عدل و انصاف کا پیکر ملک عبد العزیز رحمہ اللہ

عدل وانصاف کا پیکر ملک عبد العزیز رحمہ اللہ
از قلم ساجد ولی
یقینا کسی بھی سلطنت کی بقاء کے لئے جن بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے عدل وانصاف اہم ترین شیئے ہے، ایک کمزور حکومت عدل کی بنا پر صدیوں قائم رہتی ہے، جبکہ ظلم کی وجہ سے بڑی بڑی سلطنتوں کی نیو متزلزل ہو جاتی گرچہ حکومت کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ مسلم حکمراں ہی کیوں نہ ہوں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ( یا عبادی انی حرمت الظلم علی نفسی، وجعلتہ بینکم محرما، فلا تظالموا) اے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے، اور تمہارے درمیان بھی اسے محرم بنا دیا ہے، اس لئے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ایک اور حدیث میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( الظلم ظلمات یوم القیامہ) ظلم قیامت کے دن اندھیروں میں تبدیل ہو جائے گا، یقینا عدل وانصاف کا اس آپ گیتی کے عروج وارتقاء میں بڑا رول رہا ہے، کمزوروں کو ستانے والے، اور ظلم وستم کی منڈیاں لگانے والے، اپنی طاقت، وحیٹیت کو ضعیفوں ومحتاجوں کے لئے آزمائش میں بدل دینے والے کچھ وقت تک اچھلتے کودتے ہوئے تو نظر آئیں گے، لیکن ایک وقت آتا ہے، کہ ان کی دیکھ بھال سے ان کی اولاد بھی انکار کر دیتی ہے، مظلوم کی آہ بڑی گرم ہوتی ہے، اس کی بجلی جس بھی ظلم کی منڈی پر گرتی ہے، اسے بھسم کر کے رکھ دیتی ہے، اسی لئے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدل وانصاف کو شروع ہی سے اپنا طرہ امتیاز بنا کر رکھا، آپ کے حریف وحلیف سب اس بات سے بخوبی واقف تھے، کہ آپ عدل وانصاف کی راہ میں کسی رشتے وتعلق کی پرواہ نہیں کرتے.
دکتور بندر بن عبد اللہ بن ترکی آل سعود نے اپنی کتاب ( العدل اساس الملک) میں ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے بہت سارے ایسے قصے بیان کئے ہیں، جو آپ کی سیاست کا نچوڑ پیش کرتے ہیں، اور اس راز کو افشاء کرتے ہیں، جس کی بنا پر چند عرصے میں آپ رحمہ اللہ کو جزیرۃ العرب میں اتنی بڑی کامیابی ملی، اور آپ کی قائم کردہ مملکت امن وامان کے باب میں مضرب المثل بن گئی، صاحب کتاب اسی سیاق میں ذکر کرتے ہیں کہ آپ کاز حکومت کے لئے ایسے وفادار، اور مخلص ترین افراد کا انتخاب فرماتے جو سچے مشورے، اور مستقل فکر کے مالک ہوں، اپنے ملک کی خاطر جان کی پرواہ بھی نہیں کرت ہوں، آپ کی نظر میں ڈیوٹی تکلیف سے عبارت ہوتی، تشریف سے نہیں، اسی طرح آپ اپنے بچوں کو ہمیشہ لوگوں کی خدمت، اور دن رات ان کے احوال سے مطلع ہوتے رہنے پر ابھارتے، آپ خود اپنی رعایا سے حد درجہ محبت کرتے، ان سے ربط بنائے رکھتے، آپ کے بعد انہیں ادبیات سیاست پر آپ کے جانشین بھی قائم رہے۔
مالک سنع،‌مالک سمع:
آپ کے عدل کے قصوں میں ایک بڑا مشہور قصہ ( مالک سنع، مالک سنع) سے مشہور ہے، اس کی تفصیل محمد جال کشک نے یوں بیان کی ہے، آپ فرماتے ہیں: ” عبد اللہ السدیری نے اس سیاق میں ایک نہایت عبرتناک قصہ بیان کیا ہے، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ ایک کھانے کی دعوت میں حاضر ہوئے، جس کا انتظام آپ کی طرف سے لوگوں کے اندر مالی امداد کی تقسیم کرنے والے ایک شخص نے کیا تھا، اتفاق اس شخص نے دوسری منزل پر دسترخوان لگایا، اس زمانے میں بلند عمارت نہایت مالداری کی علامت تھی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا، آپ سیڑھیاں چڑھتے جاتے، اور زمین پر اپنی لاٹھی پٹک پٹک کر کہتے جاتے ( مالک سنع، مالک سنع)، آپ کے قرب وجوار میں جو لوگ تھے، انہیں بڑی دہشت ہوئی، کہ آپ یہ کیا کر رہے ہیں،؟ اور کیوں کر رہے ہیں،؟ اور اس جملہ کی تفسیر کیا ہے؟ جب مجلس سجی، تو بعض لوگوں نے ان جملوں کی وجہ دریافت کی، تو بتلایا کہ اس گھر کا مالک ہمارے پاس لوگوں کی ضرورتیں لاکر پیش کرتا، ہم اسے ان کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے مال سونپ دیتے، جسے وہ خود ہڑپ لیتا، اور لوگوں کو یہ کہہ کر لوٹا دیتا ( مالک سنع، مالک سنع تمہاری مالی مدد نہیں آئی۔۔۔۔)، یہ گھر اور عمارت سب ان لوگوں کے حقوق غصب کرکے بنائے گئے ہیں، جن کو انہوں نے ( مالک سنع۔۔۔) کہہ کر رد کیا تھا۔
ملک سلمان حفظہ اللہ ورعاہ جب ریاض کے امیر تھے سنیچر کے دن ٢١ / ٣ / ١٤٢٩ھ مطابق ٢٩ / ٣/ ٢٠٠٨ء کو وطن کی یادیں کے عنوان سے جامعہ ام القری کے احاطے میں آپ نے ایک محاضرہ پیش کیا، جسے بعد میں ( دارۃ الملک عبد العزیز) نے ” ملامح انسانیۃ من سیرۃ الملک عبد العزیز” کے عنوان سے ایک کتابچے کی شکل میں نشر بھی کیا، اس میں آپ نے سابق امیر حج ڈاکٹر محمد سفر کی گزارش پر ایک بزرگ عورت فاطمہ الشافعی کا قصہ نقل کیا، آپ کہتے ہیں: ” میں اس مبارک شہر میں واقع اس مبارک جامعہ کے اندر اس واقعے کو بیان نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن کچھ یادوں نے مجھے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے متعلق گفتگو پر مجبور کر دیا ہے، یہ میری دادی تھی، ان کا نام فاطمہ بنت عبد اللہ الشافعی تھا، ان کا تعلق طائف کے بنو ثقیف سے تھا، جب طائف کا معرکہ پیش آیا، اس وقت آپ طائف ہی میں تھیں، یہیں پر آپ کے شوہر کا انتقال بھی ہوا، اس کے بعد آپ اپنے والد، اور بچوں کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوئیں، آپ نے خود مجھے یہ قصہ بیان کیا ہے، اور میں ان کی طرف سے اس واقعے کو امانت کی ساتھ آپ تک نقل کر رہا ہوں، آپ نے اپنے بعض اقرباء کو دیکھا کہ اس نے ساری دولت پر قبضہ کر لیا ہے، اور کورٹ سے حق ملکیت بھی صادر کرا لیا ہے، آپ اس سے بڑی پریشان ہوئیں، آپ کو بتلایا جاتا ہے، کہ مکہ مکرمہ میں ایک امیر ہیں، ان کے پاس چلی جاؤ، آپ نے دریافت کیا: کہاں ہے وہ؟ تو لوگوں نے بتلایا: بالا خانے میں ہیں، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ محل سے نکل رہے تھے، انہیں دیکھ کر آپ نے اپنے بدوی لہجے میں آپ کو آواز دی، اے عبد العزیز اے عبد العزیز! ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے انہیں دیکھا، بعض سیکورٹی کارڈس نے انہیں روکنا چاہا، آپ نے انہیں روکتے ہوئے کہا ( کبوھا، کبوھا) یعنی اسے آنے دو، اسے آنے دو۔ اس کے بعد بڑے ترش لہجے, اور پرجوش انداز میں آپ نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو خطاب کیا، لیکن آپ ناراض نہیں ہوئے، کہنے لگی، طائف میں ھمارے لوگ قتل ہوگئے، اور مکہ میں ہمارے اموال پر ناجائز قبضہ کر لیا گیا، آپ اس کی یہ گفتگو سن کر متعجب ہوئے، اور ٹھہر کر سنجیدگی سے دریافت کیا, کیا مسئلہ ہے؟ کیا کہنا چاہ رہی ہو، کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟؟؟
آپ کو انہوں نے بتلایا: وہ شخص آپ کے قاضیوں میں سے ایک قاضی ہے، آپ نے اسے اپنی حکمت سے منتخب کیا ہے، اس نے مبنی بر ظلم‌ فیصلہ کیا ہے، یہ سن کر ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے ابن جمیعہ کو طلب فرمایا، اور انہین حکم دیا: لکھو: ( عبد العزیز بن عبد الرحمن الفیصل کی طرف سے قاضی فلان آل فلان کی طرف، شرعی طور پر تمہارے سامنے میں اس‌‌ عورت کا وکیل ہوں), اس رقعے کو اس عورت نے‌ لیا، جو نہ پڑھنا جانتی تھی، نہ لکھنا، اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا, اس میں کیا ‌لکھا ہے، اس نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ سے معلوم کرنے کی کوشش کی، کہ اس میں کیا لکھا ہے، آپ نے کہا بس اسے لے جاؤ،‌ اور قاضی کے حوالے کر دینا، اب یہ واپس لوٹ کر قاضی کے پاس آتیں ہیں، جو اسے پولس کی دھمکی دے کر بار بار بھگا دیا کرتا تھا، اب اس کے پاس آکر آپ اسے بتلاتی ہیں ( یہ رفعہ تمہارے سرداروں کے سردار کے پاس سے لائی ہوں) یہ سن کر قاضی نے رقعہ لیا، اس پر ملک عبد العزیز کی مہر دیکھ کر اسے سر پر رکھا، یہ دیکھ کر آپ بر جستہ اس سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ( اللہ اکبر! ملک عبد العزیز سے ڈر گئے، عبد العزیز کے رب سے کبھی نہیں ڈرے)۔
والد کے قرض‌ کی ادائیگی:
ایک مرتبہ فجر کی نماز کے فورا بعد ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیا، اور آپ کے والد محترم عبد الرحمن بن فیصل پر باقی اپنے قرض کا مطالبہ کرنے لگا، جس کی مقدار ١٠٠ فرنسی ریال تھی، اس زمانے کے اعتبار یہ بڑی رقم بنتی تھی، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے مدعی سے تفصیلات دریافت کیں، اور شاہد پیش کرنے کا مطالبہ کیا، اس شخص نے کہا ( میرا شاہد اللہ ہے), ملک عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تو بہترین شاہد ہے، لیکن جب تک آپ اپنے قرض کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل پیش نہیں کر دیتے، تب تک میں آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، آپ رحمہ اللہ نے ناراضگی کا اظہار کئے بغیر فیصلہ کیا، کہ قاضی وقت شیخ عتیق کے پاس اسے لے کر جائیں، جو دونوں کے درمیان اس پیچیدہ مسئلے کا فیصلہ کریں، بلا باڈی گارڑس وغیرہ کے اکیلے اس شخص‌ کو آپ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور مدعی کے ساتھ قاضی کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، شیخ ابن عتیق آپ سے پوچھتے ہیں، آپ فریق کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں، یا مہمان کی حیثیت سے؟ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں، مہمان نہیں ایک فریق کی حیثیت سے حاضر ہوا ہوں، آپ نے وقت کے بادشاہ ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کو سامنے مدعی کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کا حکم‌ دیا،‌ آپ بلا جھجھک بیٹھ گئے، آپ نے دونوں کے درمیان فیصلہ کیا، مدعی فیصلے سے خوش ہوکر واپس لوٹا، اس کے بعد قاضی ابن عتیق نے ملک عبد العزیز رحمہ اللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا،‌ اب آپ میرے مہمان ہیں، آئیے گھر تشریف لائیں۔
تاریخ کے اوراق میں اس طرح کے ڈھیروں قصے ہیں، جو ملک‌ عبد العزیز رحمہ اللہ کے عدل وانصاف کے عکاس ہیں، اس طرح جتنی بھی شخصیات اس روئے زمین پر نمودار ہوتیں ہیں، اہل قلم ان کی زندگی کے سارے خوشنما گوشوں کو محفوظ نہیں کرپاتے، ان کی زندگی کے کچھ نقوش بطور مثال سامنے لائے جاتے ہیں، تاکہ اس شخصیت کے اخلاق، ادبیات، اور طریقہ عمل کی ایک جھلک قاری تاریخ کے سامنے واضح ہوجائے، یقینا ‌اس طرح کی سیاسی کامیابی میں ایسے ہزاروں لوگوں کی خاموش دعائیں ہوتیں ہیں، جنہیں یہ عادل حکمران ظالموں کے آہنی پنجوں سے آزاد کرتے ہیں، اور زوال پذیر شخصیات اور حکومتوں کے سقوط میں ایسے ہزاروں مظلوموں، اور کمزوروں کی آہیں ہوتی ہیں،‌ جو ظلم وجبر پر ایک مدت گزرنے کے بعد ہی سہی آسمانی بجلی بن کر گرتی ہیں، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی قائم کردہ یہ مملکت ہزاروں چیلنزوں، اور بد طینت حاسدین کی قاتل نگاہوں کے باوجود پہاڑوں کی طرح مخالفتوں کے سامنے اسی لئے آج ٹک‌ ڈٹی ہوئی ہے، کیوں کہ اس کی نیو عدل وانصاف کی اینٹوں پر رکھی گئی تھی، اور اس کی عمارت شریعت محمدیہ، نیز عقیدہ توحید کی بالادستی پر اٹھائی‌ گئ ہے، اللہ اس ملک کو قائم ودائم رکھے، اور یہاں کے حکمرانوں کو حق وصداقت، اور عدل وانصاف کا پیکر بنا کر رکھے، اور دور جدید کے فتنوں سے بچائے۔ آمین

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *