وقف، معنی و مفہوم-ایک تجزیاتی مطالعہ

*وقف، معنی و مفہوم-ایک تجزیاتی مطالعہ*
*Waqf Terminology, Meaning and Definition-An Analytical Study*
✍Mohd.Mubarak Madni,
Welfare Officer, HWB.
Part-3 قسط3
__________________________
2.2 *فقہ مالکی Maliki Jurisprudence کے مطابق وقف کی اصطلاحی تعریف* :
مواهب الجليل ، شرح الخرشي کے مولفین رقمطراز ہیں کہ فقہائے مالکیہMaliki Jurists کے مطابق وقف کی تعریف میں امام خلیل مالکی لکھتے ہیں : *” جعل الملك منفعة مملوكة، ولوكان مملوكا بأجرة، أو جعل غلاة كدراهم لمستحق بصيغة مدة ما يراه المحبس”* ترجمہ! کوئی اپنی ملکیت کے منافع خواه اجرت ہو یا پیداوار اسکو درہم کی طرح جتنی مدت کے لئے چاہے کسی مستحق کو دیدے ۔)
امام ابن عرفہ مزید کہتے ہیں : *”هو إعطاء منفعة شيء مدة وجوده لازما بقائه في ملك معطيه ولو تقديرا “*. ترجمہ! کوئی اپنی ملکیت کے منافع ہمیشہ کے کسی مستحق کو دیدے، اور مال موقوف کا مالک(Owner) واقف ہی رہے, چاہے عارضی ہی کیوں نہ ہو)۔
اس تعریف سے ثابت ہو تا ہے کہ مالکی مسلک میں صرف منافع دۓ جاتے ہیں. اصل مال واقف ہی کی ملکیت (Ownership) میں رہتا ہے ۔ اس کو امام ابو حنیفہ کی طرح اعارہ ( Rent) یعنی ادھار نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس لئے کہ ”مدة وجودہ “ کے الفاظ ثابت کر تے ہیں کہ جب تک وہ (مال موجود رہے) اس کے منافع مالک(Owner) کو نہیں ملیں گے۔ ادھار میں یہ شرط نہیں ہوتی۔ بلکہ کچھ وقت بعد ادھار میں دیئے گئے مال کے منافع بھی اصل مالک کو واپس مل جاتے ہیں ۔
مالکیہ کے مطابق وقف لازم ہے ۔ ایک بار وقف کرنے کے بعد ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ یعنی ہمیشہ وقف ہی رہیگا *ایک قول کے مطابق* ۔ جبکہ امام خلیل مالکی کے مطابق تابید یعنی ہمیشہ کے لئے وقف کیا جائے یہ ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ ایک معین مدت کے لئے بھی وقف کیا جا سکتا ہے ۔
امام ابو حنیفہ کی طرح مالکیہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ موقوف کا مالک(Owner) واقف ہی رہیگا ۔ مگر مالکیہ کے مطابق واقف کو کسی بھی طرح کا تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا ۔ جبکہ ابو حنیفہ کے نزدیک تصرفات مثلا بیع(sale)، ہبہ(gift)، اور میراث (mortgage)کی تقسیم کا اختیار دیا گیا ہے ۔
___________________________
2.3 *فقہ شافعی اور فقہ حنبلي کے( Shafie and Hambli Jurisprudence) مطابق وقف کی اصطلاحی تعریف* :
امام طبری شافعی-رحمہ اللہ- اپنی کتاب “شرح المزنی” میں لکھتے ہیں کہ وقف کہتے ہیں : *”تحبيس الأصل وتسبيل المنفعة”* ترجمہ! اصل مال کو وقف کردینا اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو صدقہ کردینا)۔
فقہ شافعی کے نامور امام ماوردی، امام بغوی، امام رافعی اور امام شربینی-رحمہم اللہ جمیعا- وقف کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :*”حبس مال یمکن الانتفاع به مع بقاء عينه، بقطع التصرف في رقبته على مصرف مباح موجود”*.
