مولانا اسماعیل میرٹھی : حیات و خدمات کے چند نقوش
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، پٹنہ
رابطہ نمبر: 9199726661
جب میں ابتدائی درجات میں طالب علم تھا تبھی میں نے مولانا محمد اسماعیل میرٹھی، مولانا خواجہ الطاف حسین اور علامہ محمد اقبال کی کئ نظمیں یاد کرلی تھیں۔ انہی دنوں مجھے اردو زبان وادب اور شاعری کی اس مثلث و بےمثال جوڑی سے بےپناہ عقیدت و محبت ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سبھی کی نثری اور شعری دونوں طرح کی تخلیقات میں اصلاحی عناصر کا غلبہ ہے۔ انہوں نے قوم وملت کی صلاح و فلاح کا بیڑا اٹھا یا اور اپنی اصلاحی تحریروں سے اردو کا دامن بھردیا۔اسی لیے میں ان سبھی کو بےحد پسند کرتا ہوں۔ میری نظر میں ان کی نثری و شعری تخلیقات و رشحات بہت حد تک شرکیات، بدعیات، فواحاشات، منکرات اور مغلظات سے پاک ہیں۔ وہ سب خود بھی نیک مزاج تھے اور صالح معاشرے کی تشکیل چاہتے تھے۔ یہی ہر نیک مزاج، تعمیری اور مثبت افکار و خیالات کا حامل شخص چاہتا ہے۔ میں بھی اس کے لیے فکر مند رہتا ہوں اور اپنی بساط بھر سعی کرتا رہتا ہوں۔ بہرحال!
یہاں موضوع کی مناسبت سے مجھے مولانا اسماعیل میرٹھی کی حیات و خدمات کے چند نقوش قلمبند کرنے ہیں جو ذیل میں نذر اہلِ نظر ہیں۔
بلاشبہ مولانا محمد اسماعیل میرٹھی اردو زبان وادب کے بلند پایہ ادیب و شاعر تھا۔ معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ان کا شمار مولانا خواجہ الطاف حسین حالی اور مولانا محمد حسین آزاد جیسے جدید اردو ادب کے اہم ترین ادباء و شعرا میں کیا ہے۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ ان کو کسی سے کمتر نہیں گردانا چاہیے۔ان کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا۔ان کی ولادت 12 نومبر 1844ء کو میرٹھ کے محلہ ” مشائخان ” میں ہوئی تھی۔ موجودہ وقت میں وہ علاقہ ” اسما عیل نگر ” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی تقریباً 73 برس کی عمر طبعی گزار کر یکم نومبر 1917ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کا سلسلہ نسب محمد بن ابو بکر سے ملتا ہے۔ پروفیسر حامد حسین قادری کی تحقیق کے مطابق ان کے کسی بزرگ نے ترکستان کے قدیم شہر ” خجند ” میں سکونت اختیار کی تھی اور وہاں سے ان کے مورث اعلیٰ میں سے قاضی حمید الدین خجندی بادشاہ ظہیر الدین بابر کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب ” حیات اسماعیل ‘‘ میں بایں سطور درج ہے :
’’ شاہ محمد عبد العلیم بن شاہ عبد الحکیم جوش بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدیقی خجندی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہم بن محمد اسلم سیفی بن مولانا محمد اسماعیل میرٹھی”۔
مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے مرزا رحیم بیگ کے سامنے زانویہ تلمذ تہہ کیا۔ فارسی میں اچھی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے ٹیچرس ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور وہاں سے ٹیچر اہلیتی سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ان کو علم ہندسہ سے خاص دلچسپی تھی۔ انھوں نے فزیکل سائنس اور علم ہیئت بھی پڑھا۔ اسکول سے فارغ ہو کر انھوں نے رڑکی کالج میں اوور سیئر کے کورس میں داخلہ لیا لیکن مزاج میں ہم آہنگی نہیں ہونے کے سبب انہوں نے اس کورس کو پایہ تکمیل تک نہیں پہچایا۔ اسے ناتمام چھوڑ کر میرٹھ واپس آ گئے۔ وہ اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کرسکے اور ناہی یونیورسٹیوں سے بڑی بڑی ڈگریاں لے سکے، مگر اپنی بےپناہ محنت اور اعلیٰ ذوق و شوق کے باعث اپنے اندر بےپناہ صلاحیت و قابلیت پیدا کرلی تھی۔ اپنی زندگی کی ابھی 16ویں بہار ہی دیکھ رہے تھے تو محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت اختیار کر لی۔
1867ء میں ان کا تقرر سہارنپور میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے ہوا، جہاں انھوں نے تین سالوں تک بڑی دلجمعی کے ساتھ خدمات انجام دیں۔بعد ازاں پھر میرٹھ اپنے پرانے دفتر منتقل ہو گئے۔ 1888ء میں وہ آگرہ کے ایک اسکول میں فارسی کے استاد کی حیثیت سے بحال کئے گئے، جہاں تقریباً گیارہ برسوں تک ناقابلِ فراموش تدریسی خدمات انجام دیں اور وہیں سے وہ 1899ء میں سبکدوش ہوئے۔ اس کے بعد مستقل میرٹھ میں مقیم ہو گئے اور تاحیات تالیفات، تصنیفات اور شعریات میں ہمہ تن مصروف و منہمک ہوگئے۔ان کی نو کتابیں اردو کتب میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، جن میں “اردو کی پہلی کتاب”،” اسلم کی بلی”، “ایک بچہ اور جگنو”، “ایک گدھا شیر بنا”، “رباعیات اسماعیل میرٹھی”، “شگوفے”، “عجیب چڑیا”، “کچھوا اور خرگوش”، “کلیات اسماعیل” شامل ہیں جبکہ دیگر قلمکاروں وفنکاروں نےان کی حیات و خدمات اور فکر وفن پر تقریباً دس کتابیں لکھی ہیں، جن میں عادل اسیر کی ” اسماعیل میرٹھی “، ڈاکٹر سیفی پریمی / خلیل الرحمٰن کی اسماعیل میرٹھی – حیات و خدمات”، مکتبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کی ” بچوں کے اسماعیل ” ، حکیم نعیم الدین زبیری کی ” بچوں کے اسماعیل میرٹھی “، ڈاکٹر شاد علیم کی ” بچوں کے شاعر اسماعیل میرٹھی: جدید شاعری کا نقطہ آغاز “، ” حیات اسماعیل میرٹھی مع کلیات اسماعیل میرٹھی “، ” نظم جدید کی تثلیث ” اور ” ہماری آواز میرٹھی ” وغیرہ ہیں۔ اسماعیل میرٹھی کے معاصر ادباء،شعراء اور عوام کو تو ان کی صلاحیت، قابلیت اور ادبی وشعری خدمات کے اعتراف تھا ہی مزید برآں یہ کہ حکومت وقت تک بھی معترف تھی، چنانچہ اس نے ان کو “خان صاحب ” کا خطاب دیا تھا۔
کہاجاتا ہے کہ مولانا محمد اسمٰعیل میرٹھی کو ابتدائی دور میں شاعری سے دلچسپی نہیں تھی۔ قلق میرٹھی کی صحبت نے انہیں شعر گوئی کی طرف مائل کیا تھا۔ انہوں ابتدا میں کچھ غزلیں کہیں، جنھیں فرضی ناموں سے شائع کرایا۔ اس کے بعد وہ نظموں کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے انگریزی نظموں کے ترجمے کئے، جن کو بہت پسند کیا گیا۔ قلق میرٹھی نے انگریزی کی پندرہ اخلاقی نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ ’جواہر منظوم‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس ترجمے سے اسما عیل میرٹھی اتنا متأثر ہوئے کہ ان کی شاعری میں جدت و ندرت کا دریا متموج ہوگیا۔یہی نہیں، بلکہ جدید اردو نظم میں وہ انقلاب برپا ہوا کہ اردو ادب جدید نظم کے نادر خزانے سے مالامال ہو گیا۔ پروفیسر حامد حسین قادری نے مولانا اسماعیل میرٹھی کی خدمات کو جدید اردو نظم میں بہت اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور اس حقیقت سے نقاب کشائی کی ہے کہ نظم جدید کے میر کارواں کے طور پر آزاد اور حالی کا نام لیا جاتا ہے لیکن آزاد کی کاوشوں سے انجمن تحریک پنجاب کے تحت 9 اپریل 1874ء کو منعقدہ تاریخ ساز مشاعرہ سے بہت پہلے میرٹھ میں قلق اور اسمٰعیل میرٹھی نظم جدید کے ارتقاء کے باب رقم کر چکے تھے۔ اس طرح اسمٰعیل میرٹھی کو محض بچّوں کا شاعر سمجھنا غلط ہے۔ ان کی تمام تحریروں کا خطاب بڑوں سے نہ سہی، ان کے مقاصد بڑے تھے۔ ان کی شخصیت اور شاعری کثیر الجہت تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصناف سخن، اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی نظموں کا ترجمہ ہیں۔
اسمٰعیل میرٹھی کے کلام کے مطالعہ سے ہمیں اک ایسے ذہن کا پتہ چلتا ہے جو مخلص اور راست گو ہے، جو خیالی دنیا کی بجائے حقیقی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ انھوں نے اس دنیائے فانی کی مبنی بر حقیقت تصویر کشی کی ہے ۔ ان کے یہاں انسانی ابتلاء اور کلفتوں کے نقوش میں اک نرم دلی اور خلوص کی لہریں موجزن نظر آتی ہیں۔ وہ زندگی کی ناپائیداری کے قائل ہیں لیکن اس سے راہ فرار اختیار کرنےکی تلقین نہیں کرتے۔ وہ خواب و خیال کی دنیا کے شاعر نہیں بلکہ اک عملی انسان تھے۔ان کے بہت سارے اشعار ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے ہیں اور زبان زد خواص وعوام بھی ہیں، مشتے نمونہ از خروارے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ادب سے ہی انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
تو ہے خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
جو بات کہو صاف ہو ستھری ہو بھلی ہو
کڑوی نہ ہو کھٹی نہ ہو مصری کی ڈلی ہو
بلاشبہ اسماعیل میرٹھی کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ، خیالات صاف اور پاکیزہ ہیں۔ ان کی نظموں میں مذہبیات کا غلبہ ہے، مثلاً ان کی یہ حمد ملا حظہ فرمائیں اور ان عقیدہ توحید کا اندازہ لگائیں:
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
پاؤں تلے بچھایا کیا خوب فرش خاکی
اور سر پہ لاجوردی اک سائباں بنایا
مٹی سے بیل بوٹے کیا خوش نما اگائے
پہنا کے سبز خلعت ان کو جواں بنایا
خوش رنگ اور خوشبو گل پھول ہیں کھلائے
اس خاک کے کھنڈر کو کیا گلستاں بنایا
میوے لگائے کیا کیا خوش ذائقہ رسیلے
چکھنے سے جن کے مجھ کو شیریں دہاں بنایا
سورج بنا کے تو نے رونق جہاں کو بخشی
رہنے کو یہ ہمارے اچھا مکاں بنایا
پیاسی زمیں کے منہ میں مینہ کا چوایا پانی
اور بادلوں کو تو نے مینہ کا نشاں بنایا
یہ پیاری پیاری چڑیاں پھرتی ہیں جو چہکتی
قدرت نے تیری ان کو تسبیح خواں بنایا
تنکے اٹھا اٹھا کر لائیں کہاں کہاں سے
کس خوبصورتی سے پھر آشیاں بنایا
اونچی اڑیں ہوا میں بچوں کو پر نہ بھولیں
ان بے پروں کا ان کو روزی رساں بنایا
کیا دودھ دینے والی گائیں بنائیں تو نے
چڑھنے کو میرے گھوڑا کیا خوش عناں بنایا
رحمت سے تیری کیا کیا ہیں نعمتیں میسر
ان نعمتوں کا مجھ کو ہے قدرداں بنایا
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا
اسماعیل میرٹھی قوم و ملت کے بہت بڑے بہی خواہ اور سچے ہمدرد تھے۔وہ اپنی قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اسی لئے انھوں نے بچوں کی ذہن سازی کو خاص اہمیت دی۔ ان کی خواہش تھی کہ بچے صرف علم نہ سیکھیں بلکہ وہ اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات سے بھی با خبر رہیں۔
اسماعیل میرٹھی کا اردو زبان وادب اور شاعری میں بہت بلند مقام ہے۔ بعض ناقدین کا تو خیال یہ ہے کہ حالی اور آزاد کے ہمعصر انّیسویں صدی کے بہترین شاعرمولوی اسمٰعیل میرٹھی ہیں، جن کی نظمیں محاسن شاعری میں آزاد وحالی دونوں سے بہتر ہیں۔ بہرحال! اسماعیل میرٹھی کے قد کو کسی بھی ادیب یا شاعر سے کم نہیں آنکا جا سکتا ہے، خاص کر جدید اردو نظم کے میدان میں۔اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت ساری کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ اسی لیے انہیں بچوں کا شاعر وادیب کہا جاتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف بچوں کی کہانیوں اور شاعری تک ہی محدود تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے بچوں سے لےکر جوانوں اور بوڑھوں تک سبھی کے لیے نظمیں اور نثریں دونوں لکھیں اور خوب لکھیں ۔ اس لیے ان کو بچوں تک محدود کر دینا مجھے لگتا ہے ان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی، بلکہ زیادتی کی بات ہے۔ معروف ادیب و نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ بھی اس بات کے خلاف تھے۔ وہ رقمطراز ہیں :
” بچوں کا ادب اسماعیل میرٹھی کی ادبی شخصیت کا محض ایک رخ ہے۔ ان کا شمار جدید نظم کے ہئیتی تجربوں کے بنیاد گزاروں میں بھی ہونا چاہیے۔ آزاد اور حالی نے جدید نظم کے لیے زیادہ تر مثنوی اور مسدس کے فارم کو برتا تھا۔ اسماعیل نے ان کے علاہ مثلث، مربع، مخمس اور مثمن سے بھی کام لیا ہے۔ ترقی پسند شاعروں نے آزاد نظم اور نظم معرٰی کے جو تجربے کیے، ان سے بہت پہلے عبد الحلیم شرر، نظم طباطبائی اور نادر کاکوروی اور ان سے بھی پہلے اسماعیل میرٹھی ان راہوں سے کانٹے نکال چکے تھے۔ “
مجھے اس بات کا بڑے شد ومد کے ساتھ اعتراف ہے کہ اردو کو جدید نظم سے روشناس کرانے والوں میں اسمٰعیل میرٹھی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انہوں نے جو نظمیں، کہانیاں اور کتابیں تصنیف وتالیف کی ہیں وہ یقیناً اردو زبان وادب کا بیش قیمتی اثاثہ ہیں نیز مولانا محمد اسماعیل میرٹھی کی ششش جہت و نابغۂ روزگار شخصیت،حیات وخدمات ہم اردو والوں کے لیے سرمایہ افتخار کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/