اردو زبان و ادب کا عصری منظر نامہ
اور ہماری ذمہ داریاں
عقیل ساجد
للت نارائن متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ
وطن عزیز ہندوستان میں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سے ایک اردو بھی ہے، یہ یہاں کی بائیس قومی زبانوں میں سے ایک ہے، یہ اپنی چاشنی ،حلاوت ،مٹھاس اور نغمگی میں ملک کی تمام زبانوں سے فائق وبرتر ہے،یہی وجہ ہے کہ بڑی کم مدت میں دنیا کے گوشے گوشے میں اس نے اپنی بستیاں آباد کرڈالی ہیں۔ اردوکو محبت ،مٹھاس ،احترام، خوبصورتی ودلکشی اور امن وبھائی چارہ کی زبان کہا جاتا ہے۔ اردو کے افق کی وسعت اتنی ہی ہے جو دنیا کی دیگر زبان کو حاصل ہے۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جس کے بارے میں اردو خاموش ہو، کوئی ایسا فلسفہ نہیں جس کی تعبیر اردو میں نہ ہوسکتی ہو، اردو نے اپنے آغاز سے دنیا میں دھوم مچائی تھی ، جس کی شہرت ملکی سرحدوں کو عبور کرکے انگلینڈ وامریکہ، کناڈا وجاپان ،ڈنمارک ،ناروے وغیرہ تک پہونچ چکا ہے، ہر جگہ اس کی دھوم مچی ہوئی ہے، بقول شاعر:
افریقہ ہو عرب ہو امریکہ ہو کہ یورپ
پہنچی کہاں نہیں ہے اردو زباں ہماری
اور داغ دہلوی نے کہا :
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
قابل ذکر یہ ہے کہ اردو زبان کو اس مقام تک پہنچانے میں مسلم ادبا و شعرا کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ادبا و شعرا کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے، اس کے پورے منظر نامے کا جائزہ لینے سے یہ بات طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ اردو کے جانثاروں اور خدمت گاروں کی صف اول میں ہزاروں غیر مسلم شامل ہیں، جنہوں نے اردو شاعری ہو یا نثر، صحافت ہو یا خطابت، تنقید ہو یا تحقیق، ڈرامہ ہو یاافسانہ ہر محاذ پر اردو زبان و ادب کی خدمت کی ہے،آزادی سے قبل منشی دیا نارائین نگم، منشی نول کشور، دیاشنکر نسیم، پنڈت برج نارائن چکبست، پریم چندر، رام پرساد بسمل، مہاراجہ کشن چند، تلوک چند محروم کے ساتھ ساتھ ہزارں غیر مسلم دانشوروں نے اردو کے چمن کی آبیاری میں اپنا خون دل صرف کیا اور آزادی کے بعد بھی رگھوپتی سہائے ، فراق گورکھپوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، گوپی چند نارنگ، راجندر سنگھ بیدی، جو گیند پال، ہرچرن چاولہ، سریندر پرکاش، کرشن چندر، بلراج منیرا، راما نند ساگر، بلراج کومل، پنڈت برج نارائن، آنند موہن، زتشی گلزار، خار دہلوی وغیرہ ایسے نام ہیں جو آفتاب و مہتاب بن کر اردو کے افق پر جگمگائے کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ :
گم نامیوں کی دھوپ میں جلتا نہیں کبھی
جس سر پہ سائبان ہے اردو زبان کا
مقام افسوس ہے کہ گردش ایام کے ساتھ ساتھ آج اردو زبان کا منظر نامہ اپنے ہی مولد و مسکن اصلی ہندوستان میں بڑی تیزی کے ساتھ سمٹ رہا ہے، اس کا دائرہ اب محدود ہوکر ایک مخصوص قوم تک رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے، اس کے فروغ اور اس کی ترقی کی ذمہ داریاں صرف ایک مخصوص قوم کے فرائض کے طور پران کے سر ڈالنے کی ناکام کوشش ہورہی ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا خود اس مخصوص قوم کے اپنے اعمال وافکار ہیں؟ یا پھر یہ تصور اردو دشمن افراد کی سازش کا نتیجہ ہے، و جہ چاہے جو بھی ہو، لیکن اب حقیقت یہی ہے کہ اردو بڑی تیزی کے ساتھ ایک حصار میں مقید ہوتی جارہی ہے، اس کا سیکولر کردار مجروح ہوتا جارہا ہے، اس کی گنگا جمنی پہچان کو گرہن لگتا جارہا ہے، یقینا اردو زبان کی اس زبوں حالی میں مرکزی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کا بھی ہاتھ ہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ اس میں اپنوں کا زیادہ ہاتھ ہے تو زیادہ بہتر ہوگا، بقول شاعر :
دل کے پھپھولے جل ا±ٹھے سینے کے داغ سے
اِس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ایسے آج کے اس نفرتی اور تعصبی دور میں بھی بہت سے ہندو مسلم، سکھ عیسائی اردو زبان و ادب سے محبت کرتے ہیں اور اس کی ترویج و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہے ہیں، الحمد للہ انہی چند لوگوں کی وجہ سے اردوزبان و ادب آج بھی زندہ ہے بقول شاعر :
سلیقے سے ہواو¿ں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
ان حالات میں جب کہ اردو زبان اپنی زندگی کی اکھڑی اکھڑی سانسیں لے رہی ہے ہم پر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اردو زبان و ادب کی ناگفتہ بہ حالت پر ماتم کناں ہونے کے بجائے سنجیدہ ہو کر اس کے لیے مثبت اقدامات کریں اور ان تمام ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کریں جن سے اردو زبان و ادب کو فروغ ملے، ان ذمہ داریوں کا مختصر بیان آئندہ سطور میں کیا جا رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ ہم ان پر عمل پیرا ہو کر اس کے زلف برہم سنوارنے کے قابل ہو سکیں،ذمہ داریاں ملاحظہ فرمائیں:
(۱)ہر مسلم بستی اور مسلم محلے میں ایک ایک اردو میڈیم اسکول قائم کیا جائے
(۲)گارجین حضرات اپنے بچوں کا داخلہ انگلش میڈیم اسکولز کے بجائے اردو میڈیم اسکولز ہی میں کرائیں
(۳)گارجین حضرات اپنے گھر کے افراد سے اردو میں بول چال کریں
(۴) ما فی الضمیر کی ادائیگی کے لیے اردو کو اس کی رسم الخط میں تحریر کیا جائے
(۵) آفس اور دفتروں کے لیے اردو رسائل و جرائد اور اخبارات جاری کرائے جائیں
(۶)جامعہ امام ابن تیمیہ کی طرح دیگرمدارس و اسکولزاور کالجز کے اندر ادبی پروگرام منعقد کیے جائیں تاکہ طلبہ وطالبات کے اندر ادبی ذوق پروان چڑھے۔
(۷)عوام الناس کو اردو کے فوائد و ثمرات سے روشناس کیا جائے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اردوتعلیم دلانے پر فخر محسوس کریں
(۸)بچوں کے لیے سائنسی موضوعات پر مشتمل بہترین کتابیں آسان اور سلیس اردو میں تصنیف کی جائیں، تا کہ وہ اسی بہانے اردو زبان و ادب کی لذت و چاشنی سے واقف ہو جائیں
(۹) سوشل میڈیا پر پیغام نشر کرنے کے لیے اردو زبان کو ترجیح دیا جائے
(۰۱)اردو کے حوالے سے اہل مدارس کی زریں خدمات کو سراہا جائے
(۱۱)سرکاری دفاتر میں درخواستیں ہندی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی دینے کی کوشش کی جائے
(۲۱) غیر اردو داں اشخاص سے جب بھی گفتگو کی جائے ان سے اردو میں بات چیت کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس شیریں زبان کو سن کر ان کے دلوں میں بھی اس سے واقف ہونے کی تحریک پیدا ہو.
(۳۱)غیر مسلم شعرا و ادبا کی زبردست تعظیم و توقیر کی جائے تاکہ اس سے متاثر ہو کر دیگر غیر مسلم حضرات بھی اردو زبان سیکھیں.
(۴۱) ہمیں اردو جرائد ومجلات خرید کر پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے، ساتھ ہی اردو اخبارات کے ذمہ داران کی کوشش ہونی چاہئے کہ ہندی وانگریزی اخبارات کی طرح اپنی خبروں میں خبر رساں ایجنسیوں کے ساتھ تال میل کرکے بروقت ان کی اشاعت کریں۔
(۵۱) اردو زبان کی خدمت واشاعت کے لئے ہمیں (NCPUL)قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان یا (MANUU)مولانا آزاد اردو نیشل اردو یونیورسٹی کی تمام تر سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھ بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
(۶۱)دکانوں اور ہوٹلوں کی اسامیوں کے اعلانات اردو میں نکالے جائیں اور ان میں اردو جاننے والوں کی تقرری عمل میں لائی جائے.
(۷۱) اس زبان کو محض یہ کہہ کر نظر انداز نہ کیا جائے کہ اس میں روزگار کے مواقع کم ہیں بلکہ اردو بولنے والوں کی آبادی کے تناسب سے اس زبان میں جتنے مواقع ہیں دوسری زبانوں میں کم ہیں۔
مختصر یہ کہ اردو زبان و ادب کا عصری منظر نامہ نہایت ہی محدود اور مہیب ہے، اسے وسیع سے وسیع ترکرنے اور خوشنما بنانے کے لیے ہم پر یہ ضروری ہو گیا ہے کہ مذکورہ ذمہ داریاں بلا تاخیر پوری کریں، یقینا ہم اس شیریں زبان کو اعلیٰ نہج پر پھیلانے میں کامیاب ہوں گے اور سرخرو بھی،چاہے اردو زبان و ادب کے نام پر روٹیاں سینکنے والے ہمارا تعاون کریں یا نہ کریں،اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں کیوں کہ :
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
٭٭٭
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/