*ارباب چمن تجھ کو بہت یاد کریں گے*
(شیخ علی حسین سلفی کی یاد میں)
از قلم ۔ *عبدالرحمن افضل البازی*
یہ عجیب بات ہے کہ٢٠٢٠ء عام الحزن ثابت ہوتا جا رہا تھا۔علم و ادب کے چمکتے ہوئے ستارے، دعوت و تبلیغ کے روشن باب، تفسیر وحدیث کے منور تارے، تدریس و افتاء کے آفتاب و ماہتاب ، تعلیم و تربیت کے مہ پارے ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، اور ہمیں داغ مفارقت دیتے چلے جارہے ہیں ۔بقول کسے:
ستارے زمین کے بجھے جا رہے ہیں
ہمارے اکابر اٹھے جارہے ہیں
وہ جن سے تھی روشن فضائیں دہر کی
دیۓ وہ سب ایک اک بجھے جا رہے ہیں
ابھی علم حدیث کے نیر تاباں فضیلۃالشیخ علامہ و محدث ڈاکٹر محمد لقمان سلفی (سابق کبیر الباحثین، الرئاستہ العامۃ والافتاء ،سعودی عرب، وبانئ ومشرف اعلیٰ جامعہ امام ابن تیمیہ ، بہار، صاحب تالیفات کثیرۃ) داعی کبیر شیخ ریاض موسی سلفی، شاعر کبیر یوسف جمیل جامعی، محقق کبیر ومؤلف عظیم حافظ عین الباری عالیاوی (رحمہ اللہ جمیعا )وغیرہم جسے آفتابان علم و فن اور ماہتابان تعلیم و تربیت کی وفات کے غم و اندوہ سے باہر نکل بھی نہیں پائے تھے کہ بروز جمعرات ،۲۳/ جولائی ۲۰۲۰ءکی نماز ظہر کے بعد، (ڈھائی بجے تقریبا) میدان تحقیق کے عظیم شہسوار جامعہ سلفیہ کی مجلس علمی کے کبیر مینار مجال تدریس کے نابغہ روزگار فن تعلیم و تربیت کے کہنہ مشق شناور، مولانا علی حسین السلفی کی وفات کی خبر شوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی اور عالم اسلام میں پھیلے آپ کے ہزاروں مستفیدین، مریدین، محبین ، منتسبین اور آپ کے تلامذہ و رفقاء خاص و عام پر ایک بجلی بن کر گری پھر کیا تھا، کیا فیس بک ، کیا ٹویٹر،کیا انسٹاگرام سب میں تعزیت و تسلی کے کلمات کے طومار بندھ گئے، علماء وطلباءادباء وفقہاء اور کاتیبین وباحثین نے آپ کی حیات وخدمات پر لکھنا شروع کیا اور خوب لکھا، اور داد تحقیق دی ، آنسو بہائے گئے اور خوب خوب آپ کو یاد کیا گیا۔ مولانا علی حسین نے اپنی زندگی کا علمی آغاز جامعہ سلفیہ کی لائبریری سے فرمایا، اور لائبریری کا مطلب، کتابوں کا انبار، تحقیقات کا طومار اور علمی مخزونات کی بھرمار ، چنانچہ آپ نے مطالعہ سے اپنی زندگی شروع فرمائی اور انتہا بھی مطالعہ پر ہی ہوئی، آپ مطالعہ کے انتہائی شوقین ہی نہیں بلکہ کتابوں کے کیڑے تھے، جب تک مبحث ختم نہیں ہوجاتا، کتاب رکھنے کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی رکھتے تھے، مطالعہ شروع فرماتے تو اتنا منہمک ہو جاتے کہ کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں رہتا، لائٹ گل ہونے پر بھی لالٹین جلا کر مطالعہ کرنے کے خود گر تھے، اور اسی مطالعہ نے آپ کو۔بعد توفیق اللہ۔سونا بنا دیا،جب آپ مطالعہ میں مشغول ہوجاتے تو دنیا و مافیہا سے یک قلم لاتعلق ہو جاتے تھے ،گھر والے ناشتہ کے لئے ،کھانے کے لئےبلاتے رہ جاتے مگر آپ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔
شیخ علی حسین سلفی مختلف قسم کے مراحل طے کرتے ہوئے متعدد مناصب پر براجمان ہوتے ہوئے ٢٣/ جولائی ٢٠٢٠ء(٢/٢١/١٤٤١ھ)کو (بروزجمعرات) دوپہر دو بج کر٣٠/ منٹ پر ٦٨/ سال کی عمر میں جامعہ سلفیہ کے ہی حرم جامعی میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
اور اب چرچے ہیں جس کی شوخئ گفتار کی
بے بہا موتی ہیں جس کے چشم گو باہر کے، آپ کی وفات سے یقینا آپ کے معتقدین، محبین، مریدین، آپ سے مبتسبین اور آپ کے طلبہ کی صفوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ سبھوں نے مختلف پیرایوں سے آپ کو یاد کیا ہے،قصیدہ لکھے،مضامین ترتیب دیے گئے، عربی اردو میں مقالے تحریر کیے گئے، اور آپ کی علمی سان کو خراج عقیدت پیش فرمایا گیا۔
اللہ تعالی سے انتہائی تضرع وابنہال کے ساتھ دست بہ دعا ہے کہ رب کریم آپ کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے، آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے، اور جنت الفردوس کا مکین بنائے آمین ثم آمین،
عبدالرحمن افضل البازی
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/