معتبر سوانح نگار شاہ عمران حسن سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو ۔

معتبر سوانح نگار شاہ عمران حسن سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو
۔
اردو ادب میں سوانح نگاری ایک ایسی صنف ہے جو انسانی ذہن پہ گہرے اثرات مرتب کرتی ہے اس کے ذریعے  شخصیات کی زندگی کے تمام نشیب و فراز سے بخوبی واقف ہوا جا سکتا ہے اور ان کے تجربات و نظریات سے استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس صنف کے تحت ابھی بھی بہت زیادہ نہیں لکھا جا سکا ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ابھی بھی اس ضمن میں لکھنے کا کام جاری و ساری ہے۔  سوانح نگاری کے حوالے سے اپنی معتبر پہچان بنانے والوں میں شاہ عمران حسن کا نام بھی شامل ہے انھوں نے بہت ہی مختصر مدت میں اپنی صلاحیت و ریاضت سے قلمی میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ان کا تحریری اسلوب اس قدر سادہ اور آسان ہے کہ ہر عمر کے قاری ان کی کتابوں سے بخوبی مستفید ہو سکتے ہیں۔  ان کی لکھی گئی کتابوں میں حیات رحمانی، اوراق حیات، اور حیات غامدی کو سوانحی ادب میں ایک معتبر مقام حاصل ہے۔  اس کے علاوہ دیگر موضوعات پہ بھی انھوں نے لکھا ہے جو کتابی صورت میں شائع بھی ہو چکی ہیں۔ شاہ عمران صاحب کے اندر تحقیق و تفتیش کا جذبہ بدرجہء اتم موجود ہے۔ انھوں نے اپنی اس صلاحیت کو دریافت کر کے خود کو تعمیری کاموں کے لئے وقف کر دیا ہے۔ عمران صاحب ایک متوازن شخصیت کے حامل انسان ہیں انھوں نے اب تک کی پوری زندگی ایک طالب علم کی طرح سیکھتے ہوئے گذاری ہے انھوں اپنے اسلاف کی طرف سے ملنے والی روایات و اقدار کی وراثت کی بحسن خوبی حفاظت کی ہے۔ اس وقت میں ان کے سامنے بطور انٹرویو نگار کے حاضر ہوں میرے متجسس ذہن میں سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے آئیے ان سے سوال کر کے ان کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

علیزے نجف: سب سے پہلے میں چاہتی ہوں کہ آپ خود اپنا بنیادی تعارف پیش کریں اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ آپ کا تعلق ہندوستان کے کس خطے سے ہے اور اس وقت آپ کہاں پہ قیام پزیر ہیں؟

شاہ عمران حسن:میرا کوئی قلمی نام نہیں ہے، میں اپنے اصل نام ‘شاہ عمران حسن’ سے ہی لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہوں۔ میری تاریخِ پیدائش 5 فروری1986ء ہے ،جوکہ میرے تمام اسناد میں درج ہے ۔ میں شمالی بہارکے ایک دورافتادہ گاؤں‘ سعدپور’ میں پیدا ہوا۔ سعدپور بیگو سرائے ضلع میں واقعہ ہے ،یہ میرے آبائی قصبہ لکھمنیا سے10 کلومیٹر کے فاصلے پر گنڈک ندی کے کنارے بسا ہوا چند ہزار آبادی پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں ہے ۔
میرا تعلق صوفی خاندان سے رہا ہے ، جس کا سلسلہ شیخ شاہ سلطان تک جاتا ہے۔ شیخ شاہ سلطان کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ البتہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ شیخ شاہ سلطان کا سلسلۂ نسب قادریہ سلسلہ کے معروف بزرگ و صوفی شیخ عبدالقادر جیلانی(1078-1176)ء تک جاتاہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی کے تعلق سے ایک واقعہ میرے بچپن کا بھی ہے، اس واقعہ کو میں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔
بہت بچپن کی بات ہے ،مگرمجھے اچھی طرح یاد ہے ،میں اُن دنوں نانی کے گاؤں سعدپور میں مقیم تھا، میرے والد ایک کتاب لائے تھے ، اُس کتاب میں ایک کہانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے بچپن کے بارے میں تھی۔ اِس کہانی میں بتایاگیا تھا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی 14برس کی عمر میں جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ایک قافلہ کے ساتھ سفرپر روانہ ہونے لگے تو اُن کی والدہ نے ان کے لباس میں40اشرفیاں رکھ کرسوئی سے ٹانک دیں تا کہ ضرورت کے وقت؛ راستے میں یہ رقم اُن کے کام آئے ۔
اُن دنوں لوگ قافلے کے ساتھ سفر پر جایا کرتے تھے اور اکثرہا ڈاکو اُن پر حملہ کرکے اُن کے مال و زر لوٹ لیا کرتے تھے ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے قافلے پر بھی ڈاکو نے حملہ کردیااور سبھی افراد کاسامان چھین لیا۔جب کم سن شیخ عبدالقادر جیلانی کی باری آئی تو ڈاکو نے ان سے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے ؟
شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہا: میرے پاس40 اشرفیاں ہیں اور اس جگہ ہے۔ اس کو میری ماں نے میرے کپڑے کے ساتھ ٹانک دیا ہے ۔آپ اس کو لے لیجئے ۔
ڈاکونے کہا!‘‘ تم یہ رقم مجھ سے چھپا بھی سکتے تھے پھر تم نے ایسا کیوں نہ کیا؟’’
شیخ عبدالقادر جیلانی نے کہا:‘‘ میری والدہ نے اس بات کی سخت تاکید کی تھی کہ میں ہر حال میں سچ بولوں اور جھوٹ کا استعمال کبھی نہ کروں۔اِس لیے میں نے آپ کو سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔’’
ان کی باتوں سے ڈاکو بہت متاثر ہوا اور اُنھیں سفر پر جانے دیا۔
ایک لمبی مدت تک یہ واقعہ میرے لاشعور کا حصہ بنا رہا اور میں اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ سوچنے لگا کہ اگر میرے ساتھ ایسی صورت پیش آئی تو میں بھی جھوٹ نہیں بولوں گاکیوں کہ اِس واقعہ میں؛میں نے سچ بولنے کا فائدہ دیکھا تھا۔بچپن میں،جھوٹ سے بچنے کی اور سچ کا ساتھ دینے کی ترغیب مجھ کو شاید اِسی واقعے میں ملی تھی ۔(ادھورے خواب، شاہ عمران حسن، صفحہ:9)
ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کے معروف صوفی شیخ احمد سرہندی (1624-1563)ء ہیں، جنہیں مجدد الف ثانی کے نام سے بھی خطاب کیا جاتا ہے۔شیخ احمد سرہندی کے اہم ترین خلیفہ شیخ آدم بنوری (وفات: 1053 ہجری) تھے۔
شیخ شاہ سلطان کا نام سید آدم بنوری کے اہم ترین خلفا میں آتا ہے۔شیخ شاہ سلطان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ترین علمی شخصیت پروفیسر غلام سلطانی احقر ( لکھمنیا، بیگوسرائے، بہار) کی تحقیق کے مطابق شیخ شاہ سلطان کی پیدائش1031ہجری میں ہوئی اور ان کا انتقال1106 ہجری میں ہوا۔
مولاناسیدابوالحسن علی ندوی (1913-1999)ء نے شیخ شاہ سلطان کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سید آدم بنوری کے دوسرے خلیفہ ٔ اجل شیخ شاہ سلطان تھے۔افسوس ہے کہ اُن کے حالات و ملفوظات محفوظ نہیں رہے ، اب اس قصبہ میں اُن کا خاندان آباد ہے۔( دعوت و عزیمت ، جلد چہارم،صفحہ:396 )
شیخ شاہ سلطان کا مزار آج بھی لکھمنیا میں واقع ہے۔ چوں کہ شیخ شاہ سلطان ایک صوفی تھے، اس لیے یہاں تصوف کی روایت دیکھنے ملتی ہے اور خود شیخ شاہ سلطان کے بارے میں عجیب و غریب قسم کی روایت بیان کی جاتی ہے۔ عمومی روایت کے مطابق اس بستی کو شیخ شاہ سلطان نے آباد کیاتھا۔ شیخ شاہ سلطان اپنے پیر و مرشد شیخ احمد سرہندی کے حکم پر اس علاقے میں آکر آباد ہوئے اور فلاح و بہبود کا کام شروع کیا۔ وہ لوگوں میں تصوف و سلوک کی تعلیم دینے لگے، بالآخر یہ خطہ آباد ہوگیا۔
اس علاقے میں ایک قدیم مسجد واقع ہے، جہاں مجھے چند مرتبہ نماز ادا کرنے کا مو قع ملا ہے۔ اس مسجد کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ کراماتی طور پر صرف ایک رات میں بن کر تیار ہو گئی تھی۔
لکھمنیا میں آج بھی تصوف کی صورت کسی نہ کسی اعتبارسے موجود ہے۔ اس علاقے میں حالیہ دنوں میں دارالعلوم ندوۃ العلما کے بانی مولانا سید محمد علی مونگیری (1846-1927)ء اور ان کے خلفا کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد یہاں سے تعلق رکھتی تھی۔
جہاں لکھمنیا والوں کارابطہ تصوف سے بہت گہرا رہا ہے وہیں لکھمنیا شروع سے ہی اردو ادب کا گہوارہ رہا ہے، اصناف ادب کے تمام متوالے یہاں موجود ہیں، جنھوں نے اردو زبان و ادب میں اہم خدمات انجام دی ہے۔اس علاقے کے باشندے اُردو کے دلدادہ ہیں اور عمومی گفتگو میں بھی فصیح اُردو کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ زبان و ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اعتبار سے اس بستی کو بہار کا لکھنوبھی کہاجاتا ہے اوریہاں اُردو کی اعلیٰ علمی روایت زندہ و تابندہ ہے، یہی سبب ہے کہ اِس بستی کے معروف شاعرطارق متینؔ نے اپنے شعر میں یوں کہا ہے:
جو لکھنؤ سے ہے موسوم شہرِ لکھمنیا
اسی دیارِ محبت نشاں کے ہم بھی ہیں
جو ابتدا سے ہی تہذیب کا ہے گہوارہ
بڑا غرور ہے ہم کو، وہاں کے ہم بھی ہیں
یہ حسن اتفاق ہے کہ اسی سرزمین کے استاد شعرا میں میرے چچا شمیم بیتابؔ کا نام بھی شامل ہے۔ان کی غزلیں ہند و پاک کے موقر جرائد و رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں، تاہم اُنھوں نے اپنا کوئی بھی مجموعہ کلام ترتیب نہیں دیا۔30جون2022 میرے چچا شمیم بیتاب ؔ کا انتقال ہوگیا۔
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری خاک میں بھی ادب شامل ہے اورمیں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ کتاب و قلم سے دوستی مجھ کو وراثت میں ملی ہے ،یہی سبب ہے کہ لکھمنیاکے ممتازافسانہ نگار قیصر اقبال نے اپنے افسانوی مجموعہ ‘مہاپُرش کے بعد’کا نسخہ مجھ کو عنایت کرتے ہوئے میرے بارے میں لکھاتھا : عزیزم شاہ عمران حسن کے لیے ، جوشعروادب کی خاک لکھمنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور ادب لکھنا پڑھنا عبادت جانتے ہیں۔
میں ان دنوں نئی دہلی میں مقیم ہوں، اگرچہ میں نے اترپردیش اور جنوبی ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں قیام کی کوشش کی تھی؛ مگر بالآخر نئی دہلی کی ہی سرزمین راس آئی۔

 علیزے نجف: آپ کا بچپن اور اوائل شباب کا زمانہ شمالی بہار کے دور افتادہ گاؤں سعد پور ضلع بیگو سرائے اور مونگیر(بہار) میں گذرا؛ وہیں سے آپ کی اسکولنگ بھی ہوئی میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی پرورش و پرداخت میں اطراف کے ماحول اور روایتوں نے کس طرح کے اثرات مرتب کئے اس وقت آپ دہلی میں مقیم ہیں تو میں یہ بھی جاننا چاہوں گی کہ دیہی علاقوں میں پلنے والے بچے شہری بچوں سے کس طرح مختلف ہوتے ہیں؟
شاہ عمران حسن: انسانی زندگی کی روایات اور پس منظر کو ایک نسل سے دوسری نسلوں تک منتقل کرنے میں خاندان کا روز اوّل سے اہم کردار رہا ہے ،اس کی روایات کا پاس ولحاظ کرنے سے اِنسان کی زندگی کامیاب و کامران ہوتی ہے ،کیوں کہ اِنسان ایک سماجی مخلوق ہے ؛وہ تنہا نہیں رہ سکتا، اسے ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سماج کو ساتھ لے کر چلے اور سماج میں رہ کر آگے بڑھے ۔
میری پیدائش ایک ایسے زمانے میں ہوئی جب کہ جدید ٹکنالوجی ہندوستان کے شہروں سے منتقل ہوکر دیہی علاقوں میں داخل ہورہی تھی میرے گاؤں بھی اس اثرات دکھنے لگے تھے۔ مگر گھر اور اعتراف کاماحول روایات کی پاسداری کر رہا تھا۔ اس وقت مجھ سمیت گاؤں کے بیشتربچے صبح اُٹھ کر سب سے پہلے قرآ ن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ گاؤں کی اکثرگھروں کی خواتین میں اعلیٰ الصباح تلاوتِ قرآن کا رواج تھا۔خود میرے نانا مرحوم ملامحمد حسین(وفات:8جولائی2017) گاؤں کی مسجد کی امام تھے اوروہ مسجد میں دین کی باتیں بتایا کرتے تھے؛ اس کے علاوہ صبح صبح بچے بڑی تعداد میں ان کے پاس اردو اور عربی پڑھنے آیا کرتے تھے۔
گاؤں میں ابتدائی چند سال رہنے کافائدہ یہ ہوا کہ میں اپنی روایات و تہذیب سے واقف ہوسکا۔میری پرورش میں میرے نانامرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔ بڑوں کا ادب و احترام کس طرح کیا جاتا ہے، چھوٹوں سے شفقت کس طرح برتی جاتی ہے یہ ساری چھوٹی بڑی باتیں گاؤں میں میرے نانا نے مجھ کو بتائیں۔ میرے گھر کے علاوہ محلہ اور اعتراف کا ماحول بالکل الگ تھے، بہت سے بچے دن بھر گالی گلوج کرتے رہتے تھے مگر میرے اہل خانہ نے میری اس طرح سے تربیت کی تھی کہ میں باہر کے ناشائستہ اثرات سے محفوظ رہا۔
جب میں تعلیم کی غرض سے سنہ 1994 میں اپنے والد مرحوم شاہ شبیر حسن (وفات:2جولائی2016 ء) شہر مونگیرآیا تو یہاں کا ماحول بالکل الگ تھا۔چند ماہ میں نے اپنے چچا کے یہاں قیام کیا۔میرے چچا پروفیسر شاہ عظیم الرحمٰن(1934-1998)ء جے اے ایم ایس کالج(مونگیر) کے پرنسپل تھے تو جب کہ ان کی اہلیہ رقیہ خاتو ن نیر بیج ناتھ گرلس ہائی اسکول میں ٹیچر تھیں؛ خودان کے گھر میں لڑکیوں کا اسکول(نیشنل اردو گرلس اسکول) چلتا تھا۔ جب گھر میں تعلیم کا عمومی ماحول تھا تو خود بخود میرا ذہن بھی علم کی طرف مائل ہوا۔
میرا یہ ماننا ہے کہ دیہی علاقوں میں پرورش پانے والے بچے شہری بچوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ وہ چیزوں کو بہت گہرائی سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں، جب کہ شہری بچوں میں یہ چیزیں نہیں ہوتی ہیں۔دیہی بچوں کی حساسیت انہیں بہت کچھ کرگزرنے کے لیے اکساتی ہے؛ حتیٰ کہ وہ بڑی بڑی چھلانگ لگانے اور اونچی اُڑان سے وہ کبھی نہیں ہچکچاتے، جب کہ شہری بچوں میں حساسیت کی کمی ہوتی ہے، وہ باتیں بڑی بڑی کر لیتے ہیں مگر وہ باطنی طور پر خالی ہوتے ہیں۔

علیزے نجف:آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے اس تعلیمی مرحلے کو آپ نے کس اصول کے تحت طئے کیا ۔اس سفر کا کوئی یادگار واقعہ کیا آپ ہم سے شیئر کرنا چاہیں گے؟

شاہ عمران حسن:میری ابتدائی تعلیم مجھ کو نانا ملامحمد حسین سے ملی۔اُنھوں نے میرے والد صاحب کی موجودگی میں میرے تعلیم کی بسم کرائی ۔ اردو کی حروف تہجی اوریسرناالقرآن کی ابتدائی تعلیم مجھے کو ناناجان سے ملی۔اس کے بعد کئی برس میں نے سعدپور میں،متعدد اساتذہ کرام مثلاً محمد اشفاق عالم، محمد محبوب عالم وغیرہ سے ہندی انگریزی اور علم ریاضی کی ابتدائی اسباق سیکھے۔
تعلیمی سفر کی کئی باتیں یادگار ہیں۔ گاؤں میں پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہر مونگیر پہنچا تومیری باضابطہ تعلیم شروع ہوئی۔12 جولائی 1994ء کو میرا داخلہ شہر کے ایک معروف انگریزی اسکول کا نام الفونس اکیڈمی (Alfphonse Academy) میں پہلی جماعت میں ہوا۔یہ ایک کرسچین کمیونٹی کا اسکول تھا مگر وہاں کوئی مذہبی باتیں نہیں بتائی جاتی تھیں۔ اس اسکول کے پرنسپل کا نام پی جی میتھیو(PG Mathew) تھا اور ان کی اہلیہ کا نام میرینا(Marina)تھا۔وہ دونوں مل کر اسکول چلا رہے تھے۔ اس اسکول میں، میں نے ایک برس سے بھی کم تعلیم پائی ۔ البتہ میں پہلی مرتبہ کسی اسکول میں گیا تھامیں اسکول کی دُنیا سے واقف ہوا۔میں یہاں بہت ہی تجسس بھری نگاہ سے چیزوں کو دیکھ رہا تھاکہ کیوں کہ اسکول کی ہرچیز میرے لیے نئی تھی، یہ سمجھنے اور یقین کرنے میں مجھ کو کافی وقت لگا کہ میں اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔
میں نے درجہ اوّل سے براہِ راست درجہ ہفتم میں داخلہ لیا اور درمیان کی جماعت نہیں پڑھی۔اگر میں یہ کہوں تو یہ بات بالکل درست ہوگی کہ میری باضابطہ تعلیم ساتویں جماعت سے شروع ہوئی ۔
میرے والد نے میرا داخلہ ایم ڈبلو ای ہائی اسکول (مونگیر)میں سنہ1996 ء میں ساتویں جماعت میں تو کرادیاتھا مگر مجھے ساتویں جماعت کے برابر لکھنا پڑھنا نہیں آتاتھا۔ اس لیے درس کی کتابوں کو دیکھ کر میری حالت غیر زدہ ہوگئی تھی، تاہم میں نے خوب محنت کے ساتھ پڑھنا شروع کیا اور کامیابی حاصل کی ۔
ایم ڈبلو ای ہائی اسکول میں یہ بات بڑی اچھی تھی کہ یہاں بچوں کو کھڑا کرکے کتابیں پڑھوانے کا رواج تھا۔ ہر بچے سے کوئی نہ کوئی اقتباس پڑھوایا جاتا تھا۔ مجھے بھی پڑھنے کے لیے کیاجاتا تھا ۔ اس وقت میری اُردو بس اتنی ہی تھی میں اٹک اٹک کر اُردو پڑھ لیا کرتا تھا۔ مجھے روانی کے ساتھ اُردو پڑھنی نہیں آتی تھی ۔ اس لیے میں نے اُردو پر کافی محنت کی ،یہاں تک کہ میں روانی کے ساتھ اُردو پڑھنے لگا۔
ایم ڈبلو ای ہائی اسکول میرے لیے ایک تجربہ سے کم نہیں تھا۔ میرانام شاہ عمران حسن تھا۔ حسن اتفاق سے اس وقت مونگیر کے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر مناظر حسن تھے ،جو بعد میں سابق رکن پارلیمان بھی بنے۔ پتہ نہیں کس نے میری جماعت میں یہ افواہ پھیلادی کہ میں ڈاکٹر مناظر حسن کا بھانجا ہوں۔لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ میں چاہتا تو اس کا فائدہ اُٹھا سکتا تھا لیکن میری فطرت نے اس بات کی اجازت نہ دی کہ میں ایسا کوئی کام کروں۔
میں نے اردو زبان و ادب میں ایم اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔اگرچہ میرا یہ ماننا ہے تعلیم ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ میں خود کو آج بھی طالب علم سمجھتا ہوں۔ میں ہر دن کچھ نہ کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جہاں تک نصابی تعلیم کا تعلق ہے تو میں نے دسویں جماعت تک ٹیوشن کے ذریعہ پڑھائی کی۔تاہم گیارہویں جماعت سے ذاتی مطالعہ کے لیے ذریعہ ہی میں نے اپنے بقیہ نصاب مکمل کئے۔

علیزے نجف: رہنمائی اور قیادت ایک فرد اور قوم دونوں کی زندگی میں ہی نہایت اہمیت کی حامل ہے تعلیمی سفر میں ملنے والی رہنمائی بھی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں میرا سوال یہ ہے کہ ایام طالب علمی میں کیا آپ کو کسی کی رہنمائی حاصل رہی جس نے آپ کے اندر علم کی طلب کو بڑھا دیا ہو اگر ہاں تو وہ کون تھے اور ان کی کس خوبی نے آپ کو متاثر کیا؟

شاہ عمران حسن:اس ضمن میں، میں اپنے والدمرحوم شاہ شبیر حسنکا نام لینا چاہوں گا۔میں نے شعور کو آنکھ کھولی تو خود ایک علمی ماحول میں دیکھا۔ میرے والداپنی تمام معاشی مصروفیت کے باوجود اپنی زندگی کے آخری دنوں تک علم سے جڑے۔ جب میں بڑا ہوا تو وہ مجھ سے شعبہ حیات کے مختلف عنوانات پر گفت و شنید کرنے لگے۔ ان کی تجزیاتی باتیں میرے ذہن میں سوالات بھی پیدا کرتی تھیں اور مجھ کو سوچنے کے لیے مواد بھی فراہم کرتیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہوا کہ میرا ذہن ابتدائی عمر سے ہی تجزیاتی اور تجرباتی ہوگیا۔ میرے اندر روح تجسس پیدا کرنے کی سعی لاشعوری طور پر میرے والد صاحب نے کی ہے۔ اس لیے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھ کو علمی ماحول وراثت میں ملا۔
آج میں جو کچھ بھی لکھ پڑھ سکا ہوں، وہ سب انہی کی بدولت ہے۔ میری تعلیم و تربیت میں میرے والدین نے یکساں کردار ادا کیا ۔جہاں میرے والد نے میری ہر ضرورت کا انتظام کیا تو وہیں میری والدہ حسیبہ خاتون نے دن رات ایک کرکے میری پرورش و پرداخت کی ۔ میرے والد نے اپنی معاشی ذمہ داری نبھائی تو میری والدہ نے چہاردیواری میں رہ کر ایک زبردست کردار ادا کیا۔جب تک والد حیات رہے سب بھائیوں کو تعلیم دلائی۔ ابھی ہم بھائیوں میں سے کوئی اپنے پاؤں پر کھڑا بھی نہیں ہو پایا تھا کہ والد کا انتقال ہوگیا ،اور وہ ایک ایسی دنیا میں سب کو چھوڑکرچلے گئے جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آیا۔
میری والدہ نے اپنے بچوں کے لیے زبردست قربانیاں دی ہیں۔ ہم لوگوں کو تعلیم دلانے میں ان کا بہت بڑا کردار رہا ہے اگرچہ وہ پردہ نشین خاتون ہیں۔ اگر وہ ہم بھائیوں کی تعلیم پرخصوصی توجہ نہ دیتیں تو شاید ہم میں سے کوئی بھی بھائی تعلیم حاصل نہ کرپاتا۔حالاں کہ وہ ایک گھریلو خاتون ہیں اور ان کی تعلیم واجبی سی ہے، مگر ان کا کردار بہت عظیم ہے۔
میرے والد ابتداً کہانی کی شکل میں علمی باتیں کرتے تھے، اس کے بعد انھوں نے دیگر موضوعات پر باتیں کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے کہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے لیے انسان کے پاس دو طرفہ مواد ہونا چاہئے یعنی وہ کسی شخصیت یا کسی شئے کے مثبت و منفی دونوں پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کرسکتا ہو۔
والدصاحب ایک اور عادت یہ تھی کہ وہ میرے لیے نئی و پرانی کتابیں لایا کرتے تھے۔ اس سے میرے اندر مطالعہ کی عادت بچپن و لڑکپن کے دنوں میں پیدا ہوگئی۔حتیٰ کہ کوئی کتاب پڑھے بغیر میرا دن نہیں گزرتا ، رات نہیں ہوتی تھی۔ اور تو سردی کے دنوں میں، میں ٹارچ کی روشنی میں رضائی کے اندر چھپ کر کتاب پڑھتا تھا اور پوری ایک رات میں دو ڈھائی سو صفحات کی کتاب ختم کردیتا تھے۔
والد صاحب نے مجھ سمیت اپنی تمام اولاد کی تربیت و پرداخت اِس طرح سے کی کہ سب کا مزاج علمی اور سائنٹفک بن گیا ۔ ہم سب بھائی‘ حق’ کا ساتھ دینے والے اور‘ برائی’ سے پرہیز کرنے والے بنے۔جس کا اثر سب کی زندگی پر بچپن سے ہی نمایاں ہے ۔شاید یہی سبب ہے کہ میرے گھر میں گفتگو کا عمومی موضوع معاشرہ سے بالکل منفردیعنی صرف‘ علمی’ رہا ہے ۔ شروع سے آخر تک یہ سلسلہ قائم ہے ۔ عام زندگی تو سبھی جیتے ہیں ،ان سب سے الگ ہٹ کر میرے گھر میں‘ زندگی’ کو برتا گیا ہے ؛ جس کا سب بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم میں سے ہر ایک بھائی غیر ضروری باتوں میں مبتلا ہونے سے بچے رہے۔
ابتدا ئی عمر میں مطالعہ قوت پیدا ہوگئی تو پھر لکھنے کی مشق بھی جاری ہوگئی۔ والد صاحب کی زندگی میں میری کئی کتابیں شائع ہوگئی تھیں، وہ میری کتابیں بہت شوق سے پڑھتے تھے۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ میری کتاب‘اوراقِ حیات’کا مطالعہ کر رہے تھے،جو ان کی وفات سے محض ایک برس قبل شائع ہوئی تھی۔
میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں ، اس میں میرے والد کی بے پناہ حصہ داری رہی، ان کے بغیر اپنی علمی زندگی کے بارے میں سوچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

 علیزے نجف: موجودہ دور کی یہ ناقابل بیان ترقی علم کے مرہون منت ہے اس علم سے مراد تقلیدی علم نہیں بلکہ تحقیقی علم ہے میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں رائج نظام تعلیم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیا یہ اب فرسودہ ہو چکا ہے کیا وجہ ہے کہ موجودہ وقت کی یونیورسٹیاں اسناد پہ تو اپنی مہر ثبت کر دیتی ہیں لیکن بدلتے ذہنوں کو ایڈریس کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں اور تحقیق کے میدان میں بھی مغربی ممالک سے کہیں پیچھے ہے اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

شاہ عمران حسن :وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں رسم و رواج میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔رسم و رواج اگرچہ اچھی چیزہے،تاہم یہ چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں سے سوچنے سمجھنے کی طاقت چھین لیتی ہیں۔ ذہن پر جمود طاری کردیتی ہیں بس لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ جو رسم و رواج جاری ہے وہی درست ہے، اسی کی تقلید کرنی چاہئے ۔ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بھی اب رسم و رواج بن کر رہ گیا ہے، اس لیے ان میں کوئی جدت پسندی نہیں ہے۔تعلیم ملازمت رُخی(Job-Oriented)ہوگئی ہے،جب تعلیم کا مقصد واحد ملازمت ہو تو پھر کسی تحقیق اور جدت کی امیدکرنا خام خیالی کی بات ہوگی۔اس لیے ہماری درس گاہوں سے وہ کھیپ نہیں نکل رہی ہے ،جس کی سماج کو ضرورت ہے اور جیسا کہ مغربی ممالک کے تعلیمی نظام کی پیداوار مسلسل نکل رہی ہیں۔ہاں میں یہ مانتا ہوں کہ انفرادی طور پرمعددوے کچھ لوگ جدت پسندی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ورنہ عمومی طور پر لوگ تعلیم حاصل کرکے ملازمت کا ہدف پورا کرتے ہیں اور پھر ان پر جمود طاری ہوجاتی ہے۔ضرورت ہے کہ جو تعلیمی نظام رائج ہے یا تعلیم کے نام پر جو رسم و رواج جاری ہیں، ان پر نظر ثانی کی جائے ، ان میں جدت لائی جائے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تعلیم کی اہمیت لوگوں کے سامنے اجاگر کی جائے۔ تبھی یہ ممکن ہے اعلیٰ شخصیات کی کھیپ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکل کرملک و قوم کی خدمات انجام دینے کے لیے تیار ہو پائے گی۔

علیزے نجف: نظریات شخصیت کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور نظریوں کی تعمیر میں علم و شعور کو غالب مقام حاصل ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کن نظریات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کی اساس کیا ہے؟

شاہ عمران حسن:ابتدائی عمر میں ہی مجھ کو یہ احساس ہوگیاتھا کہ علم ایک بیش بہا دولت ہے، اس لیے اہلِ علم کی عزت کی جائے اور اُن سے استفادہ کیا جائے۔اِس دریافت نے میرے اندر سنِ شعورسے قبل ہی یہ جذبہ پیدا کردیاتھا کہ میں اہلِ علم کی عزت کروں نہ کہ اہلِ ثروت کی۔کیوں کہ اہلِ علم کی عزت کرنے سے ہمیں اُن سے کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے جب کہ اہلِ ثروت کی عزت کرنے سے ہمیں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی۔پھرجیسے جیسے میرے شعور میں اضافہ ہوتاگیا ویسے ویسے میں اہلِ علم سے استفادہ کرتا چلا گیا اورجس سے میرازبردست ذہنی ارتقاء ہوا۔
اَپنے نہ جاننے کو جاننا سب سے بڑا علم ہے ۔ اس بات کا احساس مجھے لاشعور ی طورپر ہوگیا تھا اور پھر روح تجسس(spirit of enquiry)نے مجھے بہت کچھ جاننے اور سمجھنے پر مجبور کردیا۔

علیزے نجف: آپ ایک قلمکار ہیں سوانح نگاری آپ کی شناخت ہے اب تک آپ نے کئی عظیم شخصیات کی سوانح حیات کو مرتب کیا ہے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے ادب میں سوانح نگاری کی صنف کا ہی انتخاب کیوں کیا پہلی سوانحی کتاب حیات رحمانی کو مرتب کرتے وقت آپ کے خیالات کیا تھے؟

