179
*عظیم آباد میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی کتاب پر علمی وادبی مذاکرہ*
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی ، پٹنہ
رابطہ نمبر: 9199726661
اردو کے چند دبستانوں میں دبستانِ عظیم آباد کو کئی اعتبار سے مرکزیت حاصل ہے۔ یہاں زمانہ قدیم سے ہی متعدد تنظیموں معرض وجود میں آتی رہی ہیں۔ان دنوں اردو کے مؤقر روز نامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید کی قیادت میں” اردو ایکشن کمیٹی ” اور ڈاکٹر اسلم جاوداں کی نظامت میں ” اردو کونسل ہند” اردو کی بقاء، تحفظ اور فروغ کے لیے کافی سرگرم ہیں ۔آخرالذکر تنظیم کے زیر اہتمام پچھلے نو دس مہینوں سے ” ادبی گفتگو” کے زیر عنوان ہر مہینہ ایک علمی و ادبی محفل کا انعقاد عمل میں آتا ہے جس میں دبستانِ عظیم آباد کے مشاہیر ادب شرکت کرتے ہیں اور کسی ادبی کتاب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اردو کونسل ہند کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں مجھے بھی نئی نسل کی نمائندگی کے لیے اپنی شفقتوں اور محبتوں سے نوازتے ہیں اور ہدایت بھی دیتے ہیں کہ اس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں، چنانچہ جناب والا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے عظیم آباد کے ادبی ستاروں کی اس انجمن میں اپنی حاضری کو یقینی بناتا رہتا ہوں اور اس کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں نیز اپنے لیے باعثِ اعزاز و افتخار بھی گردانتا ہوں۔میں ڈاکٹر اسلم جاوداں کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ اردو کی بقاء، تحفظ اور فروغ کے لیے اتنی علمی و ادبی محافل کا انعقاد بڑی خوبصورتی کے ساتھ عمل میں لاتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے یہ محافل جہان اردو کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح کی محافل کا انعقاد اردو کے ہر دبستان میں ہی نہیں ہر شہر میں ہونا چاہیے اور ارباب اردو زبان و ادب کو اس کی تقلید و پیروی کرنی چاہیے۔ بہرحال! اسی سلسلۃ الذہب کی نویں کڑی کا شاندار انعقاد مورخہ 20/نومبر /2022 کو بہار پبلک سروس کمیشن کے معزز رکن و عظیم محب اردو محترم امتیاز احمد کریمی کی سرکاری رہائش گاہ، واقع چتکوہرا، پٹنہ میں عمل میں آیا جس میں پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی مشہور زمانہ کتاب ” مطالعات فکشن ” پر علمی، تحقیقی و تنقیدی مباحثہ ومذاکرہ ہوا اور مختلف زاویے سے اس کا جائزہ لیا گیا۔ محفل میں صاحب خانہ، اردو دوست و اردو نواز جناب امتیاز احمد کریمی نے اپنی جانب سے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، معروف صحافی ایس ایم اشرف فرید اور مشہور صحافی بھائی راشد احمد کو ان کی اردو میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں شال پوشی کی اور ان سبھی کو گلہائے عقیدت و محبت بھی پیش کیا۔ جناب کریمی بڑے خلیق، ملنسار، منکسرالمزاج اور مہمان نواز بھی ہیں جس کا ماقبل کئی لوگوں کی زبانی سن رکھا تھا، مگر اس روز بچشم خویش میں نے اس کا مشاہدہ بھی کیا۔ کیا غضب کی ڈشیں تیار کروا رکھی تھیں۔ دل کھول کر نوع بنوع لذیذ پکوان سے شرکائے محفل کی ضیافت کی۔ کئی دن گزر جانے کے بعد بھی عالم یہ ہے کہ:
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اس ادبی محفل میں معروف فکشن نگار شفیع مشہدی، پروفیسر علیم اللہ حالی، قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم اشرف فرید، مدیر ایس ایم طارق فرید ، پروفیسر جاوید حیات، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، امتیاز احمد کریمی، مشتاق احمد نوری، ڈاکٹر قاسم خورشید ، پرویز عالم ، محمد معزالدین، ڈاکٹر حامد علی خان، ڈاکٹر محسن رضا رضوی، ڈاکٹر نسیم، ڈاکٹر سرور عالم ، ڈاکٹر آصف سلیم، صحافی راشد احمد ، امتیاز کریم ، ڈاکٹر فردالحسن فرد، ڈاکٹر اسلم جاوداں، ڈاکٹر انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر محمد منہاج الدین سمیت کئی علمی وادبی شخصیات کے ساتھ احقر ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی کو بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور مذکورہ کتاب کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ تمام باحثین نے مختلف زاویے سے کتاب اور صاحب کتاب کے حوالے سے عالمانہ انداز میں اپنے اپنے نظریات اور تأثرات کا اظہار کیا، خوبیوں کو سراہا اور ان کی ستائش کی نیز کتاب میں در آئی بعض کمیوں کو بھی نہایت بیباکی سے اجاگر کیا۔ ساتھ ہی فاضل مصنف ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کو فکشن کا ایک اچھا ناقد تسلیم کیا اور ان کی زیر بحث کتاب ” مطالعات فکشن” کو فکشن کی تنقید کے حوالے سے ایک بہترین کتاب قرار دیا۔ اس محفل کو یادگار اور تاریخی حیثیت کی حامل کہا جاسکتا ہے۔ زیر بحث کتاب کے حوالے سے میں نے چند سطور قلمبند کر رکھی ہیں، جن کا بعض حصہ مذکورہ ادبی محفل میں پیش کیا تھا۔ افادہ عامہ کی غرض سے اس کا مکمل حصہ ذیل میں پیش ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ، پٹنہ عصر حاضر میں اردو زبان وادب کا ایک اہم و مستند نام ہے، بالخصوص نقادوں اور فکشن نگاروں کے درمیان وہ منفرد شناخت و حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ان کے علمی و ادبی مضامین ملک و بیرون ملک کے رسائل و جرائد میں نہایت اہتمام سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ” اردو ناول کے اسالیب” ، ” اردو کے نثری اسالیب”، ” فرات – مطالعہ،محسابہ”، ” صالحہ عابد حسین- فنی اور فکری جہات “، “جہان فکشن” ، ” متن اور معنیٰ” اور ” مطالعات فکشن ” شامل ہیں۔اردو ڈائرکٹوریٹ،محکمہ کابینہ، حکومت بہار کے مالی تعاون سے 2018 میں یہ کتاب منظر عام پر آئی تھی۔ اس میں 256 صفحات ہیں۔ اس کا ٹائٹل نہایت پرکشش و جاذب نظر ہے، بلکہ یہ کہاجائے کہ یک نگاہ میں قاری کو بھا جانے والا اور پوری کتاب کی قرأت پر مجبور کردینے والا ہے۔اردو فکشن کی تفہیم کے لیے یہ کتاب بہت ہیں سودمند اور نافع ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر
جب میں نے اس کی قرأت شروع کی تو سب سے پہلے فلیپ کے اوپری حصے پر عاصم شہنواز شبلی کے کئی قطعات پر نظر پڑی جن میں انہوں نے ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی علمی، صحافتی، ادبی اور تنقیدی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کیا ہے اور ان کی مختلف خصوصیات و کمالات کی عکاسی وترجمانی عقیدت و محبت کے پیکر میں ڈھل کر احسن طریقے سے کی ہے۔ ذیل میں وہ قطعات نذر اہل نظر ہیں :
امواج سمندر کا شناور ہے شہاب
افکارِ گہرریز کا مظہر ہے شہاب
تنقید سمن ریز رہی ہے جس کی
تخلیق سے بھرپور ہے، ضوگر ہے شہاب
——-
نقاد، محقق کہ صحافی ہے شہاب
اردو کا جواں سال سپاہی ہے شہاب
فرہنگ ادب کا ہے یہ تازہ گوہر
اسلاف کے قدروں کی نشانی ہے شہاب
———
تہذیب قلم کے ہو نگہدار شہاب
تنقید وتحقیق میں ضو بار شہاب
ہے رونق محفل بھی تمہاری ہی ذات
اسرارِ معانی کے طلب گار شہاب
——–
زرتابئ جوہر کا امین ہے کہ شہاب
فکشن کے جہانوں کا مکین ہے کہ شہاب
ہے نقد ونظر میں بھی وہ منصف ایسا
دلدارئ مظہر کا یقین ہے کہ شہاب
——
افسانے کی تعبیر بتاتا ہے شہاب
ناول کی بھی تصویر دکھاتا ہے شہاب
نازاں ہوئی جاتی ہے زبان تنقید
فن پارے کی توقیر بڑھا تا ہے شہاب
فلیپ کے نچلے حصے پر پروفیسر عبد المنان طرزی کا ایک عقیدت مندانہ منظوم کلام ہے جس میں انہوں نے اپنے روایتی، مگر مخصوص لب و لہجہ میں ڈاکٹر شہاب ظفر کی شش جہت شخصیت، عظمت ورفعت، علمیت و قابلیت، مشغولیت و مصروفیت اور علمی، صحافتی و ادبی خدمات کو بیانیہ اسلوب میں واشگاف کیا ہے۔ آئیے لگے ہاتھوں ہم سب اس نظم کو گنگناتے ہیں :
شہاب ہی کو ظفر اعظمی بھی کہتے ہیں
چمن کھلا جو سدا آگہی کا رکھتے ہیں
زبان اردو و انگلش کہ فارسی کہیے
تو ان کو واقف ہندی وعربی کہیے
جو جامعات میں صوبے کے، پٹنہ ہے اوپر
اسی خزانے کا بے شک شہاب ہیں گوہر
یہ شش جہاتی ہیں بے شبہ اپنے شعبے کے
کہ چھ طرح کے امور اور بھی ہیں نبٹاتے
کئی طرح کے ہیں اعزاز سے نوازے گئے
کئی انعام بھی بے شبہ مقتدر پائے
جناب والا کی ہیں چھ کتابیں مطبوعہ
جو ان کے گوہر دانش کا بھی ہیں گنجینہ
خدانے بخشی ہے دولت جو علم و دانش کی
تو علم جو یوں کی پاس ان کے بھیڑ ہے رہتی
یہ اتنا وقت کہاں سے نکال لیتے ہیں
نکات خاص کے سکے بھی ڈھال لیتے ہیں
ہنر بھی آتا ہے اک خاص بات کہنے کا
طریقہ آتا ہے سمجھنے کا، تو بتانے کا
ہو ورک شاپ کہ سمپوزیم کہ سمینار
ہر ایک بزم کا بن جاتے ہیں مہ انوار
وہ آج ناقد افسانہ حق شعار ہیں ایک
وہ آج ناقد ناول بھی پختہ کار ہیں ایک
کتاب کا انتساب معروف ادیب پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نام بایں سطور معنون ہے :
” اردو فکشن کے نباض پروفیسر گوپی چند نارنگ کے نام
ہم سمجھے ہم نے مدح کے دریا بہادیئے
کیا ہوگیا جو بحر میں قطرے ملادیئے “
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنے اس مجموعئہ مضامین کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ” اختصاص ” ، ” امتیاز ” اور ” انفراد”۔ اول الذکر حصہ میں پانچ تحقیقی وتنقیدی مضامین ہیں، جن میں “اردو ناول ترقی پسند تحریک سے قبل ” ، “اکیسویں صدی میں اردو ناول- ایک تنقیدی مطالعہ”، ہم عصر اردو افسانہ کے فکری سروکار”، تانیثیت اور اردو کی نئی افسانہ نگار خواتین”، اور ” اردو افسانہ کے چند اہم دلت کردار ” شامل ہیں۔ ثانی الذکر حصہ میں دس مضامین ہیں جن میں ” کرشن چندر کے ناولٹ – انفراد وامتیاز “، ” بلونت سنگھ افسانوی اختصاص “، شین مظفرپوری کے افسانوں کی عصری معنویت”، ” انتظار حسین اردو ان کی سبز پنکھیا”، ” مشتاق احمد نوری-انسانی نفسیات کا نباض “، ” لالی چودھری کے افسانوی میں تہذیبی انجذاب و انحراف”، “احمد صغیر کے افسانوں میں دلت ڈسکورس”، ” بلراج بخشی اور ان کے افسانے “، صادقہ نواب کی افسانوی سحر کاری” اور ” اوراقِ دل پر لکھی سلمیٰ صنم کی حکایتیں” شامل ہیں۔ ثالث الذکر حصہ ” انفراد ” میں گیارہ مضامین ہیں جن میں “پڑاؤ”، ” حسرت تعمیر”، ” مکان”، ” عیدگاہ سے واپسی”، ” تخم خوں”، ” رات کا منظر نامہ “، ” اندر کی باتیں”، ” لفظوں کا لہو “، ” ننگی آوازوں کی گونج”، ” ریت پر کھینچی ہوئی لکیر ” اور ” مہاپرش کے بعد ” شامل ہیں۔
اردو ناول – ترقی پسند تحریک سے قبل بہت ہی مبسوط مضمون ہے جو صفحہ 11 سے 74 تک پھیلا ہوا ہے۔ فاضل مصنف نے اس میں اس بات پر مہر ثبت کی ہے کہ داستانیں اگرچہ انیسویں صدی کے اخیر تک لکھی جاتی رہی ہیں، مگر ان کے شباب کا زمانہ 1857 سے قبل تک ہی رہا ہے۔ ان کے بقول مافوق الفطرت قصوں اور مرصع ومزین تحریروں کا دور بہت لمبا نہیں چل سکا کیونکہ 1857 کے انقلاب نے زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب پیدا کر دیا۔ لوگ خیالوں کی دنیا سے باہر نکالے اور خود کو حقیقت کی دنیا سے ہم آہنگ کیا۔ بالخصوص مسلمانوں نے شکست کھانے کے بعد زندہ رہنے اور زندگی گزارنے کے آداب سیکھے۔ سیاست کا شعور اپنے اندر پیدا کیا اور انفرادی و اجتماعی زندگی کو نکھار نے، سنوارنے کے خیالات دلوں میں جاگزیں ہوئے۔ روشن خیالی عام ہوئی اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے تصورات پھیلنے لگے۔ ادب اور زندگی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے، اس لیے زندگی کی تبدیلی یہ اشارہ کر رہی تھی کہ ادب میں تبدیلی آنی چاہیے۔1857 کے بعد نئے طرز فکر، نئے تصورات اور نئے خیالات نے کہانی کو نئی شکل میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔اسی مطالبے اور کہانی کی مقبولیت کو پیش نظر رکھ کر ہندستانی ادیبوں نے زندگی کی حقیقتوں اور سماجی سچائیوں کو قصوں میں سمونا شروع کیا اور ایک نئی صنف “ناول” سے متعارف کرایا۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے لفظ ” ناول” اور اس کے اجزائے ترکیبی پر محققانہ گفتگو کی ہے۔ ان کے بقول اگرچہ ” ناول “کا لفظ اور اس کی ہیئت انگریزی ادب کے ذریعہ ہندوستان آئی لیکن اصل میں ہندوستان کے وہ مخصوص حالات ہی تھے جنہوں نے یہاں کے ادیبوں کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ اپنی باتوں کو دلائل سے مستحکم بناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو 1857 سے پہلے بھی کسی ہندوستانی زبان میں ناول پایا جاتا کیونکہ انگریزی تعلیم اور کالج کا قیام 57 سے بہت پہلے ہو چکا تھا جبکہ ہندوستان میں پہلا ناول 1866 میں مراٹھی زبان کے ادیب تلجا شنکر نے ” کرن گھیلو ” کے نام سے لکھا تھا۔ یہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ غدر کے بعد جب زندگی پوری طرح تبدیل ہو گئ اور نئے حالات مستحکم ہوئے تو ناول نگاری نے سماج میں اپنی جگہ قائم کی۔ انہوں نے ایک جدید نقاد کے حوالے سے پلاٹ، قصبہ، کردار، ماحول، مکالمہ، فنتاسی، اسلوب بیان، نقطۂ نظر، جذبات نگاری، زبان، تکنیک اور کہانی پن کو ناول کے عناصر ترکیبی میں شمار کیا ہے۔ انہوں نے پرزور طریقے سے یہ بات بھی کہی ہے کہ ہیئت کو ” میکانکی عمل ” نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ناول نگار ہیئت کے مسئلے کو اپنے اعصاب پر سوار کرلے تو ممکن ہے کہ بہت اچھا ناول بھی دلچسپی کے عنصر سے خالی ہوجائے۔ مثال کے طور پر “فسانئہ آزاد” میں ہیئت کا اتنا خیال نہیں رکھا گیا ہے مگر دلچسپی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ نذیر احمد اور راشد الخیری وغیرہ کے ناول ہیئت کے چند تقاضوں سے ماورا ہوتے ہوئے نیز فنی کمزوریوں کے حامل ہونے کے باوجود ناول کا شرف رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا اولین ناول نگار قرار دیتے ہوئے ان کے سات ناول “مرأۃ العروس”،” بنات النعش”، ” توبتہ النصوح”، “فسانہ مبتلا”،” ابن الوقت”،” ایامی” اور “رویائے صادقہ” کا مختلف جہات سے جائزہ پیش کیا ہے۔ جابجا ان ناولوں کے خوبصورت اقتباسات سے مضامین کو مزین کیا ہے۔ ان میں پائی جانے والی بعض فنی کمیوں و خامیوں کی نشاندہی کی ہے، مگر ان کا دفاع بھی کیا ہے۔ وہ رقمطراز ہیں:
” نذیر احمد اردو کے اولین ناول نگار ہیں اس لیے ان کے ناولوں میں فنی نقائص نہ ہوں ایسا نہیں ہوسکتا۔ مگر کسی قصے کو ناول کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے جو عناصر ضروری ہیں، نذیر احمد کے ناول ان سے خالی نہیں۔ مثلاً ناول کو اس آئینے سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں جیتی جاگتی دنیا کا عکس نظر آئے، یعنی ناول نام ہے زندگی کی تصویر کشی کا۔ نذیر احمد کے ناول اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ زندگی اور معاشرے کی تصویر کشی وہ اس کامیابی سے کرتے ہیں کہ پڑھنے والوں کو اس پر اکثر اپنے گھر اور اپنے ماحول کا گمان گذرا ہے اور ان کے کرداروں کی تلاش لوگوں نے دلی کی گلیوں میں کی ہے۔ ان کے ناولوں میں مسلمانوں کے اس اہم دور کی معاشرت کی سچی تصویریں پائی جاتی ہیں اور اس عہد کی ذہنیت، سماجی تصورات اور معاشرتی نظریات کے بہترین مرقعے ملتے ہیں۔ ان میں حقیقت نگاری کے علاوہ فنی اعتبار سے ناول کے دیگر عناصر بھی بتدریج پیدا ہوتے گئے ہیں۔ “مرأۃ العروس “اور” بنات النعش”میں، اس سے زیادہ ” توبتہ النصوح” اور ” ابن الوقت ” میں اور پھر ان سب سے بڑھ کر ” فسانہ مبتلا ” اور ” ایامی ” میں ہمیں آہستہ آہستہ وہ سارے خد وخال دکھائی دینے لگتے ہیں جن سے ناول کے پیکر کی تخلیق وتعمیر ہوتی ہے۔ “(ص18)
مصنف نے خواجہ الطاف حسین حالی، شاد عظیم آبادی اور نواب افضل الدین احمد کو ڈپٹی نذیر احمد کے معاصرین میں قابلِ ذکر ناول نگار شمار کیا ہے۔ حالی کے ناول ” مجالس النساء ” کو نذیر کی کتاب ” بنات النعش ” کے طرز کا اصلاحی ناول بتایا ہے اور دونوں کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس (مجالس النساء) کی زبان دلی کی بیگماتی زبان ہے اور سادہ ہے، مگر نذیر کی طرح دلچسپ نہیں۔ ہاں مکالمہ نگاری کا فن حالی کے پاس نذیر احمد سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے سید علی محمد شاد عظیم آبادی کے ناول ” صورت الخیال ” کو بھی اصلاحی بتایا ہے ۔ ساتھ ہی اس کو حالی کے “مجالس النساء” سے ہر اعتبار سے بہتر قرار دیا ہے۔ ان کے بقول کہیں کہیں نثر اور کردار کے اعتبار سے نذیر احمد پر بھی فوقیت حاصل کرگئے ہیں۔زبان اور اسلوب کے اعتبار سے یہ مجالس النساء سے اہم ناول ہے اور شاد کو بحیثیت نثر نگار بھی اردو دنیا میں ایک خاص مقام دلانے کی قوت رکھتا ہے۔مصنف موصوف نے منشی سجاد حسین ایڈیٹر ” اودھ پنج ” کے ناول “حاجی بغلول”، “احمق الذی”، “کایاپلٹ” اور “میٹھی چھری ” پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے زیادہ تر نقادوں کے اس خیال کو مسترد کردیا ہے کہ سجاد حسین صرف ایک مزاحیہ ناول نگار تھے۔ ان کے مطابق سجاد کے سبھی ناولوں میں” حاجی بغلول ” ہی مکمل طور مزاحیہ ناول ہے اور اس اعتبار سے سجاد حسین کو مزاحیہ ناولوں کا موجد قرار دیا جاسکتا ہے جن کی اقتدا کرکے عظیم بیگ چغتائی اور شوکت تھانوی وغیرہ نے ادب میں اہم مقام حاصل کیا۔
ڈاکٹر شہاب نے پنڈت رتن ناتھ سرشار کو ایک مخصوص لب و لہجے کا اہم ناول نگار اور ” فسانہ آزاد” کو ان کا شاہکار کے ساتھ ساتھ پورے اردو ادب کا اہم ناول بتایا ہے۔ ان کے بقول ” فسانہ آزاد ” میں سرشار کی منظر نگاری اور جزئیات نگاری درجہ کمال کو پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے عبد الحلیم شرر کے ناول ” فردوس بریں “، ” ایام عرب ” اور “مینا بازار ” پر فاضلانہ گفتگو کی ہے۔ان کے بقول فردوس بریں میں مصنوعی جنت کی منظر کشی پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ ایام عرب میں جنگ شجاعت وبہادری کی لاجواب تصویریں انگشت بدنداں کردیتی ہیں جبکہ مینا بازار میں خواتین کے حسن وجمال اور وہاں کی منظر نگاری جس خوبصورت اور دل آویز طریقے سے کی گئی ہے وہ ہماری آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول ” امراؤ جان ادا “، “شریف زادہ”، ” ذات شریف “،” اختری بیگم”اور” افشائے راز” کو ان کا اہم ناول بتایا ہے۔ ساتھ ہی لکھا ہے کہ ” امراؤ جان ادا ” وہ واحد لاثانی اور لافانی شاہکار ہےجس نے اردو دنیا میں مرزا رسوا کو حیات جاودانی عطا کی۔
فاضل قلمکار نے منشی پریم چند کے ناول “اسرا معابد” سے لے کر “گئودان” تک میں تدریجی ارتقا کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ان کے بقول پریم چند کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ادب اور زندگی کے رشتے کو مستحکم کیا اور اردو افسانوی ادب کو محل سراؤں، دبستانوں اور امرا کے ذریعہ تعیش وتفریح کے تنگ دائروں سے نکال کر عوام تک پہنچایا۔ اسے وسعت، رفعت اور مقصدیت و افادیت کا رنگ و آہنگ بھی عطا کیا۔ انہوں نے فنی ارتقا کی کئی منزلیں طیے کیں مگر زندگی اور اس کے مسائل سے کبھی رشتہ نہیں توڑا۔ مصنف نے اس کتاب میں نیاز فتحپوری کے ناول” ایک شاعر کا انجام ” اور ” شہاب کی سر گزشت ” کا سرسری تقابلی مطالعہ بھی پیش کیا ہے اور اول الذکر ناول کے مقابلے میں ثانی الذکر کو بہتر بتایا ہے۔ انہوں نے نیاز فتحپوری کو رومانوی ناول نگار بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ نیاز کی رومانیت نے انہیں جمال پرست بھی بنایا ہے اور عورت پرست بھی۔ اس جذبے کی تسکین کے لیے دو موضوعات فکر ان کے لیے اہم رہے ہیں، عورت اور فطرت۔ ڈاکٹر شہاب نے قاضی عبد الغفار کے ناول” لیلیٰ کے خطوط ” اور “مجنوں کی ڈائری ” کو 1880 کے بعد کا نمائندہ ناول قرار دیتے ہوئے ان کے حوالے سے یہ صراحت کی ہے کہ یہ ایسے ناول ہیں جن میں واقعات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، بلکہ احساسات، و جذبات بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔
اس کتاب میں ایک مضمون بعنوان ” اکیسویں صدی میں اردو ناول- ایک تنقیدی مطالعہ” شامل ہے جو صفحہ 77 سے صفحہ 96 تک کا احاطہ کئے ہوا ہے۔ اس میں ڈاکٹر شہاب نے بڑے تأسف کے ساتھ لکھا ہے کہ 1970 کے بعد تک جب نئی نسل کی آمد کی اطلاع اور بحث زوروں پر تھی، فکشن میں اس کا ذکر صرف افسانوں کے حوالے سے ہوتا تھا۔ ناول کی سمت و رفتار قرۃ العین حیدر (گردش رنگ چمن) سے جو گندر پال (نادید) تک آکر رک سی گئی تھی۔ گویا 1970 کے بعد ہمارے نقادوں کے ذریعہ ناول کے سفر پر فل اسٹاپ لگانے کی کوشش کی جانے لگی تھی۔ مصنف نے اپنے اس مضمون میں اس بات پر اظہار اطمینان کیا ہے کہ کرائسس سے بھرے اس عہد اور ماحول میں تین اہم ناول نگاروں عبد الصمد، غضنفر اور پیغام آفاقی کے بالترتیب تین ناولوں ” دو گز زمیں”، ” پانی ” اور ” مکان” نے افسانوی ادب میں ہلچل مچادیا۔ اس کے بعد جوگندر پال، علی امام نقوی، صلاح الدین پرویز، عشرت ظفر، مظہر الزماں خان، حسین الحق، شموئل احمد، مشرف عالم ذوقی، الیاس احمد گدی، اقبال مجید، ساجدہ زیدی، یعقوب یاور، ترنم ریاض، شمس الرحمن فاروقی، کوثر مظہری اور احمد صغیر وغیرہم نے اکیسویں صدی میں اردو ناول کو ادب کی دنیا میں پہلے پائیدان پر پہنچا دیا اور نقادوں کو مجبور کردیا یہ اعلان کرنے پر کہ اکیسویں صدی اردو فکشن، بالخصوص اردو ناول کی صدی ہے۔
ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے مضمون ” ہم عصر اردو افسانہ کے فکری سروکار ” میں اس بات مہر ثبت کی ہے کہ اردو فکشن کے سرمائے میں بنیادی حیثیت مختصر افسانے اور ناول کو حاصل رہی ہے۔ اس لحاظ سے اردو فکشن نے اب تک تقریباً ڈیڑھ صدی کا لمبا سفر طئے کیا ہے۔ اس مدت میں اس نے مزاجی اعتبار سے پانچ ادوار دیکھے ہیں۔ پہلا دور بیسویں صدی کی ابتدا تک کا ہے۔ دوسرے دور کو 1936 تک لے جایا جاسکتا ہے۔ تیسرا دور 1936 سے 1960 تک ہوسکتا ہے۔ چوتھا دور 1960 سے 1980 تک ہوسکتا ہے اور پانچواں دور 1980 کے بعد کا ہے۔ مصنف نے انتظار حسین، قاضی عبد الستار، الیاس احمد گدی، شفیع جاوید، احمد یوسف، نیر مسعود، عابد سہیل، پروفیسر گوپی چند نارنگ، اقبال مجید، عبد الصمد، حسین الحق، مشتاق احمد نوری، شموئل احمد، شوکت حیات،، صلاح الدین پرویز، پیغام آفاقی، سلام بن رزاق، جوگندر پال، مشرف عالم ذوقی، طارق چھتاری، ترنم ریاض، غضنفر، قاسم خورشید، غزال ضیغم، شمس الرحمٰن فاروقی، شمیم حنفی،اور بلراج بخشی، پروفیسر صغیر ابراہیم، کوثر مظہری، حقانی القاسمی، پروفیسر اسلم آزاد، پروفیسر ارتضیٰ کریم، پروفیسر اعجاز علی ارشد، مولا بخش اور ہمایوں اشرف وغیرہم کو اہم کو اہم فکشن نگار قرار دیا ہے۔ جبکہ علیحدہ ایک مضمون بعنوان ” تانیثیت اور اردو کی نئی افسانہ نگار خواتین ” ہے جس میں مصنف نے رشید جہاں، ممتاز شیریں، عصمت چغتائی، ترنم ریاض، غزال ضیغم، ذکیہ مشہدی، قمر جہاں، نگار عظیم، ثروت جہاں، تبسم فاطمہ، اشرف جہاں، صبوحی طارق، شائستہ فاخری، عنبری رحمان، نزہت طارق ظہیری، نوشابہ خاتون، تسنیم فاطمہ، غزالہ قمر اعجاز، نصرت شمسی، عروج فاطمہ، افشاں زیدی اور رخسانہ صدیقی سمیت کئی خواتین افسانہ نگاروں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بعض افسانوں کا سرسری جائزہ بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے اردو افسانے میں تانیثی رجحان کی اولین محرک اور احتجاج و مزاحمت کی آواز بلند کرنے والی پہلی خاتون افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں کو بتایا ہے۔ اس میں ایک مضمون ” اردو افسانہ کے چند اہم دلت کردار ” ہیں جس میں پریم چند کے چند افسانے، مثلاً ” ابھاگن “، نیچ ذات کی لڑکی”، ” سواسیر گیہوں”، ” نجات ” اور ” کفن ” وغیرہ کے دلت کرداروں کو اظہر من الشمس کیا ہے۔ علاوہ ازیں خواجہ احمد عباس کے افسانہ ” ٹیری لین کے پتلون ” ، واجدہ تبسم کا افسانہ ” پھول کھلنے دو” ، انور قمر کا افسانہ ” چاندنی کے سپرد ” ، عصمت چغتائی کا افسانہ ” دو ہاتھ ” اور کرشن چندر کا افسانہ” کالو بھنگی “، سمیت کئی افسانوں کا تذکرہ کیا ہے اور ہمارے معاشرے میں دلتوں، ہریجنوں پر ہونے والے مظالم کو بے نقاب کئے جانے پر فاضلانہ گفتگو کی ہے۔ تمام مضامین پر سرسری گفتگو بھی طوالت اور قارئین کی اکتاہٹ کا باعث ہوگا۔
لہذا گفتگو کو مزید طول دیئے بغیر تتمہ و حفظ ماتقدم کے طور پر اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کروں کہ اس کتاب میں ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کا اسلوب نگارش بہت ہی شائستہ و شگفتہ ہے۔ زبان وبیان میں بلا کی لطافت و سلاست ہے۔ اس میں شامل سبھی مضامین مواد سے پر نہایت مدلل و جامع نیز اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے پہلے حصہ یعنی” اختصاص ” کے پانچوں مضامین ناول اور افسانہ کے تعلق سے تحقیقی اور تنقیدی نوعیت کے ہیں جبکہ دوسرے حصہ “امتیاز” میں دس فکشن نگاروں کے متعدد ناولوں کا مجموعی جائزہ لیا گیا ہے نیز ان کی تحریروں کی روشنی میں ان کا ادبی تشخص قائم کرنے کی ایمان دارانہ و منصفانہ سعی کی گئی ہے۔ اسی طرح تیسرے حصہ ” انفراد” میں فکشن کے حوالے سے “پڑاؤ”، “حسرت تعمیر”، “مکان”،”عید گاہ سے واپسی”، “رات کا منظر نامہ” اور” لفظوں کا لہو” جیسی چند اہم کتابوں سے متعلق ڈاکٹر شہاب کے گرانقدر و عالمانہ تبصرے پر مبنی مضامین شامل ہیں۔ زیر بحث کتاب کے سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ اردو فکشن کی کتب میں اسے سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
مجموعی طور پر راقم السطور( ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی ) حتمی و قطعی طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کی اس کتاب کا مطالعہ یقیناً اردو زبان و ادب کے جملہ قارئین، بالخصوص فکشن کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی کام کرنے والے طلباء،اساتذہ اور دیگر قلمکاروں و مصنفوں کے لیے بہت ہی کارآمد ، مفید، سودمند اور نافع ثابت ہوگا۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/
loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں