جلسہ بنام میلہ
شرق اسلام رسول اکرم صلی اللہ عَلیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے ہوئ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام توحید اور پیام حرا کو پہاڑی صفا پر جلسہ عام میں سنایا لوگ سنے اور سن کر چل دئے کسی نے نرم تو کسی نے گرم رویہ اپنایا جلسے سے گونج نبویﷺ برقت سب کے کانوں میں پڑی پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فردا فردا دعوت اسلام دينے شروع کئے جس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اور دار ارقم میں مٹھی بھر لوگ کلمہ حق مان کر آپ کے ساتھ تھے
شعب ابی طالب کی صعوبتوں اور تکالیف و آلام سے گذر کر دعوت ایمان بڑھتی رہی اور ہجرت کے دردناک حالات سے ہوتے ہوئےفتح مکہ کےموقع پر کامیابی سے ہمکنار ہوئ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم قران کریم کی تلاوت کر لوگوں کو اسلام سے قریب کرتے جلسے وجلوس آپﷺ کے زمانے میں نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی تام جھام ہوتا تھا جلسے جلوس تو اس وقت زور وشور سے چل رہا تھا جب ہلاکت چنگیزی سر پر کھڑی تھی
اور علماء کوا کھانا حلال ہے یا حرام مناظرہ بازی میں لگے ہوئے تہے
آج کل کے جلسوں کی نوعیت کچھ جدا نہیں ہے فقط رنگ وساز ہے اور گویوں کی لمبی قطار ہے نہ روح دعوت ہے اور نہ حلاوت ایمان
لوگوں کو قران و حدیث سنانے کے بجائے وید سنانے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے جو نئی نسل کے لئےخطرناک ہے نسل نو یہ سوچنے پر مجبور نہ جائے کہ کہیں قران کی تلاوت سے اچھی وید کی سماعت تو نہیں-
اب ذرا بتائیں …..
۱— کتنے غیر مسلم جلسے میں شریک ہوتےاور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کوئ اک بھی مثال ملے تو بتائیں جبکہ قران کی تاثیر سے کتنے دل دولت ایمان سے سرشار ہوئے یہ بتانے کی ضرورت نہیں
۲—اہل حدیث ائمہ وعلماء
ماشاء اللہ اکثر اچھے ہوتے ہیں تو یہ طرفہ تماشہ چہ معنی دارد-
۳— حقیقت یہ بھی ہیکہ مسلمانوں کو وید سے کوئ مطلب نہیں اور نا ہی مقصود و مطلوب –
۴—جب شرعی دلائل (ادلہ شرعیہ) کا جائزہ لیتے ہیں تو اس ویدوں کا کوئ ذکر نہیں ملتا پہر عقائد و مسائل کو وید سے ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے –
۵—کیا قران و حدیث کی حجیت کافی نہیں اور قران کی حلاوت وچاشنی میں کمی واقع ہوگئ ہے تبھی تو وید اور ویدی حضرات شان بگھارتے ہیں-
۶—دعوت و ارشاد بھیڑ بھاڑ اور میلے ٹھیلے سے نہیں ہوتی بلکہ سیر وتواریخ کے حوالے سے کہنا عین حق ہیکہ دعوت و تبلیغ منبر ومحراب علماء و وائمہ کے مجالس ذکر و فکر سے عام ہوئ ہے –
۷—جلسہ وجلوس محض اب کے میلہ کی صورت اختیار کرگئی ہے جسے لوگ فقط دیکھنے کو آتے ہیں –
۸—مقامی ائمہ و علماء جو ہر وقت عوام کے ساتھ رہتے اور دکھ درد غم اور خوشی میں شریک ہوتے ہیں بالخصوص ائمہ ومدرسین کے ساتھ ماضی میں اہانت آمیز سلوک ہوئے اور تحقیر و تذلیل ہنوز جاری ہے اس پر کسی کو فکر نہیں ایک امام دسیوں سال عوام کی خدمت کرے
امامت اور تدریس کے فرائض انجام دے مگر بےحس عوام کبھی ان پر نظر کرم نہیں ڈالتے اس وقت ان کی آمدنی کے لالے پڑجاتے ہیں اور سخت وسست سنانے میں کسر نہیں چھوڑتے مگر جلسہ میں ویدی حضرات کو دینے کے لئے لاکھ کے لاکھ انڈیل دیتے ہیں اور الوداعی معذرت کی بوچھار ہوتی ہے
اللہ عقل سلیم سے نوازے آمین
سوچیں مگر ٹھنڈے دماغ سے
امانت اللہ سہیل تیمی
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/