شاہ عمران حسن:ہر صاحب قلم اپنے ذوق ، حالات اور سماجی پس منظر کے تحت کام کرتا ہے ۔میں نے جب قلمی دنیا میں قدم رکھا تو بے شمار اصناف مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے،میرے قدم ابتداً ڈگمگائے کہ میں یہ بھی کر لوں، میں وہ بھی کر لوں پھر مجھے خیال ہوا کہ مجھے اپنی سمت متعین کرنی ہے۔ اس لیے میں نے سوانح نگاری کا انتخاب کیا۔یہ ایک مشکل فیصلہ تھا، تاہم میں نے مضبوطی کے ساتھ اپنے متعین کردہ فیصلہ پر قائم رہا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ سوانح نگاری ایک ایسا میدان ہے، جس میں کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔بے شمار شخصیات ہیں، بے شمارخیالات ہیں، ان کو جاننا اور سمجھنا انسان کو ایک الگ قسم سرور بخشتی ہیں۔میرے نظر میں یہ دیگر اصناف کے مقابلے میں سب سے مشکل ترین فن ہے۔
اہلِ علم کی زندگی کے مطالعہ کا سب سے بڑامقصد یہ ہے کہ اپنے اندربھی کام کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اوراپنی صلاحیت میں نکھارلا کراس جانب خوب توجہ دی جائے تاکہ ہم بھی خداکی اس سرزمین پروہ کرداراداکرسکیں؛ جس کے لیے خدانے ہمیں اِس کرہ ارض پرپیداکیا ہے۔
وہیں ہمیں اہلِ علم کی زندگی پر لکھی گئی کتابیں اپنی اندرونی کمیوں کودورکرنے کااحساس بھی پیدا کراتی ہیں۔ رہا سوال اہلِ علم کے اندرکمیوں اورخامیوں کاتو؛وہ بھی انسان ہوتے ہیں اور ان سے بھی غلطی سرزد ہوجانا کوئی بعیدازقیاس نہیں ہے۔پھرانسان بشری تقاضے کے تحت مجبور ہے کہ امتحان کی اِس دُنیامیں اس سے غلطی سرزدہو؛تاکہ اس کی توبہ اور اصلاح کا سلسلہ تاحیات جاری رہے۔ انسان سے غلطیوں کا سرزد ہونا بھی دنیا میں امتحان کا ہی ایک پرچہ ہے۔
میں مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ اِنسانیت کے مسائل اِتنے زیادہ ہیں کہ کسی ایک ذات کے اَندر سارے نمونے نہیں آسکتے ہیں۔ اگرکوئی اِنسان یہ سوچے کہ کسی ایک شخص کے اندرتمام دینی اور اخلاقی صفات موجود ہوں تو یہ ناممکن ہے، کیوں کہ امتحان کی اِس دُنیامیں یہ چیز سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔اِس لیے اَپنے حالات اور وقت کے لحاظ سے ایک عالم یا رہنما جس بات کاتقاضا محسوس کرتاہے،وہ اُسی پہلوپر زیادہ زوردے کر کام کرتاہے۔شاید اسی کو اختصاص(specialisation)کہتے ہیں۔
یہاں یہ بھی وضاحت کرتا چلوں کہ عام رواج کے مطابق لوگ مردہ کی سوانح عمریاں لکھا کرتے ہیں، مگر میں نے روایات سے ہٹ کر زندوں پربھی کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب تک تین شخصیات یعنی مولاناوحیدالدین خاں، مولانا محمد ولی رحمانی اور جاوید احمد غامدی کی زندگی میں ہی ان پر کام کیا،جس کے قارئین کی ایک بڑی تعداد نے پسند کرتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ ان کتابوں کو پڑھ کر میری غلط فہمیاں  دور ہوئیں اور شخص مذکور کے بارے میں اصل مواد پڑھنے کو ملا۔
میری کتاب ‘حیاتِ رحمانی’ہندوستان کے مجاہد آزادی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے بانی مولانامنت اللہ رحمانی کی حیات و خدمات پر مشتمل ہے۔ اس میں240صفحات ہیں۔یہ کتاب میں نے گریجویشن کا امتحان دینے کے بعد سنہ2005ء میں لکھی تھی اگرچہ وہ سنہ2012ء میں نئی دہلی کے اشاعتی ادارہ رہبر بک سروس سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کا خیال اچانک نہیں آیا۔ میں نے اپنے محسن علمی شہر مونگیر کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ رحمانی کی تاریخ جاننی چاہی ۔ میں نے چاہا کہ یہ جانوں کہ یہ ادارہ کس طرح وجود میں آیا اور اس کو کس نے قائم کیا۔مجھے معلوم ہوا اس کے تعمیر و استحکام میں مولانا منت اللہ رحمانی کا اہم کردار رہا ہے، مگر جب میں نے مولانا منت اللہ رحمانی کے حالات معلوم کرنا چاہے تو پتہ چلا ان پر کوئی منظم انداز میں مفصل کتاب نہیں لکھی گئی ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ میں ان پرایک کتاب تیارکروں، تاکہ مجھ سمیت دوسرے افراد کے لیے بھی استفادہ کرنا آسان ہو جائے ۔

علیزے نجف: آپ ایک سوانح نگار ہیں اس لئے میرا اگلا سوال بھی اسی ضمن میں ہوگا وہ یہ کہ سوانح نگاری کی صنف کو ادب کی بساط پہ کیا مقام حاصل ہے اور وہ کونسی ممتاز صفت ہے جو صرف سوانح نگاری کا ہی خاصہ ہے اس صنف کے تحت مرتب کی جانے والی کتابوں کی تعداد آپ کے نزدیک کیا تشفی بخش ہے؟

شاہ عمران حسن:میں سوانح نگاری کو اردو ادب کا ایک اہم حصہ مانتا ہوں، اگرچہ یہ آج بھی اپنے ارتقائی مراحل میں ہے۔آج بھی ادب میں یہ لڑائی جاری ہے کہ آیا اسے ادب کا حصہ تسلیم کیا جائے یا نہیں! ایک دلیل یہ دی جاتی ہے سوانح نگاری دراصل شخصی معاملہ ہے، اگرکسی کی دلچسپی ہوگی تو اس کا مطالعہ کرے گا ورنہ نہیں، اس لیے اس کو ادب نہیں کہا جاسکتا ہے۔عام طور پر مولاناالطاف حسین حالی کو اردو ادب کا باضابطہ سوانح نگار تسلیم کی جاتا ہے۔ حالاں کہ حالی کے بعد بھی اس سمت میں کافی اچھے کام ہوئے ہیں،مثلاً جوش ملیح آبادی کی ‘یادوں کی برات ’ ، قدرت اللہ شہاب کی‘شہاب نامہ’ وغیرہ۔
اردو کے علاوہ دیگر زبانوں مثلاً عربی اور فارسی اور انگریزی ادب میں سوانح نگاری کا معیار بدرجہ اتم پایا جاتا ہے، اردو ادب میں اس سمت میں بہت کم کام ہوئے ہیں،اس لیے جتنے کام اب تک اس سمت میں ہوئے ہیں، اس سے میں مطمئن نہیں ہوں۔ حالاں کہ میں یہ مانتا ہوں کہ یہ بہت وسیع میدان ہے،یہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔اس سمت میں ، میں نے مضبوطی کے ساتھ اس لیے بھی قدم رکھا کہ یہ شعبہ نسبتاً زیادہ خالی ہے ، اس لیے یہاں کام کرنے کے مواقع زیادہ ہیں۔

