جمہوریت اور ملی قیادت

 

جمہوریت اور ملی قیادت

محمد عارف انصاری، رابطہ : 6203794745

علماء سیاست نے یو ں تو جمہوریت کی بہت سی تعبیرو تشریح کی ہیں لیکن ابراہم لنکن نے کہا تھاDemocracy is a rule of the people, for the people and by the people یعنی ’’جمہوریت عوام کی حکمرانی ہے، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت حکومت کی ایک ایسی شکل ہے جس میں ملک کے شہری ملک پر حکمرانی کے لیے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں اور ان منتخب عوامی نمائندوں کے ذریعہ تشکیل کردہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے۔یہ وہ طرز حکومت ہے جس میں مذہب و مسلک، رنگ و نسل، بول چال وزبان ، بودوباش اورطرز معاشرت کے اختلافات کے باوجود تمام باشندوں کے حقوق و فرائض یکساں ہوتے ہیںاورجمہوریت میں فیصلے کثرت رائے سے کئے جاتے ہیں۔ اس نظام میں طاقت و اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں ۔جمہوریت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور انصاف قانون کی حکمرانی سے ملتا ہے۔
ہندُستان کا آئین ملک کو ایک خودمختار، سوشلسٹ جمہوریہ کا قرار دیتا ہے جس کا نظام ایوان بالا(راجیہ سبھا) اور ایوان زیریں(لوک سبھا)پر مشتمل دو ایوانوں والا پارلیامنٹ پر چلتا ہے۔ہمارے آئین میں ریاست کے اختیارات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ۔ اس کے مطابق مقننہ کا کام قانون بنانا ہے، انتظامیہ کا کام قوانین کو نافذ کرنا ہے اور عدلیہ کو انتظامیہ کی نگرانی، تنازعات کے فیصلے اور قوانین کی تشریح کا کام سونپا گیا ہے۔ایک اچھی جمہوری حکومت کے لیے تینوں کے درمیان توازن بہت ضروری ہے۔ عوام ہی قانون ساز اداروں کے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ حکومت قانون بناتی ہے اور انتظامیہ عملدرآمد کراتی ہے اس طرح اداروں میں توازن پیدا ہوتا ہے لیکن دوسری جانب جب طاقت اور پولورائزیشن کے زور پر حکومت کی جاتی ہے تو ایک شخص یا چند افراد کا ایک گروہ تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر براہ راست نظام حکومت چلانا شروع کر دیتا ہے تو پھر اس ریاست کے عوام پریشان ہو کر سوچتے ہیں کہ کہاں ہے جمہوریت اورکہاں ہے عوام کی حکومت؟
ہندُستان نے 15؍ اگست 1947 کو برطانوی راج سے آزادی حاصل کی تو اس کا مستقل آئین نہیں تھا۔ اس لیے ملک کے قوانین برطانوی حکومت کے ترمیم شدہ نوآبادیاتی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 پر مبنی تھے۔ 29؍ اگست 1947 کو ڈرافٹنگ کمیٹی کی تقرری کے لیے ایک قرارداد منظور کر مستقل آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ، جس کے چیئرمین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تھے۔ کمیٹی نے آئین کا مسودہ تیار کیا اور 4؍ نومبر 1947 کو دستور ساز اسمبلی کو پیش کیا گیا۔ اسمبلی کا اجلاس آئین کو اپنانے سے پہلے دو سال 11؍ ماہ اور 18؍ دن پر محیط عوامی اجلاسوں میں 166 دنوں تک ہوا۔ 24؍ جنوری 1950 کو اسمبلی کے 308؍ ارکان نے کافی غور و فکر اور کچھ تبدیلیوں کے بعددستاویز کی ہاتھ سے لکھی ہوئی دو کاپیوں (ایک ہندی میں اور ایک انگریزی میں) پر دستخط کیے۔ دو دن بعد جو کہ 26؍ جنوری 1950 کو پوری قوم پرنافذ ہو گیا۔اس لیے جہاں ہم 15؍ اگست کو برطانوی راج سے آزادی کا جشن مناتے ہیں وہیں 26؍ جنوری کو آئین کے نافذ ہونے کا جشن یوم جمہوریہ کے طور پرمناتے ہیں۔
ہندُستان میں صدیوں سے مختلف مذاہب، ذات و برادریاں، تہذیب و تمدن، زبان وعلاقہ اور خطہ کے لوگ آباد ہیں اورباہم شیر و شکر ہو کر رہتے آرہے ہیں۔ سبھوں کی ایک مشترکہ اورطویل جہدو جہد، معرکہ آرائی اور عظیم قربانی وشہادت کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی۔اس لیے ہندُستان کی آزادی کسی ایک طبقہ یا گروہ کی مرہون منت نہیں ہے۔لہٰذا جب ملک کا نیا دستورنافذ کیا گیا تو تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے اورانہیں برابری کا درجہ دیاگیا۔ اونچ نیچ کے نظام کو کالعدم قرار دیا گیا تمام شہریوں کو آزادی، انصاف و مساوات اور تحفظ کا یکساں حقدار قرار دیا گیا۔مگر ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ آج ملک کی باگ و ڈور ایک ایسے گروہ کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو انسانوں کو ذات و برادری،مذہب و ملت، رنگ و نسل، بولی و زبان، اونچ نیچ کی بنیاد پر منقسم کرنے کے نظریہ کا حامل ہے۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے نئے انداز اور نئے طریقے سے آئین میںتحریف و ترمیم اور تبدیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیراہے۔
باشندگان ہند کی مشکل یہ ہے کہ آج ملک کی تمام تر سیاسی جماعتوں نے عوام کو مغالطے میں بری طرح مبتلاء کر رکھا ہے۔کوئی ہندو راشٹر کی بات کرتی ہے تو کوئی سیکولرزم کی دہائی دیتی ہوئی نہیں تھکتی۔ان جماعتوں کی سیاسی شعبدہ بازیوں کا نتیجہ ہے کہ دلت، پسماندہ طبقات،مختلف اقلیتیں بالخصوص مسلم اقلیت انتشار و سیاسی خلجان کے شکار ہیں اور نہ تو اپنے مفاد میں صحیح فیصلہ کر پارہے ہیں نہ ملک کے مفاد میں اجتماعیت کا مظاہرہ کررہے ہیں تاکہ ایک عوامی فلاحی حکومت کا قیام عمل میں آسکے۔اس سلسلے میں سب سے خراب صورت حال تو مسلم اقلیت کاہے جو قوم دنیا کو رہ راست دکھانے کے لیے بھیجی گئی تھی وہ خود ہی گمرہی کی راہ پر رواں دواں ہے۔نہ تو اجتماعیت کا درق باقی رہا نہ سیاسی تدبر،بلکہ اس کی سیاسی پستی کا یہ عالم ہے کہ خود اس کے اندر جمہوریت اورخدمت کا جذبہ مفقود ہوگیا ہے۔رہنمائی اور قیادت کے دعویداروں میں اکثریت کا حال یہ ہے کہ جس کے پاس تھوڑی سی دولت ،طاقت اور منصب و عہدہ حاصل ہوگیا وہ خود کوفرعون و نمرود ِوقت سمجھ بیٹھتا ہے۔نہ تو اپنے شخصی کردارکی کوئی تمیزباقی رہتی ہے، نہ ملت کی ساکھ کی کوئی فکر،بس اپنے مفادکے حصار میں گھر کر ملت تک کاسودہ کر بیٹھتے ہیں۔انہیں نہ تو کوئی ملی شعور ہے نہ سیاسی ادراک اورنہ اپنے پرائے کی کوئی فکرہوتی ہے نہ محسنوں کی کوئی پرواہ۔
اسی جمہوریت کا فیضان ہے کہ برادران وطن کی چھوٹی چھوٹی برادریاںاور طبقے خود کو منظم و متحد کرکے ایک سیاسی طاقت بن بیٹھیںاور اقتدار میں حصہ دار بن کرفلاح و ترقی کی منازل طے کررہی ہیں لیکن مسلم ملت کا حال یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کی حاشیہ بردار بن کراپنا کوئی سیاسی وجود قائم نہ کرسکی بلکہ آج اس طرح سیاسی اچھوت بن کر رہ گئی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت منھ لگانے کو تیار نہیں۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سیاست کوئی قلیل مدتی کام نہیں بلکہ کل وقتی کام ہے اور مسلم سیاست دانوں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف انتخابی موسم کی سیاست کرتے ہیں۔حالانکہ انتخابی سیاست کے لیے تسلسل کے ساتھ مختلف طبقات کے درمیان ربط،رواداری،خدمت، اتفاق و اتحاد اور تعاون کا رویہ کلید کامیابی ہے لیکن یہ ان کی سوچ و فکر کے دائرے میں ہی نہیں۔گرچہ کہ بعض افراد و جماعت وقت وقت پر اس تعلق سے نعرے بلند کر دوچار قدم ضرور چلتے ہیں لیکن چونکہ اس کامقصد ملت کا مفاد نہیں بلکہ ان کا ذاتی و گروہی مفاد ہوتاہے اس لیے کامیابی ان کا مقدر نہیں بن پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد ؒکے بعد آج تک کوئی مسلم قیادت ابھر کر سامنے نہ آسکی۔ دوسری طرف عوام ہیں کہ ذات و برادری اور خویش پسندی کے مرض میں مبتلاء ہو کر فتح و شکست دلانے کے کھیل میں مست ہیں اورسیاسی کھلاڑیوں کو گیند اٹھا کر دینے کے فریضہ پر خود کو مامورکر لیا ہے۔اگر ملت اسلامیہ ہند کی یہی روش رہی اور سیاست میں اجتماعیت ، باہمی رواداری ،تعاون و حمایت کے رمز کو نہیں سمجھا تو یہ جمہوریت ان کا کوئی بھلا نہیں کرسکتی۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *