سیتامڑھی کلکٹریٹ سے اردو کی ترویج وتبلیغ
ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، پٹنہ
رابطہ نمبر: 9199726661
سیتامڑھی بہار کا شمالی ضلع ہے جو ہند و نیپال کے سنگم پر واقع ہے۔اس ضلع کی ایک علمی بستی ” پرسا ” ہے جو بیلا تھانہ اور پریہار بلاک کے ماتحت ہے۔ ” پرسا ” میرا آبائی، خاندانی و پیدائشی گاؤں ہے۔ اس لیے اس ضلع سے مجھے فطری، قلبی اور روحانی لگاؤ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ مدارس ، مکاتب کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جس میں حافظ قرآن کریم اور عالم دین نہ ہو۔ ایک ایک خاندان میں کئی کئی حفاظ و علماء پائے جاتے ہیں جو ملک کی مختلف درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہیں۔ یہ حفاظ اور علماء جہاں ایک طرف دین کی ترویج و ترسیل اور اشاعت و تبلیغ میں مصروف ہیں، وہیں دوسری طرف اردو زبان کی ترویج وتبلیغ میں بھی بڑھ چڑھ کر اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ ان کے اندر اردو دوستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر پایا جاتا ہے۔ یہ اسکولوں اور کالجوں کے اکثر اساتذہ کی طرح پروفیشنل نہیں۔ تجربات اور مشاہدات شاہد عدل ہیں کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کچھ اساتذہ ہی اردو کو لے کر فکر مند ہیں اور اس کی ترویج وتبلیغ میں مخلصانہ طور پر اور بے لوث ہوکر حصہ لے رہے ہیں۔ان کی خدمات قابلِ صد ستائش ہیں، جنہیں میں سلام کرتا ہوں۔ ورنہ تلخ حقیقت اور کڑوی سچائی یہ ہے کہ ان کی اکثریت کو اردو کے تحفظ، بقاء، فروغ اور ترویج وتبلیغ سے کوئی بہت زیادہ سروکار نہیں۔ میں اردو کے کئی ایسے اردو اساتذہ اور پروفیسروں کو جانتا ہوں جو اردو کے نام پر بڑے بڑے ایوارڈ حاصل کرتے ہیں۔ ملک اور بیرون ملک کے قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں و سمیناروں میں شرکت کرتے ہیں اور نہایت ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ شاہانہ زندگی گزارتے ہیں، مگر وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کے لیے اردو کو شجر ممنوع تصور کرتے ہیں۔ وہ انہیں اردو کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ وہ اپنے بیٹے بیٹیوں کو انجنیئر اور ڈاکٹر وغیرہ بنانے میں اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ میری باتوں پر یقین نہ آئے تو سروے کرکے دیکھ لیجیے، یقیناً ” دودھ کا دودھ پانی کا پانی ” ہوجائے گا۔ اردو کی روٹی وبوٹی توڑنے والے کئی خودساختہ سورماؤں کو تو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ انہوں نے اردو کی تعلیم حاصل کرکے بڑی غلطی کی ہے، بلکہ یہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہے۔ وہ ایسا اپنے بچوں کے ساتھ نہیں چاہتے۔ جبکہ یہ ناقابلِ انکار حقیقت اور صد فی صد مبنی بر صداقت بات ہے کہ مکاتب و مدارس کے اساتذہ، مساجد کے ائمہ اور اور دیگر مجالات سے وابستہ حفاظ وعلماء ایسا کبھی نہیں سوچتے ۔ وہ اردو سے بےپناہ محبت کرتے ہیں اور گھر سے لے کر درسگاہوں اور دفتروں تک ہرجگہ اردو کا استعمال کرتے ہیں، اردو بصد شوق خود پڑھتے لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اردو پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ پچھتا تے بھی نہیں، بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں ہرجگہ اردو کی ترویج وتبلیغ کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔اردو کی بے لوث خدمت کرنے، اردو کو تحفظ فراہم کرنے اور اردو کی ترویج وتبلیغ کرنے والوں میں سے ایک جناب محمد پھول حسن قاسمی ہیں جو مدرسہ کی بوریا پر پڑھائی کی۔ دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی۔ بعد ازاں جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عصری علوم حاصل کئے اور تقریباً 22 برسوں سے سیتامڑھی کلکٹریٹ کے اردو زبان سیل سے وابستہ ہیں جہاں سے اپنی بساط کے مطابق سیتامڑھی ضلع سطح پر اردو کے تحفظ، بقاء، فروغ، ترویج واشاعت اور تبلیغ کے لیے کے لیے جہد مسلسل کررہے ہیں اور اس کے لیے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا کہ محمد پھول حسن قاسمی نے اردو کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ وہ ضلع انتظامیہ سے گہرے اور خوشگوار تعلقات بناکر رکھے ہوئے تاکہ میگزین ” اردو نامہ ” کی اشاعت اور پروگراموں کے انعقاد میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ جناب والا سیتامڑھی کلکٹریٹ کے اردو زبان سیل کے زیراہتمام ہرسال پابندی سے اردو کی ترویج و تبلیغ کے مقصد سے ” اردو نامہ ” کو زیور طباعت سے آراستہ کرکے منظر عام پر لاتے ہیں جس میں مختلف علمی، ادبی اور تحقیقی موضوعات پر مبنی مضامین ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہرسال پروگراموں کا پابندی سے انعقاد کراتے رہتے ہیں جس میں ضلع سیتامڑھی کے علاوہ دوسرے اضلاع کے ادباء وشعراء کی شرکت ہوتی ہے۔ بڑی تعداد میں ضلع بھر سے اردو محبین اپنی شرکت سے پروگراموں کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہیں۔ ضلع مجسٹریٹ، ضلع اردو زبان سیل کے انچارج افسر اور ضلع ایجوکیشن افسر سمیت تمام اعلیٰ افسران بھی شرکت کرتے ہیں، وہ اپنا ہر طرح کا تعاون پیش کرتے ہیں اور اردو کے فروغ اور ترویج و تبلیغ کے لیے نیک و مفید مشوروں سے بھی نوازتے ہیں۔اس طرح کے اردو پروگراموں میں دو مرتبہ مجھے شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ چند دنوں قبل پھول حسن قاسمی صاحب نے مجھے فون کر حکم دیا کہ 29/ نومبر 2022 کو اردو ڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ، حکومت بہار کی ہدایت پر اردو زبان سیل، کلکٹریٹ، سیتامڑھی کے زیر اہتمام کلکٹریٹ کے احاطہ میں واقع پریچرچا بھون میں اردو طلباء اور طالبات کے درمیان تقریری مقابلے کا انعقاد ہوگا جس میں آپ کو بحیثیت جج شرکت کرنی ہے۔ میں نے عدیم الفرصتی کے باوجود انکار کرنے یا بہانے بنانے کے بجائے فوراََ لبیک و سعدیک کہا۔ اس کی تین اہم وجوہات تھیں۔ایک تو پھول حسن صاحب میرے بڑے محترم ہیں اور مجھے اپنی شفقتوں اور محبتوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اردو کے فروغ اور اردو طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ پروگرام ہو نا تھا اور تیسری وجہ یہ تھی کہ یہ پروگرام میرے اپنے ضلع میں ہونا تھا، چنانچہ میں نے ان سے یکلخت پروگرام میں یقینی طور پر اپنی حاضری وشرکت کا عہد و پیمان کرلیا، بلکہ اس پر مہر ثبت کردی اور پھر پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔
پروگرام کا افتتاح ضلع مجسٹریٹ منیش کمار مینا، ایڈیشنل مجسٹریٹ کرشنا پرساد گپتا، ضلع عوامی رابطہ افسر کمل سنگھ، ضلع سپلائی افسر اجے کمار، سینئر ڈپٹی کلکٹر و اردو زبان سیل کماری رنجنا بھارتی، راشٹریہ جنتا دل کے سینئر لیڈر و ضلع صدر محمد شفیق خان، کانگریس کے ضلع صدر شمس شاہنواز اور اردو زبان سیل سے ہمرشتہ محمد پھول حسن وغیرہم نے شمع روشن کرکے کیا۔ اردو طلباء اور طالبات کے درمیان اس مقابلہ جاتی پروگرام میں گوئنکا کالج سیتامڑھی کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد ثناء اللہ، میں ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، پلس ٹو کملا نہرو ہائیر سیکنڈری اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر محمد قمر الہدیٰ، معروف شاعر جمیل اختر شفیق اور ڈاکٹر نکہت فاطمہ نے بحیثیت جج شرکت کی تھی جبکہ محمد پھول حسن نے نظامت کی ذمہ داری نبھائی تھی۔سینئر ڈپٹی کلکٹر کماری رنجنا بھارتی نے اسٹیج پر تمام افسران و مہمانان کو گلدستہ پیش کر کے ان کا استقبال کیا تھا۔ بعد ازاں ضلع مجسٹریٹ نے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اردو ایک نہایت شیریں، میٹھی دلکش و پیاری زبان ہے جو اپنے آغاز سے لے کر آج تک ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو متاثر کرتی رہی ہے۔ اس زبان نے ہندوستان کی گنگا جمونی تہذیب کو خوبصورت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے اور موجودہ حکومت اس کے فروغ کے مقصد سے کئی طرح کی اسکیمیں چلا رہی ہے، جن سے اردو کا کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ اردو والوں کو چاہیے کہ ان سے ہر ممکن استفادہ کریں اور اپنے بچوں کو یقینی طور پر اردو کی تعلیم دلائیں۔ اردو کے فروغ اور طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کی طرف سے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ رقم بھی دی جاتی ہے۔ یہ مقابلہ جاتی پروگرام اسی قبیل سے ہے۔ میں اس میں شریک سبھی طلباء، طالبات اور ان کے گارجینوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اے ڈی ایم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ میں نے مدرسوں کا دورہ کیا ہے وہاں مجھے اندازہ ہوا کہ اساتذہ بچوں کو اردو تعلیم دینے میں پوری محنت اور تندہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ مسلم بچے اردو پر زور دیتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ عصری مضامین پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کا مسقبل تابناک ہوسکے اور وہ بھی رفتار زمانہ کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر چل سکیں۔اردو کو صرف مسلمانوں تک سمیٹ کر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے فروغ کے لیے غیر مسلموں کے درمیان بھی ماحول سازی کرنے اور انہیں پڑھنے پڑھانے کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔پروگرام میں راشٹریہ جنتا دل کے سینئر لیڈر و ضلع صدر محمد شفیق خان نے کہا تھا کہ اردو کے فروغ اور اردو داں طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے منعقد اس مقابلہ جاتی خالص اردو پروگرام میں شرکت کرکے بڑی خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ میں خود ایک مقر ہوں اور برسوں سے تقریر کرتا آرہا ہوں، مگر آج اس پروگرام میں طلباء و طالبات کی تقاریر سننے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ان میں سے بعض مجھ سے بہت اچھے مقرر ہیں۔ اردو کے فروغ کے لیے والدین اور بچے سبھی کو سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ ہمیں اردو اخبارات خریدنے اور گھر پر جاری کرا کر پڑھنا چاہیے۔ کانگریس لیڈر شمس شاہنواز نے کہا تھا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اردو ختم ہوجائے گی وہ غلط کہتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ اردو اپنی لطافت اور شیرینی کی وجہ سے ہمیشہ زندہ و پائندہ رہنے والی زبان ہے۔منشی پریم چند اور پروفیسر گوپی چند نارنگ سمیت درجنوں غیر مسلم ادباء و شعراء ہیں جنہوں نے عملی طور پر اردو کے لیے تاریخی خدمات انجام دیں۔ آج کمار وشواس بھی اردو کے ایک بڑے مداح، بلکہ جانکار شاعرہیں اور بڑے بڑے مشاعروں کی نظامت کرتے ہیں، جن میں اردو کے اشعار کثرت سے پیش کرتے ہیں۔ اردو کے تحفظ اور بقاء کو لے کر مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اردو طلباء و طالبات کے درمیان منعقد اس مقابلہ جاتی پروگرام میں ضلع بھر سے ہائی اسکولوں، ہائیر سیکنڈری اسکولوں، کالجوں اور سرکاری مدارس میں زیر تعلیم طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔ سبھی طلباء و طالبات کو تین زمروں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اول : میٹرک / مساوی کا زمرہ۔ دوم : انٹر و مساوی کا اور سوم : گریجویشن و مساوی کے طلباء و طالبات کا زمرہ تھا۔ میٹرک و مساوی طلباء و طالبات کے لیے ” تعلیم کی اہمیت” ، انٹر و مساوی کے لیے ” اردو زبان کی اہمیت”، گریجویشن اور مساوی کے لیے” اردو غزل کی مقبولیت” عنوانات مقرر کئے گئے تھے، جن کے تحت بڑی تعداد میں طلباء و طالبات نے تقاریر پیش کیں اور اپنے اپنے فنی کمالات کا مظاہرہ کیا تھا ججز کے ذریعے دیئے گئے نمبرات کی بنیاد پر ہر ایک زمرہ میں اول انعام کے لیے ایک ایک، دوم کے لیے تین تین اور سوم کے لیے چار چار طلباء و طالبات کو منتخب کیا گیا تھا۔گریجویشن زمرے سے منتخب طلباء و طالبات:-اول پوزیشن ایک سعدیہ رضوی، دوم پوزیشن میں تین محمد ندیم راغب،شفق رحمان،حبیب اللہ انصاری ،سوم پوزیشن میں چار درخشاں انجم، مسعود احمد، محمد توقیر عالم،زینت خاتون کے نام شامل تھے۔انٹر زمرے میں اول پوزیشن میں ایک ابرار احمد غازی، دوم پوزیشن میں تین ساطعہ نجمی، محمد توحید انور اور نیلوفر خاتون ، سوم پوزیش میں چار شفق یاسمین، آسیہ رضوی، بشری خاتون اور صافیہ خاتون شامل ہیں۔ میٹرک زمرے میں اول پوزیشن میں ایک
صالحہ بشری، دوم پوزیشن میں تین صدف جہاں، صفیہ سائمہ اور آفرین خاتون ہیں۔
سوم پوزیشن میں چار محمد علاءالدین، مبشرہ خاتون، آسیہ صدیقی اور معاذ شیخ کے نام شامل تھے۔ سبھی زمروں میں مجموعی طور پر کل چوبیس طلباء و طالبات بالترتیب اول دوم اور سوم درجے سے کامیاب ہوئے تھے۔ مسابقہ پروگرام میں شرکت کرنے والے اداروں کے طلباء و طالبات جو پوزیشن کے نمبرات حاصل نہیں کر سکے انتمام کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں بھی سند شرکت اورمیڈل دینے کا مجاز قرار دیا گیا تھا۔ میں پروگرام کے تینوں زمروں میں کامیاب ہونے والے سبھی طلباء اور طالبات کے ساتھ ساتھ ان تمام طلباء و طالبات کو بھی صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے حصہ تو لیا، مگر کسی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ وہ ہمت و حوصلہ جوان رکھیں اور جد وجہد مسلسل کو بدستور جاری رکھیں۔ ان شاءاللہ ایک دن کامیابی ان کے قدموں کو بھی چومے گی۔
قدم چوم لیتی ہے خود بڑھ کر منزل
مسافر تھک کر اپنی ہمت نہ ہارے
یادش بخیر! اردو زبان سیل، کلکٹریٹ، سیتامڑھی کے زیر اہتمام مورخہ 27/ مارچ/ 2022 کو بھی شہر کے ڈمرا ہوائی اڈہ میدان جو کلکٹریٹ سے متصل ہے، میں ” فروغ اردو سیمینار اور مشاعرہ ” کے عنوان سے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد ہوا تھا۔ اس پروگرام میں بھی مجھے شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح سیتامڑھی کی انچارج آفیسر ضلع اردو زبان سیل و سینئر ڈپٹی کلکٹر کماری رنجنا بھارتی، ڈی ڈی سی بنے کمار ، آرجے ڈی لیڈر شفیق خان، سابق ممبر اسمبلی خلیل انصاری، ڈاکٹر ساجد خان، محمد پھول حسن، راقم السطور ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی، عارف انصاری، شمیم قاسمی، پرویز عالم، صدف اقبال، ظفر حبیبی اور ڈاکٹر ثناء اللہ وغیرہم نے ضلع اردو نامہ کی رونمائی کرکے کیا تھا۔ پروگرام کی نظامت محمد پھول حسن اور جمیل اختر شفیق نے مشترکہ طور پر کی تھی۔ اس موقع سے بھی محترمہ کماری رنجنا بھارتی نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اردو ہندی مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔ اردو کی مٹھاس اس وقت محسوس ہوتی ہے جب اردو بولی اور لکھی جاتی ہے۔بہار میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے اسے فروغ دیجیے اور اس کو خود حاصل کیجئے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تعلیم دلوائیے تاکہ اردو زبان کا فروغ ہوسکے – ڈی ڈی سی نے کہا تھا کہ اردو ہندی کے درمیان اٹوٹ رشتہ ہے۔ انہوں نے کلیم عاجز، فیض احمد فیض اور مرزا غالب جیسے شاعروں سے خود کو متأثر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اردو کو فروغ دینے میں ان شاعروں کا اہم کردار رہا ہے۔آر جے ڈی کے ضلع صدر شفیق خان نے کہا تھا کہ اردو زبان سے مجھے والہانہ لگاؤ ہے۔ میں اپنی ہر نشست و برخاست میں اردو بولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر کسی کو اردو پڑھنا لکھنا سیکھنا چاہئے۔ سابق ممبر اسمبلی خلیل انصاری نے کہا تھا کہ میں نے باضابطہ اردو کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ میں سائنس کا طالبعلم اور معلم تھا۔ اس کے باوجود اردو سے میرا رشتہ بڑا گہرا ہے۔ میں ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی نے کہا تھا کہ اردو زبان اپنی شیرینی، دلکشی اور لطافت کی وجہ سے آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ یہ زبان ہندوستان اور پاکستان ہی میں نہیں، بلکہ سعودی عرب، دوبئی، کویت، قطر سمیت تمام مسلم ممالک میں میں بولی جاتی ہے۔ یہاں تک انگلینڈ اور امریکہ جیسے مغربی ممالک میں بھی یہ زبان بولی اور پڑھی جاتی ہے۔ اس زبان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے نیویارک سے عالمی سہ ماہی جریدہ “ورثہ” کے نام سے جناب رئیس وارثی اور نصیر وارثی کی ادارت میں نہایت آب وتاب کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اس زبان سے ہمیں اپنا رشتہ مزید گہرا و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ گوئنکا کالج کے اردو کے استاد و اسسٹنٹ پروفیسر محمد ثناء اللہ نے کہا تھا کہ اردو کے فروغ کے لیے ہم سب کو مشترکہ کوشش کرنی ہوگی۔ بعد ازاں شمیم قاسمی شاعرہ صدف اقبال، پرویز عالم، کاظم رضا، ظفر حبیبی، علاءالدین بسمل، جمیل اختر شفیق، آشا پربھات اور کلیم اختر شفیق سمیت کئی شعراء نے اپنا اپنا کلام پیش کیا تھا۔ پروگرام میں اس وقت کے ڈی ایم سنیل کمار یادو، ایس پی ہری کشور رائے، ایڈیشنل کلکٹر کرشن پرساد گپتا اور دیگر کئی اعلیٰ افسران و پولس اہلکار کے علاوہ محمد مرتضی نیتا، قمر اختر، ڈاکٹر رضی حیدر اجالا، راشد فہمی، محمد افتخار احمد، مولانا علاءالدین رضوی، سمیت ضلع کے سینکڑوں محبان اردو نے شرکت کی اور اردو دوستی کا ثبوت پیش کیا تھا ۔
کلکٹریٹ میں اردو کے فروغ اور اس کی ترویج وتبلیغ کے مقصد سے منعقد ہونے والے مذکورہ بالا دونوں پروگراموں میں ڈی ایم، ایس پی، اے ڈی ایم، ایس ڈی سی اور دیگر سبھی اعلیٰ افسران کی اردو دوستی، پروگرام میں ان سبھی کی مستعدی و سرگرمیوں نے مجھے بیحد متأثر کیا تھا۔ میں ان تمام افسران اور اردو زبان سیل، کلکٹریٹ سیتامڑھی کے سبھی منسلکین و متعلقین کو پروگرام کے کامیاب انعقاد پر صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، بالخصوص فیاض احمد بتھنا بلاک، علیم خان ریگا بلاک ، خورشید احمد رونی سیدپور بلاک ،سیف الرحمن باجپٹی بلاک ، شہاب الدین سونبرسا بلاک ، محمد مرتضی نانپور بلاک ، تمیم اختر سب ڈویژن پوری اور اسلام الدین ( ڈپوٹیڈ معلم ) نیز تبریز احمد اردو سیل قابل ذکر ہیں۔ پروگرام میں اردو اور ہندی کے کئی صحافی بھی کافی سرگرم نظر آئے، جن میں محمد طالب حسین آزاد، محمد ارمان علی اور کلیم اختر شفیق کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی صحافی حضرات بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ اردو کی ترویج وتبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اردو زبان و ادب کے فروغ اور ترویج وتبلیغ کے لیے پھول حسن قاسمی صاحب برسہا برس سے جس طرح کی مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں وہ یقیناً بہت ہی مستحسن اور قابل تعریف ہے۔ اللہ انہیں صحت و عافیت کے ساتھ عمر دراز عطا کرے اور مزید اردو خدمات کی توفیق ارزانی کرے۔ اردو طلباء و طالبات کی حوصلہ افزائی پروگرام ہو یا فروغ اردو سمینار اور مشاعرے کا انعقاد یہ سبھی اس بات کے غماز ہیں کہ سیتامڑھی میں اردو کا ماحول بہت حد تک اطمینان بخش ہے۔ وہاں ابھی بھی بہت حد تک اردو کو لے کر لوگوں میں بیداری ہے اور اردو سے وابستہ افراد کے علاوہ کلکٹریٹ اردو زبان سیل اور اعلیٰ افسران اردو کی ترویج وتبلیغ کے لیے قابل ستائش کوششیں کر رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ ضلع انتظامیہ کی جانب سے بھرپور معاونت کا یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ضلع مجسٹریٹ منیش کمار مینا، ایڈیشنل مجسٹریٹ کرشناپرساد گپتا، سینئر ڈپٹی کلکٹر کماری رنجنا بھارتی وغیرہم کے خطابات اور طلباء و طالبات کے فنکارانہ مظاہرے نے مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ سیتامڑھی ضلع میں اردو کا ماحول سازگار و خوشگوار ہے اور وہاں اردو کا مستقبل روشن ہے۔ اس زبان کو کبھی بھی ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اردو کا ماضی شاندار تھا، حال بھی شاندار ہے اور مسقبل بھی شاندار رہے گا۔ اگر ضلع کے حفاظ اور علماء کے ساتھ ساتھ عصری علوم والے اور امراء حضرات بھی اپنے اپنے بچے بچیوں کو اردو کی تعلیم دلائیں، ان کے اندر اردو دوستی کا جذبہ پیدا کریں، اپنے گھر میں اردو لکھنے پڑھنے کا ماحول بنائیں تو ضلع میں اردو اور بھی فروغ پائے گی ۔مزید برآں یہ کہ اگر حکومت سبھی اسکولوں، کالجوں ، تھانوں، بلاکوں اور سرکاری دفتروں میں اردو کی خالی جگہوں پر زیادہ سے زیادہ اردوداں کو بحال کردے، اسکولوں میں اردو کی تعلیم وتدریس کا ماحول ٹھیک ٹھاک کردے، اسکولوں کی اردو کی نصابی کتابوں کی اشاعت کو یقینی بنادے اور طلباء و طالبات تک ان کتابوں کو پہنچوادے نیز ہر پنچایت میں اردو لائبریری قائم کردے جہاں اردو کتابوں کے علاوہ اردو اخبارات کی فراہمی کرائے تو سیتامڑھی ضلع میں اردو کا ماحول مزید بہتر ہو گا اور اردو خوب پھلے اور پھولے گی۔ کاش! دل کے ارماں آنسوؤں میں بہنے کی بجائے میری دیرینہ خواہش شرمندہ تعبیر ہو جاتی ۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/