*قصہ گو،فحش گو،پیشہ ور مقررین کا بائیکاٹ کیجئے*
قارئین!میں نے ایک معروف ادارہ کے مؤقرناظم اعلی سےدریافت کیا کہ شمالی ہند خاص کر سیمانچل کے علاقوں میں نیم سرد موسم یا سخت سردی کے موسم میں ہی کیوں جلسے منعقد ہوتے ہیں؟!؟
توناظم اعلی نے نہایت ہی سنجیدگی ومتانت سے جواب دیتے ہوۓگویا ہوئے کہ:
ہمارے علاقے میں جلسے جلوس کا مقصد زیادہ سے زیادہ چندہ کی وصولیابی ہےاگرجلسوں کو نومبر،دسمبر،جنوری کے بجائے دیگر ایام میں کئے جائیں تو آندھی،طوفان، تیزبارش اورآفت سماوی کا خدشہ رہتا ہے خدانخواستہ اگر جلسہ کے دن ہی بارش ہو جائے تو چندہ کی تو دور کی بات جلسے کے نام پر جو رقم صرف ہو ۓ ہیں ان کی وصولیابی بھی ناممکن ہوجاتی ہے، جس کے سبب موجودہ ایام جلسوں کے لئے موزوں و مناسب ہے۔
مذکورہ حکمت کے پیش نظر موجودہ ایام میں کثرت سے اجلاسی اشتہارات نظر چسپاں نظر آنے لگےہیں مساجد کے دروازوں،مدارس کی دیواروں، چوراہے کی دکانوں، سڑک کنارے درختوں،بجلی کےکھمبوں،گلی اور گاؤں کے مکانوں پر اشتہار ہی اشتہار آویزاں نظر آتے ہیں
۔ان اشتہارات کے مختلف خانوں میں چند ایسے علماۓکرام کے اسمائے گرامی مندرج ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کراورپڑھ کردل میں امیدیں جاگتی ہیں کہ ان کے بیانات وخطبات سےعوام کو دنیوی وآخروی فائدہ ہوگا لیکن افسوس کہ ان علماۓ راسخین کےلئےنہایت ہی قلیل وقت مختص کیاجاتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس پورا پورا وقت ان علمائے سوءکے لئے مختص ہوتا ہے جن کے حق میں علمائے کرام، فضلاۓعظام،مقررین بےمثال،مصلحین ملت،مبلغین اسلام جیسے عظیم الشان اور شاہکار الفاظ و القاب کا استعمال گویا کہ مذکورہ الفاظ کی توہین ہے۔
کیونکہ یہ حقیقت میں علماءنہیں بلکہ علماء کے لباس میں بہروپیا ہیں،ان میں سے بعض ایسےہیں جو درحقیقت پیشہ ور ہیں،مفادپرست ہیں، مطلب طلبی ہیں،شہرت پسند ہیں،ریاکارہیں، ڈرامےباز ہیں،آرٹسٹ ہیں،ایکٹر ہیں،شعبدہ باز ہیں،کرتب نمائشی ہیں،قصہ گوہیں،فحش گو ہیں،رو رو کر گانے والے ہیں،گا گا کر رونے والے ہیں بدزبان ہیں،بازاری الفاظ کے عادی ہیں،
مذکورہ اوصاف کے متحمل مقررین اکثر ضعیف،موضوع،منکر روایات بیان کرتے ہیں،من گھڑت واقعات وحادثات اختراع کرتے ہیں،دیو مالائی قصےوکہانیاں سناتے ہیں،شادی بیاہ کی گیت گاتے ہیں،بھوجپوری لب ولہجہ میں راگ الاپتے ہیں،سریلی آواز میں شرکیہ غزلیں گنگناتے ہیں۔کبھی کبھی تو اشاراتی ٹھمکے بھی لگاتے ہیں۔
یقین جانیۓ مذکورہ اوصاف سے متصف اشخاص مصلحین قوم وملت نہیں بلکہ مستھزین اسلام اور فتین زمانہ ہیں
جبکہ اس پر فتن دور میں
ہر چہار جانب فتنہ ہی فتنہ برپا ہے۔
ہر سال برساتی مینڈک کی طرح کوئی ناکوئی فتنہ مقرر کے نام پر پیدا ہوہی جاتا ہےمثلا: چترویدی فتنہ،بھوجپوری فتنہ، قصہ گوئیفتنہ،کامیڈین فتنہ، بھاری رقوم کے مطالبات کا فتنہ،ہوائی جہاز سے سفر کا فتنہ، اے سی ٹکٹ کا فتنہ۔
ان قصہ گومقررین کی تمام شروط،مطالبات اور خواہشات پورا کرنے کے باوجود ان کی تقریروں میں
عقائد،عبادات،معاملات،احکامات ،واجبات ،مندوبات،مکروہات،مامورات،محرمات،منہیات،جیسے شرعی عناصر و اصطلاحات بالکل مفقود ہوتے ہیں کیونکہ مذکورہ عناصرواجزاء سے متعلق بیان دینے سے قبل حدیث،اصول حدیث،تفسیر،اصول تفسیر، فقہ،اصول فقہ اورعقائد جیسے علوم کا جاننا اور مطالعہ ضروری ہے۔ ان کے پاس نہ علم کی گہرائی ہے ورنہ مطالعہ کے لئے وقت
یہ سب تو محض زکوۃ،صدقات، خیرات،اذکار، فضائل مسجد، فضائل طالبان علوم نبوت سے متعلق چند صحیح وضعیف احادیث یادکرلیتے ہیں اورچند نبیوں کے قصے اور کہانیاں قرآن و اسرائیلی روایات کے ساتھ ذہن نشین کر لیتےہیں اور انہیں مواد کو اعادہ وتکرارسے جلسہ بہ جلسہ مختلف انداز و اسلوب میں پروستےرہتے ہیں ان کی تقریروں سے اصلاح کی امید کم فتنہ پھیلنے کا زیادہ امکان ہے بلکہ فتنہ پھیل چکا ہے
اس کی ایک واضح مثال یہ ہےکہ حال فی الحال میں میں راجستھان سے گھر آیا تو گاؤں کے چند نوجوان ونوعمر بچوں کو دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے اجتماعی طور پر بیٹھ کرجلسوں میں گائے جانے والی گیت:کالو ہوئتے چھڑاٹا ماں گے آنچل دھوئرا ٹانیلو( آنچل پکڑکر خینچا) دھیرے دھیرے۔
ایک آواز میں گارہے ہیں اور ان میں سے ایک ریلس بنا کر شوشل میڈیا مثلاٹک ٹاک جیسی ایپ میں اپلوڈ کر رہا ہے۔
نعوذباللہ۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ
مذکورہ اوصاف واعمال کے متحملین اشخاص کو مذکورہ لب ولہجہ اوراسلوب میں تقریر پیش کرنے سےروکیں،انہیں متنبہ کریں،مصطفوی نہج اختیار کرنے کوکہیں اگر یہ اپنے اندر اصلاح کر لیں تو اچھی بات ہے
ورنہ ان کامکمل طور پر اجتماعی بائیکاٹ کیا کریں۔
فقط
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/