قرآن نے (مثنى وثلاث ورباع) کا استعمال کیوں کیا
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
{وَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تُقۡسِطُوا۟ فِی ٱلۡیَتَـٰمَىٰ فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَاۤءِ مَثۡنَىٰ وَثُلَـٰثَ وَرُبَـٰعَۖ فَإِنۡ خِفۡتُمۡ أَلَّا تَعۡدِلُوا۟ فَوَ ٰحِدَةً أَوۡ مَا مَلَكَتۡ أَیۡمَـٰنُكُمۡۚ ذَ ٰلِكَ أَدۡنَىٰۤ أَلَّا تَعُولُوا۟}
یہاں پر قرآن نے (اثنتين وثلاثة وأربعة) کا استعمال کیوں نہیں کیا؟
١: قرآن نے (اثنتين وثلاثة وأربعة) کا استعمال نہیں کیا، کیونکہ ایسا کرنے سے معنی یہ ہو جاتا کہ سارے لوگ دو، تین اور چار عورتوں میں ہی شریک ہو جائیں، یعنی سبھی کے سبھی کسی دو، تین اور چار مخصوص عورتوں ہی سے شادی کرو۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح 10 لوگوں کو 3 درہموں کو آپس میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جائے، تو معنی یہی ہوگا کہ سارے انہیں 3 درہموں میں شریک ہیں۔
٢: (مثنی ثلاث رباع) یہ سبھی (اثنتين وثلاثة وأربعة) سے ہی معدول ہیں اور ان میں تکریر کا معنی ہوتا ہے، یعنی (دو-دو تین-تین چار-چار)۔ اور چونکہ مخاطبین کی تعداد زیادہ ہے اسی لئے عدد کو تکرار کے ساتھ لانا ضروری تھا، تاکہ معلوم ہو کہ رخصت سبھی کے لئے انفرادی طور پر ہے۔
٣: اگر (اثنتین وثلاثة وأربعة) کہا جاتا تو یہاں پر سبھی عدد کو جوڑنا آسان ہو جاتا، تو گویا (٢+٣+٤) 9 عورتوں سے بیک وقت نکاح کرنا درست ہوتا۔ لہٰذا قرآن نے عدد کا استعمال اس طرح سے کیا کہ انکو جمع کرنا اور جوڑنا ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کلام عرب سے ماثور ہے، (یعنی عرب مثنی وثُلاث کو آپس میں جوڑ کر خَمْسَةٌ مراد نہیں لیتے)۔
قمر سعيد (طالب العلم مدرسہ دار العلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ)
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/