چھبیس جنوری: جمہوریت کی پاسداری کا دن

26/جنوری: “جمہوریت کی پاسداری کا دن”
(محمد قاسم ٹانڈؔوی=09319019005)
کہتے ہیں کہ ہر شئ کا ایک حسن اور اس کا ایک وقار و مقام ہوتا ہے؛ جیسے علم کا مقام و وقار یہ ہے کہ یہ جس انسان کو حاصل ہو جاتا ہے، وہ دیگر غیر پڑھے لکھے لوگوں ممتاز ہو جاتا ہے اور اس انسان کو مہذب و مؤدب اور سلیقہ شعار کر دیتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی فلاحی ریاست کی سلامتی و ترقی کا حسن وہاں کا استحکام بخش جمہوری نظام اور اقتدار پر فائز حکمراں جماعت کا غیر جانبدار ہونے میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
مذکورہ اصول کی روشنی میں یہ بات پورے اطمینان و وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ فی الوقت ہمارے ملک میں جو نظام 26/جنوری 1950 کو رائج و عام ہوا تھا اور آئین مرتب کرنے والوں نے جو ڈرافٹ ملک کے عوام کو غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر بطور سوغات ہمیں دیا تھا، اس کے لحاظ سے ہمارا یہ ملک جمہوری کہلایا تو ضرور؛ مگر ایک جمہوری ملک میں جمہوریت ہوتی کیا ہے، اور وہاں قائم حکومتوں کو کیسے جمہوریت کو دوام و استحکام بخشنا چاہئے، اور جو اہم اور آئینی ادارے ہوتے ہیں، کیسے انہیں متحرک و فعال رکھنے لی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے؛ ان سب کو آزادی کے بعد اپنی حدود و شرائط میں رہ کر کسی نے کام کرتا دیکھا اور سمجھا ہو ہمیں نہیں لگتا؟ علاوہ ازیں ملک کے اقتدار اعلی پر آج جو طبقہ اور جماعت فائز و قابض ہے، اس کی مسلسل کوششیں یہی ہیں وہ اپنے قلم و اقدام کے ذریعے آزادی کی سوغات میں ملے ہوئے نظام جمہوری کو تہس نہس کر اپنی دیرینہ خواہش و خواب کو پورا کرنے کی طرف راغب و گامزن ہے؛ اس لیے کہ اس کے آٹھ سالہ دور اقتدار میں جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں سے بیشتر اقلیتوں کی آزادی کے خلاف ہوتے ہیں اور بعض مواقع پر ان کی طرف سے اختیار کی جانے والی ان کی خاموشی سے ہر ذی شعور کو یہی لگتا ہے ان کا مزاج یہاں کے جمہوری نظام کے ماتحت چلنے اور یہاں کی جمہوریت کو برقرار رکھنے کو قطعا آمادہ نہیں ہے؛ کیوں ہر ایک کا مشاہدہ کثرت سے اسی بات کو ثابت کر رہا ہے کہ پیش آمدہ عوامی مسائل اور مذہبی امور میں ان کا رویہ جانب دارانہ اور خاموشی بھرا رہتا ہے۔
حالانکہ ہمارے اس ملک کی اصل خوبی اور یہاں کی جو روشن تاریخ ہے، وہ عدل و مساوات، اخوت و محبت اور باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ لوگوں کا بوش و باش اختیار کرنا رہی ہے؛ چنانچہ ملک کی تاریخ سے اگر کسی ایک فرقے اور طبقے کی قربانیوں، مجاہدات اور ان کے کار ہائے نمایاں کو خارج و فراموش کر دیا جائے تو حکمراں طبقہ کا یہ عمل جہاں عدل و انصاف کا قتل کہلاتا ہے، وہیں یہ کام بددیانتی پر مبنی ہونے کی وجہ سے اس ملک کی تاریخ کو ناقص و ادھورا بھی کر دینے والا شمار کیا جاتا ہے۔
اس ملک کو بنانے و سنوارنے، یہاں کی قدیم تہذیب و تمدن کو اپنے فن اور ہنر مندی سے جلا بخشنے اور مذہبی امور میں رواداری برقرار رکھنے، نیز ملک کو عظیم اور شاہکار عمارتوں کا تحفہ اور یہاں کے سیاسی، سماجی اور معاشی انتظام میں ترقی و خوشحالی کی شمع روشن کرنے میں جتنا وقت اور جان و مال کی پیش کردہ قربانیاں ہمارے اکابر و اسلاف کی طرف سے تاریخ کے صفحات میں درج ہیں، دوسرے تمام طبقات کی طرف سے ان کا دسواں حصہ بھی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
انگریز جو دو سو سال سے زیادہ عرصہ تک اس ملک کے سیاہ و سفید کا خود کو مالک بنا بیٹھا تھا، جس کی حکمرانی کا سکہ برصغیر کی حدود کو پار کرکے برطانیہ تک چلا جاتا تھا، اس انگریز قوم جبر و تسلط سے اس خطے کو آزاد کرانے میں مسلم عوام، خاص کر ہمارے علماء کرام کی بیش قیمت جان و مال قربانی ہیں، جن کے خون کی شہادت کےلیے آج بھی تحریکِ ریشمی رومال، تحریکِ خلافت جیسے مشہور عنوان، شاملی کے میدان اور بالا کوٹ کی پہاڑی پر لڑی گئی جنگیں اور دہلی کے چاندنی چوک سے لےکر خیبر تک کے راستہ میں لگے ہوئے درخت اور ان پر لٹکائی گئی علماء کرام کی لاشیں بطور ثبوت و شواہد کافی ہیں۔ آج بھی اگر کسی کو ہماری حب الوطنی اور ملک کے تئیں وفاداری پر شکوک و شبہات ہیں تو وہ ان مقامات کا دورہ کرکے یا ان تحریکوں کا پس منظر دیکھ کر اپنے شبہات و اعتراضات کا ازالہ کر سکتا ہے، اور اس کے بعد بھی اگر اسے تسلی و اطمینان حاصل نہ ہو تو پھر علی برادرانؒ کی جانفشانی، مولانا ابوالکلام آزادؒ کی دور اندیشی، مولانا حسین احمد مدنیؒ کی بصیرت و آگاہی اور اس کے علاوہ سینکڑوں نہیں؛ بلکہ ہزاروں مسلم مجاہدین آزادی ایسے ہیں، جن کی قبور ابھی موجود ہیں اور ان کے کفن ان کے لہو سے تر بہ تر ہیں، جو ان کی حب الوطنی اور ملک سے ان کی وفاداری کا ثبوت ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی ذات میں وقت کا قیمتی اور نایاب ہیرا ہوا کرتا تھا جو ملک کے عوام کی خدمات پر مامور اور ملک کی آبیاری و راہنمائی کرنے میں یکتائے زمانہ تھا، انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جس قوم سے سامنا کیا تھا وہ کوئی معمولی قوم نہیں تھی؛ بلکہ تاریخ کا سب سے ظالم و جابر اور متشدد و متعصب قوم تھی، جس پنجہ آزمائی کوئی آسان کام نہیں تھا؛ مگر یہ ہمارے اکابر و اسلاف اور علماء کرام کا دل جگر تھا، جنہوں نے کچھ بھی پروا نہ کرتے ہوئے سب کچھ اپنا قربان کر دیا اور ایسے نقش ثبت کئے جنہیں آج تاریخ سے مٹانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، باوجود اس کے وہ مٹ نہیں رہی ہیں اور نہ ہی ان کو مٹانا کسی کےلیے اتنا آسان ہوگا۔
اس لیے موجودہ حکمراں ہوں یا نئے آنے والے منتظم؛ ان کو چاہئے کہ وہ مسلم طبقات کی قربانیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک کی سلامتی، یہاں کی قدیم روایات اور آئین کی طرف سے حاصل شدہ رعارعایات و مذہبی آزادی کو برقرار رکھنے کی کوشش و جستجو کریں اور جن لوگوں نے تعصب و تشدد کی عینک پہن رکھی ہے اور وہ ہر لمحہ ملک کی سلامتی اور یہاں کے امن و امان کو آگ لگانے اور لوگوں کی پرسکون زندگی کو جہنم زار بنا دینے کے فراق میں رہتے ہیں، ان سب سے وقت رہتے نمٹیں؛ کہ یہی جمہوریت کے استحکام کا باعث ہوگا اور اسی سے ملک و قوم کی ترقی کی راہیں ہموار و متعین ہوں گی۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *