مر ے رازق رعایت کر

مر ے رازق رعایت کر

تحریر: مظہر اقبال مظہر( لندن)

Twitter@MIMazhar

شدید گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں جب جُھلسا دینے والی لُو چلی رہی ہو تو سانسیں بھی آگ کی بھٹی سے نکلتی ہوئی محسوس ہوتی  ہیں۔اس قدر قیامت خیز گرمی میں جب سورج سوا نیزے سے اوپر ہو جائے تو ہر جاندار مخلوق کسی سائے کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ مگر قسمت کے مارے  لاکھوں محنت کش انسان ایسی تپتی دوپہروں میں بھی اپنے حصے کار زق تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ آسمان سے برستی آگ کی شدت میں کمی کے لیے کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں۔ مگر معجزے ہیں کہ ان سے کوسوں دور ہی رہتے ہیں۔ کوئی مزدور ہو، کسان یا کوئی اور زمین زاد، وہ کسی سائے والی دیوار، کسی درخت کی چھاؤں، کسی نخلستان کی آس پر زندگی کی سانسوں کی ڈوری بحال رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔

گرمی اور مزدور کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ گرمی ازل سے ہے اور ابد تک رہے گی۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں یہ موسمی گرمی کیسے آگ بنتی جا رہی ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں کہیں بہت دُور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے اپنے  ہی گھر  یا خاندان میں، آس پڑوس میں، محلے میں یا گلی کے نکڑ پر کہیں نہ کہیں ہمیں ایک ایسا انسان ضرور مل جائے گا جس نے کبھی روح کو  جھُلسا دینے والی گرمی میں رزق کی تلاش میں اپنی خواہشوں گلا گھونٹا ہوگا۔ اس نے بدن کی لاکھ مزاحمت کے باوجود وجود کو پگھلا دینے والی گرمی میں کام کیا ہوگا۔

ستر اور  اسی  کی دہائیوں میں جب تیل کے سیال مادے نے عربوں کی قسمت کے دروازے کھول دئیے تو نسلوں سے منتقل ہوتی خاندانی غربت کومٹانے کے لیے ایشیائی باشندوں کی ایک بڑی کھیپ خلیجی ریاستوں میں داخل ہوئی۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور فلپائین جیسے ممالک نے لاکھوں محنت کش کارکنوں کی شکل میں عرب شیخوں کے گورے فورمینوں کے ہاتھوں میں خودکار مشینیں پکڑوا دیں۔ بدیسی سرمایہ داروں، بدوی نودولتیوں اور ان کے نیم بدوی کاسہ لیسوں کے ہاتھوں ایشیائی مزدوروں کی جو درگت آج سے پانچ دہائیاں قبل بننا شروع ہوئی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔ خلیجی ریاستوں میں بے رحم  مزدوری کی قیمت چندٹکوں کی صورت میں لاکھوں ایشیائی کارکن آج بھی وصول کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں۔ مگر روح کوچھلنی کردینے والی اس معاش کی جو اصل قیمت وہ ادا کر رہے ہیں وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ دگنی ہو رہی ہے۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے ماہرین نے شدید گرمی اورمتعدد دائمی بیماریوں کے درمیان تعلق کے بارے میں دنیا کو خبردار کیا ہے۔ان میں گردوں کی خرابی سرفہرست ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی ایک انتہائی صحت مند انسان کو بھی اپاہج  بنا سکتی ہے۔ یہ گرمی صرف خلیجی ریاستوں تک ہی محدود نہیں۔ دنیا کے کئی خطے جہاں کسان اور مزدور کھلے آسمان کے نیچے کام کرتے ہیں اب پہلے سے کئی زیادہ شدت والی  گرمی میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ سری لنکا میں چاول اگاتے خاندان اور چائے کی پتی خشک کرتی مزدورعورتیں ہوں یا بنگلہ دیش  میں دھان کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدور، ا انڈونیشیا اور ملائیشیا کے گنے اور پام آئل کے کھیتوں میں روزی کی تلاش میں نکلنے والے انسان ہوں یا  وسطی امریکہ سے خلیج فارس تک بھاپ سے بھرے کارخانوں میں کام کرنے والے  مزدور۔پاکستان میں ننگے سر اور ننگے پاؤں کپاس چُنتی عورتیں ہوں یا سعودی عرب،  قطر، بحرین،  اور یو اے ای جیسے خلیجی ممالک کے تپتے ریگزاروں میں کام کرتے لاکھوں ایشیائی باشندے، یہ تمام انسان لہو ابالنے والی گرمی کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سال تن من کی بازی لگاتے ہیں۔

جیسے جیسے دنیا کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیاں زیادہ شدت سے گرمیوں کے موسم کاآغاز کرتی ہیں۔ برطانیہ جیسے سرد ترین ممالک بھی  اب گرمی کی آنے والی لہر سے نمٹنے کے لیے ابھی سے پیش بندیاں کر رہے ہیں۔ ادھر صحت عامہ کے عالمی ماہرین اور سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ گرم موسموں میں کام کرنے والے مزدوروں میں گردے کی بیماری کے کیسز بڑھ جائیں گے۔انہوں نے خبردار کیا ہے کہ گردوں کی خطرناک بیماری جیسی وبائیں جو منظر عام پر آ چکی ہیں صرف شروعات ہیں۔ جیسے جیسے موسم مزید گرم ہوتا جائے گا انہیں توقع ہے کہ ِجلدی اوردیگر اعضا کے متعلق بیماریاں کہیں زیادہ شدت سے نمودار ہوں گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں امریکن سوسائٹی آف نیفرولوجی نے خبردار کیا ہے کہ معاشرتی، جغرافیائی، اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرے والے عوامل کا سنگم گردے کی بیماری کے واقعات کو بڑھا سکتا ہے۔گردے کے ماہرین کی ایسوسی ایشن نے نوٹ کیا ہے کہ موجودہ صدی کے وسط تک عالمی سطح کے درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیس (3.6 ڈگری فارن ہائیٹ) کے اضافے کی توقع ہے۔ اور مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی غریب طبقات ہیں ان کے صحت عامہ کے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔نیپال کے ایک ہسپتال میں ڈائیلاسز کے مریضوں کے جائزے سے معلوم ہوا کہ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو بیرون ِملک یعنی خلیجی ریاستوں میں کام کرکے لوٹے ہیں۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے تقریباً 20 فیصد نوجوان تھے۔ نیپالی ایسی قوم ہیں جس کے ہر دسویں فرد کو کام کرنے کے لیے بیرون ملک جانا پڑتا ہے۔ اور وہ بھی اکثر دنیا کے گرم ترین مقامات پر۔

مقامی اور بین الاقوامی محققین کا کہنا ہے کہ نیپال میں اس وقت تمام ایشیائی ممالک کی غریب آبادی کے مستقبل کی ایک جھلک ابھر رہی ہے۔عالمی ساہوکاروں اور دولت کے پجاری سرمایہ کاروں کے بنائے ہوئے اس روبوٹک دور میں کمپیوٹر اور مشینیں ٹھنڈے یخ کمروں میں کام کررہے ہیں اور گوشت پوست کے انسان مشینوں، فیکٹریوں اور کارخانوں کی لگائی ہوئی آگ میں کھلے آسمان کے نیچے کام کرتے ہیں۔یہ ایسا خوفناک مستقبل ہے جس میں کسان، مزدور اور محنت کش جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے پھر سے کسی معجزے کے منتظر ہوں گے۔

مرے رازق رعایت کر نمازاں رات دیاں کر دے

کہ روٹی رات دی پوری کریندے شام تھیں ویندی

(شاکر شجاع آباد ی)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *