*خود نمائی ایک مذموم خصلت*
✍️فخر الحسن محمدی
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
ألم تر إلى الذين يزكون أنفسهم بل الله يزكي من يشاء ولا يظلمون فتيلا (سورة النساء) .
اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے فرمایا: اۓ نبی کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاک کہتے ہیں، بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور ان پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔۔
اس آیت سے ایک مذموم صفت یہ سمجھ میں آئی کہ کسی بھے انسان کے اندر یہ صفت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی تعریف آپ کرے ۔ خود کی خوبیاں خود بیان کرے ۔ اور کہے کہ میں وہ ہوں ، میں یہ ہوں ، میں ایسا ہوں ، میں وایسا ہوں ، میں نے یہ کام کیا ہے ، میں نے وہ کام کیا ہے ۔ یہ صفت اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ۔
اگر کسی مومن کے اندر اس طرح کی صفت ہو کہ اپنی بڑائی ۔ اپنی تعریف آپ بیان کر رہا ہے تو یہ صفت اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللّٰہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ مجھے تم پر جس چیز کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی رائے کو پسند کرے (تفسیر ابن کثیر) ۔
لیکن ہمارے معاشرے میں ، ہمارے محلے میں یہ مذموم خصلت لوگوں کے اندر سرایت کر گئی ہے ۔ اسے اپنی تعریف کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہیں ہوتی ہے۔ اسے شریعت کا پاس ولحاظ نہیں ہے کہ ہماری شریعت کیا کہتی ہے۔ بلکہ اپنی تعریف آپ کرتا ہے اور لوگوں سے تعریف بھی کرواتا ہے ۔ کہ میں نے ایسا کام کیا ۔ وایسا کام کیا۔ صرف وہ شہرت چاہتا ہے کہ لوگوں میں ہمارا پہچان بن جائے۔ اس کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس کا اجر اللہ تعالیٰ دے گا۔ بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے واہ واہی دے ۔ لوگ میرا نام کرے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فلا تزكوا أنفسهم هو أعلم بمن اتقى ( سورة النجم) .
اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم میں متقی کون ہے۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: کہ اپنی تعریف کی غرض سے آپ لوگوں کو اپنی پاکیزگی سے آگاہ کرتے ہیں ( تفسیر سعدی) ۔
اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: آپ اس کی تعریف کریں، اس کا شکریہ ادا کریں، اور اپنے اعمال کی خواہش کریں۔ ( تفسیر ابن کثیر) ۔
ائے لوگوں اپنی تعریف آپ نہ کرو ، اگر آپ سچے ہو ۔ اگر آپ نے صحیح کام کیا ہے تو دنیا تعریف کرے گی ۔ دنیا کہے گی کہ فلاں شخص نے یہ کام کیا ہے ۔
بلکہ خوشبو خود بتا دیتی ہے کہ کون سا پھول ہے ۔
آپ جانتے ہیں شریعت کو کیا پسند ہے؟ ۔ شریعت کہتی ہے دنیا میں صحیح رہو ۔ مگر خود کو غلط ہونے کا اقرار کرتے رہو ۔ نیک بنے رہو ۔ متقی رہو ۔ لیکن خود کو کہتے رہو کہ میں ایک گنہگار بندہ ہوں ۔ میں نافرمان بندہ ہوں۔ میں سیاہ کار بندہ ہوں ۔ یہ چیز شریعت کو پسند ہے ۔
قارئیں! آپ ذرا غور کریں، جب شریعت کو یہ پسند نہیں کہ کسی کی تعریف اس کے سامنے کی جائے۔ تو یہ کیسے پسند ہوگا کہ اپنی تعریف آپ خود کرو۔ شریعت کہتی ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کے سامنے آپ کی تعریف کر رہا ہے تو آپ اس کے چہرے پر مٹی ڈال دیں۔ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ک ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہرے پر مٹی ڈال دیں (صحیح مسلم).
مولانا عبد العظیم عمری مدنی حفظہ اللہ نے کہا: اگر خودنمائی کے مزاج کے ساتھ خود پسندی کے مزاج کے ساتھ ہم نیک عمل کرتے رہیں گے تو ہم اتنے ہی زیادہ مغرور ہوتے چلے جائیں گے۔ ہمارا کوئی بھی نیک عمل قابل قبول نہیں ہوگا۔
تو ضرورت اس بات کی ہے کہ۔ خودنمائی جیسی مذموم خصلت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔
اگر ہمارے سارے کام صرف اللہ کے لیے ہوں تو ہم یقیناً ریا کاری اور خود نمائی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہم خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کام کریں اور اللہ ہی سے اجر کی امید رکھیں دنیا کی شہرت دنیا کی کامیابی کوئی کامیابی نہیں ہے اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/