ابو حمدان اشرف فیضی رائیدرگ
————————————————————–
سماج اور معاشرے میں اصلاح کے نام پر بہت ساری کوششیں ہو رہی ہیں، انفرادی بھی، اجتماعی بھی، بلکہ اصلاح معاشرہ اور اصلاح سماج کے نام سے تنظیمیں اور ادارے قائم ہیں، مگر روز بروز برائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، لوگوں میں بے دینی اور بے عملی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر تمام تر اصلاحی کوششیں ناکام کیوں ہیں؟ خاطر خواہ کامیابی کیوں نہیں مل رہی ہے؟ برائیوں کا تناسب کم کیوں نہیں ہو رہا ہے؟
جواب یہ ہے کہ ہم میں ہر شخص دوسروں کی اصلاح چاہتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، حقیقت اور سچائی یہ ہے کہ ہم سماج سے برائیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر اپنے اندر پائی جانے والی خامیوں اور کوتاہیوں کو ختم نہیں کرنا چاہتے، ہم دنیا کو بدلنے کا خواب ضرور دیکھتے ہیں مگر اپنے آپ کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں، ہم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے، ہم لوگوں کو اخلاق حسنہ کی ترغیب دلاتے ہیں مگر ہم خود اخلاقی برائیوں میں ملوث ہیں، ہم لوگوں کو حلال وحرام کے مسائل بتاتے ہیں اور خود حرام خوری میں مبتلا ہیں، ہم لوگوں کو زہد و قناعت کا درس دیتے ہیں مگر خود مال ودولت کے حریص ہیں، ہم لوگوں کو دنیا کی بے ثباتی اور فکر آخرت کی تعلیم دیتے ہیں مگر خود دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں، الغرض ہمارے قول وعمل میں بڑا تضاد بے، ہماری دعوت اور ہمارے کردار میں نمایاں فرق ہے، ہمارا حال یہ ہے کہ:
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا، ہماری پوری طاقت لوگوں کی خامیوں، کوتاہیوں کی تلاش میں صرف ہوتی ہے، مگر ہمیں ہمارے بڑے بڑے عیوب نظر نہیں آتے۔
بدی پر غیر کی ہر دم نظر ہے
مگر اپنی بدی سے بے خبر ہے
ہم قرآن مجید کی اس آیت کے مصداق ہیں :
أَتَأۡمُرُونَ ٱلنَّاسَ بِٱلۡبِرِّ وَتَنسَوۡنَ أَنفُسَكُمۡ وَأَنتُمۡ تَتۡلُونَ ٱلۡكِتَـٰبَۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ﴾ [البقرة ٤٤]
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگ بہت مبغوض اور ناپسندیدہ ہیں جن کے گفتار وکردار میں فرق ہو، قول و عمل میں ٹکراؤ ہو، ارشاد ربانی ہے:
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفۡعَلُونَ . كَبُرَ مَقۡتًا عِندَ ٱللَّهِ أَن تَقُولُوا۟ مَا لَا تَفۡعَلُونَ.[الصف ٢-٣]
یہی وہ بیماری ہے جو ہماری دعوت میں بڑی رکاوٹ ہے، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی کوششوں میں ناکام ہیں اور ہماری اسی بے عملی اور بے دینی کی وجہ سے ہماری باتوں میں وہ اثر نہیں ہے جو دلوں کو موم کر دے، ہماری غیرت کو جگا دے، ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ دے۔
ایسے بے عمل واعظین اور بےدین مصلحین کا انجام قیامت کے دن بہت ہی برا ہوگا، ارشاد نبوی ہے:
يُجاءُ بالرَّجُلِ يَومَ القِيامَةِ فيُلْقى في النّارِ، فَتَنْدَلِقُ أقْتابُهُ في النّارِ، فَيَدُورُ كما يَدُورُ الحِمارُ برَحاهُ، فَيَجْتَمِعُ أهْلُ النّارِ عليه فيَقولونَ: أيْ فُلانُ، ما شَأْنُكَ؟ أليسَ كُنْتَ تَأْمُرُنا بالمَعروفِ وتَنْهانا عَنِ المُنْكَرِ؟! قالَ: كُنْتُ آمُرُكُمْ بالمَعروفِ ولا آتِيهِ، وأَنْهاكُمْ عَنِ المُنْكَرِ وآتِيهِ.
(صحيح البخاري ٣٢٦٧)
قیامت کے دن ایک شخص کو لایا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اور وہ شخص اس طرح چکر لگانے لگے گا جیسے گدھا اپنی چکی پر گردش کیا کرتا ہے۔ جہنم میں ڈالے جانے والے اس کے قریب آ کر جمع ہو جائیں گے اور اس سے کہیں گے، اے فلاں! آج یہ تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا تم ہمیں اچھے کام کرنے کے لیے نہیں کہتے تھے، اور کیا تم برے کاموں سے ہمیں منع نہیں کیا کرتے تھے؟ وہ شخص کہے گا جی ہاں، میں تمہیں تو اچھے کاموں کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا۔ برے کاموں سے تمہیں منع بھی کرتا تھا، لیکن میں اسے خود کیا کرتا تھا۔
جو اپنی ذات کی اصلاح کرے گا، ایمان اور تقوی کی زینت سے اپنے دل کو مزین کرے گا، گناہوں کی غلاظت سے نفس کا تزکیہ کرے گا، قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا وہی کامیاب ہوگا اور جو اپنے نفس کو گناہوں سے آلودہ رکھے گا، معصیت کا ارتکاب کرے گا، وہ ناکام و نامراد ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَدۡ أَفۡلَحَ مَن زَكَّىٰهَا . وَقَدۡ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا.[الشمس ٩-١٠]
اور فرمایا:
وَلَا تُخۡزِنِی یَوۡمَ یُبۡعَثُونَ . یَوۡمَ لَا یَنفَعُ مَالࣱ وَلَا بَنُونَ . إِلَّا مَنۡ أَتَى ٱللَّهَ بِقَلۡبࣲ سَلِیمࣲ.[الشعراء ٨٧-٨٩]
اصلاح ذات، شخصی تربیت، اصلاح نفس عظیم الشان عمل ہے، بلکہ نبی ﷺ نے اسے افضل جہاد قرار دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے، فرمان نبوی ہے:
وأفضَلُ الجهادِ من جاهدَ نفسهُ في ذاتِ اللهِ.
(السلسلة الصحيحة ١٤٩١ • إسناده صحيح رجاله ثقات • أخرجه محمد بن نصر المروزي في «تعظيم قدر الصلاة» (٦٣٩)، والطبراني (١٣/٥٩٦) (١٤٥١٢) باختلاف يسير)
اصل جہاد تو یہ ہے کہ آدمی سب سے پہلے اپنے نفس سے جہاد کرے، اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرے، کیونکہ جو شخص اپنے داخلی دشمن نفس کو شکست نہیں دے سکتا وہ خارجی دشمن شیطان اور میدان جنگ میں لوگوں کو شکست نہیں دے سکتا، یہ دونوں انسان کے دشمن ہیں جو اسے گناہوں پر آمادہ کرتے ہیں، اللہ نے نفس کے بارے میں کہا:
وَمَاۤ أُبَرِّئُ نَفۡسِیۤۚ إِنَّ ٱلنَّفۡسَ لَأَمَّارَةُۢ بِٱلسُّوۤءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۤۚ إِنَّ رَبِّی غَفُورࣱ رَّحِیمࣱ﴾ [يوسف ٥٣]
اور شیطان کے بارے میں کہا:
إِنَّ ٱلشَّیۡطَـٰنَ لِلۡإِنسَـٰنِ عَدُوࣱّ مُّبِینࣱ﴾ [يوسف ٥]
اور ان دونوں کے شر سے نبی ﷺ صبح وشام پناہ مانگتے تھے :
*اللهمَّ فاطرَ السمواتِ والأرضِ عالمَ الغيبِ والشهادةِ لا إلهَ إلّا أنتَ ربَّ كلِّ شيءٍ ومَليكَه أعوذُ بك من شرِّ نفسي ومن شرِّ الشيطانِ وشرَكِه وأنْ أقترفَ على نفسي سوءًا أو أجرَّهُ إلى مسلمٍ*
( صحيح الترمذي ٣٥٢٩ • صحيح • أخرجه الترمذي (٣٥٢٩) واللفظ له، وأحمد (٦٨٥١)، والبخاري في «الأدب المفرد» (١٢٠٤) باختلاف يسير.)
اور خطبے میں آپ کہتے تھے:
الحمدُ للَّهِ نحمدُهُ، ونستعينُهُ،
*ونعوذُ باللَّهِ من شرورِ أنفسنا،* من يَهدِهِ اللَّهُ فلاَ مضلَّ لَهُ، ومن يضلل فلاَ هاديَ لَهُ، وأشْهدُ أن لاَ إلَهَ إلاَّ اللَّهُ ، وحدَهُ لاَ شريكَ لَهُ، وأنَّ محمَّدًا عبدُهُ ورسولُهُ، أمّا بعد.
( صحيح ابن ماجه ١٥٤٨ ،صحيح، أخرجه مسلم (٨٦٨)باختلاف يسير )
اصلاح ذات اور اسوہ نبوی ﷺ:
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ انسانیت کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں اسوہ حسنہ ہے، بہترین آئیڈیل اور نمونہ ہے، نبی ﷺ کو جب اللہ تعالیٰ نے دعوت واصلاح کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت واصلاح سے پہلے اپنی پاکیزہ،صاف وشفاف،بے داغ اور مثالی زندگی کو پیش کیا:ارشاد ربانی ہے:
فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیكُمۡ عُمُرࣰا مِّن قَبۡلِهِۦۤۚ أَفَلَا تَعۡقِلُونَ﴾ [يونس ١٦]
اور جب آیت نازل ہوئی:
وَأَنذِرۡ عَشِیرَتَكَ ٱلۡأَقۡرَبِینَ﴾ [الشعراء ٢١٤]
آپ کوہ صفا پر گئے،سب کو جمع کیا،سب جمع ہوجانے کے بعد آپ نے دعوت دینے سے پہلی اپنی پاکیزہ زندگی کو ان کے سامنے پیش کیا اور اپنی صداقت کا اقرار کروایا اور کہا کہ: اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن میں ایک لشکر جرار چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے کیا تم میری بات کی تصدیق کرو گے؟ سب نے بیک زبان ہوکر کہا:
ما جَرَّبْنا عَلَيْكَ إلّا صِدْقًا
(صحيح البخاري ٤٧٧٠)
ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہوئے پایا ہے، جب آپ نے اپنی صداقت کا اعتراف کروا لیا تب انہیں دعوت دی اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا۔
دعاۃ دین اور مصلحین امت کی ذمہ داری ہے کہ دعوت واصلاح سے پہلے اپنا پاکیزہ اخلاق، بلند کردار، اور عملی نمونہ قوم کے سامنے پیش کریں تاکہ قوم ان کی باتوں کو قبول کرے اور اصلاح کا جذبہ دلوں میں پیدا ہو ۔
اسی طرح ہم اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں اور خامیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کریں اور خوبیوں کو باقی رکھیں۔
ہمیشہ اپنے عیبوں پر نظر رکھیں دوسروں کے عیبوں کو تلاش نہ کریں
ہمارے دلوں میں آخرت کی فکر پیدا کریں، قبر کی تاریکی اور تنہائی کے لئے نیکیوں کا توشہ تیار کریں، رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈریں، آخرت پر پختہ ایمان رکھیں،کیونکہ عقیدہ آخرت اصلاح عمل کا بہترین ذریعہ ہے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح پھر دوسروں کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے،آمین
———————————————————
ابو حمدان اشرف فیضی
ناظم جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ، آندھرا پردیش
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/