سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت کی اہمیت و فضیلت
جمع وترتیب:
امان اللہ ذوالفقار احمد نوری
( خادم الاحسان اسلامک دعوہ سینٹر، گوونڈی، ممبئی و متعلم جامعہ تبوک سعودی عرب)
واٹس ایپ نمبر: 7666225641
نظر ثانی:
مقبول احمد سلفی
(جدہ دعوہ سینٹر سعودی عرب)
اللہ رب العزت نے بندوں کو رحم و کرم، عفو و درگزر اورمغفرت و بخشش کے بہت سارے ایسے مواقع و اسباب فراہم کیا ہےکہ بندہ بہت آسانی سے اور بہت ہی معمولی وقت میں بہت مختصر عمل کے ذریعہ کثیرمقدار میں رب کی بخشش وعنایت اور اس کا رحم وکرم حاصل کرسکتا ہے۔
ان اعمال واسباب میں سے ایک سبب یا ایک عمل سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیات کریمہ کی تلاوت بھی ہے۔سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیات کی بڑی اہمیت و فضیلت وارد ہےآئیں ایک نظر سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیات کی فضیلت و اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
ان دو آیات کی فضیلت پر مبنی پہلی حدیث :
“عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: «لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، إِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الْأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا، وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا»، قَالَ: {إِذْ يَغْشَى} [النجم: 16] السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى ، قَالَ: «فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ»، قَالَ: فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا: أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا، الْمُقْحِمَاتُ”(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173)
ترجمہ: حضرت عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کو ’’اسراء‘‘ کروایا گیا تو آپ کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، وہ چھٹے آسمان پر ہے، (جبکہ اس کی شاخیں ساتویں آسمان کے اوپر ہیں) وہ سب چیزیں جنہیں زمین سے اوپر لے جایا جاتا ہے، اس تک پہنچتی ہیں اور وہاں سے انہیں لے لیا جاتا ہے اور وہ چیزیں جنہیں اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے، وہاں پہنچتی ہیں اور وہیں سے انہیں وصول کر لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’ جب ڈھانپ لیا، سدرہ (بیری کے درخت) کو جس چیز نے ڈھانپا۔‘‘ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سونے کے پتنگوں نے۔ اور کہا: پھر رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں عطا کی گئیں، سورۃ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں اور آپ کی امت کے (ایسے) لوگوں کے (جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا) جہنم میں پہنچانے والے (بڑے بڑے) گناہ معاف کر دیے گئے۔
فضیلت سے متعلق دوسری حدیث:
“عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَقَالَ هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ”(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 806)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایسی آواز سنی جیسی دروازہ کھلنے کی ہوتی ہے تو انھوں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا: آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا، اس سے ایک فرشتہ اترا تو انھوں نے کہا: یہ ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے، یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا، اس فرشتے نے سلام کیا اور ( آپ ﷺ سے ) کہا: آپ کو دو نور ملنے کی خوش خبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے: (ایک) فاتحۃ الکتاب (سورہ فاتحہ) اور (دوسری) سورہ بقرہ کی آخری آیات۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کر دیا جائے گا۔
امت محمدیہ کی امتیاز
امت محمدیہ کی دیگر امتوں پر بہت ساری خصوصیت و فضیلت اور امتیاز حاصل ہے، ان میں سے ایک امتیاز اور خاصیت سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت کی شکل میں بھی ہے۔
“عَنْ حُذَيْفَةَ مَرْفُوْعاً: أُعْطِيتُ هَذِهِ الْآيَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ مِنْ كَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ يُعْطَهَا نَبِيٌّ قَبْلِي (وَلاَ يُعْطَى مِنْهُ أَحَدٌ بَعْدِي).” (السلسله الصحيحة: 1482)
ترجمہ: حذیفہرضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے: مجھے بقرہ كی یہ آخری آیات عرش كے نیچے خزانے سے دی گئیں ہیں۔ مجھ سے پہلے كسی نبی كو نہیں دی گئیں (اور نہ میرے بعد كسی كو دی جائیں گی)۔
“عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((اُعْطِیْتُ خَوَاتِیْمَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ مِنْ بَیْتِ کَنَزٍ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ لَمْ یُعْطَہُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ۔)) (مسند احمد: ۲١٦۷۲)
ترجمہ: سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں عرش کے نیچے خزانے والے گھر سے عطا کی گئی ہیں اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ عطا نہیں کی گئیں۔
“عَنْ رِبْعِیِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَیْفَۃَ قَالَ: فُضِّلَتْ ہٰذِہِ الْأُمَّۃُ عَلٰی سَائِرِ الْأُمَمِ بِثَلَاثٍ، جُعِلَتْ لَہَا الْأَرْضُ طَہُورًا وَمَسْجِدًا، وَجُعِلَتْ صُفُوفُہَا عَلٰی صُفُوفِ الْمَلَائِکَۃِ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ ذَا: ((وَأُعْطِیتُ ہٰذِہِ الْآیَاتِ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَۃِ مِنْ کَنْزٍ تَحْتَ الْعَرْشِ لَمْ یُعْطَہَا نَبِیٌّ قَبْلِی۔))قَالَ أَبُو مُعَاوِیَۃَ: کُلُّہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔” (مسند احمد: 23640)
ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت کو باقی امتوں پر تین چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے: اس کے لیے پوری زمین کو ذریعۂ طہارت یعنی وضو کے قائم مقام تیمم کا ذریعہ اور عبادت گاہ بنایا گیا ہے اور اس کی صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات مجھے عرش کے نیچے والے خزانوں میں سے عطا کی گئی ہیں، ایسا خزانہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ اس حدیث کا ایک راوی ابومعاویہ کہتا ہے کہ یہ ساری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔
سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت کی کی تلاوت کرنے کی ترغیب
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ: ((اقْرَئُوْا
ہَاتَیْنِ الْآیَتَیْنِ اللَّتَیْنِ مِنْ آخِرِ سُورَۃِ الْبَقَرَۃِ، فَإِنَّ رَبِّی عَزَّ وَجَلَّ أَ عْطَاہُنَّ أَوْ أَعْطَانِیہِنَّ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ۔)) (مسند احمد: ۱۷۵۸۲)
ترجمہ: سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر براجمان ہو کر فرمایا: سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھا کرو، کیونکہ میرے رب نے مجھے عرش کے نیچے سے یہ عطاء کی ہیں۔
رات میں سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت پڑھنے کی فضیلت
“عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَرَأَ بِالْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ.”(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5009)
ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس نے سورہ بقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لیے کافی ہو جائیں گی۔
اس حدیث میں مذکور کافی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ
١۔ یہ شیطان کہ شرانگیزیوں سے حفاظت دیں گی۔
٢۔ناگہانی مصائب اورآفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔
٣۔ نماز ِ تہجد سے کفایت کریں گی۔
تین راتیں گھروں میں سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت پڑھنے کی فضیلت
“عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.” (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2882)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورۃ البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آ سکے“۔ (امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔)
گھر میں سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت پڑھنے کی فضیلت
“ضَمَّ إليَّ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَمرَ الصَّدَقةِ، فجعَلتُه في غُرْفةٍ لي، فكنتُ أجِدُ فيه كلَّ يَومٍ نُقْصانًا، فشكَوتُ ذلكَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ؟
فقال لي: هو عمَلُ الشَّيطانِ، فارصُدْه. قال: فرصَدتُه ليلًا، فلمَّا ذهَبَ هَوِيٌّ مِن الليلِ أقبَلَ على صورةِ الفيلِ، فلمَّا انتهى إلى البابِ دخَلَ مِن خلَلِ البابِ على غَيرِ صورتِه، فدنا مِن التَّمرِ، فجعَلَ يلتَقِمُه، فشدَدتُ عليَّ ثيابي فتوسَّطْتُه، فقلتُ: أشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأنَّ محمَّدًا عبدُه ورسولُه، يا عدُوَّ اللهِ، وثَبتَ إلي تَمرِ الصَّدَقةِ فأخَذتُه، وكانوا أحقَّ به مِنكَ، لأرفَعنَّكَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فيَفضَحَكَ. فعاهَدَني ألَّا يعودَ، فغدَوتُ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فقال: ما فعَلَ أَسيرُكَ؟ فقلتُ: عاهَدَني ألَّا يعودَ. قال: إنَّه عائدٌ، فارْصُدْه. فرصَدتُه الليلةَ الثانيةَ، فصنَعَ مِثلَ ذلكَ، وصنَعتُ مِثلَ ذلكَ، وعاهَدَني ألَّا يعودَ، فخلَّيتُ سبيلَه، ثمَّ غدَوتُ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لأُخبِرَه، فإذا مناديه ينادي: أينَ معاذٌ؟ فقال لي: يا معاذُ، ما فعَلَ أَسيرُكَ؟ فأخبَرتُه. فقال لي: إنَّه عائدٌ، فارْصُدْه. فرصَدتُه الليلةَ الثالثةَ، فصنَعَ مِثلَ ذلكَ، وصنَعتُ مِثلَ ذلكَ. فقلتُ: يا عدُوَّ اللهِ، عاهَدتَني مرتينِ، وهذه الثالثةُ لأَرْفعنَّكَ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فيَفضَحَكَ. فقال: إنِّي شَيْطانٌ ذو عِيالٍ، وما أتَيتُكَ إلَّا مِن نَصِيبينَ، ولو أصَبتُ شيئًا دونَه ما أتَيتُكَ، ولقد كنَّا في مدينتِكم هذه حتى بُعِث صاحبُكم، فلمَّا نزَلتْ عليه آيتانِ أنفَرَتْنا منها، فوقَعْنا بنَصيبينَ، ولا يُقْرآنِ في بَيتٍ إلَّا لم يلِجْ فيه الشَّيطانُ ثلاثًا، فإنْ خلَّيتَ سبيلي علَّمتُكَهما. قلتُ: نعَمْ. قال: آيةُ الكُرْسيِّ، وخاتِمةُ سورةِ البقرةِ؛ {آمَنَ الرَّسُولُ…} [البقرة: 285-286] إلى آخِرِها، فخلَّيتُ سبيلَه، ثمَّ غدَوتُ إلى رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لأُخبِرَه، فإذا مناديه ينادي: أينَ معاذُ بنُ جبَلٍ؟ فلمَّا دخَلتُ عليه قال لي: ما فعَلَ أَسيرُكَ؟ قلتُ: عاهَدَني ألَّا يعودَ، وأخبَرتُه بما قال. فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: صدَقَ الخبيثُ وهو كَذوبٌ. قال: فكنتُ أقرَؤُهما عليه بعدَ ذلكَ فلا أجِدُ فيه نُقْصانًا.” (مجمع الزوائد
الصفحة أو الرقم : 6/324 |
خلاصة حكم المحدث: [فيه] يحيى بن عثمان بن صالح وهو صدوق إن شاء الله وبقية رجاله وثقوا)
ترجمہ: ابوالاسودظالم بن عمرو الدؤلی کہتے ہیں: ”میں نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ مجھے وہ قصہ بیان کریں، جب آپ نے شیطان کوپکڑ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے صدقہ (کی حفاظت) پر متعین کیا۔ کھجوریں کمرے میں پڑی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ کم ہورہی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجوریں شیطان لے جاتا ہے۔ ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کردیا۔ اندھیرا اس قدر شدید تھا کہ اس نے دروازے کو ڈھانپ لیا۔ شیطان نے ایک صورت اختیار کی، پھردوسری صورت اختیارکی۔ وہ دروازے کے شگاف سے اندر گھس آیا۔ میں نے بھی لنگوٹا کس لیا۔ اس نے کھجور کھانا شروع کردیں۔ میں نے جھپٹ کر اُسے دبوچ لیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! (تو کیاکررہا ہے؟) اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ میں بوڑھا ہوں اورکثیر الاولاد ہوں۔ میراتعلق نصیبین (بستی کانام) کے جنوں سے ہے۔ تمہارے صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بعثت سے پہلے ہم بھی اسی بستی کے باسی تھے۔ جب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )مبعوث ہوئے توہمیں یہاں سے نکال دیاگیا۔ (خدارا!) مجھے چھوڑ دیں۔ میں دوبارہ کبھی نہیں آؤں گا۔ میں نے اسے چھوڑدیا۔ جبرئیل علیہ السلام نے آکر سارا معاملہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی کرنے والے نے منادی کی کہ معاذ بن جبل کہاں ہے؟ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کے قیدی کا کیامعاملہ ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسارا معاملہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عنقریب دوبارہ ضرور آئے گا۔ آپ بھی دوبارہ جائیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کردیا۔ شیطان آیا ،دروازے کے شگاف سے اندر گھسا اورکھجوریں کھانا شروع کردیں۔ میں نے اس کے ساتھ وہی پہلے والا معاملہ کیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تُو نے آئندہ کبھی نہ آنے کا وعدہ کیاتھا۔ اس نے کہا: میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کوئی تم میں سے سورہئ بقرہ کی(آخری آیات للّٰہ ما فی السموات والأرض ۔۔۔ )نہیں پڑھے گا تواسی رات ہم میں سے کوئی اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔”
سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت بڑی اہمیت و فضیلت والی آیت ہے، اور کم وقت و مختصر عمل کے ذریعہ زیادہ اجر وثواب کمانے والے اسباب میں سے ہے، نیز سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیات کے ذریعہ خیر و برکت کا حصول بہت سہل وآسان ہے۔
اگر ہم سوتے وقت سورہ بقرہ کی آخری ٢ آیت “آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ [البقرة:285- 286] کی تلاوت کرکے سوتے ہیں تو ایک بڑی فضیلت کے مستحق ہوجاتے ہیں، اس لئے ہمیں ان دونوں آیات کی عظمت کا خیال کرتے ہوئے بیان کردہ مذکورہ فضائل کو حاصل کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت کی تیاری کرنے والا بنائےاور نیکیوں سے اپنے دامن کو بھرنے والا بنائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/