مملکت سعودی عرب کے انقلابی بادشاہ ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ

مملکت سعودی عرب کے انقلابی بادشاہ ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ
از قلم ساجد ولی
ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ دینی و دنیاوی اعتبار سے بڑے عالی مرتبت دو خاندانوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، آپ مملکت سعودی عرب کے منتشر وباہم بر سر پیکار علاقوں کو متحد کرنے ملہم شخص ملک عبد‌ العزیز رحمہ اللہ کے تیسرے بیٹے تھے، تو دوسری طرف آپ کی ماں امام الدعوہ محمد بن عبد الوہاب ‌کے پوتے شیخ عبد اللطیف آل الشیخ کی بیٹی تھی، آپ کی پیدائش سنہ ١٣٢٤ھ میں ہوئی، اور آل الشیخ کے ‌گھرانے میں آپ کی عمدہ پرورش ہوئی، آپ کے نانا شیخ عبد اللہ بن عبد اللطیف آل الشیخ سے آپ کو دین کی بنیادی دینی تعلیم حاصل ‌کی، نیز دوسرے مروجہ علوم کی بدائیات بھی پڑھیں، اور ملک عبد العزیز رحمہ اللہ کی گود میں کرم، فیاضی، حسن سیاست اور عالی صفات حاصل کیں، گویا ابتدائی عمر ہی سے آپ نے دونوں بڑے گھرانوں کی خصوصیتیں پا لیں تھیں، اس حسن تربیت سے آپ کی شخصیت میں‌ بڑے کمالات پیدا ہو گئے تھے، جس کی بنیاد پر آپ ایک نہایت سخی، فیاض، اور اپنے وطن، اور دین کے امانت دار خادم، نیز عقل مند قائد بن گئے تھے، اور اپنے بچپن سے بادشا ہونے تک عدل وتقوی میں آپ حکومت کے بہترین معاون ٹابت ہوئے، آپ کے والد کے مدرسہ عاطفت کی آپ پر بڑی تاثیر رہی، آپ فرماتے ہیں (‌میرے مغفور ‌لہ والد عبد العزیز رحمہ میرا مدرسہ تھے، وہ میرا نشان منزل تھے، جس سے میں راہ حق کی رہنمائی حاصل کرتا تھا، میں نے آپ کے تجربات کا ایک بڑا خزانہ محفوظ کر رکھا ہے، وہ میرے حقیقی مدرسہ تھے، میں کسی مدرسے میں باضابطہ داخل نہیں ہوا۔۔۔میں مکتب میں داخل ہوا، اور تیرہ سال کی عمر میں فارغ ہو گیا، اسی طرح میں بعض علمی حلقوں میں بھی شامل رہا، پھر اس کے بعد میں اپنے حقیقی مدرسے سے وابستہ ہو گیا، وہ مدرسہ میرے والد مغفور ‌لہ کی شخصیت تھی، جس کے سایہ عاطفت میں میری نشو ونما ہوئی، میں زندگی میں اسی کی ٹریننگ سے آگے بڑھا، وہی میرا مدرسہ تھے، جہاں پر مینے اپنے دروس اور تجربات حاصل کئے).
ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی زندگی:
ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی پوری زندگی اخلاص، روز بروز ترقی، نفع بخش ونتیجہ خیز اعمال سے عبارت تھی، چاہے جوانی میں اپنے والد کے ترقیاتی وانقلابی منصوبوں میں ساجھے داری ہو، یا پھر اپنے بھائی ملک سعود رحمہ اللہ کے ساتھ امور مملکتِ میں شرکت کی بات ہو، یا پھر اس وقت کی بات ہو، جب ملکی ترقی کے لئے لوگوں کی نظریں آپ پر جاکر ٹھہر گئیں تھیں، اور آپ کو مملکت کا بادشاہ منتخب کر لیا گیا تھا آپ واقعی ہونہار انقلابی اور امت کا درد رکھنے والے قائد تھے۔
حکومتی امور میں والد کے ساتھ تعاون کا مرحلہ:
آپ کے والد نے آپ کی نجابت، اور ذہانت کو دیکھ کر بہت ساری سفارتی ذمے داریاں آپ کے حوالے کیں، جہاں پر ملکی سیاست، نیز دوسرے ممالک سے مصالح و مفاسد کی بنیاد پر تعلقات قائم کرنے کا ذمہ آپ کے سپرد رہا، اسی ڈپلومیٹک مقصد سے آپ کو اپنا نائب بناکر آپ کے والد نے یورپ امریکا بھیجا، تاکہ وہاں کے بادشاہوں، صدارتوں، نیز حکمراں طبقے سے ملاقات کریں، اور ان سرکاری زیارتوں میں جن میں آپ مدعو ہوتے تھے آپ کی نیابت کر سکیں، یا بھر مختلف عالمی کانفرنسوں میں آپ کی طرف سے اسپیچ پیش کریں، اسی وجہ سے وزارت خارجہ کے قیام سے ہی اسے آپ کے حوالے کیا گیا، آپ کے ابتدائی اہم ترین اسفار کچھ اس طرح سے تھے:
١- سنہ ١٣٣٦ ھ موافق ١٩١٨ء میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد پہلا ‌سفر انگلینڈ کی طرف کیا۔
٢- سنہ ١٣٤٤ھ میں دوسرا سفر یورپ کا کیا، اور سنہ ١٣٥٧ھ مطابق ١٩٣٨ء میں لندن کے مسئلہ فلسطین سے متعلق منعقد ہونے والی عالمی کانفرس میں شرکت فرمائی۔
٣- سنہ ١٣٦٢ھ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران آپ نے امریکہ کا دورہ کیا۔ اسی وقت آپ نے اس کانفرنس میں بھی اپنے والد کی نیابت کی،‌ جو سنہ ١٣٦٥ھ مطابق ١٩٤٥ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے لئے‌ منعقد ہوئی تھی، اس طرح مملکت سعودی عرب نئے عالمی سسٹم کا حصہ بن گیا، اور ان ملکوں‌ میں سے ایک رہا، جنہوں نے اقوام متحدہ کی تشکیل میں شرکت کی، ان‌ اسفار اور ڈپلومیٹک خدمات کی بنیاد پر آپ کے والد نے آپ کو سنہ ١٣٤٤ھ میں حجاز میں اپنا نائب مقرر کیا،‌ پھر آپ کو مجلس شوری اور مجلس الوکلاء کا صدر مقرر کیا گیا، اسی طرح وزارت خارجہ کا عہدہ بھی انہیں کے سپرد کیا گیا۔
آپ کے والد کے زمانے میں آپ کی جنگی خدمات:
ماہ شوال‌ سنہ ١٣٤٠ھ میں ملک فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عسیر کے باغیوں کے خلاف ایک جنگی مہم کی کمانڈنگ کی، ان پر فتح حاصل کی، اور سنہ ١٣٥٣ھ میں‌ تہامہ، اور‌ ساحل میدی کے راستے یمن پر چڑھائی کرنے والی سعودی فوج کی آپ نے قیادت فرمائی، اور حدیدہ پر قبضہ بھی کر لیا، اگر اسلامی ممالک کی ثالٹی نہیں ہوتی، تو قریب تھا کہ پورے یمن پر آپ قابض ہو جاتے۔
ولایت عہد کے زمانے میں آپ کے کارنامے:
آپ کے سب سے قابل قدر کارناموں میں سے ایک ‌کارنامہ وہ تھا جسے آپ نے حکومت کی تشکیل نو کرکے انجام دیا، آپ نے حکومتی جدید باڈی میں اپنے بھائی خالد بن عبد العزیز کو مجلس الوزراء کا نائب صدر مقرر کیا، اور اپنا وہ مشہور تاریخی وزارتی بیان جاری کیا، جس میں آپ نے اپنی اصلاحی حکومت کی سیاست کے ہمہ جہت خط وخال کا اعلان کیا، جسے پڑھ آپ کی دقت نظری، اور حسن تصرف کا پتہ چلتا ہے، آپ اس قرار داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
١- کتاب اللہ اور سنت رسول سے مستفاد بنیادی نظام حکومت کا اصدار۔
٢- مملکت کے الگ الگ صوبوں کا ایک نظام وضع کرنا جس میں مملکت کے مختلف علاقوں کے اندر‌ طریقہ حکومت کی وضاحت ہوتی ہو۔
٣- قضائی نظام وضع کرنا۔
٤- مجلس افتاء کی سنگ بنیاد رکھنا۔
٥- سلفی دعوت‌ کی نشر واشاعت پر جدیت سے کام کرنا۔
٦- الامر بالمعروف والنہی عن المنکر اداروں پر توجہ دینا۔
٧- شعودی قوم کے سماجی نظام کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنا۔
٨- ملک کو اقتصادی، تجارتی، اور سماجی ترقی عطا کرنا۔
٩- ملک میں پانی مہیا کرانے کی خاطر مال خرچ کرنا۔
١٠- ملکی صنعت و حرفت کا تحفظ کرنا۔
١١- ملک کے اقتصادی میزانیہ پر توجہ دینا۔
بادشاہ ہوتے ہوئے ملک میں آپ کی خدمات:
ملک فیصل نے قانونی طور پر سنہ ١٣٨٤ ھ‌ باضابطہ اس وقت حکومتی ذمہ داری سنبھالی جب آپ کے بھائی ملک سعود رحمہ اللہ کے حکومت سے دست بردار ہونے کے بعد آپ کو ملک کا بادشاہ بنانے کا فیصلہ صادر ہوا جو مجلس الوزراء‌ کی قرآرداد اور اعلی علماء کونسل کے فتوی پر مشتمل تھا۔
بادشاہ ہونے سے قبل آپ نے چالیس سال مختلف اعتبار سے ملک کی خدمت کی ہوئی تھی، اور ایک لمبے تجرباتی دور سے آپ گزر چکے تھے، آپ جب جوان تھے، تو والد کے ساتھ ایک فوجی کی حیثیت سے ملکی اتحاد کی خاطر لڑی گئی کئی جنگوں میں شرکت کر چکے تھے، اسی طرح آپ نے حجاز پر والد کے نائب کی حیثیت سے حکومتی امور کی دیکھ بھال کی، پھر عالمی سیاسی میدان میں آپ نے بطور ڈپلومیٹ، اور وزیر خارجہ کام کیا، اس لئے آپ ان سعودی ڈپلومیٹک پالیسیوں کے‌حقیقی روحانی والد تھے جو بعد میں ثمر آور ہوئیں۔
آپ ولایت عہد کے دوران اپنے بھائی ملک سعود کے ساتھ حکومتی کاز میں شریک رہے، ملک کی داخلی وخارجی سیاست کی بنیادیں وضع کیں، آپ کو جدید‌ سعودی مملکت، بالخصوص خارجی پالیسیوں کے باب میں دوسرے ‌نمبر‌ کا روح رواں مانا جاتا ہے۔
آپ کے ملکی ذمے داری سنبھالنے سے لے کر سنہ ١٣٩٥ھ میں آپ کی موت تک مملکت سعودی عرب نے مختلف میدانوں میں ترقی کی راہ پر قدم رکھا، بہت سارے ترقیاتی واصلاحی پروگراموں کی شروعات ہوئی، مملکتِ سعودی عرب نے عالمی حادثات میں اپنا مثبت رول ادا کیا، آپ نے اسلامی اتحاد ویک جہتی کی آواز بلند کی، تنظیم برائے اسلامی کانفرنس، اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لئے‌قائم ہونے والے اس سے متفرع بہت ساری کونسلیں، اور ادارے وجود میں آئے، زراعتی، صنعتی، تعمیراتی، وترقیاتی بہت سارے بنک وجود میں آئے، جیسا کہ صنعتی، زراعتی بنک وغیرہ۔
اسی طرح آپ کے زمانے میں تعلیم کو بھی ترقی حاصل ہوئی، اسی طرح آپ نے بہت سارے تخصصی شعبوں کا اضافہ فرمایا، ملک سعود کی توسیع ہوئی، مختلف مراحل میں دسیوں کالجز کا افتتاح عمل میں آیا۔
اسی طرح سے ایک لمبے اخذ ورد کے بعد بچیوں کی تعلیم کا آغاز کیا، آپ نے اپنی عمدہ سیاست، اور قانع کرنے کی صلاحیت سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ بچیاں بھی عصری ودینی دونوں طرح کے علوم کی محتاج ہیں، اس طرح سے آپ جو چاہتے تھے، وہ ممکن ہو‌سکا، اسی طرح آپ کے زمانے میں بہت اہم فوجی تخصصات شروع ہوئے، تاکہ مسلح افواج کے تجربات میں اضافہ ہو سکے، اسی طرح مملکت سعودی عرب کے مشرقی ومغربی علاقوں میں مختلف بندرگاہوں میں توسیع ہوئی، اسی طرح سے آپ نے صحی اداروں، مواصلات، حرمین شریفین کی توسیع، مختلف راستوں کے ذریعے حاجیوں کی آمد ورفت کی آسانی کی عملی بنیادیں وضع کیں۔
وسائل اعلام کی اگر بات کریں تو اس جہت بڑی ترقی ہوئی، چنانچہ ریاض ریڈیو، جدہ ریڈیو سروسیں شروع ہوئیں، اسی طرح ایک بامقصد وسیلہ اعلام کے طور پر ٹیلی ویژن ملک میں آیا، اسی طرح ملک کے بہت سارے شہروں میں بہت سارے ریڈیو اسٹیشن قائم کئے گئے۔
اسی طرح آپ نے ایک صحافتی نظام کی بنیاد رکھی، بہت ساری صحافتی کونسلیں قائم ہوئیں، جس سے صحافت نے دنیا والوں کو اس ملک سے متعارف کرانے کے لئے بڑا نمایاں رول ادا کیا، وسائل اعلام کو اسلامی دعوت کی نشر واشاعت، اور تباہ کن ثقافتی وسائل سے مقابلے کے لئے بھی استعمال کیا گیا، اور اسے وطن کی خدمت، اور ملکی باشندوں مصالح عامہ و خاصہ سے جوڑ دیا گیا۔
ملک فیصل اور اسلامی اتحاد و یک جہتی:
ملک فیصل نے نوے کی دہائی میں بہت سارے اسلامی ممالک کی زیارت کی، چاہے وہ افریقی ممالک ہوں، یا ایشیائی ممالک، آپ نے وہاں کے حکمرانوں کے ساتھ میٹنگیں کیں، تاکہ مل کر سارے اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کیا جا سکے، اور مختلف میدانوں میں مسلمانوں کی مصلحت کے لئے مشترکہ طور پر کوششیں گی جا سکیں، مسئلہ فلسطین آپ کی نظر میں سب سے اہم مسئلہ تھا، کیونکہ وہاں قبلہ اول موجود ہے۔
ان زیارتوں کا جو عظیم مقصد تھا، اس جہت پیش رفت ہوئی، بہت ساری اسلامی کانفرنسیں منعقد ہوئیں، تنظیم برائے اسلامی کانفرنس، اور دوسری بہت ساری تنظیمات وجود میں آئیں، جیسا کہ رابطہ عالم اسلامی ‌وغیرہ، یہی اتحاد و یک جہتی تھی ‌جس‌ کی مدد سے صہیونی دشمنی کا مقابلہ کیا جا سکتا تھا۔
آپ کی وفات:
سنہ ١٣٩٥ھ میں ملک فیصل کو ملک وملت کے خدمت کرتے ہوئے‌ ریاض میں شہید کر دیا گیا، آپ کے بعد آپ کے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لئے ملک خالد اور دوسرے ملوک آئے، اور آپ کی کھینچی ہوئی لکیر پر وقت وحالات کا خیال کر ملک کو ترفی دیتے رہے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے جاں نشیںوں کو ‌غریق رحمت فرمائے۔آمین۔
جاری۔۔۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *