*نوجوان اور ہیئر اسٹائل*
✍️فخر الحسن محبوب عالم محمدی
آج کا مسلم معاشرہ جس تیزی کے ساتھ یورپ کے رنگینیوں کا شیدائی ہوا جا رہا ہے اور جس سرعت کے ساتھ اس کی ہر چمکدار شئ کو قبول کرنے کے لئے کوشش میں لگا ہوا ہے اتنی ہی تیزی سے سنت رسول صلی اللہ وسلم کو چھوڑتا نظر آ رہا ہے ہمارے مسلم قوم کا موجودہ صورتحال یہ ہے کہ فلمی دنیا کے سینکڑوں اداکاروں کے نام تو اسے یاد ہیں مگر اسے دین کی بنیادی معلومات اور اپنے نبی کے والدین اور ان کے اصحاب کے چند نام بھی اسے یاد نہیں اداکاروں کی بدلتی ہوئی ہر ادا تو اسے پسند آتی ہے مگر نبی کا طریقہ اپنانے سے وہ کوسوں دور رہتا ہے۔ رب ذوالجلال والاکرام نے قرآن مجید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ« سورہ آل عمران 31» ۔
ائے نبی آپ کہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کے دعویدار ہو تو میری پیروی کرو ‘ اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے۔
اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار سے محبت اور دوستی رکھنے سے منع فرمادیا تھا اور صرف اہل اللہ کے ساتھ محبت کرنے کی اجازت دی تھی اور جب کہ بعض کفار بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کا دعوی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اور آپ کی پیروی کرنا ہے جو آپ کا پیروکار ہے اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے محبوب بنا لیتا ہے اور جو آپ کی پیروی سے محروم ہے وہ اللہ کی محبت سے محروم ہے۔
قارئین کرام: نوجوانوں میں جدید ترین ہیئر اسٹائل کو فالو کرنا ٹرینڈ بن گیا ہے ۔ نوجوان دوسروں سے مختلف نظر آنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے لئے کچھ نوجوان نئے نئے طریقے سے بال کٹوا رہے ہیں۔
ایک مسلمان کے لئے وہی طرزِ زندگی قابلِ اتباع ہے جس کی تعلیم قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم صاف طور پر یہ پاتے ہیں کہ بال کٹوانے کے تعلق سے جدید فیشن سرا سر اسلامی تعلیمات سے متصادم ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ، تو میں نے نافع سے پوچھا قزع کیا ہے تو انہوں نے کہا: بچے کے سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دئے جائیں اور کچھ حصے کو چھوڑ دئے جائیں ( رواہ مسلم 2120).
امام نووی کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں کیوں کہ حدیث کے روای نے بھی یہی معنی بیان کئے ہیں اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے ! جہاں تک ” لڑکے ” کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے ( شرح صحیح مسلم للنوی).
اور کراہت کی حکمت بتاتے ہوئے امام نووی نے لکھا ہے: کیونکہ اس سے برائی اور عقلمندی کو تکلیف پہنچتی ہے اور کہا گیا: کہ یہ یہودیوں کا لباس ہے۔
ہمارے ہاں آج کل برگر کٹ کے نام سے جو آدھا سر مونڈ دیا جاتا ہے اس حدیث کی روشنی میں جائز نہیں ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
انَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی صَبِیًّا قَدْ حُلِقَ بَعْضُ شَعْرِہٖ وَتُرِکَ بَعْضُه،، فَنَهاهمْ عَنْ ذَالِکَ، وَقَالَ : احْلِقُوہُ کُلَّه،، أَوِ اتْرُکُوہُ کُلَّه .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک بچے پر پڑی، جس کے کچھ بال مونڈھ دیے گئے تھے اور بعض چھوڑ دیے گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کر دیا اور فرمایا: یا تو پورا مونڈ دو یا پورا چھوڑے رکھو۔ (سنن أبي داود 4195).
علماء کرام نے اس حدیث سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ بیک وقت بال چھوٹے بڑے رکھنا جائز نہیں ہے جیسا کہ آج کل انگریزی بال رکھے جاتے ہیں کہ سر کے بعض حصے سے بال کو کاٹتے ہیں اور بعض حصے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
مسلمانوں کو مشرکین اور کفار کی تقلید و نقالی سے احتراز کرنا واجب ہے ۔ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ” من تشبه بقوم فهو منهم ” جو شخص بھی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا ۔
بچوں کا معاملہ ان کے والدین اور سرپرستوں سے متعلق ہے۔
ان پر لازم ہے کہ بچوں کے لباس اور حجامت میں اسلامی ثقافت کو ملحوظِ خاطر رکھا کریں۔
اور یہ معا ملہ جب بچوں میں ناجائز ہے تو بڑوں کے لیئے بطریقِ اولیٰ ناجائز ہو گا۔
قارئین!
بالوں کے فیشن کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اِس کے بیشمار دنیوی نقصانات تو ہیں ہی ، دینی اعتبار سے بھی یہ صحیح نہیں بلکہ ممنوع ہے۔ دُنیاوی نقصانات میں سرفہرست وقت اور مال کا ضیاع ہے،کیونکہ جب کسی خاص اسٹائل میں بال کٹوانا ہوتا ہے تو سب سے پہلے بال بڑھانے کے لئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے اور پھر کٹوانے کے بعد اس کی دیکھ بھال اور اس کو درست رکھنے میں صرف وقت ہی نہیں لگانا پڑتا بلکہ ہمہ وقت چوکنا بھی رہنا پڑتا ہے کہ کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے اور سیٹنگ خراب نہ ہو جائے۔ اسٹائلش ہیئر کٹنگ کے لئے پیسے بھی کافی بلکہ منہ مانگے لئے جاتے ہیں۔ اِ ن دونوں نقصانوں کے علاوہ ایک اہم نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان جس کام میں ہے ،اُس کام پر مکمل توجہ مرکوز نہیں کرپاتا؛ اِس کی آسان مثال اُس طالب علم کی ہے جو اسٹائلش بال رکھتا ہے۔پڑھائی سے اکثر اوقات اُس کی توجہ ہٹ جاتی ہے اور ہمیشہ اسی کی فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں میرا بال خراب نہ ہو جائے اوراس طرح وہ اپنی تعلیم کا بھی نقصان کر لیتا ہے۔
ان اسلامی تعلیمات کو پڑھنے کے بعد ہم بلا شبہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام نے ہماری اِس طرح رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر ہم اُن پر عمل کر لیں تو ہماری زندگی ایک خوبصورت گلدستہ بن جائے ۔ بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم اُن رہنمائیوں کو پڑھیں، سمجھیں اور اپنا کر دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیں۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/