تھے کہ جامعہ سلفیہ میں عزیر شمس صاحب کی جماعت تاریخ جامعہ میں نمایاں جماعت تھی اور سب اپنے فن کے ماہر تھے، اپنے علمی وتعلیمی لیاقت وصلاحیت کی وجہ سے ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ عرب ممالک میں بھی مقبول ہیں۔۔ ڈاکٹر رضاء الله محمد ادریس، شیخ صلاح الدین مقبول اورڈاکٹر عبدالقیوم بستوی جیسے چند ایسے نام ہیں جنہوں نے آسمان علم وفن میں ایسے تابندہ نقوش قائم کیے جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔ میں نے اپنے ایک سلفی دوست کے توسط سے شیخ سے ملنے کا پروگرام بنایا اور مغرب بعد ہم دونوں بغرض ملاقات نکل گئے، راستے میں بارہا خیال آیا کہ اتنی بڑی شخصیت اور عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین سے ہم لوگ ملنے جا رہےہیں! کیا وہ ہم جیسے ادنی طالب علم سے بات کرنے کے لیے اپنا قیمتی وقت دیں گے؟ ہم لوگ بھی عزمِ مصمم کر لیے تھے جو بھی ہو کم سے کم شیخ کا دیدار تو نصیب ہو جائے گا، خیر ہم چلتے رہے اور بٹلہ ہاؤس شیخ کے گھر پہونچ گئے، لیکن جب آپ سے ملاقات ہوئی تو معاملہ حیرت میں ڈالنے والا تھا، اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود شیخ نے بلا کسی تکلف کے نہایت ہی خندہ پیشانی اور انکساری کے ساتھ ہم لوگوں کا پرزور استقبال کیا، ملنے کا انداز ایسا تھا گویا وہ اپنے کسی پرانے اور بچھڑے ہوئے لوگوں سے مدتوں بعد مل رہے ہوں۔ آپ کی سادگی، تواضع و انکساری، مہمان نوازی،خورد نوازی اور ہم لوگوں سے پہلی ملاقات میں الفت ومحبت کے حسین پیکر نے ہم لوگوں کے ذہن و دماغ پر ایک نقش چھوڑ دیا اور آپ کے مرید ہوئے بغیر ہم نہیں رہ سکے، ناشتے کے بعد ہم لوگ بٹلہ ہاؤس کی گلیوں میں چہل قدمی کرنے کے لیے نکل گئے، رات کا وقت تھا ماحول پرسکون تھا، ہم لوگوں نے مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا اور خوب استفادہ کیا۔ آپ کی علمی وسعت، فکری بلندی اور مختلف موضوعات پر گہری گرفت اور مجتہدانہ بصیرت نے حیران و پریشان کر دیا اور بارہا یہ سوال ذہن و دماغ پر گردش کرنے لگا کہ شیخ کا اختصاص علوم حدیث ہے یا عربی زبان و ادب؟ گو آپ کی ذات ایسی تھی کہ کسی بھی فن کا طالب علم کوئی بھی موضوع چھیڑ دے اور بس شیخ کو سنتا جائے اور موتیوں کو سمیٹتا جائے۔
ان دنوں میں علامہ عبدالعزیز میمنیؒ پر مقالہ لکھ رہا تھا، شیخ علامہ میمنیؒ پر انسائیکلوپیڈیا ثابت ہوئے، آپ کے بقول الزبیدی کے بعد عالم عرب میں علامہ میمنی جیسا کوئی لغوی پیدا نہیں ہوا۔ میرے لئے خوش نصیبی کی بات یہ رہی کہ میں نے اپنے مقالہ کے لیے آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور مواد اکٹھا کر لیا، اور اسے پایہ تکمیل تک پہونچانے میں کامیاب ہو گیا۔
اسی طرح میرا ایک اور مقالہ بعنوان “مساهمة علماء الهند في تحقيق التراث العربي” بھی شیخ کی مرہون منت سے پایہ تکمیل کو پہنچ سکا۔
گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے شیخ سے ہم لوگوں نے اصرار بسیار کیا کہ آپ کا ایک محاضرہ جامعہ ملیہ میں ہونا چاہیے اگر منظوری مل جاتی ہے تو آپ ضرور تشریف لائیے!۔

اگلی صبح جامعہ ملیہ کے شعبہ عربی کےصدر پروفیسر ایوب ندوی صاحب کو آپ کی شخصیت سے متعارف کرایا اور محاضرہ کے لیے درخواست کیا۔ ایوب سر عربی و انگریزی زبان میں یکساں مہارت رکھتے ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں۔ ہم لوگوں کی گزارشات کو خوش دلی سے قبول کرلیا اور پروگرام کا وقت مقرر ہو گیا۔
محاضرہ کا عنوان تھا، *مخطوطات کی تحقیق کیسے کی جاے؟* محاضرہ عربی زبان میں تھا اور تحریری شکل میں، کیونکہ یونیورسٹیوں میں عام طور پر محاضرہ تحریری شکل میں ہی مقبول مانا جاتا ہے۔ شیخ کا محاضرہ تقریبا ایک گھنٹہ عربی زبان میں ہوا آپ نے مخطوطات کی تحقیق و تدوین کے بارے میں نہایت قیمتی اور بیش بہا معلومات سے سامعین کو محظوظ کیا اور سامعین بھی آپ کی علمی وسعت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے، عربی بڑی سلاست اور روانی کے ساتھ برجستہ اور فی البدیہہ بولتے تھے ایک گھنٹہ سے زائد وقت کیسے گزرا پتا ہی نہیں چلا، محاضرہ کے بعد سوالات کا سیشن تھاجو صرف مخطوطات سے ہی متعلق نہیں تھا بلکہ مختلف موضوعات پر تھا، شیخ کی حاضر جوابی نےسب کو مبہوت کردیا، دوران سوالات کسی باحث سے تاریخ بتانے میں غلطی سرزد ہو گئی تو شیخ نے فوراً تصحیح کر دی۔
تعارفی کلمات پروفیسر نسیم اختر ندوی صاحب نے پیش کیا جس میں شیخ کی ہمہ گیرشخصیت کا اعتراف کیا اور آپ کی وسعت معلومات کی کھل کر تعریف کی اور ان کو ہمہ وقت جامعہ ملیہ آنے کی دعوت دی، اس کے بعد شیخ کا جامعہ ملیہ میں متعدد خطاب ہوا۔

آہ اب شیخ ہمارے درمیان نہیں رہے، ہماری آپ سے پہلی ملاقات آخری ملاقات ہو کر رہ گئی!

اللہ غریق رحمت کرے!

*بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں*

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *