کردار سازی تعلیم اور تربیت

 

از .ڈاکٹر مفتی مکرم احمد شاہی امام مسجد فتحپوری، دہلی

ہر انسان سکون کی زندگی گزارنا چاہتاہے، سوسائٹی اچھی ہو، ماحول اچھا ہو، تو زندگی بھی پرلطف ہوجاتی ہے اور اگر بے چینی، پریشانی اور بدامنی ہو تو پھر دم گھٹتا رہتاہے۔ جس سماج میںہم رہ رہے ہیں اسے پرسکون بنانے میں ہمیں محنت کرنی ہوتی ہے۔ بغیر لگن اور محنت کے کوئی کام نہیں ہوتا، اسی لئے کامیابی ملتی ہے اور اسی سے ہرکام آسان ہوجاتاہے۔
ہر کام کو کرنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کچھ طریقے ہوتے ہیں ان کو اپناکر بآسانی منزل مقصود تک پہنچا جاسکتاہے۔ علم بھی ضروری ہے اور عمل بھی۔ پہلے تو کسی چیز کی واقفیت حاصل کی جاتی ہے بعد میں عمل کا نمبر آتاہے۔
عمل سے بنتی ہے زندگی جنت بھی جہنم بھی
مہذب سماج میں دل بھی لگتاہے اور ذہن بھی سکون محسوس کرتاہے۔ سب سے بڑی بات ذہنی سکون اور دل کی خوشی کی ہوتی ہے، یہ ایسی نعمت ہے جس کا کوئی متبادل نہیںہے۔ انسانی اعضاءمیں قلب و دماغ کی کارفرمائی نظر آتی ہے انہی دو اعضاءکا ہماری زندگی میں اہم رول ہوتا ہے۔ ان ہی سے صالح فکر پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی سے ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، ہم دوسروں کی بھلائی کے لئے سوچتے ہیں تو ہماری مدد غیب سے ہوتی ہے۔ مہذب سماج کے اہم عوامل تعلیم وتربیت میں انہی سے کردار سازی ہوتی ہے۔ تربیت کے بغیر تعلیم ادھوری ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمیں انسانیت سکھاتی ہیں۔ ذہن میں مفید اور تعمیری خیالات پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب کی بات کریں تو وہاں بھی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ وہ علم جو نفع بخش ہو وہ علم جو ہمارے کام آئے، وہ علم جس سے دوسروں کا بھی فائدہ ہو، سب کا بھلا، سب کے بھلے میں اپنا بھی بھلا۔ علم کے بغیر ہر طرف اندھیرا نظر آتاہے۔ ہر طرف راستے بند نظر آتے ہیں۔ علم ایک روشنی ہے۔ ایک دولت ہے، ایک زیور ہے جو ہر وقت کام آتاہے۔ مشہور مقولہ ہے ”علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک“۔ یعنی علم کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس کے سیکھنے کے لئے کوئی عمر نہیں ہوتی۔ اس کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ بچہ، جوان، بوڑھا ہر ایک کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتاہے اور سیکھتے رہنا چاہےے۔ اس میں شرمانا نہیں چاہےے۔ علم تو ایسا دریا ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے، اس میں غوطہ لگانے والے ہل من مزید کہتے نظر آتے ہیں۔ سماجی اور خاندانی طور پر کوئی کتنا بھی کمزور اور پسماندہ کیوں نہ ہو علم حاصل کرنے کے بعد وہ سب سے اعلیٰ اور سب سے ممتاز ہوجاتاہے۔ آج دور ”پدرم سلطان بود“ والا نہیں ہے۔ ہمارے بڑے کیا تھے اس سے آج کوئی بحث نہیں ہے۔ ہم آج کیا ہیں اس کی قدر ہے اور ہونی بھی چاہےے۔ علم ہمیں عاجزی اور انکساری سکھاتاہے۔ اس سے خدمت کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ اس سے محبت اور ہم دردی پیدا ہوتی ہے۔ سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہی اصل زندگی ہے۔ یہ صلاحیت صرف تعلیم سے نہیں پیدا ہوتی۔ اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے وہی تربیت جو ماں کی گود سے اور اہل خاندان سے ملتی ہے۔ اسی سے کردار سازی پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے ہنر پیدا ہوتاہے۔ کس سے کس وقت کیسی بات کرنی چاہےے یہ ہنر تربیت سے پیدا ہوتا ہے۔طالب علموں اور نوجوانوں کی تعلیم کے بارے میں سابق صدر جمہوریہ ہند اور میزائل سائنٹست ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے لائبریریوں کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے گذشتہ دنوں چائلڈ لابھریری پر منعقد بین الاقوامی کانفرنس میں اس بات پر خصوصی توجہ مرکوز کرائی کہ ہر اسکول میں ایک لائبریری ہونی چاہےے۔ انہوں نے اپنے مخصوص ادبی اسلوب اور دلکش لب و لہجہ میں کہا کہ بچے کتابوں کا مطالعہ کرکے ہی اپنے ماضی کو جانتے ہیں، حال کا تجربہ کرتے ہیں اور مستقبل کے بارے میں مفید خواب دیکھتے ہیں یعنی علم کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کتابیں پڑھنے کی عادت سے بچے نہ صرف نئی نئی باتیں سیکھتے ہیں بلکہ ان میں تعمیری کام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور غور و فکر کی صلاحیت میں اضافہ ہوتاہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک کی تعمیر میں بک کلچر (Book Culture)کا فروغ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
کردار سازی میں سب سے زیادہ توجہ سچائی اور ایمانداری کی طرف ہونی چاہئے۔ یہ چیز مذہب کی پیروی سے پیدا ہوتی ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب ایک شخص آیا۔ اس میں عیب تھے۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ ایک ایک کرکے میں اپنے عیب چھوڑوں۔ سب عیب ایک دم چھوڑنے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ وہ شخص خوش ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ یہ تو بہت آسان ہے۔ شراب کا وہ عادی تھا۔ جو ابھی کھیلتا تھا اور بھی کئی برائیاں تھیں جس سے اسے بہت زیادہ رغبت تھی۔ اس نے عرض کیا۔ میں آپ سے وعدہ کرتاہوں کہ میں زندگی بھرجھوٹ نہیں بولوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اس وعدہ پر قائم رہنا۔ وہ چلا گیا۔ وہ اپنے وعدہ پر قائم تھا۔ جب وہ شراب پینے لگا تو اسے خیال پیدا ہوا کہ کلمیں جب آپ کی خدمت حاضر ہوں گا تو اگر آپ نے پوچھ لیاکہ شراب پی تھی تو میں کیا جواب دوںگا۔ اگر میں نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے شراب پی تھی تو یہ بہت بڑی گستاخی ہوگی اور اگر میں نے کہا کہ میں نے نہیں پی تھی تو یہ جھوٹ ہوجائے گا اور جھوٹ چھوڑنے کا وعدہ کرچکاہوں۔ اسی طرح جوا کھیلتے وقت اس کے سامنے یہی مشکل سامنے آئی۔ اگر کہتا ہے کہ ہاں میں جوا کھیلا تھا تو یہبہت بڑی بے ادبی ہوگی اور کسی کے سامنے یہ بات آئے گی تو میری سبکی ہوگی۔ اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو یہ وعدہ خلافی ہوگی اور وہ مجھے کرنی نہیں ہے۔ لہٰذا ایک ایک کرکے اس کی ساری برائیاں چھوٹ گئیں اور وہ اپنے وعدہ پر قائم رہا کہ میں جھوٹ نہیں بولوںگا۔ تربیت کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوتاہے۔ حکمت عملی سے احسن انداز میں اگر کوئی چیز سمجھائی جائے تو اس کے دیر پا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہی مفید طریقہ ہے۔
ایک مشہور سیاسی رہنما نے اپنے لڑکے کو نصیحت کرتے ہوئے کہاکہ بیٹے وقت کی قدر کرو، گیا وقت بار بار نہیں آتا۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اس کی قدر کروگے تو زندگی میں کامیاب رہوگے ورنہ پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ لڑکے نے نصیحت سنی اور وعدہ کیا کہ وہ وقت کی قدر کرے گا اور ہر کام کو پوری ذمہ داری سے انجام دے گا۔ والد نے کہا شاباش بیٹے تم سے یہی امید تھی۔ایک بات اور سن لو۔ وقت کی قدر کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک سکنڈ بھی ضائع نہ کرو۔ اگر تم سکنڈوں کو قبضہ میں رکھوگے تو منٹ خود بخود قبضہ میں آجائیںگے۔ اگر منٹوں کو قبضہ میں رکھوگے تو گھنٹے قبضہ میں آجائیںگے۔ اگر تم گھنٹوں کو قبضہ میں کرلوگے تو دن رات کے (چوبیس گھنٹے) تمہارے قبضے میں رہیںگے۔ دن رات قبضہ میں آ جانے سے ہفتے قبضے میں آجائیںگے۔ ہفتوں کے قبضے میں آجانے سے مہینے قبضے میں آ جائیں گے اور مہینوں کے قبضے میں آ جانے سے سال خود بخود تمہارے قبضے میں آ جائیںگے اور اس طرح تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے چلے جاؤگے۔
سچ بھی یہی ہے اور وقت کی قدر کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت سمجھو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت سمجھو، فرصت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت سمجھو، زندگی کو مت سے پہلے غنیمت سمجھو، اس کا مطلب بھی یہی ہے۔ ہر وقت بدلتا رہتا ہے۔ کبھی تندرستی ہے۔ کبھی بیماری، کبھی جوانی ہے کبھی بڑھاپا، کبھی فرصت ہے اور کبھی مشغولیت، آج ہاتھ پیر میں جان ہے کل نقاہت، آج زندگی ہے تو کل موت۔ دین اور دنیا کو سنوارنے اور سدھارنے نے کے لئے وقت بہت کم ہے۔ سستی سے کام نہیں چلے گا۔ جو کام کرنا ہے وہ کرنا ہے۔ ہر کام کو کل پر ٹالنا اچھی عادت نہیں ہے۔ کیا پتہ کہ کل ہی نہ آئے اور زندگی تمام ہوجائے۔ آئے دن ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
جدھر دیکھئے وقت کا رونا ہے۔ ہر ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے خود پر افسوس نہیںکرتا۔ عقل مند وہ ہے جو دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے خود کو سدھارے۔ ایک صاحب تھے۔ وہ ہمیشہ وقت کو برا کہتے تھے۔ وقت نے مجھے برباد کیا۔ زمانے نے مجھے ایسا کردیا ویسا کردیا۔ لوگ انہیں سمجھاتے تھے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک دن انہیں خیال آیا کہ مجھے وقت سے بدلہ لینا چاہےے۔ لہٰذا انہوں نے ٹھان لیا کہ وہ بالکل خالی اور بے کار رہیں گے، کچھ نہیں کریںگے۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا۔ بالکل خالی رہنے گلے، لوگ دیکھتے اور خاموش ہوجاتے۔ ایک دن ایک صاحب سے رہا نہیں گیا انہوں نے پوچھ ہی لیا۔ ارے صاحب! میں دیکھتاہوں۔ آپ روز خالی بیٹھے رہتے ہیں کافی عرصہ سے میں آپ کو اسی حال میں دیکھ رہا ہوں۔ وہ بڑے فخر سے بولے جی ہاں۔ اس بدنصیب وقت نے مجھے برباد کردیا۔ اب میں وقت سے بدلہ لے رہاہوں اور وقت کو برباد کر رہاہوں۔ یہ صاحب خاموش ہوگئے اور ان کی عقل پر افسوس کرتے ہوئے چلے گئے۔
آج ہمیں اپنے خاندان کے وقار کو بڑھانا ہے۔ اپنے ملک کو ترقی اور خوشحالی سے ہم کنار کرناہے۔ اس کے لئے انتھک محنت کرنی چاہےے۔ بچوں کو بھی اچھی باتیں بتانی چاہئیں۔ بچوں کا ذہن بہت شارپ ہوتاہے۔ وہ بچپن کی باتوں کو ذہن نشین کرلیتے ہیں اور بڑے ہوکر ان باتوں سے سبق لیتے ہیں۔ آج تو سائنس نے یہاں تک بتا دیا کہ بچہ ماں کے پیٹ سے ہی سیکھنا شروع کردیتاہے۔ کردار سازی اگر کوئی ہے تو بہترین وقت بچپن ہے۔ بڑوں کا ادب و احترام، چھوٹوں سے محبت، غریبوں سے ہمدردی، ملازموں اور نوکروں سے خوش اخلاقی، اپنوں اور پرایوں سے انسانیت کا برتاؤ کرنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہےے۔ بچوں کے دل میں سچائی بٹھانے کی ضرورت ہے:
جو اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کر ملتے ہیں
صراحی سرنگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
آج مشینی زندگی ہے، مادی زندگی ہے، روپے پیسے کی ہوڑ میں سب لگے ہوئےہیں۔ بچوں کو پیدا تو کردیا لیکن وہ بوجھ نظر آتے ہیں۔ انہیں پرورش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ماں اور باپ دونوں ہی دولت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بچہ کو کوچ میں ڈال دیا۔ پلے اسکول میں چھوڑ دیا۔ آیا اور نوکروں کے رحم و کرم پر پلنے والے بچے بڑے ہوکر ماں باپ سے محبت کیوں کریں۔ ان کی فرمانبرداری کیوں کریں۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *