فراموش کردہ مجاہدین آزادی
جبیں نازاں
————————
گزشتہ برس ہندستان کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ ہم نے منائی گئی جسے ہماری حکومت نے ‘امرت مہوتسو’ کا نام دیا تھا – واقعی یہ’ امرت مہوتسو ‘تھا – لیکن ذرا ٹھہریں ! ہم یہ سوال خود سے کریں کہ کیا واقعی ہندوستان کے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیےامرت مہوتسو ثابت ہوا ہندستان کےہر طبقے کے ہرایک فرد کے لیے ؟
یا پھر مخصوص طبقے کے ایک نظریہ کے حامل افراد تک اس” امرت مہوتسو ” کو محدود کردیا گیا تھا؟
آزادی کے 75 سال کی سب سے نمایاں کامیابیاں کیا رہیں ؟
آزادی کےبعد بھارت کی پہچان’ گنگا جمنی’ تہذیب بتائی گئی تھی جسے ہر ہندستانی نے کھلے دل سے قبول کیا – ,کثرت میں وحدت , ‘گنگا جمنی تہذیب’بھارت کی پہچان ہی نہیں ، بھارت کی شان بھی ہے ہندستان مختلف رنگا رنگ پھولوں سے سجا وہ گلدستہ تھا ۔جس میں ہر پھول کی منفرد اہمیت اور افادیت مقدم و مسلم رہی ھے
لیکن 75 سال آتے آتے اس گلدستہ سے رفتہ رفتہ ایک ایک پھول ہٹانے کی سازشیں عملی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں ۔
بنارس کی صبح تو مل جائے گی ، لیکن ‘اودھ کی شام ‘ کو تنگ نظر فرقے کی حامل رات نے نگل لیا ۔۔یعنی کہ ،کثرت غائب وحدت غالب ۔۔،
ظاہر سی بات کہ ‘امرت مہوتسو’ میں انہی طبقے کا بول بالا رہا۔ جن کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے –
اگر چہ ‘امرت مہوتسو، منانے کی دیگر متعدد وجوہات میں ایک وجہ تمام مجاہدین آزادی کو یاد کرنے کا پلیٹ فارم بتایا گیا تھا ۔۔جس میں وزیر اعظم مخصوص طبقے کی سربراہی میں اس طبقے کے تمام رہنمائے آزادی کو یاد نہایت کروفر کے ساتھ کیا ضمناً ایک دو قبائیلی راہنما کا تذکرہ کیا ، تاکہ سیکولر طبقہ ببانگ دہل انگشت نمائی نہ کرے – اور بین الاقوامی سطح پہ بطور وزیر اعظم ساکھ بنی رہے- رانچی کے برسامنڈا ،اڈیشہ کے چکر بسوال سنتھال پرگنہ کے لکشمن نائک وغیرہ یاد رہے ، اس لیے کہ دلت اور بچھڑے طبقے کا ووٹ درکار ہے انھیں
لیکن اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت انھیں کبھی یاد نہیں آئی اور شاید ان کی یاد بھی نہ آئے ۔۔انھیں کیا ماضی کی حکومت نے بھی یہی رویہ اپنایا ۔۔۔
آزادی کے بعد بننے والی حکومت میں جو رہنما شریک حکومت رہے انہی کے نام سے شروع اور انہی کے نام پہ ختم کردی گئی پالیسی پہ گامزن رہی ۔۔۔
تو پھر موجودہ حکومت سے کیا شکوہ؟
بعض مبصرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چوں کہ مسلمان طبقہ نہ تاریخ نویسی میں دلچسپی لیتا ہے ، اورنہ تاریخ پڑھنے کا حوصلہ ہیں ان میں ”
ان کی بے سروپا باتیں اور غیر منطقی دلائل ہمیں ہضم نہیں ہوتی_
میرا مشاہدہ کہ حکومت میں جس طبقے کی جتنا شراکت ہوگی
اس طبقے کو ملک کی آزادی کا اتنا ہی حصہ دار مانا جائے گا- کیا یہ خطرناک رجحان نہیں؟ ملک و قوم کے لیے انگریز کا ایک سپاہی(جو اکثریت طبقے سے تعلق رکھتا ہے ) نشے کی حالت میں کسی انگریز پہ گولی کیا چلا ئی کہ اسے مجاہد آزادی قرار دے دیا جاتا ہے- اور اقلیت طبقے کے سینکڑوں افراد آزادی کی لڑائی میں اپنا گھر بار گنوا کر اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کرتا ہے_ اور نہایت بے مروتی سے فراموش کردیا جاتاہے گمنامی کی راکھ تلے دبا دیا جاتا ہے _
تحریک آزادی کی ابتدا 1857ء سے نہیں بلکہ 1754ء سے قبل شروع ہوتی ہے-نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خاں فورٹ ولیم پہ حملہ کرکے انگریزوں کے خلاف بغاوت کا بگل بجاچکے تھے- ۔مسلسل تین سال تک انگریز سے لڑتے رہے، 1957ء میں ان کی وفات ہوگئی ۔ان کے انتقال کے بعد ان کے نواسے سراج الدولہ نے کمان سنبھالی ، ان کا مقابلہ اپنے ہی دارالسلطنت مرشد آباد میں انگریزوں سے ہوا اپنے ہی فوج کے غدار سپاہی میرصادق کی جفاکشی نے انھیں انگریزوں کے ہاتھ قتل کروادیا ، لہذا 1957ء پلاسی کی جنگ اور 1962ءہندوستانی افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا – 1780 /82ء 1799ء تک ٹیپو سلطان کی جد وجہد آزادی اور ملک کے لیے شہیدہوجانا۔میر جعفر کی غداری کی وجہ سے ہوئی ۔یہ گراں قدر شہادت غیرت مند محب وطن کے لیے آسان ہے بھلا دینا ؟ جنھوں نے جنگ آزادی کے لیے پہلی بار جدید ہتھیار توپ ، اور راکٹ کا استعمال کیا تھا- جو آج بھی لندن کے میوزیم میں رکھی ہوئی ہے، جب بھارت کے سابق صدرمیزائل مین اے پی جے عبد الکلام لندن گئے ، میوزیم میں راکٹ اور توپ دیکھ کر دنگ رہ گئے ، یہ میزائل آج بھی پوچھ رہی ہے- حکمراں جماعت سے کہاں کہاں سےمٹاؤگے مجھے؟
1803ء میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک آزادی کو مزید بڑھاتے ہوئے ان کے صاحبزادےشاہ عبدالعزیز نے مشہور فتوی “دارالحرب” دیا، جو تحریک آزادی کے لیے ایک مترقبہ نعمت ثابت ہوا ۔۔
1857ء آزادی کی جد وجہد کا تیسرا ابتدائیہ کہا جاتا ہے – اس میں انگریز کو شکست سے دوچار کرنے والی کوئی اور نہیں بیگم حضرت محل ہیں ۔۔ اور پھر آگے بڑھتے ہیں تو علامہ فضل حق خیر آبادی کے رفقا جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے – مثلاً مشہور نام صدر الدین خاں مولوی عبدالقادر قاضی فیض اللہ مولانا فیض احمد بدایونی سعید الدین فرید الدین الہی بخش ، سیف الرحمان ، سید مبارک حسین رامپوری، نور جمال، مفتی اکرام الدین ،سید نذیر حسین، سید الہی بخش ، سعید الدین، فرید الدین ،محمد ضیا الدین، محمد کریم ،احمد سعید ، سعیدشاہ نقشبندی ، محمد عنبرخاں ،عدالت العالیہ، مولوی عبد الغنی، محمد رحمت، علی خاں، سید محبوب علی ، سرفرازعلی، محمد علی، محمد حامی الدین ،حفیظ اللہ خاں ، حفیظ اللہ، سید محمد، محمد انصار علی ، حفیظ اللہ وغیرہ
جانے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن نے محسوس کیا کہ یہی ہندوستان کی آزادی کا صحیح وقت ہے،لہٰذا انہوں نے مشرق وسطی کے سلاطین کے پاس ہندوستان کی آزادی کے لیے خطوط لکھے،جن میں انہوں نے ترکی،افغانستان،ایران اور وسطی خلافت عثمانیہ کے متحدہ طاقتوں سے ہندوستان کی آزادی گزارش کی، عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا،اور خود ترکی و دیگر ممالک کے سفر پر روانہ ہو گئے تاکہ مسلم حکمرانوں سے مدد لےکر ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں، اسی سلسلے میں مولانا محمود حسن کی اپنے رفقاء سے خط و کتابت زرد رنگ کے رومال میں ہوتی تھی،تاریخ میں یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی،جو خطوط پکڑے گئے وہ آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولیٹیکل اور سیکریٹیریٹ شعبہ میں من و عن موجودہیں ہیں_
“چوری چورا کیس” ہو یا 1930ء میں ہوئے سول نافرمانی اور نمک ستیہ گرہ
1946ء میں ہندوستان
چھوڑو تحریک میں غرض یہ کہ تمام تحریکات میں ہمارے بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندستان کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا،ان تحریکوں کو جِلا بخشنے میں ہمارے اکابرین کسی سے پیچھے نہیں تھے،ان کے ذکر کیے بغیر آزادی کی تاریخ ادھوری رہے گی،
مندرجہ بالا سارے نام غیرمعمولی اور اہم کردار ادا کیا ملک کی آزادی کے لیے- لیکن آج کی نسل ان سے ناواقف ہے – اور اس لاعلمی کی وجوہات میں بیان کر چکی ہوں ۔۔۔اب تو ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم، ملک کے پہلے صدر کے نام طلبہ کے ذہن سے محو کرنے کی کوشیشیں روز افزوں مزید ہیں ۔۔اسکول و مدارس کے نصاب سے ان کے نام حذف کیے جارہے ہیں – ہندستان کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے زعفرانی قلم سے ۔۔
امرت مہوتسو’ کے مقاصد نامکمل اور ادھوری کہی جاسکتی ہے – البتہ ‘ امرت مہوتسو ‘ یہ پیغام دینے میں کامیاب نظر آیا کہ حکومت میں حصے داری ہر طبقے کےلیے کتنا اہم اور کتنا ضروری ہے-؟
___________________
jabeennazan2015@gmail.com
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/