خرچ کرنے میں اعتدال و میانہ روی
شیخ ابو حمدان اشرف فیضی رائیدرگ
———————————————-
مال ودولت ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے، اس کی حفاظت کرنا اور صحیح استعمال کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے، یہ اللہ کی عظیم نعمت ہے اس کی شکرگزاری ہم پر ضروری ہے، کیونکہ دیگر نعمتوں کی طرح اس نعمت کے بارے میں بھی ہم سے سوال کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَىِٕذٍ عَنِ ٱلنَّعِیمِ.[التكاثر :٨]
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا کمایا ہوا مال ہے ہم جیسے چاہیں اس کا استعمال کریں، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، قیامت کے دن ہر انسان سے پانچ سوالات ہوں گے، اس وقت تک اس کا قدم آگے نہیں بڑھ سکتا: ان میں دو سوال مال سے متعلق ہوگا، کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ حدیث نبوی ہے:
لا تَزُولُ قَدَما ابنِ آدمَ يومَ القيامةِ مِن عندِ ربِّه، حتى يُسْأَلَ عن خَمْسٍ: عن عُمُرِه فِيمَ أَفْناه؟ وعن شبابِه فِيمَ أَبْلاه؟ وعن مالِه مِن أين اكتسبه وفِيمَ أنفقه؟ وماذا عَمِل فيما عَلِم؟
(صحيح الجامع ٧٢٩٩ • حسن)
معلوم ہوا کہ جس طرح ہمیں مال کمانے میں محتاط رہنا ہے وہیں مال خرچ کرنے میں بھی احتیاط کرنا ہے، حلال طریقے سے مال کمائیں اور جائز و حلال راستے میں خرچ کریں۔
سماج اور معاشرے میں بعض لوگ مال خرچ کرنے میں افراط و تفریط کے شکار ہیں، کچھ لوگ اس قدر بخیلی کرتے ہیں کہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی بنیادی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کرتے، کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس وپوشاک، علاج ومعالجہ اور دیگر ضروریات زندگی میں بہت تنگی کرتے ہیں، اور کچھ اسراف وتبذیر میں مبتلا ہیں، بے جا عیش و عشرت، رسم ورواج، اور جھوٹی شان وشوکت دکھانے کے لئے فضول خرچی کرتے ہیں، یہاں تک کہ بسا اوقات سودی قرض لے کر اپنی خواہشات کو پورا کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ بخیلی اور فضول خرچی دونوں ممنوع اور مذموم صفت ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿وَلَا یَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِینَ یَبۡخَلُونَ بِمَاۤ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦ هُوَ خَیۡرࣰا لَّهُمۖ بَلۡ هُوَ شَرࣱّ لَّهُمۡۖ سَیُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا۟ بِهِۦ یَوۡمَ ٱلۡقِیَـٰمَةِۗ وَلِلَّهِ مِیرَ ٰثُ ٱلسَّمَـٰوَ ٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِیرࣱ﴾
[آل عمران ١٨٠]
اور فرمایا:
﴿ٱلَّذِینَ یَبۡخَلُونَ وَیَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبُخۡلِ وَیَكۡتُمُونَ مَاۤ ءَاتَىٰهُمُ ٱللَّهُ مِن فَضۡلِهِۦۗ وَأَعۡتَدۡنَا لِلۡكَـٰفِرِینَ عَذَابࣰا مُّهِینࣰا﴾ [النساء ٣٧]
﴿فَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُمۡ وَٱسۡمَعُوا۟ وَأَطِیعُوا۟ وَأَنفِقُوا۟ خَیۡرࣰا لِّأَنفُسِكُمۡۗ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفۡسِهِۦ فَأُو۟لَـٰۤىِٕكَ هُمُ ٱلۡمُفۡلِحُونَ﴾
[التغابن ١٦]
دوسری جگہ ہے:
وَأَمَّا مَنۢ بَخِلَ وَٱسۡتَغۡنَىٰ ۔ وَكَذَّبَ بِٱلۡحُسۡنَىٰ ۔ فَسَنُیَسِّرُهُۥ لِلۡعُسۡرَىٰ۔
[الليل ۸-١٠]
اور بخیلی قوموں کی ہلاکت کا سبب ہے، بخیل انسان مال ودولت کی حرص و لالچ میں قتل و خوں ریزی جیسے عظیم جرم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:
اتَّقُوا الظُّلْمَ، فإنَّ الظُّلْمَ ظُلُماتٌ يَومَ القِيامَةِ، واتَّقُوا الشُّحَّ، فإنَّ الشُّحَّ أهْلَكَ مَن كانَ قَبْلَكُمْ، حَمَلَهُمْ على أنْ سَفَكُوا دِماءَهُمْ واسْتَحَلُّوا مَحارِمَهُمْ.
( صحيح مسلم ٢٥٧٨ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بری صفت سے پناہ طلب کرتے تھے:
كانَ رَسولُ اللَّهِ ﷺ يَتَعَوَّذُ يقولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أعُوذُ بكَ مِنَ الكَسَلِ، وأَعُوذُ بكَ مِنَ الجُبْنِ، وأَعُوذُ بكَ مِنَ الهَرَمِ، وأَعُوذُ بكَ مِنَ البُخْلِ.
(صحيح البخاري ٦٣٧١)
اسی طرح اسراف و تبذیر سے بھی منع کیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكُلُوا۟ وَٱشۡرَبُوا۟ وَلَا تُسۡرِفُوۤا۟ۚ إِنَّهُۥ لَا یُحِبُّ ٱلۡمُسۡرِفِینَ﴾
[الأعراف ٣١]
وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیرًا.إِنَّ ٱلۡمُبَذِّرِینَ كَانُوۤا۟ إِخۡوَ ٰنَ ٱلشَّیَـٰطِینِۖ وَكَانَ ٱلشَّیۡطَـٰنُ لِرَبِّهِۦ كَفُورࣰا .
[الإسراء ٢٦-٢٧]
اسلام اسراف اور بخیلی دونوں سے منع کرتے ہوئے ہمیں خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجۡعَلۡ یَدَكَ مَغۡلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ ٱلۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُومࣰا مَّحۡسُورًا﴾
[الإسراء ٢٩]
اسی طرح عباد الرحمن کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿وَٱلَّذِینَ إِذَاۤ أَنفَقُوا۟ لَمۡ یُسۡرِفُوا۟ وَلَمۡ یَقۡتُرُوا۟ وَكَانَ بَیۡنَ ذَ ٰلِكَ قَوَامࣰا﴾ [الفرقان ٦٧]
حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
كُلوا واشْرَبوا وتَصدَّقوا والْبَسوا، في غَيرِ مَخيلةٍ ولا سَرفٍ؛ إنَّ اللهَ يحِبُّ أنْ تُرى نِعمتُه على عبدِه.
شعيب الأرنؤوط (ت ١٤٣٨)، تخريج المسند ٦٧٠٨ • إسناده حسن • أخرجه الترمذي (٢٨١٩)، والنسائي (٢٥٥٩)، وابن ماجه (٣٦٠٥) مختصراً، وأحمد (٦٧٠٨) واللفظ له
کبر وگھمنڈ اور اسراف سے بچتے ہوئے انسان کھانے پینے، پہننے اور صدقات خیرات میں اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار کر سکتا ہے، اسے تکبر میں شمار نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی ہے:
لا يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَن كانَ في قَلْبِهِ مِثْقالُ ذَرَّةٍ مِن كِبْرٍ قالَ رَجُلٌ: إنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أنْ يَكونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا ونَعْلُهُ حَسَنَةً، قالَ: إنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الجَمالَ، الكِبْرُ بَطَرُ الحَقِّ، وغَمْطُ النّاسِ.
(صحيح مسلم ٩١ )
خرچ کرنے میں اعتدال کو اپنانے سے ہم پرکیف و پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں، ورنہ بخیلی اور اسراف دونوں میں زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور آدمی کا سکون غارت ہوجاتا ہے، گھریلو تنازعات اور آپسی رنجشیں جنم لیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور پرسکون زندگی نصیب فرمائے آمین
——————————————————–
ابو حمدان اشرف فیضی
ناظم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ، آندھرا پردیش
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/