پر ہوں شکوہ سے میں یوں راگ سے جیسے باجا

*پر ہوں شکوہ سے میں یوں راگ سے جیسے باجا*

عبدالمبین محمــــــــد جمیل

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج جب یہ روزنامہ تحریر کررہا ہوں تب عیسوی سال کا 2022ء اپنے آخری مرحلہ میں ہے کچھ ہی لمحوں میں اس سال کا کلینڈر بھی درودیوار سے اتر کر اپنی جگہ پر نئے مہمان کا خیر مقدم کرتے ہوئے مؤرخ کے قلم کا محتاج ہو جائے گا روزنامہ تحریر کرتے وقت طبیعت میں عجیب گرانی محسوس ہورہی ہے لیکن یہ حسن اتفاق ہی ہے کہ اختتام سال پر کچھ تحریر کرنے کے لئے طبیعت کے کسی گوشہ سے ایک خوشگوار جھونکا آیا اور قلم وبیاض کو سامنے رکھ کر سال گزشتہ کی روداد بالفاظ شکستہ لکھنے کی نوید سنا دیا چنانچہ طبیعت اور ضمیر کی اسی آواز پر لبیک کہتے ہوئے راقم جب یہ سطریں تحریر کررہا ہے تو مغرب کی نماز مکمل ہو چکی ہے یعنی آفتاف مغرب کی دلدل میں کہیں کھوسا گیا اور اپنے اطراف ایک عجیب سناٹا چھوڑ گیا
سردی شباب پر ہے اور طبقہ زمہریر پورے آب و تاب سے انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے اپنی خنکی اور برودت بھری ہواؤں سے پورے فضا میں برف گھول رہا ہے اور میں سبز چائے کی چسکیاں لے لے کر قلم کو مزید حرکت دیتے ہوئے بیاض کو سیاہ کرتا جا رہا ہوں سال 2022ء کا آخری دن اور آخری لمحہ پورے ماہ و سال کی گودش کولاکر سامنے رکھ دیا
جب اس سال کی ابتدا ہوئی تھی تو اس وقت انتخابات کی گرم بازاری تھی صوبہ اترپردیش کے الیکشن کا موضوع چہار جانب چھایا ہوا تھا چنانچہ اس انتخاب پر پوری دنیا کی نگاہیں مرکوز تھیں ہر ایک محب وطن کی یہ چاہت تھی کہ سیکولر جماعتیں برسر اقتدار آکر فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کا قلع قمع کریں گی کیونکہ سی ‘ اے’ اے این ‘آر’ سی اور دیگر احتجاجات کی پاداش میں سیکڑوں لوگوں کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ان کے گھروں پر بلڈوزر چلایا گیا اور ان سے آشیانہ چھیننے کے ساتھ ان کے ذریعہ معاش کو بھی بند کردیا گیا ان تمام وجوہات کی بنا پر ہر ایک کی تمنا یہ تھی کہ صوبہ میں سیکولر روایت کی پاس دار جماعتیں زمام اقتدار سنبھالیں لیکن ہوا اس کے برعکس. اور انتخاب میں پھر سے وہی زعفرانی اور انتہا پسند طاقتیں فتح سے ہمکنار ہوکر برسر اقتدار آئیں. یہ اس سال کا سب سے کٹھن مرحلہ تھا برادران وطن بالخصوص کمزور و نادار طبقات کے لئے
ابھی اتر پردیش کا الیکشن شروع نہیں ہوا تھا کہ اس سے قبل جنوبی ہند کے ایک اہم صوبہ کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ زیر بحث بنا ہوا تھا مسلمانان ہند کی بیٹیوں کو باپردہ کالجوں میں داخلے پر پابندی کی مانگ اٹھنے لگی یہاں تک کہ اقوام متحدہ تک اس کی گونج سنائی دینے لگی دراصل اس مسئلے کو اچھالنے میں نفرتی طبقے کو نفع ہی نفع تھا کیونکہ اس کے معا بعد یوپی کا چناؤ ہوا اس حساب سے یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ مسئلہ یوپی انتخاب کا مقدمہ تھا اور فتح کی اسکرپٹ کرناٹک ہی میں لکھی جاچکی تھی
چنانچہ اس سے متاثر ہو کر راقم الحروف نے حجاب کے موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا جو اپنے آخری مرحلہ میں ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی آپ قارئین کی خدمت میں پیش کر نے کا زریں موقع ہاتھ آئے گا
اس طرح برادران وطن بالخصوص، اقلیتوں کے لیے یہ بات بھـی پریشانی کی باعث تھی کہ مہارشٹر میں سیکولر روایت کی امین اورکامیاب مہاوکاس اگھاڑی حکومت اقتدار سے بے دخل ہوگئ
2022ء اس واسطے بھی یاد رکھا جائے گا کہ اس سال خریف کی فصل کو لے کر لوگ گوں مگوں تھے اور عجیب کیفیت سے دوچار تھے کیونکہ بر وقت ابر باراں کے عدم نزول نے تمام فلاحین کو کشمکش اور پریشانی میں مبتلا کر دیا تھا جگہ جگہ اللہ کے بندے اپنی عاجزی و انکساری کی اظہار کی خاطر نماز استسقاء کا اہتمام کرنے لگے لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور ہی تھی اللہ اپنے بندوں کو ہر طرح سے آزماتا ہے بارش ہوئی لیکن تاخیر سے اور جب بارش ہوئی تو زبردست سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی یہاں تک کہ کئی اضلاع سیلاب کی زد میں آگئے وہاں کے مکین و مکان سب کے سب تلف ہوگئے ابھی اس صدمے سے لوگ باہر ابھی نہیں سکے تھے کہ کاروباری حضرات پر جی ایس ٹی کی یلغار ہوگئ اور تمام تاجر اپنی اپنی دوکانیں مقفل کرکے ادھر ادھر ایسے چھپنے لگے کہ تالا بندی کی یاد تازہ ہوگئی بہر حال مرور ایام کے ساتھ لوگوں نے گزر بسر کرنا سیکھ لیا ادھر فسطائ طاقتیں ادھیڑ بن میں لگی رہیں کہ راہل گاندھی نےایک ایسی یاترا کی شروعات کردی جو صدیوں یاد رکھی جائے گی دراصل اس ملک میں فسطائی طاقتوں کے حوصلے کافی بلند ہوگئے تھے ہندو مسلمان کے بیچ بڑی گہری کھائی پیدا ہو گئی تھی کہ راہل گاندھی نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے بھارت جوڑو یاترا کا آغاز اسی سال کے ماہ ستمبر سے کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو گھٹنہ ٹیکنے پر مجبور کر دیا جس وقت یہ سطریں تحریر کررہا ہوں یہ یاترا تقریباً اپنے منزل مقصود کے بہت قریب آگئی ہے اور عنقریب 3 جنوری2023 ء کو یوپی میں داخل ہوگی
2022ء جب اپنے آخری مرحلہ میں تھا گجرات, ہماچل پردیش میں الیکشن بھی ہوا اور یہ الیکشن اپنے پیچھے تلخ و شیریں دونوں یادیں چھوڑ گیا ایک طرف ہماچل میں کانگریس کی فتح سے سیکولر طاقتوں کو حوصلہ ملا تو وہیں گجرات میں ہزیمت سے دوچار ہوکر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع بھی فراہم ہوا
یہ سال میرے اور میرے گھر والوں کے لئے ایک خوشگوار لمحہ لیکر آیا جب اس سال کا چراغ ٹمٹمارہا تھا اور اس کا آفتاب غروب ہونے کے قریب تھا عین اس وقت میرے بڑے بھائی اور کرم فرما عبد العلیم کو براعظم افریقہ کے سیاحتی اور تاریخی ملک مراکش جانے کی اجازت دبئی سرکار نے اپنے خرچ پر دی جس پر ہم سب گھر والے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دبئی سرکار کے ممنون و متشکر ہیں

اسی طرح سال 2022ء میں خلیجی ملک قطر نے فیفا ورلڈ کپ کا کامیاب انعقاد کرکے پوری عالمی برادری بالخصوص اھل یورپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ اہل یورپ فیفا کی میزبانی پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں انکے لئے یہ کسی تعجب سے کم نہیں تھا کہ ایک چھوٹا سا ملک؛اتنی بڑی تعداد کی ضیافت کیسے کرے گا لیکن دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قطر نے اپنی شرائط پر کامیاب میزبانی کرکے ایک انمٹ نقوش چھوڑا اور اس میدان میں ایک تاریخ مرتب کردی
آج جب یہ سطریں تحریر کررہا ہوں اور آج کا روزنامہ انقلاب سامنے ہے تو اس کی شہ سرخی یہی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی والدہ فوت ہوگئیں اور عظیم فٹبالر دی کنگ پیلے بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے جنہوں نے فٹبال کو کھیل سے ایک فن بنا دیا جس کے شیدائی کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں
یہ سال ختم ہوکر ایک پیغام دے رہا ہے کہ ماہ و سال کی آمد اور رات و دن کے آنے جانے میں ایک پیغام پوشیدہ ہے وہ ہے زندگی کا حساب کرنا
یہ رات دن کی آمد شام و سحر کا جانا
یہ تیز گام دریا یہ صاف صاف چشمے
پیغام دے رہے ہیں جاگو سحر ہے جاگو
امریکہ جو دنیا میں برسوں سے واحد سپرپاور ہے جو اپنی کوتاہیوں پر بھی حسن کا ملمع چڑھا کر پیش کرتا ہے اور دنیا چارو ناچار اسکے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے لیکن اب 2022ء کا اختتامیہ اس بات کا معلن ہے کہ روس اور چین کی طرف سے امریکہ کے زیر تسلط عالمی نظام ٹوٹ سکتا ہے برطانوی ہفتہ وار جریدے “دی اکانوسٹ” کے مطابق 2022ء نئے دور کا آغاز ثابت ہوا دنیا نے روس یوکرین جنگ میں سپرپاور کی حیثیت کو بھی بھانپ لیا ہے چنانچہ دنیا بھر کے ماہرین عالمی نظام کو سب سے بڑا خطرہ چین کی طرف سے امریکہ کو قرار دیتے ہیں چین وہ واحد ملک ہے جو امریکہ کو اول نمبر کی حیثیت سے گرانے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے بہر حال 2022ء کی یہ پیشین گوئی کتنی حقیقت اور کتنا فسانہ ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا سردست یہ جان لینا بیحد ضروری ہے کہ عیسوی سال کا یہ اختتامیہ اعلان کررہا ہے کہ اے صاحبو! اے ہوشمندو! غفلت اور نیند کی چادر میں لپٹے ہوئے انسانو! حرکت و عمل سے لبریز ہوجاؤ اور ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو کیونکہ گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
دعا کرتے ہیں آنے والا سال ہم سب برادران وطن کے لئے نیک ثابت ہو
ہر کلینڈر میں کم و بیش یکساں خانے ہوتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے 2022ء کے اس کلینڈر میں خانوں کے اندر بھی خانے ہیں اور تاریخوں کے اندر بھی تاریخیں ہیں اور ہر خانہ اور تاریخ یہ کہتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ
پرہوں شکوہ سے میں یوں راگ سے جیسے باجا اک ذرا چھیڑئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے

خیر واقعات و حادثات کے وزن سے بھاری ہوجانے کے باوجود 2022ء کا یہ کلینڈر دیوار سے اترنا چاہتا ہے کہ ہر کلینڈر کا یہی انجام ہوتا ہے لیکن یہ پرانا کلینڈر پکار کر یہ کہتا ہے کہ نیا آویزاں کرنے سے پہلے تھوڑا بہت محاسبہ بھی کرلیجئے کہ گزرنے والے سال میں ملبہ زیادہ ہے یا محلات
گزرنے والے سال کو ہم نے کتنا مثبت کاموں میں صرف کیا کتنا منفی ہر گزرنے والا وقت اور درودیوار سے اترنے والا کلینڈر اور آویزاں ہونے والا نیا کلینڈر یہ کہتا کہ
ہےزندگی کا پیام اپنا
چلنا چلنا مدام اپنا
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں

عبدالمبین محمــــــــد جمیل کے قلم سے

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *