نام : محمد کیف مرزا
مدرسہ فاروقیہ ، گوونڈی ، ممبئی
تاریخ انسانی میں آج تک کوئی ایسی شخصیت نہیں گزری جسے ہر روز یاد کیا جاتا ہو چاہے وہ اپنے وقت کا کتنا ہی بڑا بادشاہ ، فاتحہ ، مذہبی پیشوا ، فلسفی ، سائنسداں رہا ہوں – جن متکبر بادشاہوں نے خدائی دعویٰ کیا اور انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے کبھی ان کا ذکر کیا بھی جاتا ہے تو لعنت و ملامت کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ بندے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو قرآن مجید کے مطالعے کے دوران ادب و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے – انسانی تاریخ میں ہرروز ، ہر جگہ ، بار بار ،مسلسل، کسی شخصیت کو یاد کیا جاتا ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے
اللہ تبارک و تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منصب نبوت پر فائز کرنے کے بعد یہ بشارت دی : ورفعنا لك ذكرك ؛ ترجمہ (اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند فرما دیا) بشارت اس وقت دی گئی جب صرف چند مٹھی بھر افراد نے اسلام قبول کیا تھا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مکہ کی گلیوں سے نکل کر نہ صرف جزیرہ عرب بلکہ پوری دنیا میں گونجتا رہے گا
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٢٠/اپریل ریل ٥٧٠/ عیسوی بمطابق ٩/ ربیع الاول بروز پیر مکہ شہر قریش کے خاندان بنو ہاشم میں پیدا ہوئے- آپ کے والد حضرت عبداللہ کا آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو چکا تھا – جب آپ کی پیدائش ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ بی بی آمنہ غم سے نڈھال تھی – کچھ عرصہ کے بعد بی بی آمنہ بھی وفات پا گئیں آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب پر آگئی –
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدائش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب بے حد خوش ہوئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے چہیتے بیٹے کی اولاد تھے- آپ کے دادا نے آپ کا نام “محمد” رکھا جو کہ اس زمانے میں بالکل عام نہیں تھا – محمد کے معنی ہے جس کی تعریف کی جائے – جب حضرت عبدالمطلب سے یہ نام رکھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا “میرے پوتے کی تعریف پوری دنیا بیان کرے گی” یہ بات ایسی سچ ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام رہتی دنیا تک کے لئے زندہ و جاوید ہو گیا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ غیر مسلموں نے بھی بیان کی- حضرت عبدالمطلب بھی زیادہ عرصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی ذمہ داری نہ نبھا سکے اور انتقال فرما گئے – اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے اٹھا لی – اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تقریبا آٹھ برس تھی – حضرت ابو طالب کی اپنی بہت سی اولاد تھی مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب میں زیادہ عزیز رکھتے تھے –
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک تھے اور اپنی اچھی عادات کے بنا پر بچپن ہی سے ہر دل عزیز تھے – سنت انبیاء کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو عمری میں بکریاں چرانے کا کام کرتے تھے – جب بکریاں چرانے جاتے تو تنہائی میں عرب کے لوگوں کی حالت زار پر غور کرتے اور افسوس کرتے تھے – رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل عرب کی حالت بدلنا چاہتے تھے چالیس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل عرب کی حالت بدلنے کی خواہش شدت اختیار کر چکی تھی – آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ تر وقت غار حرا میں گزرتا خاص طور پر ماہ رمضان میں – وہی ایک روز جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی – اس کے بعد نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کی حالت بدل گئی – حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کو پالیا اور اس کے حکم سے دین کی تبلیغ شروع کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین قرار پائے –
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/