ارشادات‌ نبویہ اور رد الحاد

ارشادات‌ نبویہ اور رد الحاد
از قلم: ساجد ولی
دنیا میں کفر کی ایک شکل الحاد بھی ہے، حقیقی معبود کو چھوڑ کر کسی مخلوق کو خالق کی حیثیت عطا کرنا، اس کو پکارنا، اس فقیر ومحتاج کل کو مختار کل بنا لینا جیسے مظاہر شرک بھی کہیں نہ کہیں انکار والحاد سے تعلق رکھتا ہے، کوئی بھی نبی یا رسول اس دنیا میں اس طرح کے ہر تصور کی تردید کے لئے مبعوث کیا جاتا ہے، اس کے مقصد بعثت میں جہاں توحید کے خلل کی اصلاح شامل ہوتی ہے، وہیں پر سرے سے تصور توحید کی بنیاد ڈالنا بھی ان کی ذمے داری ہوتی، اس کو دی گئی ہدایات میں ہر بد عقیدگی کی نفی موجود ہوتی ہے، ہر مرض کی دوا مضمر ہوتی ہے، کچھ انبیاء کی مدث بعثت محدود تھی، اس لئے ان کی تعلیمات بھی محدودیت لئے ہوئی تھیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے، آپ کی تعلیمات وقت، قوم، قبائل، علاقے کی حدود کی پابند نہیں، اسی لئے قیامت تک آنے والے باطل افکار ونظریات کے رد میں آسان اور عام فہم اسلوب کے ساتھ ایسے دلائل احادیث نبویہ میں مل جائیں گے، جن کو ان پڑھ قسم کے لوگ بھی بآسانی سمجھ کر اپنے بد اعتقادات سے توبہ کر لیگا، بنیادی طور پر قرآن وحدیث میں عقیدہ توحید کو فطرت انسانی سے تعبیر کیا گیا ہے،چنانچہ قرآن میں اللہ تعالی نے ( فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا) کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کیا، تو احادیث مبارکہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: { عن ابی ہریرۃ رضی اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ما من مولود إلا یولد علی الفطرۃ فأبواہ یہودانہ، أو ینصرانہ، أو یمجسانہ، کما تنتج البہیمۃ بہیمۃ جمعاء، ہل تحسون فیہا من جدعاء؟ “[صحیح البخاری رقم ۱۳۵۸] یعنی کوئی بھی نومولود جب اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، تو وہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے بعد میں یہودی بنادیتے ہیں، یا نصرانی، یا مجوسی، بلکل اسی طرح جیسے ایک چوپایہ بلکل صحیح سالم بچہ جنتا ہے، کیا ان میں تم کوئی کان کٹا یا کسی اور عضو کے بغیر کسی بچے کو پیدا ہوتے دیکھتے ہو؟ اس حدیث کے بعد حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جس میں اللہ تعالی فرماتا ہے: {فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا، لا تبدیل لخلق اللہ، ذلک الدین القیم}، گویا اسلام، ایمان اور توحید انسانی فطرت کی وہ آواز ہے، جسے سن کر وہ وجود باری تعالی کی عظمت وقدرت کی نشانیوں کی تلاوت کرسکتا ہے، اور آفاق وانفس کے ان براہین تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، جو اپنی آخری منزل پر ایمان تک لے جاتی ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری حدیثوں میں الحاد ودہریت کے سوتوں کو بند کرنے کے لئے ایسے بدیہی وتاملی سوالات چھوڑے جو غیر فلسفی نوعیت کے ساتھ ساتھ عام عقل کی سادہ سی فہم کوڈائریکٹ مخاطب کرتے ہیں. چنانچہ سابق الذکر روایت ہی کے اندر اس منطقی دلیل کی طرف اشارہ ہے، کہ انسان اگر اپنے تقلیدی وروایتی انداز فکر سے آزاد ہوکر غور وفکر کرے، یا پھر اسے خارجی مؤثرات کی تاثیر سے دور رکھا جائے، تو بذات خود وہ اپنی فطرت کے تقاضے کو ایمان وتوحید کی لکیروں پر ظاہر وباہر دیکھے گا، اور کم از کم ایمان کی پہلی منزل( کہ سامنے جو کچھ ہے وہ خالق نہیں، خالق وہ ہے جو اس کے ماورراء اور مافوق ہے)، کو پار کرلیگا، اسی لئے جب بھی انسان اپنی تخلیق پر غور کرتا ہے، تو علی الأقل الحاد ودہریت کی دلدل سے وہ پاک ہو جائے گا، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز مغرب میں یہ آیتیں تلاوت کرتے ہوئے سنیں {أم خلقوا من غیر شیء…} کہتے ہیں کہ میرا دل مارے خوشی کے بے قابو ہوگیا. گویا آپ نے اپنی فطرت کے تقاضے کو سمجھا، اور یہیں سے ایمان ویقین کی منزلیں آسان ہونے لگیں، اور کفر وضلالت کی پرچھائیاں چھٹنے لگیں.
یہ حدیث نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک عظیم دلیل ہے، عصر حاضر میں جب سائنس وٹکنالوجی جیسے علوم کو عروج ملا ہے، تو ڈارون جیسے بڑے بڑے اہل الحاد نے یہ کوششیں کیں کہ وہ الحاد کی کوئی علمی بنیاد تلاشنے میں کامیاب ہوجائیں، اور یہ ثابت کرسکیں کہ ساری مخلوقات اچانک ایک ترقیاتی عمل سے وجود میں آئیں ہیں، ایک مفروضے کی طرح مغربی علماء نے اس نظریے کو قبول کیا، اس کی بنیاد پر کونی ظواہر کی تفسیر کرنی چاہی، نتیجۃ ً انہوں نے اپنی فطرت کی آواز کو ٹھکراتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا کہ اس کائنات کا کوئی معبود اور خالق ہے ہی نہیں, ہر شیئے اچانک بلاسبب ومسبب کے وجود میں آگئی، اب اس عقیدے کی روشنی میں زنا لواطت، ہم جنس پرستی جیسی سماجی واخلاقی برائیوں کی وکالت ہونے لگی، اس اباحیت والحاد کا نتیجہ کیا ہوا؟
دہریت پر غیر منطقی تصورات کے دو سو سال گزرنے کے بعد جب سماج ومعاشرے میں برائیاں عام ہونے لگیں، نئے نئے امراض سامنے آنے لگے، فواحش ومنکرات عام ہونے لگیں، سود خوری، دھوکہ دھڑی، معاملات میں کذب وعیاری عام ہونے کی وجہ سے عالمی معیشت بڑے نقصان کا شکار ہوئی، تو ان بہکے ہوئے ملحدین میں سے غیر شعوری طور پر بعض حضرات دین وایمان کی طرف متوجہ ہونے لگے، کیونکہ خودکشی کرنے والوں، نفسیاتی امراض کے شکار لوگوں، جنسی متعدی امراض کی لپیٹ میں آنے والے لوگوں میں اکثریت اہل الحاد کی تھی، نہ کہ اہل ایمان کی، پہلے ان کا یہ دعوی تھا کہ ایمان باللہ ہو یا ایمان بالخالق یہ خود انسان کی اپنی پیداوار ہے، جسے اصحاب ادیان نے معبود کے نام پر کمزوروں کا استحصال کرنے کے لئے ایجاد کیا تھا، لیکن جدید اسٹڈی یہ بتلاتی ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اپنے جینات میں وہ ایمان باللہ کا شعور لئے ہوئے پید ا ہوتا ہے، جیسا کہ ایک بریطانی باحث جسٹن باریٹ JUSTIN BARRET نے مختلف عمر کے بچوں پر ایک لمبی ریسرچ کے بعد اس حقیقت کو دنیا کے سامنے پیش کیا.
اس نے اپنی ریسرچ میں یہ واضح کیا کہ بچہ اپنے ذہن میں اس کا خالق کون ہے؟ جیسے سوالات لئے ہوئے پیدا ہوتا ہے, اور شروع میں وہ کبھی بھی اس جواب پر قانع نہیں ہوسکتا کہ فطرت نے اس کائنات کو پیدا کیا ہے, یا پھر یہ یونہی اچانک وجود میں آگئی ہے, البتہ بڑی آسانی سے وہ یہ مان جاتا ہے کہ اس کا اور اس کائنات کا کوئی خالق ہے, جس کے تصرف میں یہ ساری کائنات رواں دواں ہے, البتہ اپنی تربیت کے اعتبار سے جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے, اپنے مربی کی باتوں پر وہ ایمان لانے لگتا ہے, اور ایک لمبی تربیت کے بعد وہ لاشعوری طور پر اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، اور اپنی فطری سادگی کو کچل کر تخلیق کائنات کے ایک ایسے معقد نظرئے کو بھی تسلیم کرلیتا ہے، جس کی کوئی منطقی دلیل نہیں ہوتی، اس کائنات کے خالق کے وجود کی ہزاروں شرعی وعقلی دلیلیں تو دی جاسکتیں ہیں، اس کے انکار کی ایک بھی عقلی دلیل پیس نہیں کی جاسکتی، بلکہ جو بھی دلیل دی جاسکتی ہے، اس میں ہٹ دھرمی، جہالت، یا بے ایمانی کے علاوہ کچھ پیش نہیں کیا جاتا۔
ہاں ایک شیطانی وسوسہ ضرور بعض اذہان میں گردش کرتا ہے، کہ جب ہمیں اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے، تو اللہ کا خالق کون ہوا، یہ نہایت ہی بچکانہ اور غیر معقول سوال ہے، کیونکہ اس کائنات کے حوادث کے لئے محدث ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی بھی حادث وجود نہیں پاسکتا، اگر یہ کہاجائے کہ- نعوذ باللہ- خالق کا خالق کون ہے؟ تو وہ خالق ہوا ہی نہیں, بلکہ وہ مخلوق ہوا, انسانی فطرت، اور عقل ومنطق کی گاڑی ایک لمبے سوالات وجوابات کے تسلسل کے بعد جہاں جاکر ٹھر جاتی ہے، وہ ایسے خالق پر ایمان ہی ہے، جس کا کوئی خالق نہ ہو، اسی لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے‌تلقین فرمائی کہ اس طرح کے شبہات ذہن میں آتے ہی، استعاذہ اور قل ہواللہ احد …پڑھنا چاہئے، اور اس طرح کی غیر معقول الجھن سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فورا انسان رک جائے، اور اپنی سوچ وفکر کے دریچوں کوسمیٹ لے، کیونکہ اب جس سوال کے جواب میں وہ لگ چکا ہے، اس کا کوئی جواب نہیں، اور کوئی معقول جواب پاکر وہ آگے بھی بڑھنے کی کوشش کرے، تو پھر وہ اسی سوال پر ٹھہر جائے گا، کہ پھر اس ذات کا خالق کون ہے؟؟؟چنانچہ جہاں پر انسانی افکار پر الحاد کی پرچھائیاں دکھنے لگیں، فورا یہ سمجھ لیا جائے کہ اب وہ ایک ایسی پر خطر سرنگ میں داخل ہونے لگا ہے، جس سے صحیح سلامت اس کا نکلنا مشکل ہوگا، اور خوش فہمی میں اسی نقطہ تدبر کو اپنی معراج سمجھنے لگے گا، جہاں سے اس نے شروعات کی تھی، ہوسکتا ہے کہ ذہنی کاوش کے ایک سفر کے بعد اسے کچھ سکون نصیب ہو، اور ایسا لگے کہ میں نے تحقیق کی ایک وادی عبور کرلی ہے، جبکہ نہ اس نے کوئی منزل طے کی ہوگی، اور نہ ہی کسی وادی سے وہ سلامت آگے بڑھا ہوگا، اس لئے الحاد فطرت کی آواز کو دباکر خالق کا انکار کرنا‌ ہے، حقیقت یہ ہے کہ موت وزندگی کی عقدہ کشائی ہی میں خالق کی معرفت‌ مضمر ہے، اور اپنی ذات ہی میں رب کی تخلق کے عجیب وغریب مظاہر پائے جاتے ہیں، لیکن دیکھنے کے لئے فطری نگاہیں چاہئیں،‌ اللہ ہمیں اعتقادی، وعملی الحاد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
جاری۔۔۔۔

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *