کچھ تبسم زیرلب
انس مسرورانصاری
پیدل اچھے
کانگریس پارٹی کی۔بھارت جوڑویاترا۔ یعنی پیدل مارچ کانتیجہ کیا ظاہر ہو گا، یہ تو سیاسی مبصر جانیں۔ البتہ ہم اتناضرورجانتے ہیں کہ اس یاترا سے پورے ملک میں بیداری کی ایک لہر سی ضرور پیدا ہو گئی ہے۔یہ خوش آئند بات ہے۔ ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اب گانگریس کو معاف کردیں اور بی، جے، پی سے نجات پانے کے لیے اس پدیاترامیں شامل ہوجائیں۔ اور کوئی راستہ نظرنہیں آتا۔ کبھی کبھی پیدل چلنا سواری پر چلنے سے اچھا ہوتا ہے۔ اس سے صحت بھی اچھی رہتی ہے اوربقول ڈاکٹر دانش مند۔ پیروں کی طاقت بھی بحال ہوتی ہے۔ روپے پیسے کی بھی بچت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی پیدل چلنے کے اور بھی کئی فائدے ہیں جن کا بیان کافی تفصیل طلب ہے۔ مثال کے طور پر اس واقعہ کوہی لے لیجئے۔مودی جی کے گجرات سے آنے والی ٹرین نئی دہلی کے اسٹیشن پررکی۔مسافروں نے ٹرین سے اترنا اور اپنی منزل پر پہنچنے کے لیے سواریوں کو طے کرنا شروع کیا۔ایک مسافر اپنی بیوی اور ایک کمسن بچے کے ساتھ مختصر سا سامان لیے
ٹیکسی، آٹو رکشہ، تانگہ ہرایک سواری طے کرتاپھرتارہالیکن کرایہ طے نہ ہوپاتا۔مسافر پریشان ہوگیا۔ اسے دن بھر کے لیے سواری کی ضرورت تھی تاکہ دہلی کی یادگارعمارتوں،پارکوں، بازاروں۔ شاپنگ مالوں اورپانچ ستارہ ہوٹلوں کودیکھ سکے۔جب ٹیکسی والوں سے کرایہ طے نہ ہو سکا تو مایوسی کی حالت میں اس نے رکشہ والوں سے رجوع کرنا شروع کیا۔ ایک رکشہ والے نے پانچ سو روپے مانگے۔ دوسرے نے آٹھ سو۔ تیسرے نے تو غضب ہی کرڈالا۔ اس نے پورے ایک ہزار روپئے مانگ لیے۔ مسافر آگے بڑھا توایک چالاک رکشے والے نے اسے روک لیا۔
۔ ۔ ہم لے چلے گا صاحب !مگر اس طرح کہ آپ ہمیں کھمبے کے حساب سے کرایہ ادا کریں۔۔
۔۔ کھمبے کے حساب سے۔؟ کیا مطلب ہے تمہارا۔؟؟ مسافر نے حیرت سے پوچھا۔
رکشہ والا بولا۔۔ صاحب۔!آپ گجرات سے آئے ہیں۔ ہم بھی گجراتی ہیں اس لیے آپ سے ہمیں بڑی ہمدردی ہے۔ آپ ایسا کریں کہ راستے میں جتنے کھمبے پڑیں، ایک روپیہ کھمبہ کے حساب سے کرایہ ادا کریں۔ایک کھمبہ سے دوسرے کھمبہ تک صرف ایک روپیہ کرایہ۔۔
مسافر کو لگا کہ اس انوکھے رکشہ چالک کی بات بہت مناسب ہے۔وہ راضی ہوگیا۔اس نے بیوی کو رکشہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ اپنے بچہ کو گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ مسافر بھی بیٹھ گیا۔رکشہ چالک نے پیڈیل مارا۔
چکنی سڑک پر رکشہ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔
کچھ دور پہنچے تو ایک کھمبہ آگیا۔رکشہ چالک نے کہا۔ دیکھئےصاحب!ایک کھمبہ۔۔ آپ بھی کھمبے گنیے اور میں بھی گنتاچلوں گاتاکہ بے ایمانی کا امکان باقی نہ رہے۔ ۔
