نادان پرندہ

نادان پرندہ

از قلم: تمیم ثناء اللہ تیمی

دہلی کی وہ تاریک رات،سسکتی اور کپکپاتی سرد موسم ،جامع مسجد کی خوبصورت طرز تعمیر ،بلندمنارے ،لال قلعہ کی سنسان مسجد ،چکاچوندھ کردینے والے عجائب خانے ، داغ دہلوی کے اشعار،انڈیاگیٹ کی خوبصورتی، اورجمعیت کے دعوت نامے کو نادان پرندہ کبھی فراموش نہیں کرسکتا

2009کی وہ خوفناک شام ، جب زندگی کی بربادی کے افسانے لکھنے کی تیاری کی جارہی تھی، چند پیسوں کی خاطر اور نہ پانے والے مختصرخواب کی تکمیل اور اپنے حقیقی زندگی کے مقاصدچھوڑ نے کی منصوبے کو مرتب کیا جارہا تھا

تکمیل قرآن کے بعد ستر ہزار شیطانوں کا ایک خونخوار جھنڈ دن و رات میرے پیچھے پوری توانائی صرف کرنے کی قسمیں کھارہا تھا ،ہمہ وقت میری نگرانی ہورہی تھی،میری بربادی کے پرچے اور مقاصد تیار کئے جارہے تھے اور یہ ساری کوششیں اس لئے ہورہی تھی تاکہ کسی طرح نادان پرندہ میرے پنجرے میں جا پھنسے

اور کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کمبخت ابلیس کے پھندے میں پھنس ہی گیا اور اعلی تعلیم کے دروازے بند کرنے کا عزم کرلیا ،اعلان ترک تعلیم نے شیطانوں کی بستی میں عید سا سماں قائم کرڈالا ،جدھر نظر پڑتی صرف اور صرف ڈھول تماشا ہی دیکھائی پڑتا

سموار کی صبح گھر سے مدرسہ احمدیہ آرہ کیلئے روانہ ہوا ،بدھ کی شام آراء کے خوبصورت اسٹیشن پر اترا ، چھوٹے بھائی عبد اللہ کو مدرسہ کیلئے روانہ کرنے لگا تو پوچھتا ہے کہاں جارہے ہیں،کب تک واپسی ہے ،نادان پرندہ مغل سرائے کی بیتے لمحات کانظارہ اور اپنے سند حفظ حاصل کرنے ساتھ ہی تین دن بعد واپسی کا بہانہ بنا کر دوسری ٹرین پر سوار ہو بیٹھا ،مغلسرائے پہنچتے ہی مدرسہ کا رخ کیا،داخلےکی کاروائی ہوئی ،روم دئے گئے اور پر سکون زندگی بسر کرنے لگا

دو چار گھنٹے گزرے بھی نہیں تھے کہ ایک گمنام دوست سے ملاقات ہوگئی سارا ماجرا ،داستان ،گزرتے ایام کی پریشانیوں،اور شیطانوں کے تیار کئے گئے مسودے،اور آنے والے ایام کے عزائم کی پوری تفصیلی ڈائری اس کے ہاتھوں میں سونپ ڈالا

بس کیا تھا دو تین دن بعدایک سنسان وادی بربادی میں بیٹھک ہوئی، قرارداد منظور کرلی گئی ،حلف نامے تیار کئے گئے ،اور دہلی جانے پر اتفاق ہوا

حکم کی تعمیل کی منصوبے کے مطابق مغرب بعد اپنا حقیبہ لیا اور اسٹیشن کے لئے روانہ ہوگیا ،آٹھ تیس پر ٹرین پکرا اور علی الصباح دہلی پہونچا باہر نکلنے کے بعد تھوری دیر آرام کیا ، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کیاجائے ،کبھی اپنے آپ کو دیکھتا کھبی دہلی کے اونچے اونچے محلات ،سوسال پرانی گاڑیاں، ٹکسی وغیرہ کا نظارہ کرتا رہا

اسی اثناء میں ایک سائق نمودار ہوا بات چیت ہوئی ٹکسی پر بیٹھ کر ،سنسان سڑک اور ناگزیر حالات کا سیر کرتا ہوا اپنی منزل کیلئے رواں دواں ہوگیا

لیکن زندگی کی اصل امتحان کی شروعات کا احساس اسوقت ہوا جب منزل نہ مل سکی، اوراپنے پاس موجود پتہ کو غلط پایا، جہاں جانا تھا اس کا صحیح پتہ،نہ مجھے معلوم تھا ،ناہی صاحب سیارہ کو ،بہرحال ایک گمنام سڑک کے کنارے نادان پرندہ کو اتار دیا گیا نیچے اترتے ہی سارے لوگ اپنے اپنے منزل کے طرف روادواں ہوگئے ،اب مرتا کیا نہ کرتا،

میں نے اس مصیبت کی گھڑی میں توکل الی اللہ کا دامن تھامے رکھا اور اس امید کہ ساتھ کے جو یہاں تک لایا وہ منزل پر ضرور بضرور پہونچائے گا ،

دل مضطر کو سمجھایا بہت تھا
مگر اس دل نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹوپی کرتا میں ملبوس فرشتہ صفت انسان اپنے ہاتھ میں حقیبہ لیکر ایک گمنام منزل کے اور چلنے کا ارادہ کرلیا ،کچھ دور جانے کے بعد اس وادی میں جا پہنچا جہاں عزائم باطلہ کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا سارے لوگ مجھے گھور گھورکر دیکھ رہے تھے ،دکاندار،راہ چلتے مسافر ،زائرین،کام کرنے والے عملاء سبھوں کی نگاہوں کا مرکز صرف اور صرف میں ہی تھا،کچھ دیر بعد منزل تو مل گئی لیکن جہاں قصد کرنا تھا وہ جگہ نہ مل سکی،ہمت کو پست ہونے نہیں دیا اور تلاش منزل میں لگا رہا

تقریبا تین چار گھنٹے چکر لگانے کے بعد دل مضطر نے مایوسی کا اظہار کرنے لگا ،جائے پناہ ملنے کی امید نہ رہی ،لیکن خداسے امید کی لڑی کو پکڑے رکھا اور دل نے آخری بار کوشش کرنے کی گوہار لگائی اتنے میں ایک عمارت پر نظر پڑی،دل نے کہا یہی ہے ، میں نے شک ظاہر کی ،دل نے للکار کر کہا یہی ہے ، سیڑھی سے اوپرچڑھنے کی ہمت کی،اسی اثناء میں ایک آدمی سے ملاقات ہوگئی سارا ماجرا بیان کیا ،اندر لے گئے،پانی اور ناشتہ پیش کیا ،بعد الآکل والشرب پتہ چلا کہ یہ وہی کارخانہ ہے جسے ڈھونڈنے میں نادان پرندہ چار گھنٹے لگ گئے،اللہ کا شکر ادا کیا

صاحب کارخانہ تشریف لائے ،سلام پیش کیا ،گفت وشنید کے بعد کل سے ڈیوٹی جوائن کرنے اور محنت سے کام کرنے کا حکم جاری کردیا ،اسی درمیان کسی نے کہا کہ ابتداء میں محنت سے کام کروگے تو تنخواہ اچھی ہوگی میں سمجھ گیا۔۔۔۔

میری ڈیوٹی صبح نو سے رات نو بجے تک تھی ،چند روز بعد ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہاں آنا ،زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی
نہ کھانا نہ پیسہ ،نہ سونے کیلئے بیڈ بستر ،نہ آرام کی کوئی جگہ، ،زندگی غلام سے بھی بدتر ہوگئی تھی

اب مرتا کیا نہ کرتا

جس کمپنی میں ملازمت اختیار کیا تھا وہ ایک سلائی کا کارخانہ تھا ،ہند ومسلم ،اچھے برے سارے احباب کام کیا کرتےتھے ،دینداری اور نمازی وغیرہ کا دور دور تک کوئی شگاف بھی نظر نہیں آرہا تھا ،صبح سے شام تک کام پھر شراب نوشی اور جوابازی کا بازار سجا کرتا تھا ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جنت سے جہنم میں ڈال دیا گیا ہوں ،

ایمان تازہ تھا اس لئے ڈیوٹی ختم ہوتے ہی سیدھا اپنے مکان کی طرف روانا ہوجاتا، اور کھانا وغیرہ سے آسودہ ہو کر کپڑے کے درمیان میں جگہ بناتا اور آرام گاہ سمجھ کر سوجاتا ، رات ایسے گزرتی جیسے کوئی قید خانہ ہو بیڈ بستر ،تکیہ ،نہ کمبل اور ناہی اتنی جگہ جس میں پیر پھیلا کر سو سکے

صبح جاگتے ہی ہوٹل سے سبزی لاکر چورا کے ساتھ ناشتہ تناول فرما کر سیدھا کام پر چلا جاتا ،ہردن کی یہی ڈیوٹی تھی ،تقریبا تین دن کے بعد ایک کاریگر مجھسے پوچھتا ہے بیٹا سچ سچ بتا کہ تو کیا کرتا تھا ؟اور کیوں آیا ہے؟ اور کیسے آیا ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ تم بھاگ کر یہاں تشریف لائے ہو کیونکہ میں الناس با اللباس میں رہتا تھا تھا

میں وہی پرانی باتیں دہرا کر ٹال دیتا،کہنے لگا تم جھوٹ بول رہے ہو ،کافی اصرار کے بعد ،میں نے سچائی جب سامنے رکھا تو ہکا بکا رہ گئے،کبھی مجھ کو دیکھتا کھبی آسمان کو،اتنے میں ایک صاحب سامنے آکر بولا بیٹا کچھ دن صبرکر کسی مسجد میں کام لگا دوں گا ،میں مسلسل اپنے کام میں لگا رہا ،اور دربار الہی میں اپنی اشکبار آنکھوں سے اپنی غلطی کو سپرد کرتا رہا

سنیچر کی صبح میں کھانا بنا رہا تھا کہ اچانک نیچے سے آواز آئی کہ صاحب

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *