*بس اک خدا نہیں ہوتی*
*✒️تحریر۔۔۔عالم فیضی*
ماں قدرت کا ایک بیش بہا تحفہ ہے،جس کی ممتا کا کرہ ارض پر کوئی بدل اور ثانی نہیں۔ہر عمر کے لوگ خواہ وہ امیر ہوں یا غریب،چھوٹا ہو یا بڑا،دنیا کے کسی ملک کا سربراہ ہو یا سب سے با اثر اور دولت مند شخص،زندگی کی ہر تپتی اور جھلستی دھوپ سے دل برداشتہ ہوکر اس گلشن محبت کے شجر سایہ دار کے نیچے آکر ٹھنڈک محسوس کرتا ہے۔یہ محبت و شفقت کی ایسی بحر بیکراں ہے جس کی ممتا کی آنچل کے بغیر دل کا چمن خزاں رسیدہ ہوتا ہے۔گھر کے در و بام اداس نظر آتے ہیں۔چمن کی شگفتہ کلیاں مرجھائی ہوئی دکھائی دیتی ہیں،یہاں تک کہ فرحت و انبساط سے معمور چمن زار گھر ان کی محبتوں کی خوشبوؤں کے بغیر قبرستان دکھائی دینے لگتا ہے۔
شاعر کہتا ہے
بس اک خدا نہیں ہوتی
ورنہ ماں کیا نہیں ہوتی؟
20 جنوری 2023 کے اس روح فرسا واقعہ پر نظر دوڑائیں،”جس میں ریاست تمل ناڈوسے تعلق رکھنے والی ایک مجبور و بے بس مشفق ماں نے حالات کے ہاتھوں مجبورہوکر بھوک سے تڑپتے اور بلکتے اپنے پھول جیسے معصوم بچے کا پیٹ بھرنے کے لیے سر کے سارے بال اتروا لیے اور اسے بیچ کر ایک سو پچاس روپے میں کھانا لاکر بچے کی بھوک مٹائی“۔یہ ہے ماں کی ممتا، آج نہ جانے کتنی مائیں بچوں کی پرورش و پرداخت کے لیے زندگی کی ان پرپیج راہوں سے گزر رہی ہوں گی،ہم روزآنہ ریلوے اسٹیشن،بس اسٹاپ،شاہراہ عام،مسجد اور دیگر جگہوں پر دیکھتے ہیں کہ ایک ماں بچوں کی پرداخت کے لیے بھیک کا پیالہ ہاتھ میں لیے دست سوال دراز کر رہی ہوتی ہے اور حالت سرگشتگی میں لوگوں کو اپنا دکھڑا سناتی ہے۔ بچوں کے پیٹ بھرنے کے لیے ان سے منت و سماجت کرتی ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ماں اپنے بچوں کے تئیں کتنا متفکر ہوتی ہے،اس کو خوش دیکھنے کے لیے کس حد تک اقدام اٹھا سکتی ہے،خود مصیبت کے جنگل میں پھنس کر ذہن میں اس کے لیے کس قدر آسائشوں کا گھوڑا دوڑاتی ہے۔یخ بستہ راتوں میں اگر وہ بول و بزار کر دے تو اپنی گرم جگہ پر اسے سلا کر خود اس کی جگہ پر سوجاتی ہے،اس کے آرام کے لیے اپنے سکون کو غارت کردیتی ہے۔گہری نیند میں ہونے کے باؤجود اس کی ذرا سی چیخ و پکار پر تڑپ اٹھتی ہے اور اسے فورا سینے سے لگاکر تھپکیاں دیتے ہوئے لوری سنانے لگتی ہے۔حالات کی نیرنگیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی والدہ کو دیکھیں کہ اپنے فرزند کی جاتی ہوئی بصارت سے کس قدر متفکر ہوتی ہیں کہ ان کی شفایابی کے لیے راتوں رات جاگ کر بارگاہ الہی میں عجز و انکساری کادامن پھیلاکر مانگتی ہیں، روتی اور گڑگڑاتی ہیں، آخر ایک مضطرب ماں کی آہ کو اللہ سن ہی لیتا ہے،ایک رات تہجد کی نماز پڑھتے پڑھتے مصلے پر نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہیں،اور پھر خواب میں بیٹے کی شفایابی کی بشارت پاتی ہیں،صبح اٹھ کر د یکھتی ہیں تو حقیقت میں بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا تھا۔
ماں کی ممتا کا ایک اور دل خراش واقعہ سنیں،جسے سن کر چشم بھر آئیں گی،ان کی ممتا پر آپ عش عش کریں گے۔شاہ راہ عام پردو تیز رفتار گاڑیوں کے درمیان زبردست تصادم ہوا،گاڑیوں کے پرخچے اڑ گئے، کئی لوگوں کو گہری چوٹ لگی،غالبا جس میں کچھ لوگوں کی جانیں بھی چلی گئی تھیں، اس گاڑی میں ایک عورت کے ساتھ شیر خوار بچہ بھی تھا جو تصادم کی بنا پر ماں سے دور جا گرا تھا،سب لوگ زخم سے چور کراہ رہے ہوتے ہیں،لیکن چوٹ لگنے کے باوجود وہ ماں اپنے سارے چوٹ بھلاکر بچے پر لپک پڑتی ہے اور اپنے چوٹ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے سینے سے لگالیتی۔
ماں تو ایسی ہوتی ہے کہ نومولود کے آمد کی خوشی میں اپنی زندگی داؤں پر لگا دیتی ہے،دوران حمل درپیش سارے مصائب ہنسی خوشی قبول کرتی ہے،اور بچے کے پیدا ہوتے ہی یکلخت سب بھول جاتی ہے، اس کے نو ماہ کے سوز و گداز مسرت میں تبدیل ہوجاتے ہیں،دل کی دنیا معمور ہوجاتی ہے اور بچے کو سینے سے لگاکر اسی میں اپنی خوشیاں تلاش کرتی ہے،ماں کے ممتا کی اس سے بڑی مثال اور قربانی کیا ہوسکتی ہے۔خود بھوکا رہ کے انھیں کھلاتی ہے،جب مفلسی گھر کے دروازے پر کھڑی دستک دے رہی ہوتی ہے تو خوشیوں کے ایسے نازک موقع پر خود پرانے کپڑے زیب تن کر لیتی ہے مگر بچوں کے چہروں پہ شکن تک نہیں پڑنے دیتی،ماں کی انھیں قربانیوں کی بنا پر ان کے قدموں تلے جنت آئی،اولاد کو ان کی خدمت کرکے حج اور عمرہ کے برابر ثواب کی بشارت سنائی گئی۔قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی نے بطور خاص ان کا تذکرہ فرمایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی،ان کے مقام کو باپ سے بڑھ کر فوقیت دی،جس کا اندازہ آپ اس حدیث رسول سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟ قَالَ: أُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ۔(صحیح بخاری:5971)
ایک صحابی اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول اللہﷺ! ”میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟آپ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے“۔
اس حدیث رسول سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ والدین کا مقام و مرتبہ خصوصا ماں کا کس قدر بلند ہے؟یہ شرف انھیں یونہی نہیں بلکہ بچوں کے تئیں ان کی بے لوث قربانیوں کے سبب ملا۔
بسا اوقات بچے اپنی گمشدہ جنت میں گم ہوجاتے ہیں،گھر میں سلیقے سے رکھا گیا سامان توڑنا،پھوڑنا اور منتشر کرنا شروع کردیتے ہیں،انھیں سامان کو ایسا کرنے میں بڑا لطف ملتا ہے۔ماں سلیقے سے برتنوں کو جمانے میں لگی رہتی ہے اور یہ اپنی الگ دنیا میں مست اس کو بجانے اور بگاڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ماں جب تک ایک چیز ہاتھ سے چھینتی ہے تب تک یہ دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں،ایک کام سے روکو دوسرا شروع کر دیتے ہیں،نہ ان کے ہاتھ کو چین اور نہ پاؤں کو سکون ملتا ہے، نہ معلوم کس مشین کا پرزہ ہوتے ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتے،چاقو دیکھتے ہی اچھل کود مچانے لگتے ہیں،آلو پیاز کاٹنے کے بجائے انگلیاں کاٹنا شروع کر دیتے،ماں چیختی ہے چلاتی ہے،روکنے کی کوششیں کرتی ہے مگر یہ رکنے کے بجائے ہنستے اور مسکراتے ہیں،غصہ ہونے پر بضد ہوجاتے ہیں،ماں جب غصہ کرتی ہے تو یہ ہنسنا شروع کر دیتے ہیں اور جب پٹائی کی نوبت آتی ہے تو ماں سے لپٹ جاتے ہیں اور امی کو نکو مالو(مارو) نکو مالو(مارو) کی صدا ہنس ہنس کر بلند کرنا شروع کردیتے ہیں اور جب مارنے کے لئے آگے بڑھتی ہے تو بے ساختہ بول پڑتے ہیں کہ لو اب مالو(مارو)ان کی اس توتلی اور معصوم سی آواز سن کر ماں کا دل پسیج جاتا ہے،سارا غصہ بڑے سلیقے سے پی جاتی ہے،مارنے والا قدم پیچھے ہٹ جاتا ہے، لکڑی ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے، آنکھوں سے بطور الفت آنسو رواں ہوجاتے ہیں اور جھٹ ماں اپنی آغوش محبت میں لے لیتی ہے،پیار بھری نظروں سے دیکھنے لگتی ہے،جس کا بڑا ہی پیارا نقشہ منور رانا نے کھینچا ہے۔
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/