رکشہ چلتارہا۔کھمبے گنے جاتے رہے۔جب سو کھمبے گنے جاچکے تو مسافر چیخ پڑا۔
۔۔ رکشہ روک لو۔ مسافر نے کہا۔۔ ہم سواری سے پیدل اچھے۔۔
۔۔ یہ کیا بات ہوئی بابو جی۔؟رکشہ روکتے ہوئے چالک نے پوچھا۔مسافر بیوی، بچہ اور سامان سمیت رکشہ سے نیچے اترا اور رکشہ والے کے آگے ہاتھ جوڑکرکھڑاہوگیا۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوگئی، مجھے معاف کرو بھیا۔۔
لیکن ہوا کیا صاحب۔؟،، رکشہ وان نے حیرت سے پوچھا۔
۔۔کچھ بھی نہیں ہوا۔۔مسافر نے عاجزی سے کہا۔بس تم سوروبپئے لو اور ہماری جان بخش دو۔خدا کی پناہ۔ ابھی گھڑی میں تیس منٹ بھی نہیں ہوئے اور کھمبے سو ہوگئے۔یہ بھی کوئی بڑی بات نہ ہوئی۔بڑی بات یہ ہے کہ رکشہ پر بیٹھنے کے بعد میں نے صرف کھمبے گنے۔ کھمبوں کے آس پاس کیا کچھ ہے، یہ مجھے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس لیے ہم سواری سےپیدل اچھے۔
مسافر نے سوروبپئے کا نوٹ دے کر رکشہ وان کوچلتاکیا۔
ہمارے پردھان منتری جب سے اقتدارمیں آئے ہیں بڑی خوبی سے گجراتی رکشے والے کارول اداکررہے ہیں۔وہ بھی عام جنتا کو صرف کھمبے گنوا رہے ہیں۔تاکہ لوگ وعدوں کے کھمبے گنتے رہیں اورآس پاس کیا ہورہا ہے، اس سے بے خبررہیں۔ مہنگائی آسمان کامنھ چڑھا رہی ہے۔بے روزگاری چرم سیماپرپہنچ گئی ہے اوران کے حوارین یہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ سب کشل منگل ہے۔ ہرطرح کے جرائم اپنی حدوں کو پارکر گئے مگر وہ ہیں کہ صرف کھمبے گنانے میں مصروف ہیں۔ملک پیچھے جارہاہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ آگے بڑھ رہاہے۔کسان خودکشی پر مجبور ہو گئے لیکن ان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی ہے۔ڈگری ہولڈر نوجوان بیکاری سے مارے مارے پھررہے ہیں مگروہ محض وعدوں کے کھمبے گنوا رہے ہیں۔پورے ملک میں بے چینی اور انتشار کا عالم ہے۔کون کہہ سکتا ہے کہ ہم ایک آزاد اور سیکولر ملک کے باشندہ ہیں۔سب کچھ سہی مگر ایک چیز بہت ترقی پزیر ہے۔ اور وہ ہے فرقہ پرستی۔شاید بی، جے، پی کا یہی مشن ہے جس کے لیے وہ سرگرم عمل ہے۔اس لیے اس پارٹی کی سواری سے ہم پیدل اچھے۔بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم رکشہ والے کو جلد سے جلدچلتاکریں۔حالانکہ اب کھمبے گنتے گنتے پبلک اوربہت کچھ گننے لگی ہے۔
***
انس مسرورانصاری
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن (رجسٹرڈ/انڈیا)
سکراول، اردو بازار،
ٹانڈہ۔ امبیڈکرنگر(یو، پی)
رابطہ۔ /9453347784
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/