سالار اردو غلام سرور

سالار اردو غلام سرور

الحاج غلام سرور کے تقریری، تحریری و تحقیقی صلاحیت کے مد نظر بہار میں اردو کے نامور صحافی و اردو کے سچے خادم ریحان غنی نے کہا ہے ” غلام سرور نے صحافت، سیاست اور سماجی معاملوں میں بہار میں جو لکیریں کھینچ دی ہیں اس سے بڑی لکیر نہیں کھینچی جا سکتی

محمد رفیع
9931011524
rafimfp@gmail.com

کیا ہوا مدت سے تو زیر زمین مدفون ہے
پھر بھی یہ اہل شہر تیرا بہت ممنون ہے

اصغر حسین اعجازی، مظفر پور کے مشہور ایڈوکیٹ، سماجی ، ملی ، سیاسی، ادیب وہ مشہور صحافی تھے۔ ان کا یہ شعر الحاج غلام سرور صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے قابل ہے۔ یہ بلکل درست ہے کہ الحاج غلام سرور کی ہمارے درمیان اب صرف یادیں ہی باقی ہیں، اردو کے اور قوم کے لئے کئے گئے ان کے خدمات قابل قدر ہیں۔ انہوں نے ملت کے لئے جو خدمات انجام دئے ہیں وہ قابل فخر ہیں۔ انہیں ہم شیر بہار، سالار اردو، سابق اسپیکر بہار اسمبلی مرحوم الحاج غلام سرور صاحب کے نام سے جانتے ہیں۔ جن کو ان کی زندگی میں انہیں بہار کے کرشمائی رہنما، و غرباء کی آواز لالو پرساد یادو چچا کہہ کر پکارتے اور ان کے سامنے کبھی اونچی آواز میں بولنے کی حماقت بھی نہیں کرتے۔
سال 2015 میں جب بہار کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر جیتن رام مانجھی تھے تب انہوں نے بہار کی دوسری سرکاری زبان کے سچے خادم و مصنف غلام سرور کے یوم پیدائش کو اردو ڈے کی شکل میں منانے کا اعلان کیا تھا اور اردو کے تئیں ان کے خدمات کی تشہیر کا بھی وعدہ کیا تھا۔ تب سے ریاست کے کونے کونے میں 10 جنوری کو غلام سرور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یوم اردو کی شکل میں منانے کا رواج عمل میں آیا۔ بہار کے سابق وزیر اقلیتی فلاح شاہد علی خان نے غلام سرور کے متعلق کہا تھا Urdu and Ghulam Sarwar are complement to each other اتنا ہی نہیں انہوں نے غلام سرور صاحب کو Pride of state بھی کہا تھا۔
اردو کی تحریک کے متعلق الحاج غلام سرور نے 4 اگست 1988 کو اپنے ایک کتابچہ میں لکھا پچاس سال پہلے اردو کے دارالسلطنت پٹنہ کے وہیلر سینٹ ہال میں راجندر- عبدالحق سمجھوتہ پر دستخط ہوئے۔ 1938 کا یہ واقعہ اردو تحریک کی تاریخ میں پورے برصغیر کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ الحاج غلام سرور کو سالار اردو کا لقب حاصل ہے۔ ان کے کتابچہ سے یہ ثابت ہے کہ بہار میں اردو تحریک کی شروعات 82 سال پہلے ہوچکی تھی۔ اردو کی تحریک سنگم کے شائع ہونے کے بعد پروان چڑھنے لگی۔ پہلے تو وہ اپنی قلمی و علمی صلاحیت کا لوہا ” نوجوان ” اور ” ساتھی ” نام سے شائع ہونے والے اخبار میں انقلابی تحریر کے ذریعہ منوا چکے تھے۔ صحافت کے ساتھ اردو کی خدمت کا ایسا جنون انہیں سوار ہوا کہ انہوں نے ستمبر 1951 میں سہیل عظیم آبادی سے ” ساتھی ” خرید لیا اور اسے 1953 تک شائع کیا، اکتوبر میں انہوں نے ہفتہ وار ” سنگم ” کی اشاعت شروع کی جو جنوری 1963 میں روزنامہ کی حیثیت حاصل کر لیا۔ اب اردو تحریک شباب پر تھی، بہار میں اردو تحریک کو مضبوط کرنے والوں کو سنگم کی شکل میں ایک مضبوط پلیٹ فارم مل گیا تھا۔
اردو تحریک کو صحیح سمت دینے کے لئے الحاج غلام سرور نے 1949 میں حلقئہ ادب قائم کیا اور 1951 کے مئی مہینے میں آل انڈیا اردو کانفرنس منعقد ہوا اس کے ساتھ ہی بہار ریاستی انجمن ترقی اردو بھی انہوں نے قائم کیا۔ انجمن ترقی اردو کی سب سے بڑی کامیاب تحریک کی شکل میں بہار میں 1981 میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ ملنا ہے۔ اس کے لئے انجمن نے آرٹکل 374 کے مطابق اردو کو دوسری زبان کی حیثیت کے لئے تحریک چلائی تھی۔ اس کے ذریعہ اردو آبادی کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہوئے۔ غلام سرور کے رفقاء میں ایک نام جو کوہ نور کے ہیرے کی طرح چمک بیکھیر گیا وہ نام بیتاب صدیقی کا ہے۔ شمالی بہار کے چھوٹے سے ضلع شیوہر سے تعلق رکھنے والے بیتاب صدیقی پٹنہ کے ایک اسکول میں استاد تھے۔ وہ انتہائی مخلص اور معتمد رفیق کار کی حیثیت سے تادم آخر اپنی رفاقت کا ثبوت دیتے رہے۔ غلام سرور کو ان جیسا دوسرا کوئی رفیق و جاں نثار نہیں ملا۔ غلام سرور اور بیتاب صدیقی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دونوں ایک جاں دو قالب کی حیثیت رکھتے تھے۔ شمالی بہار میں ریاستی انجمن ترقی اردو کا مرکز مظفر پور تھا۔ مظفر پور کے متحرک سماجی، سیاسی و ملی رہنما، الحاج غلام سرور کے رفیق، الحاج رفیق نور کے صاحبزادے رائی شاہد اقبال منا کے مطابق الحاج غلام سرور کے رفقاء میں اردو کے نامور غزل گو شاعر، ادیب پروفیسر قمر اعظم ہاشمی، جناب فضل الرحمان، الحاج محمد رفیق نور، الحاج مسعود الحق، عبدالقیوم لال گنجوی، احمد حسین، اصغر حسین اعجازی ایڈوکیٹ، جمیل احمد ایڈوکیٹ، زین العابدین اور ڈاکٹر نور عالم خان شامل ہیں۔
سال 1973 جے پی تحریک کا پھیلاؤ بڑی تیزی کے ساتھ ہو رہا تھا، عبدالغفور وزیر اعلی تھے تبھی مظفر پور میں اردو کے حق کے لئے زبردست عوامی احتجاج ہوا۔ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی لکھتے ہیں کے غلام سرور اور پروفیسر عبدالمغنی کی تحریک پر مظفر پور میں، میں نے اردو دوستوں کا ایک مؤثر حلقہ تیار کر لیا تھا، حالانکہ کچھ دوستوں نے مجھے روکا بھی مگر میں نے کہا کہ میں کوئی غیر قانونی کام کرنے نہیں جارہا ہوں، میں تو اپنے حق کی لڑائی ٹھان رہا ہوں۔ اس کے بعد ٹاؤن ہال، مظفر پور سے ایک جلوس نکل کر کلکٹریٹ تک گئی جہاں مجسٹریٹ کو میمورینڈم سونپا گیا۔ جلوس میں یہ نعرہ لگ رہا تھا ” اردو کا حق دو “، ” اردو- ہندی بہنیں ہیں ” اور ” بہنوں میں سنگھرش نہیں “۔ اس جلوس کی قیادت کے لئے پٹنہ سے خود غلام سرور، پروفیسر عبدالمغنی کے ساتھ سید شاہ مشتاق احمد و بیتاب صدیقی تشریف لائے تھے۔ اردو تحریک کو مؤثر بنانے کے لئے تمام ضلع میں جلوس اور کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا۔ مدھوبنی جانے کے لئے مظفر پور میں جو وفد تیار ہوئی اس میں غلام سرور کے ساتھ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی، جمیل احمد ایڈوکیٹ اور زین العابدین شامل ہوئے۔ پروفیسر (ڈاکٹر) فاروق احمد صدیقی اپنے ایک مضمون میں ذکر کرتے ہیں، مدھوبنی کا صفر کافی خطرناک اور عبرتناک ثابت ہوا۔ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی لکھتے ہیں مدھوبنی کے صفر کے لئے ایک پرانی ایمبیسڈر کار پر ہم سوار ہوئے جس میں آگے کی بائیں سیٹ پر غلام سرور صاحب تشریف فرما تھے اور ہم لوگ پیچھے۔ شرف الدین پور سے پہلے اتوار پور میں گاڑی کا بریک پھیل ہوگیا اور لائٹ بھی جاتی رہی وہیں گاڑی خطرہ سے بے خبر سڑک پر سرپٹ بھاگ رہی تھی اچانک ایک زور کا دھچکا لگا اور گاڑی سڑک کنارے نیچے گنا کے کھیت میں لڑھک گئی، اندھیرا میں کچھ سمجھ میں نہیں آیا، ہم بے دم ہوگئے جب افاقہ ہوا تو اگل- بگل میں ٹٹول کر دیکھا تو سب ٹھیک تھے، آگے بائیں سیٹ چیک کیا تو جناب غلام سرور نہیں تھے اب ہم لوگ اندھیرا میں، کھیت میں انہیں ڈھونڈنے لگے، خوب آواز لگائی تو ایک آواز بہت دھیمی ملی، میں یہاں ہوں، آواز کی طرف ہم لوگ بھاگے اور انہیں تلاش لیا تو پتا چلا کہ جب گاڑی لڑھکنے والی تھی تبھی وہ دروازہ کھول کر چھلانگ لگا چکے تھے، خیر خدا خدا کر سب کی جان بچی۔ یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ لالٹین اور لاٹھی لئے کچھ لوگ آگئے، روشنی میں دیکھ کچھ لوگ مجھے پہچان لئے، ارے سر، دراصل ان میں کچھ میرے شاگرد بھی تھے۔ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کا امتیاز خاص یہ ہے کہ حصول تعلیم کے لئے ہی جب وہ پٹنہ میں تھے تو غلام سرور کے شانہ بہ شانہ اردو کی خدمت کے لئے منہمک رہتے تھے۔ شمالی بہار کے مرکز مظفر پور میں الحاج غلام سرور کے ایک واحد باحیات حمایتی رہے ڈاکٹر نور عالم خان نے بتایا کہ جناب غلام سرور کے رفقاء میں بیتاب صدیقی اور شاہ محمد مشتاق کے ساتھ ہی کامریڈ حبیب الرحمن، تقی رحیم اور مدرسہ رسیدیہ (میڈیکل) کے بانی نقی احمد عرف نقی بابا، مغل ادریس، حکیم شہاب الدین، ماسٹر شمیم بھی تھے۔ ڈاکٹر نور عالم خان یہ بھی کہتے ہیں کہ غلام سرور کا رشتہ اپنے آبائی وطن سے زیادہ مظفر پور سے تھا۔ مظفر پور کے رفقاء ان پر جاں نثار کرتے تھے۔
الحاج غلام سرور نے تحریک، تنظیم و توقیر کو جس پایہ تکمیل پر پہنچایا اور اس کے جو نتائج برآمد ہوئے آج اسی جنون اور فکر کے ساتھ اردو اور ملی مسائل کے تئیں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات ہے کہ ہمارے درمیان غلام غوث، اشرف فرید، ڈاکٹر ریحان غنی، ڈاکٹر اعجاز علی، ڈاکٹر انوار الھدیٰ، انوار الحسن وسطی، عبدالسلام انصاری، اشرف النبی قیصر، اسلم جاوداں، عظیم الدین انصاری جیسے فکر مند، فعال اور متحرک شخصیات موجود ہیں لیکن وہ بات نہیں ہے جو الحاج غلام سرور میں تھی اسی لئے الحاج غلام سرور کے تقریری، تحریری و تحقیقی صلاحیت کے مد نظر بہار میں اردو کے نامور صحافی و اردو کے سچے خادم ریحان غنی نے کہا ہے ” غلام سرور نے صحافت، سیاست اور سماجی معاملوں میں بہار میں جو لکیریں کھینچ دی ہیں اس سے بڑی لکیر نہیں کھینچی جا سکتی۔ ” آج ان کے کردار کی تاثیر حاصل کرنے کے لئے میں بشیر بدر کا یہ شعر ان کو پیش کر کے قلمبند کرتا ہوں۔

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

##########₹##########

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *