مصر کے رہنما جمال عبد الناصر کی بے وفائی اور ملک فیصل کی وفاداری۔

مصر کے رہنما جمال عبد الناصر کی بے وفائی اور ملک فیصل کی وفاداری۔
از‌ قلم: ساجد ولی
مسلم قیادت میں مصر کے جمال عبد الناصر نہایت شہرت کے مالک ہیں، عرب قومیت کا نعرہ سنتے ہی سب سے پہلا نام ذہن میں اسی شخصیت کا آتا ہے، مصر کی اخوانی تحریک سے بھی آپ کا ایک تاریخی تعلق ہے، ان کی معیت کے بعد ان پر پلوٹ وار کی داستان بھی بڑی دل چسپ ہے، جسے کبھی کسی اور مناسبت سے تفصیلا درج کیا جائے گا، یہاں پر ہمیں مملکت سعودی عرب سے متعلق ان کی سیاسی زندگی کے ایک خاص زاویے کو نقل کرنا مقصود قلم ہے۔
یمن کے اندر ٢٦/٠٩ / ١٩٦٢ء میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعے امام محمد البدر کا تخت پلٹ کر دیا، جن کمانڈروں نے فوجی انقلاب کی سرپرستی کی تھی، وہ عرب قومیت کے نعرے سے متاثر تھے، یا یوں کہئے کہ جمال عبد الناصر کے چوزے تھے، اس انقلاب کے بعد قیادت کے طور پر جو نام ابھر کر آیا، وہ عبد اللہ السلال کا نام ہے، یہ ان باغی فوجیوں کا کمانڈر تھا، عام طور سے یہ دیکھنے میں آتا رہا ہے، کہ مملکت سعودی عرب کے بورڈر پر واقع ممالک میں کوئی بھی غیر مانوس سیاسی تبدیلی کہیں نہ کہیں خاص نصب العین کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے، اس لئے البدر کی حکومت گرانے کے فورا بعد اس سرپھرے قوم پرست لیڈر نے سعودی عرب کے خلاف ماحول بنانا شروع کر دیا، اور جزیرۃ العرب کے تمام بادشاہوں، اور امراء کے تختہ پلٹ کی ضرورت پر ڈیگیں ہانکنے لگا، اس فوجی بغاوت میں شریک سارے لوگ جمال عبد الناصر کے افراد تھے، اسی لئے کچھ دنوں کے بعد ہی مصری افواج یمن میں لینڈ کرنے لگیں، جس تیزی سے ان انقلابیوں کی مدد کی گئی، اس سے بآسانی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے، کہ عبد الناصر کو اس فوجی بغاوت کا پیشگی علم تھا، بلکہ اس کی خطہ سازی میں بھی اس کا بلا واسطہ عمل دخل تھا۔
ان دنوں ملک فیصل رحمہ اللہ امریکا کے دورے پر تھے، آپ نے امریکی ٹیلی ویژن پر یمن کی سیاسی تبدیلی کی خبریں سنیں، تو فورا سمجھ گئے یمن کی سر زمین اصل نشانہ نہیں ہے، اسے تو سعودی عرب پر حملے کے لئے ایک پڑاؤ کے طور پر حاصل کیا گیا، ملک عبد الناصر کی سیاست سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں، کہ آپ بلکل امام محمد البدر کے طرفدار کبھی نہیں رہے، اور نہ ہی ان کے طرز حکومت کی تائید کرتے تھے، لیکن جمال عبد الناصر کے حملے کو کمزور کرنے کے لئے، اور اس کے آئیندہ عزائم پر قدغن لگانے کے مقصد سے آپ نے البدر کی قانونی حکومت کی تائید کا فیصلہ کیا، امریکا جمال عبد الناصر کے ساتھ چل رہے اچھے روابط کو ملک فیصل کے موقف کی تائید کے ذریعے خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن آپ نے کامیاب سفارتی کوششوں سے امریکی صدر جان آف کینڈی کو اس بات پر قانع کر لیا ‌کہ وہ نئی یمنی حکومت کے اعتراف کو مؤخر کر دیں۔
سعودی عرب کو لگاتار دھمکیاں ملنے لگیں، بورڈر پر خطرہ بڑھ گیا، ڈایریکٹ جنگ میں کودنے سے جمال عبد الناصر کو جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کا موقع مل جائے گا، جس کی تلاش میں وہ پاگل ہو چکا تھا،
اکتوبر ١٩٦٢ء میں صورت حال مزید پچیدہ ہو گئی جب برطانیہ نے حسن حمید الدین کی حمایت کا اعلان کر دیا، اور یمنی قبائل بھی اس کی طرف جھکاؤ رکھتے نظر آنے لگے، سعودی عرب کے لئے اب بورڈر پر فوج کو الرٹ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، ٣ نومبر کو یمن میں ایک نئی خانہ جنگی کا ماحول دکھنے لگا، مختلف سعودی علاقے بھی نشانہ بنائے گئے، جن کی مذمت کرتے ہوئے مملکت سعودی عرب نے مصر کو اس کا مکمل ذمے دار قرار دیا۔
٤ نومبر کو سعودی وزیر دفاع سلطان بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کولونیل ویلسن کو طلب کر یہ خبر دی کہ سعودی عرب اپنے اندرونی امن وامان کی حفاظت کے لئے ایکٹو ایئر ڈیفنس سسٹم کی شروعات کر رہا ہے، معاملہ اسی طرح سے خراب سے خراب تر ہوتا رہا، یہاں تک ١٩ دسمبر کو امریکا نے سعودی عرب کے اعتراض اور ناراضگی کے باوجود یمن کی نئی جمہوری حکومت کے اعتراف کا اعلان بھی کردیا، جس‌ سے جمال عبد الناصر اور اس کی فوج کے حوصلے مزید بڑھ گئے، انہیں ایسا لگنے لگا کہ یہ امریکی اجازت کے مترادف ہے، اور اس بات کا اشارہ ہے کہ آگے بڑھو، ہم تمہارے ساتھ ہیں، اسی لئے سنہ ١٩٦٢ء کے اختتام پر مصری لڑاکو جہاز نے یہ کہہ کر نجران پر بم باری شروع کر دی، کہ یہاں پر یمن کی سابقہ حکومت کے ہم دردوں کے لئے اسلحہ اکٹھا کیا جا رہا ہے، یہاں پر ملک فیصل رحمہ اللہ نے امریکی حکومت سے یہ مطالبہ کیا ‌کہ یمن کی سیاسی اور خطرناک صورت حال کو سیکورٹی کونسل منتقل کیا جائے۔
اس پر امریکی اتھارٹی کو مسئلے کی نزاکت کا احساس ہوا، اور اپنے علاقوں کی سلامتی کے لئے اٹھائے جانے والے سعودی اقدامات کی تائید کا اعلان کرتے ہوئے ملک فیصل کی رضا مندی سے مشروط سعودی افواج کی دفاعی ٹریننگ کی پیش کش بھی کی، اور بالفعل سنہ ١٩٦٣ء کے شروع میں سعودی امریکی افواج کی فوجی مشقیں بھی شروع ہوئیں، نیز مسئلے کے سیکورٹی کونسل منتقل کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے امریکی سفارت کاری ہی کے دائرے میں مسئلے کے حل کو بہتر قرار دیا۔
٧جنوری کو پھر ایک بار مصری افواج نے صوبہ نجران پر حملہ کیا، جس کے داخلی طور پر دونوں ملکوں ( مصر+ سعودی عرب) کی داخلی حالت کو جنگ کے لئے تیار کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں، دونوں ملکوں کے مابین جنگی حالات بن گئے، مصر نے‌ اپنے روسی میڈ لڑاکہ جہازوں سے سعودی عرب خمیس مشیط، نجران، ابہا کے علاقوں پر پھر بمباری کی، عبد الناصر کو امریکی اتھارٹی کے اعتراف حکومت نے مزید جرات مند بنا دیا، اسی لئے اس نے یمن کے اندر ٤٠ ہزار فوج کو تعینات رکھا، اور ١٨ فروری ١٩٦٣ء کو پانچ ہزار لوگوں کے ذریعے پھر ماحول کو گرمانے کی کوشش کی۔
اسی دوران جمال عبد الناصر کے ہم‌ خیال لوگوں نے عراق کی حکومت کو گرایا، اور شامی نظام حکومت کا تختہ پلٹ کر دیا گیا، ان دونوں نئی حکومتوں نے عبد الناصر کا ساتھ دینے کا عزم کیا، ٨ جون کو پھر یمن کی بورڈر سے سعودی علاقوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد ملک فیصل نے امریکن اتھارٹی کو واضح طور پر یہ پیغام دیا، کہ سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل کے لئے دکھلائے گئے حسین خواب اب قابل اعتماد نہیں رہے، اور صورت حال ناقابل برداشت مرحلے تک پروگریس کر چکی ہے۔
یہاں پر امریکی سفیر نے‌ اب امریکن‌ اتھارٹی کو مسئلے کے نزاکت کا احساس دلایا، اور اس بات سے ڈرایا کہ کہیں یہ غصہ سعودی امریکی تعلقات میں رخنہ نہ ڈال دے، اس وقت نسبتا کمیونزم اسلام کی سب سے بڑی دشمن تھی، ملک فیصل کو کسی بھی طرح سے کمیونزم کے لئے یمن میں نا مناسب حالات پیدا کرنے تھے، تاکہ یہ خدشہ کہیں حقیقت میں نہ بدل جائے، اس خدشے سے امریکن اتھارٹی کو آگاہ کر دیا گیا، سوویت یونین کی اکٹی ویٹیس کی اسٹڈی کے لئے‌‌ امریکن انٹلی جنس چیف اسٹاف روبرٹ گلاس کو منتخب کیا گیا، جس‌ میں یہ واضح ہوا کہ سوویت یونین نے یمن کے نئے نظام حکومت کی فوجی ضروریات کی تکمیل میں عبد الناصر کی مدد کی ہے، جو متعدد ٹیکنیشینس اور جنگی ماہرین کے ذریعے ٹا ہنوز جاری ہے، اور چونکہ عدن میں سوویت یونین، اور جمال عبد الناصر کے مشترک مصالح تھے، اس لئے دونوں حکومتیں اس انقلاب کو مضبوط رکھنا چاہتی تھی، اسی لئے سویت یونین کے ٥٠٠ ماہرین کو جیٹ ہوائی جہازوں کے رن ویز کی تیاری میں لگا دیا گیا، اور ایک بجلی پلانٹ بھی تیار کیا گیا۔
یہی سارے حالات تھے کہ فوجی کمانڈر سلال کا موقف کمزور پڑنے لگا، اور یمنی قبائل اس کے خلاف مورچہ کھولنے لگے, اور ایک گوریلا جنگ میں مصر داخل ہوگیا، جو نہایت ناقابل برداشت بھی تھی، اور جس کا سر کرنا نہایت مشکل ترین امر بھی، سنہ ١٩٦٣ء میں یمن تین طاقتوں کی جنگی آزمائش بنا رہا، اور نیکتا خروشوف بھی اس جنگ میں بالآخر شریک ہوگئے، ٢٢نومبر ١٩٦٣ ء کو کنیڈی قتل کر دیا گیا، ١٩٦٤ء میں مصر وسعودی عرب کے مابین غیر سنجیدہ مذاکرات ہوتے رہے، جمال عبد الناصر بھی یمن سے عزت کے ساتھ نکلنے کا بہانہ تلاشتا رہا، ملک فیصل یمنیوں کے حق خود ارادی کی وکالت کرتے رہے، لگاتار دونوں ملکوں میں بڑھتی رہیں، امریکی وبرطانوی کوششیں باہمی تفاہم میں ناکام رہیں، لگاتار یہی صورت حال سنہ ١٩٦٧ء تک جاری رہی، لگاتار مصری افواج کی آمد یمنی سرزمین پر بڑھتی رہی، جو اب ٧٠٠٠٠ کی تعداد پار کر چکی تھی، بالآخر اس ناختم ہونے جنگ سے تنگ آکر جمال عبد الناصر کو جدہ آنا پڑا، اور ٢٤ اگست ١٩٦٥ء کو ملک فیصل کے ساتھ جدہ معاہدے پر سائن کئے، جن میں مندرجہ ذیل شرطیں منظور کی گئیں: ( جنگ بندی کے ساتھ ساتھ یمن سے مصری فوج واپس بلا لی جائے، ملکی نظام کے لئے کوشش کرنے والے یمنیوں کو دی جانے والی سعودی امداد موقوف کی جائے، یمنی قوم غیر جانبداری کے ساتھ خود اپنا مستقبل طے کرے، تب تک ایک عبوری حکومت کی بنیاد ڈالی جائے).
جمال عبد الناصر کی ان ساری غیر ذمے داری حرکتوں، اور دشمنانہ رویے کے بعد بھی جب مصر کو اسرائیل کے خلاف مالی امداد کی ضرورت پیش آئی، اور خرطوم کے اندر تمام اسلامی ممالک کی ایک میٹنگ کا انعقاد ہوا، تو ملک فیصل نے تمام سابقہ واقعات کو بھلا کر جمال عبد الناصر کی مدد کے لیۓ ٥٠ جنیہ کا اعلان کیا، پورے ممالک سے ٥ ملین جنیہ کی امداد سے زیادہ کی توقع نہیں تھی- جیسا کہ انور السادات نے جمال عبد الناصر کے حوالے سے اس توقع کا ذکر کیا ہے-, لیکن ملک فیصل نے اس اخوت کے مظاہرے سے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔
سعودی عرب کے عالمی جتنے بھی مواقف ہیں، ان میں یہ پالیسی واضح طور پر نظر آتی ہے، کہ یہ ملک جب بھی وقت پڑتا ہے, مشکل حالات میں اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ دیتا، انسانی مصائب میں بلا تمییز اپنا بھرپور انسانی کردار پیش کرتا ہے، اور بلا غرض خفیہ یا اعلانیہ طور پر ان سارے کرداروں کا مظاہرہ کرتا ہے, جو ایک اسلامی مزاج حکومتی پر لازم ہوتے ہیں، اس جیسی ڈھیروں خدمات کے بعد بھی مملکت سعودی عرب کو مطعون کیا جاتا ہے، کہ یہ ملک ایسا ہے ویسا ہے، حقیقت بات ہے کہ جب مخالف آپ کے خلاف ایک معاندانہ رویہ اختیار کرلے، اور سابقہ طور پر ایک نظریہ وضع کر لے، تو پھر زمین وآسمان کے قلابے ملانے کے بعد بھی اس نظریے کو ذہن ودماغ سے مٹایا نہیں جا سکتا،‌ اور ہزاروں ثبوت پیش کرنے کے باوجود انسان اپنی شبیہ صاف کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، اس ملک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، جب بھی اس پر یلغار ہوئی ہے، یا اسے تباہ کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں، تو دو ہی طرح کے مواقف مسلم ممالک کی طرف سے دیکھنے کو ملتے ہیں، ایک خاموشی، دوسرا اظہار فرحت و شادمانی، لیکن‌ کچھ اہل دانش ایسے بھی ہیں، جو واقعات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اعتراف حق میں متزن ومبنی بر عدل رویہ اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالی اس ملک کی حفاظت فرمائے، اور ملک فیصل کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔ آمین۔( یہ مقالہ “ملك فيصل وصراع بين الحلفاء” نامی کتاب سے مستفاد ہے).

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *