از قلم ساجد ولی۔
ملک عبد العزیز رحمہ اللہ عصر حاضر کی عظیم شخصیات میں سے ایک تھے، اگر مسلمانوں کے اندر مسلکی تعصبات، سیاسی انتشار نہیں ہوتا، اور مسلمان بالاتفاق آپ کی قیادت کو قابل اعتماد سمجھتے، الزامات، فریب کاری، نیز محمد بن عبد الوہاب کی تحریک اصلاح پر چو طرفہ یلغار سے دور رہتے ہوئے عقل مندی کا ثبوت دیتے، تو قریب تھا کہ خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد عالم اسلام کو محسوس ہونے والی خلاء میں بطور متبادل حکمراں کے آپ ظاہر ہوتے، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا، اور صحیح عقیدے کی سرپرستی کرنے والی یہ قیادت ایک خاص دائرے میں محدود ہو کر رہ گئی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ سے جن عالمی قائدین کی ملاقاتیں ہوئیں، انہیں آپ کے اندر ایک سچی، اور انقلابی شخصیت نظر آئی، محیی الدین رضا اپنی کتاب ( طویل العمر الملک عبد العزیز آل سعود) میں آپ کی متعدد صفات کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں: ” ملک عبد العزیز رحمہ اللہ لمبے تڑنگے، صحت مند، سانولے رنگ، بارعب چہرہ، حلیم وبردبار، نفیس مزاج انسان تھے، کبھی کبھار غصہ ہوتے، اور غصہ ہوتے تو ارد گرد کے لوگوں کو دہشت زدہ کردیتے، نہایت صبر وبرداشت والے، زبردست بہادر، اور خاکسار تھے، بڑپن، اور تکبر سے نفرت کرتے، فراخ دل، مخاطب کی بات پوری توجہ سے سنتے، چاہے اس کی کوئی بھی حیثیت ہو، بلا استثناء سارے ملنے والے لوگوں کا بڑی وسعت قلبی سے استقبال کرتے، آپ کی نظر میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا، اپنی گفتگو سے لوگوں کا دل جیت لیا کرتے، نہایت سخی تھے، کسی کی درخواست کو رد نہیں کرتے، خود مستحقین تک امداد پہونچانے کی سرپرستی کرتے، رعایا کی دیکھ بھال میں اپنے کارندوں پر اندھا اعتماد نہیں کرتے، بڑے مہمان نواز تھے، یومیہ تین سو ٣٠٠ کے قریب لوگ آپ کی زیارت کرتے، جن کے قیام وطعام کا مکمل انتظام کیا جاتا”.
آج کی سیاسی قیادتیں کذب ودجل، فریب کاری وعیاری کو سیاست، قیادت، نیز کامیاب حکومت کے لئے لازمی جزء سمجھتے ہیں، پوری سیاستیں کذب در کذب پر مبنی ہوا کرتی ہیں، یقینا یہ ایک ایسی خسیس طبیعت ہے، جس کا اثر کاز حکومت، وقیادت ہی پر نہیں پڑتا، بلکہ رعایا، اور ماتحتوں کی اخلاقیات، جذبہ اطاعت، اور سماجی ڈھانچے پر بھی پڑتا ہے، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ شرعی سیاست پر یقین رکھتے تھے، آپ کذب کے عادی نہیں تھے، صداقت کے پیکر تھے، گفتار کے بازیگر نہیں، کردار کے غازی تھے، آپ خود اپنی اس قابل تقلید عادت کو یوں ذکر کرتے ہیں: ” میں گفتار کا نہیں کردار پر یقین رکھتا ہوں، ان لوگوں کی طرح نہیں جو بڑی بڑی باتیں بناتے ہیں، میں جو کہتا ہوں، اسے پورا کرتا ہوں، میرے دین وشرف ومنزلت کے لئے یہ عیب کی بات ہے، کہ میں کچھ کہوں، اور اس کو عملی جامہ نہ پہناؤں، میں اس چیز کا عادی نہیں ہوں، نہ میں اس کی عادت ڈالنا چاہتا ہوں”.
تاریخی دستاویزات، اور مخطوطات میں آپ کے متعلق درج شدہ تفصیلات سے اس شخصیت کی عظمت کا احساس ہوتا ہے، جو صرف اپنی نسل کے ساتھ مشفقانہ رویہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ اپنی پوری قوم سے والد جیسی محبت کیا کرتے، آپ کی شخصیت انسانی اقدار کا مجموعہ تھی، اسی لئے دکتور عبد العزیز بن عبد الرحمان الثنیان نے اپنی کتاب کا عنوان ہی ( انسانیۃ ملک) رکھا ہے، اس کتاب کے اندر آپ نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی زندگی کے بہت سارے ایسے گوشوں کا ذکر کیا ہے، جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں، اس میں سنہ ٢٠١١ء میں ملک سلمان حفظہ اللہ- جو کہ اس وقت امیر تھے – کی زبانی اپنے والد کا ایک قصہ یوں بیان کیا ہے آپ کہتے ہیں: “جس ہفتے والد محترم کی وفات ہوئی، اس دن ام فہد سے میری شادی ہونی طے تھی، لیکن والد پر مرض کی شدت دیکھ میرے اسے مؤخر کرنا مناسب سمجھا، والد محترم کبھی ہوش میں آتے، کبھی بے ہوش ہو جاتے، ایک مرتبہ آپ نے آنکھیں کھولیں، اور میری ماں کو میرے بغل میں بیٹھے دیکھ ان سے دریافت کیا، کیوں آپ اپنے بچے سلمان کی شادی میں شرکت کرنے نہیں گئیں؟، ماں نے انہیں بتلایا سلمان نے شادی کی تقریب کو آپ کی شفایابی تک کے لئے مؤخر کر دیا ہے، آپ کو اللہ صحت وعافیت عطا فرمائے،والدہ بیان کرتی ہیں، اس کے بعد آپ نے سر جھکایا، اور دعائیں دینے لگے، میں یہ جملے سمجھ پائی ( اللہ سلمان کی زندگی میں برکت فرمائے) میری ماں نے آپ کی دعا پر آمین کہی۔
والدین کے فرمانبردار:
والدین اور وفادار اولاد کے مابین کیا محبت ہوتی ہے، اور باپ بیٹے کے باہمی رشتے کیسے ہونے چاہئیں؟ یہ چیز ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی زندگی میں ہمیں بدرجہ اتم نظر آتی ہے، اس سیاق میں ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے مشیر کار حافظ وہبہ ذکر کرتے ہیں:” ملک عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے والدین، اور رشتہ داروں کے ساتھ بڑا حسن سلوک کرنے والے تھے، ہر دن والد کی زیارت کرتے، ہر چھوٹے بڑے حکومتی معاملے میں آپ سے مشورے لیتے، عرب، نیز غیر عرب حکمرانوں کی طرف بھیجے جانے والے مراسلات سے آپ کو آگاہ کرتے، جب آپ ریاض پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو کویت سے ریاض پہونچتے وقت آپ نے اپنے والد کا استقبال کیا، اور پورے ادب واحترام سے ریاض کی جامع مسجد میں اس بات کا اعلان کیا، کہ آپ حاکم ہیں، اور میں اپنے والد کے ہاتھ پر حکومت کی بیعت کرتا ہوں، مگر آپ کے والد کو یہ بات پسند نہیں آئی، آپ اٹھے، اور اپنے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے اسے اس شرط پر قبول کر لیا، کہ کسی بھی امر میں والد محترم کا فیصلہ اولین حیثیت کا مالک ہوگا۔
اس سیاق میں اپنے والد امام عبد الرحمن بن فیصل کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اور واقعہ یہاں پر قابل ذکر ہے، وہ یہ کہ ایک مرتبہ آپ اپنے والد کے ساتھ حج میں ساتھ ساتھ تھے، ایک ساتھ دونوں نے طواف کیا، دوران طواف ہی والد کو تھکاوٹ کا احساس ہوا، آپ نے اپنے والد کو کاندھے پر اٹھا لیا، تاکہ باقی ماندہ طواف خود سے پورا کرائیں، نہ یہ کا اپنے کارندوں کو اس خدمت کے لئے استعمال کریں، آپ اپنی ماں سارہ السدیری کے ساتھ بھی بڑے با ادب، اور حسن سلوک سے پیش آیا کرتے، اسی طرح اپنے بھائی، بہنوں سے بھی بڑی محبت کرتے، بالخصوص اپنی بہن نورہ سے بڑی الفت ومحبت سے پیش آتے، آپ اس محبت کا اظہار ان جملوں میں کرتے ( انا اخو نورہ انا اخو الانوار ), آپ روزآنہ ان کے گھر جاکر ان سے ملاقات کرتے۔
مشہور سعودی ادیب فہد المبارک رحمہ اللہ – جو فلسطین کی آزادی کے مقصد سے اسرائیل سے نبرد آزما ہونے والی سعودی فوج کے قائد بھی تھے- نے ( من شیم الملک عبد العزیز رحمہ اللہ) نام سے تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس میں آپ نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی سخاوت، اعلی اخلاق کا تذکرہ کیا ہے، آپ لکھتے ہیں:” ایک شخص آپ کے پاس اپنے قرض کی شکایت لے کر آیا، کہ اس کی مقدار اتنی زیادہ ہے، کہ میں اسے ادا کرنے سے قاصر ہوں، آپ نے معاملے کی تحقیق کاحکم دیا، تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا، کہ اس پر سونے کے ١٠٠ جنیہ قرض ہیں، آپ نے فورا اس کے لئے ١٠٠ جنیہ کے بجائے ١٠٠٠ جنیہ کا آرڈر دیا،جب مالیاتی ادارے کے ذمے دار ( شلہوب) کے پاس صاحب معاملہ پہونچا، اور انہوں نے رقم دیکھی کہ مامور بہ رقم قرض کی رقم سے دس گنا زیادہ ہے، تو ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس جاکر اس کا ذکر کیا، آپ نے ان کی بات سن کر فرمایا ( لیس القلم باکرم منی یہ قلم مجھ سے زیادہ سخی نہیں ہو سکتا), ان دنوں یہ رقم آج کے اعتبار سے لاکھوں ریال بنتی ہے۔
آپ کی کرم نوازی کا ایک قصہ احمد بن عبد اللہ الدامغ کی کتاب ( شذرات ومواجیز من حیاۃ ومواقف الملک عبد العزیز) میں یوں درج ہے :” ایک مرتبہ آپ کو ایک بزرگ عورت نے راستے میں روک لیا، کہنے لگیں ( اے عبد العزیز جتنا اللہ ن آپ کو دنیا میں نوازا ہے، اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو آخرت میں بھی ویسے ہی نوازے), ملک عبد العزیز رحمہ اللہ اس دعا سے اتنے خوش ہوئے کہ اسے اپنی گاڑھی میں رکھا ہوا سارا مال ہدیہ کرنے کا حکم دیا، دیکھا گیا تو اس میں دس تھیلے تھے، جن میں سے ہر ایک میں ٥٠٠ ریال رکھے تھے، اس رقم کو اٹھانے، اور اسے گھر تک پہونچانے کے لئے آپ نے اس کے ساتھ ایک خادم بھی روانہ کیا۔
خیر الدین زرکلی اپنی کتاب ( شبہ الجزیرہ العربیۃ) نامی کتاب میں لکھتے ہیں: “بعض لوگ کہا کرتے تھے: اے عبد العزیز( آپ بے تحاشا نوازتے ہیں، اگر تھوڑا میانہ روی سے کام لیتے، تو بہتر تھا), آپ جوابا فرماتے: اللہ تعالی نے مجھے اپنی نوازشوں کا عادی بنا دیا ہے، اور مینے اس کے بندوں کو اپنی نوازشوں کا عادی بنا دیا ہے، مجھے ڈر لگتا ہے، کہ میں بندوں سے اپنی نوازشوں میں کمی کروں، تو اللہ مجھ پر اپنی عنایتوں کو کم نہ کر دے۔
مصری ادیب ومفکر عباس عقاد رحمہ اللہ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی شخصیت کے متعلق لکھتے ہیں: ” ملک عبد العزیز اپنے دشمنوں کے ساتھ سخت، کمزوروں کے ساتھ نرم ومتواضع تھے، البتہ آپ مخالفین کی آراء کو غور سے سنتے، اور جو بات پسند آتی، اسے اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے، وجہ یہ تھی کہ آپ نے حق وشریعت محمدیہ کو اپنا حکم وامام مقرر کر لیا تھا”.
آپ عفو ودر گزر میں بے مثال تھے، اس باب میں دسیوں تعجب خیز قصے نقل کئے جاتے ہیں، امین الریحانی اپنی کتاب ( ملوک العرب) میں لکھتے ہیں: ” ایک شخص آپ کے سامنے اعتراف گناہ کرتے ہوئے عذر پیش کرنے کھڑا ہوا، اس کی پوری بات سننے کے بعد ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا : مجھ پر یہ فرض تھا کہ میں تمہیں متنبہ کرتا، اس لئے میں تمہارا اس مرتبہ مؤاخذہ نہیں کروں گا”.
ریحانی اسی سیاق میں ایک اور واقعہ یوں نقل کرتے ہیں: عقیر نامی جگہ پر اپنے خیمے کے قریب آپ نے ایک قافلہ دیکھا، اس میں ایک تھکے ماندے اونٹ پر نظر پڑی، آپ نے اس کے مالک کو بلاکر ہدایت دی کہ اس اونٹ کو چرنے کے لئے چھوڑ دو، اور قافلے سے اسے آزاد کر دو، یہاں پر ریحانی سے آپ نے کہا ہمارے عدل کی شروعات اونٹوں سے ہوتی ہے، جو اپنے اونٹوں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتا، وہ لوگوں کے ساتھ کیا انصاف کرے گا”.
اسی ضمن کا ایک واقعہ ( انسانیۃ ملک) نامی کتاب میں یوں درج ہے: ” ایک مرتبہ ایک شخص نے شہر ریاض کے اندر راستہ روک کر آپ سے پوچھا ( عبد العزیز کہاں ہے آپ کا عدل وانصاف؟,) آپ نے ان سے ان کی پریشانی دریافت کی، تو اس نے بتلایا کہ آپ کے ایک امیر کی گاڑھی نے میرے تین اونٹوں کو کچل دیا ہے، یہ سن کر آپ نے معاملے کی چھان بین کے مقصد سے امیر کو حاضر کرنے کا حکم دیا، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے سامنے شکایت کرنے والے اور امیر کو ایک ساتھ بٹھایا جاتا ہے، تاکہ حادثے کی پوری تفصیلات خود سمجھی جا سکیں، بات پوری ہونے کے بعد آپ نے امیر کو اس کے اونٹوں کی قیمت ادا کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت ایک اونٹ کی قیمت ٣٠٠ ریال سے زیادہ نہیں تھی، لیکن اس دیہاتی نے ہر اونٹ کی قینت ١٠٠٠ مقرر کی، یہ سن کر امیر موصوف نے اونٹ کے بدلے اونٹ ہی دینے کی بات پر اتفاق کرنا چاہا، اس دیہاتی نے یہ کہہ کر اس تجویز کو ٹھکرادیا کہ پھر یہ اونٹ مجھے سدھانے بھی پڑیں گے، بالآخر اس امیر نے ایک اونٹ کی قیمت رائج قیمت سے تین گنا زیادہ ادا کی، یہ دیکھ کر دیہاتی سے رہا نہ گیا، اور ملک عبد العزیز سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ( اب آپ کا عدل مجھے صحیح طور پر سمجھ آگیا اے عبد العزیز!).
ملک سلمان اپنے والد کے متعلق بہت سارے ایسے قصے نقل کرتے ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے، کہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی نہایت مشفق ومہربان تھے، اور اسی وجہ سے آپ کے بڑے بڑے دشمن آپ کے وفادار ساتھی بن گئے، آپ سختی ونرمی دونوں کا استعمال کرتے، اپنے بچوں ہی کے میزان سے رعایا کو بھی تولتے، ایسا نہیں تھا، کہ خاندان کے افراد کے ساتھ عدل و انصاف کا پیمانہ کچھ ہو، اور رعایا کے ساتھ کچھ اور، آپ دستر خوان پر وسعت سے کام لیتے، بچوں کے ساتھ مزاق بھی کرتے، آپ کی زندگی تکلفات سے بلکل خالی تھی۔
آپ اسلامی ممالک سے بالعموم، اور عرب ممالک سے بالخصوص نہایت لگاؤ رکھتے تھے، لبنان وعراق نیز فلسطین کے مسائل ہمیشہ آپ کو فکر مند رکھتے, ایک مرتبہ آپ نے سنہ ١٣٥٣ھ میں حج کے فورا بعد عراقی اسکاؤٹ ٹیم سے اپنے لگاؤ کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ” میں اللہ اور اس کے بعد آپ سے تین باتوں کا عہد کرتا ہوں: نمبر ایک: اللہ، اور دین اسلام کے لئے اخلاص، اور سنت سلف، اور صحابہ کے نقش قدم کی اتباع۔ نمبر دو: عرب کی مصلحت کے لئے اخلاص کے ساتھ کام گرنا۔نمبر تین: میرا لوشت پوست، میری رگوں کا خون، میرے سارے جذبات، میری اولاد، اور ساری مملوکہ اشیاء عراق واہل عراق کے تحفظ کے لئے وقف ہیں”. مزید کہتے ہیں – جیسا محی الدین رضا اپنی کتاب ( طویل العمر الملک عبد العزیز آل سعود ) میں لکھتے ہیں – : ” عراق میرا پڑوسی ملک ہے، مجھے نہایت عزیز ہے، مینے اپنے تحفظ کے لئے عراق کے حق میں جنگ کی ہے، میں آپ کو واضح کردوں کہ عراق میرے سامنے بہت سارے شرور وفتن کی راہ میں ایک دیوار کے مانند ہے، جو عراق پر حملہ آور ہوگا، وہ بعد میں مجھ پر بھی حملہ اور ہوگا، جو دشمن عراق پہونچ کر دوپہر کا کھانہ تناول کرے گا، تو وہ شام کا کھانہ نجد میں جاکر کھائے گا، ہمارے اور اہل عراق کے دل ایک ہیں، ہم اپنے تحفظ کے راستے پر لگاتار گامزن ہیں، ہم عراقی قوم، اور ان کے دفاع کے لئے ہمیشہ تیار ہیں”.
لبنان کی آزادی کے بعد ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے لبنان کے وزیر خارجہ سلیم بک، اور صدر جمہوریہ موسی مبارک سے روضۃ التنہات میں ملاقات کی، اور دونوں سے کہا : ” اے سلیم وزیر خارجہ!، اے صدر جمہوریہ موسی! تم دونوں عیسائی ہو، اور میں مسلم ہوں، یہ اختلاف مجھے اس بات سے نہیں روکتا کہ میں تم دونوں سے ویسے ہی محبت کروں، جیسا کہ میں اپنے بچوں فیصل، سعود، منصور، خالد وغیرہ سے کرتا ہوں، میری لبنان کے لئے وہی تمنائیں ہیں، جو نجد، حجاز، اور سارے مسلم ممالک کے لئے ہیں، کہ انہیں آزادی ملے، میں نے لبنان کی آزادی کا اعتراف کیا، جب مجھے حالات کے بدل جانے کا یقین ہوا، اس لئے اب مسلمان، اور عیسائی باہم مل کر ایک طاقت بن جاؤ، اختلاف نہ کرو، تساہل کے ساتھ اپنے مسائل کو حل کرو، میں تمہیں تمہاری آزادی کی مبارک بادی پیش کرتا ہوں، بشارہ، اور دوسرے لبنانی بھائیوں کو میرا سلام پہوچانا”.
مسئلہ فلسطین پر اہم موقف:
سابقہ مقالے میں میں نے اس پر بڑی تفصیل سے گفتگو کی ہے، یہاں پر صرف دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری ہے:
اول: جب آپ نے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ سے قناۃ سویز میں امریکی جہاز بردار بیڑے پر چند منٹوں کی ملاقات کی، تو انہوں نے برملا اس بات کا اعتراف کیا: (مسئلہ فلسطین کو ملک عبد العزیز کے ساتھ دس منٹ کی بیٹھک میں اتنا سمجھ لیا، کہ سابقہ دس سالوں میں بھی نہیں سمجھ سکا تھا), اس مسئلے پر آپکا موقف بڑا واضح اور نہایت سخت تھا، جیسا کہ ١٩٤٦ء میں ملک کی زیارت کی مناسبت سے فلسطینی وفد سے ملاقات کے دوران آپ نے فرمایا تھا : ” میں میری اولاد اور میرے بس کی ساری قوت فلسطین، اور فلسطینی قوم کے لئے فداء ہے، فلسطین عربی ہے، عربی رہے گی، اور ان شاء اللہ عرب ہی اس کے مالک رہیں گے”. ( انسانیۃ ملک)..
دوم: اسی طرح ٩ ذی الحجہ ١٣٦٤ھ مطابق ١٥نومبر ١٩٤٥ء کو مکہ مکرمہ کے اندر حاجیوں کے لئے لگائے گئے ایک بڑے دسترخوان پر اظہار خیال کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا: فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے لئے اہم ترین مسئلہ ہے، سارے مسلمانوں کی توجہ اس پر مبذول ہونی چاہئے، میں بہت لمبی لمبی باتیں کرنے کا عادی نہیں ہوں، میں خاموشی کے ساتھ کام کرنے پر یقین رکھتا ہوں، البتہ یہ ایک مسئلہ ایسا ہے، جس سے خاموشی اختیار کرنا مصلحت کے خلاف ہے، میں نے اس حساس مسئلے پر بریطانیا سے بھی دوٹوک گفتگو کی ہے، اور فرانکلن روزفلٹ کو بھی کھل کر اپنا موقف بیان کیا ہے۔
آپ کے متعلق بہت سارے غیر مسلموں نے اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی عبقری شخصیت کا اعتراف کیا ہے، جرمن قلمکار ایمیل شوبرز آپ کے متعلق لکھتے ہیں: ” ایسا لگتا ہے کہ ملک عبد العزیز بن سعود جیسی منفرد عبقری شخصیت چھ صدی سے چزیرۃ العرب میں پیدا ہی نہیں ہوئی”.
جرالڈ ڈوجرس آپ کے دور حکومت میں پیش آنے والی اصلاحات کے متعلق لکھتا ہے: ” اتنی تھوڑی سی مدت میں اتنی بنیادی تبدیلیوں کا تصور ناقابل فہم وادراک ہے، تاآنکہ یہ کہا جا سکے، کہ صحراء میں کسی قافلے کی کوئی تھیلی گر جائے، تو چھ ماہ کے بعد بھی وہ وہیں پڑی مل جائے، مملکت سعودی عرب میں امن وامان عجیب وغریب شکل میں پایا جاتا ہے، یہاں پر یہ کسی بھی یورپین ملک سے کہیں زیادہ عام ہے”.
ڈاکٹر پن ذزل نے ١٩٢٦ء میں سعودی عرب کی زیارت کی، اور ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو عبقری شخصیت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ” اگر آپ کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ چند لوگوں کی قیادت کرنے والا ابن سعو تھوڑی سے مدت میں اتنی بڑی امپائر قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا، جس کا رقبہ جرمن، فرانس، اور اٹلی سے کہیں زیادہ ہے، تو اس میں شک ہی نہیں رہے گا کہ آپ اس شخصیت کو نابغہ روزگار کہے بغیر نہیں رہیں گے”.
واقعی ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے اندر ایک سچے اور مخلص قائد کی ساری صفات پائی جاتی تھیں، آپ بلا استثناء پوری ملت اسلامیہ کے متفقہ قائد ہو سکتے تھے، لیکن اختلافات وتعصبات کی بھینٹ چڑھی ہوئی یہ ملت اچھے لوگوں کو قائد چننا کیوں کر پسند کر سکتی ہے، اسے تو اپنی تقسیمات کے ترازو پر کھرا اترنے والا فرمانروا چاہئے، چاہے وہ عملا بد عقیدہ، اور گمراہ ہی کیوں نہ ہو، اس امت مسلمہ میں قیادت کی کمی نہیں ہے، قبول قیادت، اور اچھی قیادت کی شناخت کی کمی ہے، اللہ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی قبر کو نور کے بھر دے، اے کاش ایسا ہوتا کہ قرآن وسنت اور عقیدہ توحید کی بنا پر اٹھنے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرتا، اور پھر دوبارہ ہم اپنی عزمت رفتہ کو لوٹا پاتے، اللہ ہمیں صحیح دین کی طرف عود کر آنے کی توفیق دے۔ آمین۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/