ترجمہ! وقف ایسے مال کو روکے رکھنے کا نام ہے جس سے نفع اٹھانا ممکن ہو، مگر اصل مال باقی رہے ۔ اور اس کا مصروف موجود اور جائز ہو )۔
امام یحی بن شرف الدین نووی اور امام مناوی-رحمہم اللہ- مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ مال موقوف کے اندر تصرف کرنے کا اختیار واقف کو نہیں رہتا ہے ۔ یعنی مال موقوف کی بیع(sale) جائز نہیں نہ ہبہ(gift)اورمیراث(mortgage)
میں انتقال سب ناجائز ہے۔
___________________________
2.4 *ابن قدامه الحنبلي (Humbali Jurist)* اپنی کتاب “المغنی میں وقف کی تعریف میں رقمطراز ہیں : *” تحبيس الأصل وتسبيل الثمرة أو المنفعة “* ترجمہ! کسی مال کو وقف کردینا اور اسکی پیداوار یا اس سے حاصل ہونے والے فائدہ کو صدقہ کردینا وقف کہلاتا ہے)۔
یہی الفاظ اللہ نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ جب حضرت عمر-رضی اللہ عنہ- نے مال غنیمت میں حاصل ارض خیبر کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے کہا تھا ” إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها۔ غير أنه لا يباع أصلها ولا يوهب ولا يورث “ (رواہ البخاری ومسلم)
ترجمہ! آپ چاہو تو زمین کو روکے رکھو (یعنی وقف کردو) اور اسکی پیداوار کو صدقہ کردو۔ وقف کرنے کے بعد اس کو نہ تو بیچنا (sale) جائز ہوگا۔ اور نہ ہی ہبہ(gift) اور میراث (mortgage)میں انتقال جائز ہوگا بلکہ تمام تصرفات ناجائز ہونگے۔
فقہائے شافعیہ اور فقہائے حنابلہ اور اسی طرح فقہائے احناف کے مفتی بہ قول امام محمد اور امام یوسف کی تعریفات کے تجزیاتی مطالعہ اور علماء کے راجح اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ انکے مطابق مال موقوف کی ملکیت (Ownership) اللہ تعالی کے نام منتقل ہو جاتی ہے ۔ اور واقف کے لئے تمام قسم کے تصرفات ناجائز ہوتے ہیں ۔ ان کے مطابق وقف کا مالک صرف اللہ رب العالمین ہے۔ ___________________________ 2.5 *فقہ شیعہ (Shia’a Jurisprudence)کے مطابق وقف کی تعریف*
اس موضوع پر شیعہ فقہ کا موقف جاننا اس لئے بھی ضروری ہے، کہ ہندوستان کے اندر کافی جائیداد شیعہ وقف ریکارڈ میں درج ہیں ۔ اسی لئے ہندوستان کے وقف قانون(Waqf laws) میں وقف بورڈوں کی تشکیل میں شیعہ بورڈ یا ایک شیعہ ممبر کا ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
ابو جعفر الطوسی اپنی کتاب ” المبسوط فی فقہ الامامیہ” میں وقف کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ : “الوقف هو تحبيس الأصل وتسبيل المنفعة ” جبکہ ” مفتاح الکرام فی شرح قواعد العلامہ السید العاملی ” میں بریانی یہی تعریف لفظ “عقد ” کے اضافہ کے ساتھ منقول ہے ۔
مذکورہ تعریف کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہیکہ شیعہ فقہ کے اندر بھی وقف کی تعریف جمہور سنی فقہاء کے مطابق ہی ہے ۔
___________________________
2.6 *وقف کی راجح تعریف: Preferable Definition of Waqf*
دیگر محققین علماء کرام(Prominent Muslim Scholar) کی آراء اور مذکورہ تعریفات کے مطالعہ کے بعد میں بھی اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ جمہور فقہاء (Majority of Jurists of Islamic Jurisprudence) کے قول کے مطابق وقف کی جامع اور مانع تعریف یہ ہے کہ:
*”حبس العين على حكم ملك الله تعالى والتصدق بالمنفعة على جهة البر ابتداء أو انتهاء فقط”*
ترجمہ! اصل مال کو اللہ تعالی کی ملکیت (Ownership)میں منتقل کردینا *شروع میں یا آخر میں*، اور اس سے حاصل شدہ فائدہ کو خیر و بھلائی (pious and charity) کے اس مصرف میں خرچ کردینا جس کے لئے وقف کیا گیا ہے ۔
*نوٹ:*
تعریف میں موجود لفظ *”ابتداءا أو انتهاءا” ترجمہ! شروع میں یا آخر میں”* کے الفاظ ایک فقہی اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔ جس کو ماہرین فن جانتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہیکہ واقف نے اپنی جائیداد کو اللہ کی ملکیت میں چاہے شروع یعنی وقف کرتے وقت کی منتقل کر دیا ہو یا پھر شروع میں اولاد کے نام وقف کیا ہو یا کسی رشتہ دار یا اپنے ہی نام رکھا ہو اس شرط کے ساتھ کہ مرنے کے بعد یہ جائیداد “انتھاءا ” یعنی آخر میں اللہ کے نام وقف کہلائے وغیرہ ۔ چنانچہ کوئی بھی جائیداد اس ان الفاظ کے ساتھ وقف شمار کی جائیگی. مستقل کسی مضمون میں اس کی مزید تفصیل بیان کی جائیگی ۔ ان شاء اللہ۔
*(Contd……جاری)*

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *