صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ ، اشرف استھانوی : کچھ یادیں کچھ باتیں

صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ ، اشرف استھانوی : کچھ یادیں ،کچھ باتیں

صادق جمیل تیمی

بہار کے ممتاز و بے باک صحافی ،درجنوں کتاب کے مصنف و مؤلف ،شاعر ، سماجی و سیاسی صلاح کار ، ہمارے رہنما جناب اشرف استھانوی صاحب کا آج انتقال ہوگیا۔
آپ ادب و صحافت کے درخشندہ ستارے تھے ، شاعری کے زلف و کاکل سے بھی واقف تھے ، صحافت کی عظیم وراثت کا حصہ تھے ۔ خوددار ، دیندار ایمانداراور اعلی اخلاق و کردار کے مالک تھے ۔
آپ مدارس کے طلبہ سے کافی شغف رکھتے تھے ،خصوصا تیمی برادران سے جنون کی حد تک محبت رکھتے تھے ۔ ہمارے مربی و پدر روحانی علامہ ڈاکٹر لقمان سلفی / رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم و بے لوث خدمات کا اکثر تذکرہ فرماتے تھے اور جامعہ اور بانی جامعہ کے سلسلے میں یہ ا شعار گنگناتے تھے :
نور حق شمع الہی کو جلایا تم نے
اپنے اخلاق سےگرویدہ بنایا تم نے
جتنے حفاظ ہوئے درسگاہ سے فارغ
ان کو دستار فضیلت سے سجایا تم نے
آج چمپارن کی دھرتی تمہیں کرتی ہے سلام !
اس کے ہر ذرہ کو ماہتاب بنایا تم نے

مولانا عبد السمیع جعفری کو پوری عقیدت کے ساتھ یاد کرتے تھے اور سابق گورنر بہار اخلاق الرحمن قدوائی کے سامنے مولانا کی حق گوئی و بیباکی کا ذکر کرتے تھے ۔ مولانا کی دینی خدمات کے معترف تھے۔
اسی طرح سابق امیرِ شریعت امارت شرعیہ بہار و جھارکھنڈ ، رحمانی -30 کے بانی مولانا ولی رحمانی کا دل سے احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں بتاتے تھے کہ بابو دیکھو کہ ولی رحمانی کس طرح خاندانی اعتبار سے عظیم تھے کہ ان کے دادا مولانا محمد علی مونگیری ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محرک و بانی و ناظم اول رہے ۔ یہ کہہ کر سرزمین بہار کے عظیم خوشہ چیں اور ان کے علمی کارنامے کی داد دیتے اور زندگی میں کچھ کر جانے کی تلقین فرماتے ۔
ہمیشہ پٹنہ آنے کی تلقین کرتے اور پر جوش ملاقات ضرور فرماتے تھے ۔ بہار کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہتے ، اردو بنگلہ ٹی ای ٹی ،گریس والے اور این آر سی کے خلاف کافی آوازیں بلند کیں ۔ بار بار فون کرکے کہتے کہ صادق بابو آپ کب شادی کریں گے؟ جلدی کریں میں ضرور اس میں آل فیملی شرکت کروں گا اور سہرا پڑھوں گا۔لیکن اس سے قبل ہی قفس عنصری سے روح پرواز کر گئی۔
ایک مرتبہ اپنے کارگاہ عمل سپول کی جامعہ اسلامیہ ریاض العلوم شنکرپور کے بانی و مؤسس شیخ اختر عالم سلفی / رحمۃ اللہ علیہ کی دینی و رفاہی اور تعلیمی خدمات کا تذکرہ کیا تو آپ آبدیدہ ہو گئے اور اپنے اوپر افسوس کیا کہ میں بارہا فاربس گنج گیا لیکن مجھے کسی نے نہیں بتایا کہ یہاں سے چند کیلو میٹر کے فاصلے پر یہ ادارہ واقع ہے ۔ ایک دفعہ جامعہ اسلامیہ ریاض العلوم کی زیارت کی خواہش ظاہر کی ۔ جشن ختم بخاری میں آمد کی پوری تیاری بھی کر لی گئی تھی لیکن لاک ڈاؤن کا خوں چکاں مرحلہ آگیا جس کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے ۔ فاربس گنج فساد کے مظلوموں کو انصاف دلانے میں پیش پیش رہے ۔
ہمیشہ کچھ نہ کچھ لکھنے پڑھنے کی تلقین کرتے اور خود کچھ مواد بھیج دیتے اور کہتے کہ اسے پورا کرکے بھیجیں ۔آپ کی معروف تصنیف صدائے جرس ( بہار کے لعل و گوہر) دینے کے آپ نے کہا کہ بابو اسے پوری پڑھ لیں اور تفصیلی تبصرہ فرمائیں۔
شنکرپور کا علمی آرگن مجلہ الفیصل جب آپ کے حوالے کیا تو کافی خوش ہوئے اور اپنی نیک دعاؤں سے نوازا۔
الغرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ادب کے ساتھ سماج سے بھی آپ کا کافی گہرا رشتہ رہا ۔دین سے بھی کافی شغف رہا ، عمر کے آخری ایام میں نحیف ہو گئے تھے ،گھر ہی رہتے اور تلاوت قرآن بڑے اہتمام سے کرتے تھے چوں کہ آپ قرآن کے حافظ بھی تھے ۔
اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے ۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *