عنوان :- انجامِ عشق
از قلم:- التمش شیراؔز صدیقی
بنارس اترپردیش
قدیم زمانے کی بات ہے , رانی گنج میں خلدون نامی ایک لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا- اوہ اور اسکے والدین اسی محلے میں برسوں سے آباد تھے- ہوا یوں کہ ایک روز اسی محلے میں رہنے والے اجن چچا جو کہ نۓ نۓ مکاندار تھے, ابھی چند سال کا عرصہ ہوا تھا ان کو رانی گنج میں مکان لیے _ وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے تھے _ ان کی تینوں بچیاں ہی تھیں _ سب سے بڑی بیٹی نام اشال دوسری کا نام مہرش تیسری کا نام آبرش تھا_
خلدون کی عادت شروعات ہی سے خراب تھی_ شریف زادیوں کو چھیڑنا، اسکولی بچیوں کو تنگ کرنا ، اس کا روز و شب کا وطیرہ تھا_تنہائی میں موقع ملنے پر وہ عورتوں سے مخاطب ہوتے بھی نہیں ہچکچاتا تھا_ اس کے بگڑنے کی وجہ صرف اور صرف ایک تھی، کہ! اس کے والد تاجر تھے_ جو کہ تجارت کے سلسلے میں سال کے نو دس مہینے شہر سے باہر رہتے تھے_ اور ماں تھی کہ خلدون اس کی ایک بھی نہ سنتا تھا _ اسے بس ماں سے صرف اپنی ضد پوری کرانی رہتی تھی_ لاڈ پیار نے اسے تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا تھا_
ایک روز صبح کا سہانا موسم تھا ٹھنڈی ٹھنڈی فضائیں دلوں کو موہ رہی تھیں_ سورج کی سنہری کرنیں بادلوں کے پیچھے سے رفتہ رفتہ جھانکتی ہوئی زمانے کے آب و گل پر کمندیں ڈال رہی تھیں_ چھوٹے بڑے بچے اپنے اپنے شانوں پر اپنا اسکولی بستہ لٹکائے ہوئے اسکولوں کے سمت رواں دواں تھے_ اور خلدون اپنے معمول کے مطابق آج بھی سڑک کے کنارے اپنے آوارہ ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا تھا_ اچانک اسے اسکول کے سامنے راستے سے درختوں کے عقب سے آتی ہوئی ایک دو شیزہ دکھی_ خلدون حیرت و استعجاب سے اسے دیکھنے لگا وہ سراپا حسن کی ملکہ نظر آ رہی تھی_ بھونرے بال ہرنی سی چال نازک ہونٹ پتلی لمبی ناک بایک لمبی پلک اس پر ستم یہ کہ آنکھوں کا رنگ بھونرا بلیوں جیسا ، سراپا حسن کی دیوی ہو جیسے_
اس کو دیکھنا تھا کہ خلدون آپے سے باہر ہو گیا_ اس کے من میں طرح طرح کے خیالات جنم لینے لگے_ پل بھر میں اس کے قلوب و اذہان میں توہمات کے امبار لگ گۓ_ جیسے جیسے وہ لڑکی آگے بڑھتی گئی خلدون کے دماغ پر اُتنا ہی گہرا حسن کا خمار چڑھتا گیا_ یہاں تک کہ وہ بالکل قریب آ گئ_ خلدون کی ہچکیاں سی بندھ گئی تھیں_ ساری دنیا چکر کیوجہ سے گھوم رہی تھی، وہ لڑکھڑاتے ہوۓ دوستوں کو وہیں چھوڑ کر اس کا پیچھا کرنے لگا_ چند ہی قدم پیچھا کر پایا ہوگا کہ سامنے اپنے اسکول میں لڑکی داخل ہو گئی_ خلدون کو واپس راندۂ درگاہ لوٹنا پڑا_ لیکن صورت کی کشش کا نشہ اتنا گہرا تھا کہ صدیوں انتظار کرنا ممکن تھا_ وہ واپسی پر پھر اسی جگہ دھوپ میں اس کے انتظار میں بیٹھ گیا_ ادھر عطارد، مشتری، زہرہ، مریخ سب اپنی اپنی مدار پر ثابت قدمی سے رواں دواں تھے_ کھیت میں کسان سینچائی اور بوائی کا کام انجام دے رہے تھے، اور سڑک پر مزدوروں کا جم غفیر تھا، جو شہر جانے والی بس کے انتظار میں کھڑے تھے_ اور ادھر خلدون تھا کہ ساری دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اس کی گھات میں بیٹھا تھا_
ادھر اس کی ماں اس کے گھر نہ آنے کی وجہ سے بیچین تھیں_ وہ ہمیشہ اس کی وجہ سے پریشان رہا کرتی تھیں کہ نہ جانے اس وقت وہ کہاں کیا کر رہا ہو گا_اس کی ماں بہت نیک و کار پرہیز گار تھیں، بس وہ دل ہی دل میں اس کی خیریت کے لیے رب کریم سے دعا طلب کیا کرتی تھیں_ اسے ہر وقت وہ سمجھاتی رہتی تھیں, لیکن مجال ہے اس پر کچھ اثر کر جاۓ_ اگر انہوں نے اتنا غیر کو سمجھایا ہوتا تو پلک جھپکتے وہ ان کی بات پر سر تسلیم خم کر دیتا لیکن ایک خلدون تھا کہ ان کی ایک نہ مانتا تھا_
گیارہ بجنے والا تھا صبح کا نکلا ہوا خلدون اب تک گھر نہ لوٹا تھا_ ادھر اس کی ماں کی حالت دگرگوں ہو رہی تھی_ چہرے پر سکوت طاری تھا_ ادھر وہ کسی غیر محرم کی چاہت میں اس کی گزرگاہ میں اپنی نگاہیں پھیلاۓ بیٹھا تھا_ ساڑھے گیارہ بج چکے تھے_ چھٹی ہونے میں ابھی مزید دو گھنٹے باقی تھے، اب اس سے انتظار کا ایک ایک لمحہ گراں گزر رہا تھا_ اس کی نگاہوں کو اب اس کے صورت کی اشد ضرورت معلوم ہو رہی تھی_ وہ صبح سے اس کو دیکھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، تمام تر کوششیں ضائع ہونے کے بعد اب وہ اس کو دیکھنے کیلیے اس کے اسکول کے اندر داخل ہونا چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کی شکل نظر آ جاۓ اور اس کے بیچین دل کو سکون مل جاۓ_
جب صبر کی ساری حدیں پار ہو گئیں تب وہ اسکول کی جانب بڑھا لیکن وہ جیسے ہی دروازے تک آ کر اندر داخل ہونا چاہتا ہے تب ہی وہیں بیٹھا اسکول کا ملازم اسے دیکھ لیتا ہے فورا چھڑی سے مار بھگانے کی کوشش کرتا ہے_ خلدون اٹھتی چھڑی دیکھ کر فورا بھاگ جاتا ہے_ اس طرح وہ ملازم کی مار سے بچ جاتا ہے، لیکن پھر دو بارہ سعی لا حاصل_ اب مزید تیسری بار جب وہ آگے بڑھتا ہے تو اسکول کا ملازم اسے دوڑا کر پکڑ لیتا ہے , اور اسے مارتے ہوۓ لے جا کر اسکول کے اسٹور روم میں بند کر دیتا ہے_
ادھر اس کی ماں بہت پریشان ہو جاتی ہیں اور رونے لگتی ہیں کہ بارہ بجنے والا ہے صبح کا نکلا خلدون اب تک واپس گھر نہیں آیا
(آۓ بھی تو کہاں سے آۓ جب وہ آزاد ہو تب تو آۓ)
گھبرا کر اس کی ماں نے اپنے شوہر کے پاس فون کر دیا ، کیونکہ وہ تو نیک اور شریف انسان تھیں تھوڑے ہی قریہ قریہ بستی بستی کی خاک چھان مارنے اکیلے نکل جاتیں_اور نہ ہی محلے والوں سے اس کے گم ہونے کی خبر دیکر تلاش کرنے کہہ سکتی تھیں, کیونکہ محلے والے خود ہی چاہتے تھے کہ وہ یہاں نہ رہا کرے بلکہ اپنے خالہ یا نانی، بوا کے یہاں ہمیشہ کیلیے چلا جاۓ_
لیکن پھر بھی اس کی ماں نے ہمت کی جب اس کے والد نے کہا کہ میں تو آ رہا ہوں لیکن کوشش کرو شاید مل جاۓ _ کیونکہ میں چاہے جتنی جلدی کروں دو دن بعد ہی پہنچونگا_
(کیونکہ اس کے ابا تجارت کے سلسلے میں ان دنوں برطانیہ گۓ ہوۓ تھے)
اس کے گھر کے پڑوس میں ایک نوجوان اور فربہ شخص کا مکان تھا، وہ تھے سرخاب چچا ان کے پاس خلدون کی ماں گئی اور ان سے اس نے بتایا کہ صبح سے نہ جانے کہاں گیا ہے، ابھی تک آیا نہیں ہے اس نے اب تک کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے, اور دوپہر ہونے کو ہے_ سرخاب چچا کے چہرے پر بے چینی پھیل گئی ، لیکن انہوں نے فورا پلٹ کر پوچھا !! کون؟؟؟؟
اس کی ماں نے جواب دیا !! خلدون…
خلدون کا نام سننا تھا کہ سرخاب چچا کے چہرے سے رنگ اضطراب کافور ہو گیا_ وہ بڑے تمکنت بھرے انداز میں اس کی ماں سے کہنے لگے کہ کیا دقت ہے, اگر وہ گم بھی ہو گیا تو !! ایسی اولاد سے تو بہتر ہے والدین بے اولاد ہی رہیں، جو اپنے ماں باپ اور خاندان کی عزت سے کھیلے_ میں ایسے انسان کو تلاش کرنے کی زحمت گوارا نہیں کر سکتا “ہمارا وقت بہت قیمتی ہے”
سرخاب چچا نے ایسا اس لیے کہا! کیونکہ وہ اس کے بارے میں سب جانتے تھے، اس کی انجام دی ہوئی ہر بد فعلیاں انہیں دانستہ طور پر یاد تھیں، چاہے کریم انکل کی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا معاملہ ہو یا بہن آرزو کی بیٹی کے ساتھ بد فعلی یا عبداللہ صاحب کے گھر چوری کا کارنامہ ہو یا ملک طاہر کی گاڑی میں آگ زنی کی واردات، ہر چیز اچھی طرح سے یاد تھی_اتنا سن کر اس کی ماں وہاں سے راندۂ درگاہ لوٹیں_ وہاں سے نکلیں تو سیدھے اجن چچا کے مکان کا رخ کیا ، اور راستے بھر اپنی قسمت کو دوش دیتی رہیں_اور رب سے دعا کرتی رہیں کہ اجن بھائی اس کا یہ کام کر دیں،کیونکہ وہ دیندار اور نیک نیت انسان ہیں اور اللہ والے ہیں، اس کی ماں ان کے بارے میں یہی سب باتیں سوچتی رہی یہاں تک کہ اجن چچا کے گھر کا دروازہ آن پہنچا، لیکن خلدون کی ماں دروازہ کھٹکھٹانے میں جھجک رہی تھی، ڈر رہی تھیں کہ کیا کہیں گے اجن بھائی کیونکہ وہ بہت شریف اور اعلی اخلاق والے اور وحدت پسند انسان تھے، دنیا کی رنگرلیوں سے انہیں کوئی مطلب ہی نہ تھا، دنیا کی رنگینیاں ان کو اپنی سمت مائل کرنے سے قاصر تھیں، وہ ہر وقت قرآن اور نماز میں لگے رہتے تھے، شام کو اپنی تینوں بچیوں کو پاس بیٹھا کر درس اسلام دیتے تھے_
بچیوں!!
دیکھو زمانہ بہت خراب ہے، اگر تم ہر قدم پھونک پھونک کر نہیں رکھتی ہو تو راہ کا معمولی سا کوئی کانٹا بھی تمہارے پاؤں کو چھلنی کر سکتا ہے_ یہ وہ زمانہ نہیں کہ تمہاری پاکیزگی اور طہارت کی دلیل میں قرآن اترے گا_ یہ وہ دور نہیں کہ عمر غلطی کرنے پر اپنے بیٹے کو سزا دیں گے_ یہ وہ دور ہے جہاں پیسہ ہی کامیابی کا ضامن ہے_ دولت ہے تو ہر چیز ممکن ہے_ کسی کی عزت اچھالنا ہو یا دوسروں کا مال و منال ہڑپنا ، پیسوں سے وکیل ، عزت ، شہرت، منصب ،عصمت ، جاہ و حشم ہر چیز خریدی جا سکتی ہے_کوئی غلط ہونے پر بھی اپنوں کے خلاف نہیں بول سکتا_ تم لوگ ہمیشہ اپنی عزت و آبرو کو ہمیشہ سنبھال کر رکھنا، ہمیشہ سر ڈھاک کر دوپٹہ اوڑھنا، مغربی ملبوسات اور پوروپین رسم و رواج اور فیشن سے اپنی ذات کو مبرا رکھنا_ کبھی غیر محرم سے نرم لہجے میں بات مت کرنا، جس سے اس کے سینے میں دھڑکتے دل کے اندر کوئی نا جائز خیال ابھرے_ کبھی کسی غیر کو ہم لوگوں (ماں، باپ) کے عدم موجودگی میں اندر آنے کی اجازت مت دینا_
آج وہ معمول کے مطابق دوپہر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے_ اسکول کی چھٹی ہونے پر واپس ان کے سب بچے آۓ_ لیکن اشال آج بہت گھبرائی ہوئی تھی_ اجن چچا نے اسے اپنے پاس بلایا ، اور محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا مری بچی؟؟
اشال نے ایک لمبی سکون بھری سانس لی اور ابا کو صبح کا سارا کارنامہ بتانے لگی_
ابو۔۔۔ ابو وہ۔۔۔۔
وہ جو اگلی گلی میں کارنر(corner) والا مکان ہے نہ پرانہ والا جس کا پینٹ (paint) گہرا کریم ہے اور ابو نے بات کاٹتے ہوۓ کہا آگے بھی بول میری بچی؟؟ لمبی چوڑی تمہید باندھتی ہے ہر چیز میں_تو اس نے کہا۔۔وہ جو راحیل انکل ہیں نہ ۔۔۔ وہی ابو!!!! جو گھر پر نہیں رہتے_
پھر ابو نے کہا۔۔۔۔
ہاں پہچان گیا آگے بات بھی بتاؤ گی؟؟
انہیں کا بیٹا صبح میرا پیچھا کر۔۔۔۔۔
اتنا سننا تھا کہ اجن چچا کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ، آسمان زمین کو آتے دکھنے لگے ، ایسا لگا جیسے پل میں زمین پھٹ پڑے گی اور ہم اسی میں سما جائیں گے، مانو اسرافیل نے سور میں پھونک مار رکھی ہو، ہر چیز اپنی جگہ حرکت کرتی نظر آ رہی تھی، اجن چچا نے اپنے آپ کو کسی طرح کوشش کر کے سنبھالا اور پھر پوچھا ۔۔۔۔۔۔
ہاں ! تو بیٹا کیا ہوا تھا؟؟
تمہیں آخر کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا اس کمبخت نے؟؟
نہیں ابو۔۔۔۔۔۔
اس نے بس میرا پیچھا کیا تھا، مجھے جیسے ہی محسوس ہوا کہ وہ میرا پیچھا کر رہا ہے، میں جلدی جلدی لمبی ڈگ بھرتے!! مہرش اور آبرش کا ہاتھ تھامے ہوئے اسکول میں داخل ہوگئی_ وہ مجھ سے دور ہی تھا_
شاباش بیٹا۔۔۔۔۔
بہت اچھا کیا_
ہاں!! لیکن میں نے کلاس کی ونڈوز سے دیکھا تھا ، وہ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا ، جیسے میرا ہی شدت سے انتظار کر رہا ہو_ وہ بہت بیچین تھا، بار بار اپنی نگاہ اسکول کی کھلی کھڑکیوں کی طرف دوڑاتا ، لیکن کچھ نظر نہ آنے پر اپنے سر پہ ہاتھ مارتا ہوا نگاہیں واپس نیچی کر لیتا_ بارہا اس نے یہ عمل انجام دیا_ لیکن جب اسے خود سے انتظار کی گھڑی گراں گزرنے لگی, تو وہ اسکول کی جانب بڑھا اور اس کے دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی_
اچھا!!!!
اجن چچا نے اپنی بٹیا سے بات کاٹتے ہوۓ کہا!!! تم نے یہ سب کیسے دیکھا؟؟
پڑھنے گئی تھی یا تماشہ۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔۔ ابو آج ٹیچرس میٹنگ تھی تو گھنٹیاں خالی تھیں_ابو کی بات کاٹتے ہوۓ اشال نے جوابا کہا، اسی لیے سب فرینڈز (frainds) میری چور پولیس، لوکا چھپی کھیل رہی تھیں، اور ہم بیٹھ کر کھڑکی سے اس دیوانے کا نظارا کر رہے تھے_
پھر کیا ہوا؟؟ جب وہ اسکول میں داخل ہوا؟؟
وہ۔۔۔ وہ اسکول میں داخل نہیں ہو پایا تھا_ لیکن اس نے کوشش کی تھی گارڈ بھیا سے مار بھی کھا گیا_ اور پھر پکڑ کر گارڈ بھیا نے اسے اسکول میں بند بھی کر دیا_
اچانک دروازے کی گھنٹی بجی_ٹرنننن۔۔۔۔۔ ٹرنننننن۔۔۔۔
آ رہی ہوں!!!!!
اشال نے آواز لگائی اور برآمدے سے دیکھنے لگی ایک تندرست عورت اچھا سا نقاب پہنے دروازے پر کھڑی ہے_ اس نے عورت کو پہچانا نہیں، تو ماں کو آواز دیا۔۔۔۔۔
امی ۔۔ امی دیکھیں کوئی عورت آئی ہے_
دروازے پر کھڑی ہے_
آ رہی ہوں!!
آتے ہی امی نے کہا، ہٹو اچھا دیکھتے ہیں, کون ہے! اس سڑی گرمی میں کون مہمان دوپہر میں آتا ہے جی؟؟؟؟؟
اس کی ماں بہت تلخ مزاج کی تھیں _
اترتی گئیں اور بڑبڑاتی گئیں_ نیچے اتر کر دروازہ کھولا_
آپ کون؟؟
کہاں سے؟؟
کس سے اور کیا کام ہے؟؟
ایک منھ ہزار سوال کر ڈالے انہوں نے_
تو عورت نے جواب دیتے ہوۓ کہا ، غلط نہ سمجھو مری بہنا ، میں کوئی اور نہیں بغل والی گلی میں رہنے والے مشہور تاجر راحیل کی بیوی ہوں_
اوووووو۔۔۔۔ اچچھھھا۔۔۔۔
آئیے۔۔۔آئیے۔۔۔ اندر آئیے بیٹھیے_ کیا ہوا؟؟
کوئی دقت ہوگئی کیا بہنا؟؟
جی ہاں!!!
ذرا اجن بھائی کو بلا دیجیے ان سے ذرا کام ہے_
ادھر خلدون کی ماں اس کیلیے در، در مدد کی بھیک مانگ رہی تھی_ ادھر اسکول والوں نے خلدون کو مار پیٹ کر تھانے سے پولیس بلوا کر ان کے حوالے کر دیا_ پولیس والوں نے بھی خلدون کو لات گھونسے رسید کیے, جو بھی انسپکٹر آتا دو چار لگاتے چلتا اور طعنہ دیتا “سالے!! دودھ پینے کی عمر میں عاشقی کا بخار چڑھا ہے تجھے۔۔۔۔ ” اب خلدون کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا_ لیکن اب اسے پچھتاۓ بھی کیا فائدہ جب وہ غلطی کی عوض دیوار پس زنداں میں قید ہو چکا تھا_ادھر اس کی ماں اجن چچا سے اسے تلاش کرنے کیلیے مدد کی بھیک مانگنے گئی تھی، ادھر بیٹا تھا کہ دام صیاد میں پھنس چکا تھا_
لیجیۓ!! آ گۓ اجن بھائی
اجن بھائی!! السلام علیکم
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔
کہو!! کیسے آنا ہوا؟؟؟؟؟؟
وہ۔۔ وہ میرے شوہر گھر پر ہیں نہیں، اور خلدون صبح سے نہ جانے کہاں گم ہے کچھ پتہ نہیں،اس نے کچھ کھایا بھی نہیں ہے،
کل رات کا اس نے صرف ایک پراٹھا کھایا ہے_
پتہ نہیں کہاں غائب ہے؟؟ کس کے ساتھ ہے وہ؟؟ کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے_ اگر ممکن ہو تو صرف اسے کھوج لائیے!! بہت مہربانی ہوگی، اللہ آپ پر مہربان ہوگا_ وہ ڈھیروں دعائیں دینے لگی_ لیکن آج کی ہر بات کا علم تو بخوبی اجن چچا کو تھا ہی, وہ کیونکر اپنی بٹیا کے دشمن کو کھوجنے جاتے_انہوں نے زیادہ بات نہ کرتے ہوئے سیدھی سادھی صبح کی سب بات بتا دی, اور کھوجنے سے صاف انکار کر دیا_ لیکن اتنا ضرور بتا دیا کہ وہ اسکول کے اسٹور روم میں بند کیا گیا ہے_ وہاں جائیے وہ مل جائے گا_
ادھر تھانیدار نے اس کی کمر پر لات مارتے ہوۓ کہا “اپنے باپ کا نمبر ڈائل کر سالے” جی “ساب” کرتا ہوں، اس نے روتے ہوئے نمبر ڈائل کیے_ لیکن نمبر بند بتا رہا تھا_ غصہ میں پولیس والا اس کے چہرے پر زناٹے دار طمانچہ مارا اور گالی دی “سالے مجھ کو بیوقوف بناتا ہے” پھر اس نے روتے ہوئے کہا ساب ایک نمبر اور ہے_
اسے ڈر لگ رہی تھی , کہ اگر اس دفعہ نمبر نہ لگا تو مزید ظلم و جور کے پہاڑ اس پر توڑے جائیں گے_
لے پکڑ۔۔۔!!!
درست نمبر ڈائل کر_ اگر غلط نکلا اس بار تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھنٹی جا رہی تھی ، ٹرررررر ٹرررررر
فون اٹھا ادھر سے آواز آئی۔۔۔ہیلو۔۔۔۔
ادھر سے تھانیدار نے کہا!!! ہاں ہیلو۔۔۔۔۔
تھانہ رانی گنج سے تھانیدار ایچ پی ٹھاکر بول رہا ہوں_ وہ گھبرا گیا_ککککک کیَ کیا ہوا سر !! میں نے کون سا جرم کر دیا کہ آپ نے مجھے فون کر دیا_ غلط نمبر لگا دیا ہے سر آپ نے, آپ کو کس سے بات کرنی ہے؟؟
ادھر خلدون کی ماں اپنی پرورش کو کوستے ہوۓ اجن چچا کے مکان سے نکل کر اسکول کی طرف چل پڑی_ شام ہو چکی تھی_ اسکول بند تھا_ صرف اس کے گیٹ پر ایک ملازم بیٹھا ہوا تھا_ خلدون کی ماں نے اس سے روتے ہوئے کہا میرا بیٹا کہاں ہے؟؟
ملازم سمجھ گیا، کہ یہ اسی لڑکے کی ماں ہے جو اسے تلاش کر رہی ہے_لیکن اس نے انجان بنتے ہوۓ کہا چھٹی ہوۓ کئی گھنٹے ہو گۓ
“اسکول میں بچے تو کجا کوئی ٹیچرز بھی موجود نہیں”_مانو جیسے اس کو کچھ معلوم ہی نہ ہو !! _ تو اس نے اس کو بتایا کہ جس کو آپ لوگوں نے پکڑ رکھا تھا میں اس کی ماں ہوں _ تب اس نے بتایا کہ اس کو تو پولیس والے آۓ تھے اٹھا لے گۓ_
تبھی اس کی ماں نے سر پکڑ کر چلایا۔۔۔
ہااااااۓ اللہ۔۔۔۔
بہت برا کیا تم لوگوں نے۔۔
ادھر تھانیدار راحیل سے بات کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ آپ نے جرم نہیں کیا، جرم آپ کے بیٹے نے کیا ہے_ لڑکی کے metter میں سلاخوں کے پیچھے بند ہے_ اتنا سننا تھا کہ اس نے زور زور سے روتے ہوۓ فون کاٹ دیا !
ادھر اس کی ماں رو رہی تھیں اور تھانے پہنچنے والی تھیں_ شام ہو چکی تھی_ پرندے واپس اپنے آشیانے کی طرف لوٹ رہے تھے_ سورج اپنی لالی سمیٹتے ہوۓ ڈوبنے کی کوشش میں تھا_ سڑکیں ویران ہو رہی تھیں_گاؤں میں چہار جانب سناٹا پیر پسار رہا تھا_
تھانے میں زمانت کرانے کا وقت ختم ہو چکا تھا_ وہ روتے روتے تھانے میں داخل ہوئی_
ساب ساب۔۔۔۔ چھوڑ دو نا میرے بچے کو ،آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا_
تھانیدار نے جھٹک کر کہا ، نکل جاؤ یہاں سے۔
یہ تھانہ ہے، عشق کی منڈی نہیں ہے۔جو آۓ محبت دکھا کر مجرم کو قفس سے آزاد کرا لے جاۓ ۔۔۔۔۔۔
اور یوں بھی وقت ختم ہو چکا ہے بات کرنے کیلیے کل ملیے_ اور انتظار کرنا ہو تو تھانے سے باہر بیٹھ کر انتظار کریے، اندر نہیں_
اس کی ماں واپس روتے بلکتے کسی طرح اپنے گھر آئی_صبح سے بنا کھاۓ پۓ اپنے نافرمان اولاد کی تلاش میں اس نے خود کو کولہو کا بیل بنا دیا تھا، حلق سوکھ کے کانٹا ہو گئی تھی_ ہونٹ پر پپڑیاں جم گئی تھیں_ اس نے سوچا کچھ کھا کر پانی پی لے، لیکن ماں تو آخر ماں ہی ہوتی ہے، اسے کب اپنی اولاد کے بغیر سکون و قرار ممکن ہے_ فرط محبت نے اسے دو گھونٹ پانی حلق سے نیچے اترنے نہ دیا_
ادھر جیل میں خلدون بھی بھوک سے تڑپ رہا تھا_ گھنٹوں مار کی شدت سے بیزار کراہ رہا تھا_ بھنبھناتے مچھر بار بار اسے کانٹ رہے تھے_ جیل کی حالت ایسی تھی کہ پوچھو مت, اندھیرا کمرا پورے طرح سے پیک ڈبہ کے ماند فقط منھ پر دروازہ, دروازہ بھی ایسا جیسے بابا آدم کے زمانے کا ہو _ لکڑی کی چوکھٹ میں لوہے کی موٹی سلاخیں جڑی ہوئیں_ یوں ہی خلدون رات کاٹنے کی سعی کر رہا تھا_
ادھر اس کے ماں باپ بیچین و پریشان تھے جیسے تیسے صبح ہوئی_ نو بجنے والا تھا_ اس کے والد بھی بیرون ملک سے آج آنے والے تھے_ تھانے میں کام شروع ہونے کا وقت شروع ہو چکا تھا_ لیکن خلدون کے والد کے نہ آنے کی وجہ سے اس کی ماں نے انتظار کرنا بہتر سمجھا، اور تھانے نہ گئیں_ گھنٹوں انتظار کے بعد اس کے والد تشریف لائے _ آتے ہی خلدون کی ماں کو ساتھ چلنے کا حکم دیا_ فورا اس کے والدین تھانے پہنچے بات چیت کرنے کے بعد تھانیدار سے اس کے والد نے کہا، سر۔۔۔۔ پلیز۔۔۔ اس مرتبہ چھوڑ دیجیے اگر آئندہ ایسا کرتا ہے تو ہم اس کے ذمممم۔۔۔۔۔۔۔
تھانیدار نے بات کاٹتے ہوۓ کہا_ایسا کوئی چکر ہی نہیں لیکن ہاں!! ایک صورت ہے آپ کے پاس اس کو رہا کرانے کی_ اس کی ماں نے فورا چیختے ہوۓ پوچھا ، ککککککیا ہے وہ ؟؟
تھانیدار نے کہا !! چار گواہ لے کر آئیں اور بیٹے کی زمانت کراکر پھر لے جائیں_ ورنہ پھر وہ اپنی سزا بھگتنے کے بعد ہی چھوٹے گا_ اس کے باپ پریشان ہو گۓ سوچنے لگے کس کو بلائیں !! گواہ کے طور پر کون دے اس کی گواہی؟؟
ایک رات اور اس کے باپ کو گواہ کھوجنے میں گزری_ جس کو سچ بتاتا وہ گواہی دینے سے انکار کرتا_ محلے کا تو کوئی بھی تیار نہ ہوا_ غیر محلے کے لوگوں میں سے اس نے چار گواہ جھوٹ بول کر اکٹھا کیے_ اور دوسرے دن تھانیدار کے سامنے تھانے میں چارو گواہوں کو پیش کیا_ اب تھانیدار نے گواہوں سے پوچھ تاچھ کرنا شروع کیا _ چند ایک سوال کے بعد انہوں نے سوال کیا_ “لڑکی کا کیس” اتنا سننا تھا کہ سب گواہوں نے گواہی دینے اور سگنیچر کرنے سے انکار کر دیا_ تھانے میں ہی اس کے ماں باپ کا سر اس کیوجہ سے نیچا ہو گیا, اور وہ زمانے میں بدنام ہو گۓ_
*اس لیے بچوں تم کبھی عشق و محبت کا شوق نہ پالنا، یہ سب سے گندا شوق ہے_ اس سے خود کی اور ماں، باپ، گھر خاندان کی اور اساتذہ کی بھی عزت چلی جاتی ہے_*
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/