علیزے نجف: کسی بھی فرد کی زندگی کے نشیب و فراز اپنے اندر کئی طرح کے اسباق لئے ہوتے ہیں اور اگر وہ فرد کسی خاص شعبے میں تخصیصی مقام رکھتا ہو تو ان کی پوری زندگی ہی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے سوانح نگاری کی صنف ایسی ہی شخصیات کی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں میرا سوال یہ ہے کہ جب آپ کسی کی حیات پہ مبنی کتاب کو مرتب کرتے ہیں تو زندگی کے کن کن گوشوں کو بطور خاص اہمیت دیتے ہیں آپ کی مرتب کردہ سوانحی کتابوں پہ قارئین نے زیادہ تر کن گوشوں کی اثریت پہ تبصرہ کیا ہے؟
شاہ عمران حسن : میری کوشش یہ رہتی ہے کہ شخص مذکور کا جو اصل کام ہے اس پر بھی خاص توجہ دی جائے۔اس لیے کہ زندگی تو سبھی جیتے ہیں، مگر کسی انسان کی زندگی اس لیے خاص بنتی ہے کہ اس نے کسی سمت میں اہم کام کیا ہے، اس لیے اس کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے لکھنے کاانداز منفرد ہے، میں اپنی لکھاوٹ میں ہر ممکن طریقے سے وضوح لانے کی کوشش کرتا ہوں،خشک پہلوؤں کو اس انداز میں ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ قارئین پڑھنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔جہاں تک میرا خیال ہے ،میری کتابوں سے قارئین سب سے زیادہ تحقیق اور بیانیے سے متاثر ہوتے ہیں، جو اسلوب اور انداز میں نے اختیار کیا ہے قارئین اس کو پسند کرتے ہیں۔ یہی میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ اردو دنیا کے جم غفیرمیں قارئین میری کتابوں کو بھی توجہ اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔

علیزے نجف: اپ نے معروف عالم دین مولانا وحید الدین خاں کی سوانح ‘اوراقِ حیات’ کے نام سے مرتب کی۔ یہ کام آپ نے مولاناکی رہنمائی میں مکمل کیا جو کہ ایک قابل تحسین قدم ہے؛ میرا سوال یہ ہے کہ اس ساری جدوجہد کے دوران آپ نے مولانا وحید الدین خاں کو کیسا پایا، ان کی نظریاتی و عملی زندگی کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟

شاہ عمران حسن:میں یہ نہیں کہتاکہ مولاناوحیدالدین خاں سے مجھے کلی اتفاق ہے،کلی اتفاق تو صرف انبیاء علیہم السلام سے مطلوب ہوتا ہے، کسی انسان سے نہ مطلوب ہے اور نہ ممکن ہے ۔جہاں تک مولانا کی زندگی کا تعلق ہے تو میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ مولانانے ایک منظم انداز میں زندگی گزاری، ان کے قول و فعل میں ، میں نے کوئی تضاد نہیں دیکھا۔

علیزے نجف: تنقید و تحقیق علم کی ہی ایک معتبر شاخ ہے یہ الگ بات ہے کہ اب تنقید و تنقیص اور تقلید و تحقیق اس قدر خلط ملط ہو چکے ہیں کہ اس کو ایک دوسرے سے الگ کرنا مشکل ہو گیا ہے میرے علم کے مطابق ایک زمانے میں آپ بھی مولانا وحید الدین خاں کے علمی افکار پہ تنقید کرتے رہے تھے اور خطوط کے ذریعے ان سے وضاحت بھی طلب کی تھی اب جب کہ آپ کے خیالات ان کے متعلق بدل چکے ہیں ؛اوراق حیات اس کی جیتی جاگتی مثال ہے میرا سوال یہ ہے کہ مولانا پہ تنقید کرتے وقت آپ کی مرکزی فکر کیا تھی مولانا وحید الدین خاں کے دیگر معترضین کے بارے میں آپ کیا رائے دینا چاہیں گے؟

شاہ عمران حسن:مولانا وحید الدین خاں کے معترضین کے بارے میں ،میں یہی کہناچاہوں گاکہ ان لوگوں نے مولانا کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ہمیشہ ان پر لعن طعن کے انداز میں باتیں کی ہیں،نام نہاد نقاد نے عام لوگوں کو ان سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،حتیٰ کہ ایک بڑا طبقہ ان کے علمی استفادہ سے محروم ہوگیا۔ جہاں تک میرا سوال ہے تو میں کبھی مولانا سے بدظن نہیں ہوا ، میں نے ان کے افکار وخیالات پر تنقید کی ،یہ دراصل سوال و جواب کی شکل میں ہوا ، بلکہ وضاحت کے لیے میں نے تنقید کی تھی، مولانا نے مجھ کو جواب دیا اور میں اس سے مطمئن ہوا۔

علیزے نجف:جاوید احمد غامدی معروف و معتبر عالم دین اور محقق ہیں آپ کی ایک کتاب انھیں کی زندگی پہ ‘حیاتِ غامدی’ کے نام سے منظر عام پہ آ چکی ہے میرا سوال یہ ہے کہ اس وقت جب کہ غامدی صاحب کے افکار و نظریات پہ لوگ برملا تنقید کر رہے ہیں ایسے میں آپ نے روایتی تنقیدوں سے اوپر اٹھ کر کس طرح ان کے نظریات کو سمجھا اور ان کی زندگی پہ لکھنے کا ارادہ کیا؟

شاہ عمران حسن:میرا شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ میں چیزوں کا مطالعہ براہ ِراست کرتا ہوں، سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے میں خود سے تحقیق کرکے اصل سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔جب میں نے براہ راست جاوید احمد غامدی کو پڑھا اور سنا تومیں علم کی ایک دنیا سے متعارف ہوا۔پھر مجھے خیال ہوا کہ کیوں نہ ان کے تعارف پر ایک کتاب تیار کی جائے تا کہ عام لوگ بھی ان کے کام سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ اگر کوئی شخص ‘حیاتِ غامدی’ پڑھ کر جاوید احمد غامدی کے افکار وخیالات کو سنجیدگی سے لینے کوشش کرے تو بس اتنی سی ہی بات میری کامیابی کے لیے کافی ہوگی۔

علیزے نجف:غامدی صاحب کی ایک ممتاز پہچان ان کا طرز تنقید ہے وہ نہ صرف تنقید کرتے ہیں بلکہ اپنے نظریات پہ تنقید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں بشرطیکہ مستند دلیل کے ساتھ تنقید کی جائے آپ نے ان پہ کتاب لکھتے ہوئے ان کی حیات و خدمات کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے میرا سوال یہ ہے کہ لوگوں کی غامدی صاحب پہ کی جانے والی تنقیدوں کے پیچھے بنیادی وجہ کیا ہے کیا اس کے پیچھے ان کی جذباتیت اور مقلدانہ سوچ ہے یا وہ واقعی میں اپنی فکر کو دلیل کے ساتھ ثابت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟
شاہ عمران حسن:جاوید احمد غامدی پر کی جانے والی نام نہاد تنقید دراصل روایتی مذہبی جنون کا اظہار ہے، اس کے پیچھے شخصی عناد کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ میں نے ان کے خلاف لکھی ہوئی متعدد کتابوں کا مطالعہ کیا ہے،ان میں تنقید کے نام پر کچھ نہیں، صرف لفظی موشگافیاں ہیں۔جس کو پڑھ کے صرف افسوس ہوتا ہے کہ نقاد نے خواہ مخواہ اپنا اور قارئین کا وقت برباد کیا ہے۔
میں یہاں پر اپنی بات کی وضاحت کے لیے اپنی کتاب حیات غامدی کا ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گا:
‘‘ اس معاشرے میں ہر چیز گوارا کی جاتی ہے ،لیکن علم و تحقیق کا وجود کسی حال میں گوارا نہیں کیا جاتا ۔ لوگ بے معنیٰ باتوں پر داد دیتے ، خرافات پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتے ، جہالت کے گلے میں ہار ڈالتے اور حماقت کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں،مگرکسی علمی دریافت اور تحقیقی کارنامے کے لیے ،بالخصوص اگروہ دین سے متعلق ہوتو ان کے پاس اینٹ پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔یہاں سب سے بڑا مرض عامیانہ تقلید کا مرض ہے ۔ہر وہ چیز جسے لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے ،جو پہلے سے سے چلی آرہی ہے ،جس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں،جو اُن کی شناخت بن گئی ہے ،جو اُن کے لیے ایک روایت کی حیثیت رکھتی ہے ،وہ اگرچہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہواور اُس نے حقیقت کا چہرہ کتناہی مسخ کیوں نہ کردیا ہو، اور وہ اللہ کے کسی صریح حکم اور اس کے رسول کی کسی واضح سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ،لوگ اس پر تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔اُنھیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے اپنے نقطۂ نظر کے حق میں کیا دلیل پیش کی ہے ۔ اُن کی ساری تگ ودو کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی اس روایت کو بچانے میں کامیاب ہوجائیں۔ چنانچہ وہ تنقید کرنے والے کے دلائل سے گریزکرکے ،اس کے کلام میں تحریف کرکے ،اس کے مدعا کو تبدیل کرکے ،اس کی شخصیت کو مجروح کرکے ،اس کا مذاق اُڑاکر،غرض یہ کہ ہر طریقے سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنادینے کی کوشش کرتے ہیں۔(حیاتِ غامدی، شاہ عمران حسن، صفحہ113-114)

علیزے نجف: آپ کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں جو کہ شخصیات کی حیات و خدمات کے علاوہ تبصروں اور کہانیوں پہ بھی مبنی ہے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ ان کتابوں پہ قارئین کی طرف سے کس طرح کا ردعمل سامنے آیا کیا آپ کو اپنی تحریروں پہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اگر ہاں تو آپ ان تنقیدوں کے بارے میں کیا رائے دینا چاہیں گے کیا وہ بے بنیاد تنقید تھی یا لوگوں نے اصول کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید کی تھی؟

شاہ عمران حسن : مجھے تعریف سے زیادہ تنقید محبوب ہے، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ لوگ تنقید کے نام شخصی الزام تراشی سے کام لیتے ہیں جوکہ مجھے قطعی ناپسند ہے، ہاں اگر کوئی قابل توجہ بات ہوتی ہے تو میں اس کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہوں اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی غلطی ہمہ وقت تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتاہوں ۔
مثلاً ایک صاحب نے میری ہزار صفحات پر مشتمل کتاب اوراق حیات پر تنقید کی تو انھوں نے کتابت کی غلطی(typographical error)نکال کر بتایا کتاب میں ایسی ایسی خامیاں ہیں۔ میں اس طرح کی تنقید کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہوں اس لیے کہ جب سے اُردو میں کتابت بند ہوئی اور کمپیوٹر پر کام شروع ہوا ہے تو لفظی غلطیاں بہت زیادہ ہونے لگیں ہیں۔حالاں کہ اس پر اصلاحات کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

علیزے نجف: مشہور عالم دین مولانا منت اللہ رحمانی کی حیات و خدمات پہ لکھی گئی سوانحی کتاب حیات رحمانی پہ آپ کو‘ قاضی عبد الودود ایوارڈ’ سے نوازا گیا تھا کیا یہ اعزاز آپ کے لئے حسب توقع تھا اس کے علاوہ آپ کو اور کتنے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے یہ اعزازات انسانی نفسیات میں کس طرح کی تبدیلی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں؟
شاہ عمران حسن: میں نے کبھی اعزازات حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھا ہے، میں اپنے حصہ کا کام کر رہا ہوں۔ میں نے نہ تو پہلے کبھی اس کی توقع کی تھی اور نہ اب کرتا ہوں۔ میرے لیے سب سے بڑا اعزاز میرے قارئین کرام ہیں۔ میں یہاں تک کہتا ہوں کہ آپ نے کوئی چیز لکھی اور کم سے کم ایک قاری نے اس کو توجہ سے پڑھ لیا تو یہ آپ کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ میں خود سے طے کردہ منصوبے پر کام کرتاہوں۔خواہ یہ کام میں نے مولانا وحیدالدین خاں پر کیا ہو خواہ جاوید احمد غامدی پر یا پھر مولانا محمد ولی رحمانی کی زندگی پر ۔ ان تینوں شخصیات پر میں نے اپنے ارادے اور فیصلے کے تحت کام کیا ہے، میرا کبھی کسی سے کوئی معاہدہ نہیں ہوااور آج تک میں نے کوئی پروجکٹ ٹائپ کا کام نہیں کیا۔ حالاں کہ کئی مواقع آئے جب کہ مجھ کو لوگوں نے آفرد یا کہ میں اس پر کام کروں۔میرا ایک معروف اسلوب ہے اور کام کرنے کا اپنا ایک الگ انداز ہے، جس کے مطابق کام کرتا ہوں۔ جب تک میں مطمئن نہ ہوجاؤں اس وقت اپنے کام پر نظر ثانی کرتا رہتا ہوں۔
رہا سوال ایوارڈ کا تو میں اس کو ایک رسمی اعتراف مانتا ہوں، اس کے ذریعہ چیزیں مزید لوگوں کے تعارف کا سبب بنتی ہیں، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔

علیزے نجف :آپ نہ صرف مصنف ہیں بلکہ آپ نے ای ٹی وی بھارت حیدرآباد میں کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پہ بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں اور اس سفر کے تجربات آپ کے لئے کیسے رہے اس حوالے سے ہمارے قارئین کو مختصراً بتائیں؟
شاہ عمران حسن:صحافت ایک ہمہ گیر متنوع شعبہ ہے، جس کا رابطہ براہ رِاست عوام و خواص کی روز مرہ کی زندگی سے ہے، تاہم صحافت میں ہمہ وقت نیاپن ہے، نئی کہانیاں ہیں،نئے واقعات ہیں، نئے تجربے ہیں۔شاید یہی سبب ہے کہ درست اور سچی بات دنیا کو پہنچانے کا نام ہے صحافت ہے ، گویا صحافت کی کوئی منزل نہیں ہے بلکہ ایک سفر کا نام ہے ۔
صحافت کا اصل مقصدحالاتِ حاضرہ سے عام انسانوں سے باخبر کرنا ہے، انہیں بیدار کرناہے، انہیں حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا ہے تاکہ انسان کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے، جیسے محکمہ موسمیات کی جانب سے موسم کے متعلق جو باتیں عوام الناس کے درمیان نشر کی جاتی ہیں تو لوگ باخبر ہو جاتے ہیں اور ادھر ادھر جانے یا گھر سے نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔
صحافت میں نہ صرف عوام کو مسائل سے آگاہ کیا جاتا ہے بلکہ عوام کو مسائل کو بھی عیاں کیاجاتا ہے تاکہ حکام اس پر توجہ دیں اور ان کے مسائل حل کریں، اسی لیے صحافت سے جڑے ہوئے افراد سچ اور درست باتوں کو عوام تک پہنچانے کی حتی المکان کوشش کرتے ہیں۔
صحافت کی دنیا سے میرا رشتہ کوئی نیا نہیں ہے۔ گاہے بگاہے میں اس سے جڑا رہا۔ اگرچہ ای ٹی وی بھارت سے باضابطہ دو سالہ وابستگی نے مجھے صحافت کی باریک بینی سے واقفیت دلائی ۔

علیزے نجف:ٹکنالوجی میں مہارت آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے آنے والا وقت ٹکنالوجی کے ماہرین کا ہی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت اس شعبے میں مہارت تو درکنار اس کو مطلوب اہمیت دینے کے لئے بھی سنجیدہ نہیں وہ ہر تبدیلی پہ پہلے معترض کے طور پہ سامنے آتے ہیں اور وقت گذر جانے پہ اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ دیگر اقوام سے پیچھے ہیں اس ساری صورتحال کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں آپ کے خیال میں مسلمانوں کی اس روایتی فکر کو کس طرح بدلا جا سکتا ہے؟

شاہ عمران حسن: یہ ایک المیہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے بیشتر مسلمان چیزوں کو جیسا ہیں ویسا نہیں دیکھ پاتے جس کی وجہ سے ہم دوسری اقوام سے پچھڑ جاتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر چیز کو مذہب کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے ہم مات کھا جاتے ہیں؛ حالاں کہ بے شمارچیزیں مذہبی دائرہ سے باہر کی ہوتی ہیں۔اس کے لیے ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ جس طرح تبلیغی جماعت نے فرد کی نسبت سے کام شروع کیا تو وہ ایک بڑی جماعت میں تبدیل ہوگئی، اسی طرح اس جانب بھی فرد کی سطح پر لوگوں کی ذہن سازی کرنی ہوگی کیوں کہ کبھی معاشرہ تبدیل نہیں ہوتا یہ افراد ہوتے ہیں جو معاشرہ کی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔

علیزے نجف: ان دنوں آپ کس اہم شخصیات پر کام کر رہے ہیں اور آپ کی زیر طبع کتاب کون کون سی ہیں، کیا اس بارے میں آپر روشنی ڈالیں گے:؟
شاہ عمران حسن:ان دنوں میں نے شاہ فیصل انعام یافتہ مشہور عالم دین مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کی حیات و خدمات پر کام کر رہا ہوں۔ کتاب کا نام ‘مولاناسیدابو الحسن علی ندوی:شخصیت اور تحریک کا علمی و تاریخی جائزہ’ ہے۔کتاب تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ نظر ثانی کا کام جاری ہے۔ ان پر اس لیے کام کرنے کا خیال آیا کہ ان پر جتنی بھی کتابیں مرتب کی گئی ہیں، ان میں سے کسی بھی کتاب ان کی زندگی کا اجمالی منظر عام فہم زبان میں نہیں ہے، اس لیے قاری کو ان کی زندگی کو جاننے کے لیے متنوع کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے میں نے اس سمت میں کام کرنے کی کوشش کی ہے۔جس سے امید ہے قارئین کرام ضرور استفادہ کریں گے۔
مذکورہ کتاب کے لیے میں نے ہند و بیرون ہندکے اسفار پر مبنی کتاب‘تجرباتِ سفر’بھی لکھی ہے، جو کہ زیر طبع ہے۔ اس کے علاوہ تبصروں پر مشتمل کتاب ‘میرا مطالعہ’ پر بھی کام رک رک کر ہو رہا ہے۔

علیزے نجف: آپ کو اللہ نے غیر معمولی تجزیہ و تفکیر کی صلاحیت عطا کی ہے آپ کی مرتب کردہ کتابیں انھیں صلاحیتوں کے مرہون منت ہے میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنی اس صلاحیت کو کس طرح پہچانا اور اس کو صحیح رخ پہ لگانے کے لئے آپ نے کس طرح کی تگ ودو کی اس صلاحیت نے آپ کو وہ کون سے سبق سکھائے جس کے نقوش آپ کی زندگی میں تاحیات ثبت رہیں گے؟

شاہ عمران حسن:انسان کو ایک رول(role) یا ایک کردار اداکرنے کے لیے اِس دُنیا میں بھیجا گیا ہے۔ جیسے ہی انسان کاکردار دُنیا میں پوراہوجاتاہے خدادوبارہ انسان کو اپنے پاس بلالیتا ہے ،اسی کے ساتھ میں یہاں یہ بھی عرض کرناضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے جس کردارکو اداکرنے کا ذکر کیا ہے، یہ ذکر ان انسانوں کے لیے ہے جو پہلے خود کودریافت کرتے ہیں کہ وہ کون ساکام خدا کی بنائی ہوئی اِس دُنیا میں اداکرسکتے ہیں اور پھر وہ اسی راہ میں لگ جاتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔مگر یہ خوش نصیبی لاکھوں لاکھ انسانوں میں سے چند لوگوں کو میسر آتی ہے ورنہ یہاں بیشتر لوگ بغیر کسی مقصد کے زندگی گزار دیتے ہیں۔وہ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بوڑھاپے کی دہلیز سے گزار کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں اور اُنھیں اِ س بات کی خبر بھی نہیں ہوتی کہ میں کیوں اِس دُنیا میں آیا ہوں ، مجھے کون ساکردار یہاں اداکرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اُردو کے استادشاعر داغ دہلوی کے ایک شاگرد ‘محمود علی خاں رامپوری’ نے بالکل سادہ انداز بہت دل گداز شعر کہا تھا جو آج بھی ہر ایک کی زبان پر ہے:
موت اُس کی ہے کرے زمانہ جس کا افسوس
ورنہ دُنیا میں آئے ہیں سبھی مرنے کے لیے
میں نے لکھنے پڑھنے کے مشق کے دوران خود میں بات محسوس کی کہ میں اس شعبہ میں بہتر کرسکتا ہوں۔ اس لیے میں نے اس جانب توجہ دی ۔ یہ میرا کوئی کمال نہیں ہے، بس اللہ کا کرم ہے کہ وہ مجھ سے مثبت کام لے رہا ہے، میں اس کے لیے رب ذوالجلال کا جتنابھی شکریہ ادا کروں کم ہے اس نے مجھ اظہارکی نعمت سے نوازا ہے۔الحمدللہ!

علیزے نجف: لکھنے پڑھنے کے علاوہ آپ کے کیا مشاغل ہیں ان مشاغل کے لئے آپ کس طرح وقت نکالتے ہیں؟

شاہ عمران حسن: میرا یہ ماننا ہے کہ کوئی آدمی اُس وقت تک باکمال انسان نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی ہرذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام نہ دے رہا ہو،اگر آپ کسی سماجی یامذہبی میدان میں کامیاب کر ہورہے ہیں اور اپنی خانگی زندگی سے آپ عدم دلچسپی برت رہے ہیں تو یہ کسی بھی حیثیت سے درست نہیں ہے اور یہ آپ کے اچھا انسان، اچھامصنف ، اچھا داعی، اچھاعالم، اچھامقرر، اچھامحرر، اچھاطبیب، اچھا سیاست داں اور اچھا حکمراں ہونے پر بدنما داغ ہے ۔اِس بناپر آپ کی ذاتی اور گھریلوزندگی کو نظر اندازنہیں کیا جائے گاکیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خیرکم خیرکم لأھلہ وأناخیرکم لأھلی (ابن ماجہ)یعنی تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا سلوک کرے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
اسی تناظر میں ؛میں اپنے اہل خانہ کو بھی پورا وقت دیتا ہوں۔میں نے اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ایک خانگی زندگی اور دوسری علمی زندگی۔ دونوں کے لیے میں وقت اس طرح نکالتا ہوں کہ کوئی کام ایک دوسرے متاثر نہ ہو۔ کبھی کبھی گھر کے لوگوں کے لیے کھانا بھی شوق سے بناتا ہوں۔اس لیے کہ اگر آپ اپنا گھر بار نہیں سنبھال سکتے تو باہر کی دنیا میں آپ کیا تبدلی لائیں گے۔

علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے سوالات سے کس حد تک مطمئن تھے یا اب بھی کوئی تشنگی باقی ہے؟

شاہ عمران حسن:محترمہ علیزے نجف صاحبہ!آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے خود اپنے بارے میں سوال وجواب کا موقع دیا اور میں اسی کے طفیل ماضی میں جھانک کر دیکھ سکا۔ بچپن اور لڑکپن کی بہت سی یادیں تازہ ہوگئیں۔نیزمیں انٹرویو کے حوالے سے یہی کہنا چاہوں گا کہ آپ نے جو سلسلہ شروع کیا ہے اس کو جاری رکھئے ،یہ ایک بالکل منفرد کام ہے اس کے لیے آپ مبارک باد کی مستحق ہیں۔

انٹرویو نگار علیزے نجف

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *