مرد آہن ملک سعود بن عبد العزیز بن عبد الرحمن رحمہ اللہ

 

از ساجد ولی

ملک سعود بن عبدالعزيز بن عبدالرحمن بن فيصل بن تركي بن عبدالله بن محمد بن سعود بن محمد بن مقرن بن مرخان بن إبراهيم بن موسى بن ربيعة بن مانع بن ربيعة المريديّ۔۔۔( بن بكر بن وائل بني أسد بن ربيعة) رحمہ اللہ سنہ (1319 ـ 1388هـ) = (1902 ـ 1969 م) میں کویت کے اندر پیدا ہوئے, اسی سال آپ کے والد نے ریاض پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، اس عظیم تاریخی حادثے کے چھ ماہ بعد ہی آپ اپنے دادا عبد الرحمن اور دوسرے خاندان کے لوگوں کے ساتھ ریاض لوٹ آئے، آور اپنے والد محترم کے سایہ عاطفت میں اخلاق حمیدہ پر پرورش پانے لگے، آپ کے والد انہیں گھڑسواری بھی سکھاتے رہے، اور ادارتی اسالیب، ملکی سیاست کی تعلیم بھی دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ متعدد صلاحیتوں کے مالک جوان بن گئے، اب آپ ملک کے اتحاد، نیز تنظیم وتنسیق میں میں اپنے والد محترم کے دست وبازو بن گئے، آپ نے بہت ساری جنگوں میں شرکت کی، اور کئی فتنوں کا سر قلم کیا، یہاں تک کہ آپ کے والد ملک کو متحد کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
ملک سعود رحمہ اللہ کے لئے ھ ٢٧ / ٠١/ ١٣٥٢میں ولایت عہد کی بیعت لی گئی، آپ نے مسلح افواج کی ذمہ داری سنبھالی، اور پھر والد کی وفات کے بعد ھ٢/٣/١٣٧٣ میں آپ کے لئے بادشاہت کی بیعت‌ لی گئی، اس کے بعد بڑی ہمت وجواں مردی سے آپ نے ملک کی قیادت کی، اور تعمیر وتجدید کے قافلے کو آگے بڑھایا، ملک کے مختلف علاقوں میں بہت سارے پروجیکٹ، نئی شروعاتیں، اور ترقیاتی کاموں کی بنیادیں آپ ہی کے زمانے میں ‌مکمل کی گئیں، آپ کے زمانے میں ملک کو بڑی ترقی ملی، بالخصوص تعلیم کے میدان میں بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کئے گئے۔
اپنے عہد حکومت کے اخیر میں آپ علیل ہوگئے تھے، اور اپنے حکومتی معاملات کو اپنے بھائی فیصل کے حوالے کر دیا کرتے تھے، اس کی بنیاد پر حکمراں خاندان کے امراء اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ ملک سعود کو ان کی ذمہ داری سے معزول کر دیا جائے، اور ان کی زندگی ہی میں ان کے ولی عہد فیصل رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بادشاہت کی بیعت‌‌ کر لی جائے، یہ فیصلہ سنتے ہی ملک سعود نے اپنے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کی، اور خارج ملک چلے گئے۔
ملک سعود لگاتار اپنی وفات تک ملک سے باہر رہے، اور یونان میں سنہ ١٣٨٨ھ کے اندر آپ کی وفات ہوئی، آپ کی لاش کو ہوائی جہاز سے جدہ لایا گیا، بیت اللہ میں ملک فیصل کی امامت میں لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی، اور پھر وہاں سے آپ کو ریاض منتقل کیا گیا، اور العود قبرستان میں آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
تعلیم سے آپ کی دل چسپی:
ملک سعود رحمہ اللہ نے آپنے والد کے شروع کردہ ترقیاتی مشن کو جاری رکھا، اس لئے بلا امتیاز مملکت سعودی عرب کے سارے علاقوں میں مدارس کی کثرت ہو گئی، اور جب آپ نے سنہ ١٣٧٧ھ میں جامعہ الملک سعود کی تأسیس کا حکم دیا، تو اعلی تعلیم کے میدان میں غیر معمولی ترقی ہوئی، مملکت سعودی عرب میں قائم ہونے والی یہ پہلی یونیورسٹی تھی، اس نے بڑی ترقی کی، یہاں تک کہ آج یہ دنیا کی مشہور ترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے، اس کا بڑا شہرہ ہے، اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اس کا بڑا حصہ رہا ہے، یہاں سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین فارغ ہو کر اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں۔
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی تأسیس:
سنہ ١٣٨١ھ میں آپ رحمہ اللہ نے مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کی تأسیس کے لئے ابتدائی اقدامات اٹھائے، آپ نے لگاتار تین شاہی فرامین جاری کئے، جو جامعہ اسلامیہ کی تأسیس سے تعلق رکھتے تھے، پہلا فرمان جامعہ کی تأسیس، پھر دوسرا فرمان اس کے بنیادی ڈھانچے پر موافقت کے متعلق، اور تیسرا اس کی اعلی استشاری کمیٹی کے نظام سے متعلق تھا، ان فرامین کی تنفیذ بڑے محکم، پائیدار طریقے سے کی گئی۔
آپ رحمہ اللہ نے سنہ ١٣٨١ھ میں جمادی الثانی کے اندر دئے گئے ایک خطاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں اس یونیورسٹی کی‌ تأسیس کی توفیق دے کر ان پر بہت بڑا احسان کیا ہے، آپ نے کہا تھا: “‌ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے، کہ اس نے مدینہ منورہ میں اس یونیورسٹی کی تاسیس میں ہماری مدد فرمائی، اس کی تاسیس میں ہماری نیت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کی وحدت کا نشان امتیاز رہے گی، اور ان کی کھوئی ہوئی قوت وعزت کو حاصل کرانے میں مددگار ثابت ہوگی”.
اس یونیورسٹی کے قیام کے فرمان میں ان اسباب کی طرف بھی اشارہ تھا، جن کی بنیاد پر آپ کو اس کی تأسیس کا خیال آیا، وہ آسباب یہ تھے:
-دین کی جڑیں مضبوط کرنے، مشرق و مغرب کے اندر امت مسلمہ کی ترفی میں علم ‌کی نشر و اشاعت کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اس میدان میں آگے بڑھنا۔
-اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی رغبت۔
-علم ومعرفت کی ‌نشر و اشاعت کی ہمت افزائی کے لئے۔
– جیسا کہ جامعہ کی تأسیس کے معتمد ‌علیہ بنیادی نظام کے پہلے مادے میں اس بات کا ذکر ہے، کہ اس جامعہ کی تأسیس کا مقصد مملکت سعودی عرب سے اس میں داخلہ لینے والے طلبہ کو علم ومعرفت ‌کے‌ زیور سے آراستہ کرنا ہے، اور یہ بھی مد‌نظر ہے کہ مسلم ممالک سے یہاں داخلہ لینے والے طلبہ دین میں تفقہ حاصل کریں، شرعی وعربی علوم کی معرفت حاصل کریں، بعض اجنبی زبانوں کی مہارت حاصل کر دینی اصول وفروع میں بصیرت پیدا کریں، بحث و مناظرہ کے طریقے سیکھیں، تاکہ وہ دین کے داعی بن سکیں، حق کے مددگار ثابت ہو سکیں، محاضرے ودروس پیش کر سکیں، اہل الحاد کا رد کر سکیں، دین کا دفاع کر سکیں، مسلمانوں کے دینی و دنیاوی معاملات میں جو مشاکل سامنے آئیں، وہ انہیں بخوبی حل کر سکیں۔
گر آپ کی لگاتار دیکھ ریکھ، اور خصوصی توجہ نہ ہوتی تو کبھی بھی یہ مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے تھے۔
جاری۔۔۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *