ہم گفتار کے نہیں کردار کے خوگر ہیں
از قلم: ساجد ولی
تین دن سے زلزلوں کا تصور ذہن ودماغ پر چھایا ہوا ہے، اہل دل کی آنکھیں نم ہیں، ہر طرف ہمدردی کی بے مثال آوازیں سنائی دے رہی ہیں، انسانیت مذہب وقومیت کا امتیاز بھلا کر مصیبت زدگان کی خدمت میں جٹی ہے، کہیں پر ترکی میں آنے والی تباہی کو قیامت سے قبل زلزلوں کی کثرت سے جوڑا جا رہا ہے، کہیں کوئی اسے معصیتون اور خالق انسان کی ناراضگی سے جوڑ رہا ہے، حضرت انسان کی تنوعاتی فکر ہے، تجزیوں میں کہاں پیچھے ہٹتی ہے، بعض مصیبتوں کے تجار نئی نئی ویڈیوز اپلوڈ کر اپنے چینلز کی سبسکرپشن اور مشاہدات میں اضافے کی دوڑ لگائے ہوئے ہیں، اور پھر کچھ ایسے بھی عجوبے ہیں جو اس ہولناک صورتحال میں بھی تہمتوں کی دکان لگائے ہوئے ہیں، دور زوال ہے، جس میں تصورات سے بالاتر سطحیت دیکھنے کو مل ہی جاتی ہیں، سو اس پر کوئی افسوس نہیں۔
یقینا یہ مناظر ویڈیوز میں اتنے بھیانک دکھ رہے ہیں، تو حقیقت میں ان کی دہشت کیسی رہی ہوگی، زمین کی اتھل پتھل سے جہاں پر پرندے ہنگامہ کرنے لگے ہوں، وہاں پر لوگوں کے احساسات کیا رہے ہونگے، واقعی یہ قیامت تو نہیں تھی، لیکن قیامت کا ایک تصور قائم کرنے کے لئے ایک مثال ضرور تھی، قرآن میں پڑھا تھا ( یوم تذھل کل مرضعۃ عما ارضعت، وتضع کل ذات حمل حملھا) کہ بروز قیامت حامل عورتوں کے حمل مارے دہشت کے ساقط ہو جائیں گے، یہ تو قیامت نہیں تھی، پھر بھی ایسے مناظر دیکھے گئے، تو پھر وہ قیامت کیسی ہوگی، جس سے مکمل زمین کے نشانات راہ بدل جائیں گے( وتبدل الارض غیر الأرض), واقعی وہ منظر ایسا ہوگا جس کا حضرت انسان نے کبھی تجربہ نہ کیا ہوگا، اسی لئے تو وہ قیامت ہوگی۔
قارئین کرام! دنیا بذات خود ایک درس ہے، خاموش تربیت گاہ ہے، فصیح و بلیغ بے زبان ڈراوا ہے، اس میں جو کچھ ہوتا ہے، وہ تدبر کے لئے بطور مواد کافی ہوتاہے، خالق تک پہونچنے کے لئے موزوں راستہ ہوتا ہے، تین دنوں قبل ترکی میں جو تباہی پیش آئی، وہ بھی اس صفحہ وجود پر ایک ایسی تحریر ہی تھی جس کی سیاہی میں انسان نے اپنی بے بسی وکم مائگی ضرور محسوس کر لی ہوگی، اس حادثے کی توصیف میں جتنی قلمی صلاحیت صرف کی جائے، جتنے تصورات کے گھوڑے دوڑائے جائیں کم ہیں، مرنے والوں کے احساسات دنیا کا کوئی قلم تحریر میں نہیں لا سکتا، کیوں کہ وہ اپنے مافی ضمیر کے ساتھ خاک میں مل جاتے ہیں، ایک صاحب قلم تو عکاسی کرتے ہوئے صرف قصہ گوئی کی کوشش کرتا ہے۔
اہل تاریخ کے مطابق یہ زلزلہ تاریخ کے بھیانک زلزلوں میں سے ایک تھا، اس کا اثر صرف ترکی پر نہیں پڑا، بلکہ کئی ممالک نے اس کے اٹرات محسوس کئے، ہزاروں فلک بوس عمارتیں ترکی میں خاک کے ڈھیر میں بدل گئیں، سینکڑوں افراد شام کی زخمی زمین میں ملبے کے نیچے دب گئے، واقعی بڑی تکلیف دہ صورت حال ہے، جس کو برداشت کر پانا بڑا مشکل امر ہے، لیکن اس تکلیف دہ صورت حال میں ایک بڑی خوش آئند بات بھی دکھ رہی ہے، جو بلا دعوی کے بہت سارے پروپیگنڈوں کو غلط ثابت کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، وہ ہمیں بتلا رہی ہے، کہ مسلم دنیا کو دو خیموں میں بانٹ کر دیکھنے والے غلطی پر ہیں، مسلم دنیا کے انتشار کا بھوت دکھاکر ڈرانے والے کم فہم خطأ پر قائم ہیں، اس امت میں وحدت کا تصور ابھی بھی زندہ ہے، اور جب ضرورت پڑتی ہے، تو بلا تفریق عرب وعجم، بلا تقسیم ملک وقوم یہ ایک امت کا ثبوت بن کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہو جاتی ہے، آپ ہمارے ملک ہندوستان کے بعض ہنگاموں ہی پر نظر ڈالیں، کچھ سالوں سے ترکی کو مسلم ملکوں کا ہیرو، اور بالعموم عرب، اور بالخصوص سعودی عرب کو دین کے دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، اصل میں اتحاد اتفاق کی کوشش کے نام پر جو دکان لگائی گئی ہو، اگر اس میں اختلاف کو بڑا کرکے نہ دکھایا جائے، تو خریداروں کی کمی ہو جائے گی، اس لئے نصب العین کی مجبوری ہے، کہ اسے یہ سب بڑا کرکے دکھانا پڑتا ہے، ہرگز وجود اختلافات کا انکار نہیں کیا جا سکتا، البتہ اس انتشار کی نوعیت، اور اس کی علت میں اختلاف کیا جا سکتا ہے، سعودی عرب اور ترکی میں عقدی، منہجی، نیز سیاسی اختلافات موجود ہیں، اور کہیں پر یہ بڑے شدید نوعیت کے بھی ہیں، کچھ سالوں قبل وہ ساری سائٹس جن سے ڈایریکٹ مملکت سعودی عرب کے سیاسی نظام کو نشانہ بنایا جاتا تھا، وہ اسی ملک میں تھیں، مصر سے بھاگ کر جتنے غداروں نے اپنے ملک کی قسمت داؤ پر لگا دی تھی، انہیں یہیں پناہ ملی تھی، شاید ترکی جیسے ملک کو اس تاریخ سے واقفیت نہیں تھی کہ کسی زمانے میں مملکت سعودی عرب نے بھی انہیں پناہ دینے کا تجربہ کر رکھا تھا، یہ ایک سیاسی، اور قومی سلامتی سے متعلق اختلاف تھا، جو کچھ سالوں قبل بڑے زوروں پر تھا، آگ لگانے والوں نے اس میں بھی بڑا ایندھن ڈالا، لیکن جب انسانی اور اسلامی تقاضوں پر ترکی کی مدد کی بات آئی، تو مملکت سعودی عرب نے وہی کام کیا، جو ایک مسلم ملک کو کرنا چاہئے تھا، کچھ سالوں قبل مکہ مکرمہ پر بلاسٹک میزائلوں سے حملے ہوئے، پھر چند ماہ قبل جدہ میں شدید بارش کے سبب سیلاب سے بڑی تباہی ہوئی، کسی ملک نے امداد کے لئے ٹیمیں روانہ نہ کیں، مالی مدد تو دور کی بات ہے، اسے عذاب الٰہی قرار دے کر مصیبت کو خاندان آل سعود سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، ہمدردی کے بجائے شوشل میڈیا کو بدبودار الٹیوں سے آنٹ دیا گیا، ہلاکت کی داستان کو حکمران وقت کے سر لاد دیا گیا۔
ایک طرف یہ دشمنانہ رویہ، اور دوسری طرف مملکت سعودی عرب کا ترکی زلزلے کے متاثرین کے امداد میں یہ حصے داری عجیب وغریب مقابلہ آرائی ہے، ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی دشمنوں کو مواد کی کمی پر گئی ہے، اور کچھ تو سکتے میں اس لئے ہیں کہ کہیں ہماری نفرت کی دکان بند نہ ہو جائے، جذباتیت کا تماشہ ختم نہ ہو جائے، ملک سلمان مرکز کی طرف سے ترکی اور شام کے متاثرین کو امداد کی درخواست پر پہلے ہی دن سے کام شروع ہو گیا، راجحی بنک نے اپنے سسٹم میں نئے اوپشن کا اضافہ کیا، جس کے ذریعے ڈونیٹ کیا جا سکے، سعودی عوام کے منی ٹرانسفرس سے بنک کی ویب سائٹ سست رفتار ہو گئی، جمعہ کے خطبے میں سرکاری طور پر عوام کو اس چندے پر ابھارنے کی تلقین کی گئی، پہلے ہی دن سعودی ٹیمیں ترکی اور شام پہونچ گئیں، اور ہر طرح کے تعاون میں شامل ہو گئیں، امداد کے اعلان سے کچھ گھنٹے بعد ہی ٧٠ ملین ریال (1538947853.80 روپے) متاثرین کے لئے جمع کر لئے گئے، صرف ایک سعودی شہری نے نام نا ظاہر کرتے ہوئے ١٠ ملین سعودی ریال ( 219849693.40 روپے) ڈونیٹ کئے، سرکاری طور پر مختلف سائٹس پر ڈونیٹ کے اوپشن شروع کئے گئے، گزشتہ کل تک تقریبا ٣٣٠ ملین سعودی ریال سے زیادہ (7,25,50,39,882.20) چندہ ہو چکا ہے، اور لگاتار سرکاری پیمانے پر امداد کا سلسلہ جاری ہے، اور عوام بھی اس میدان میں سابقہ رکارڈ کو توڑتے ہوئے فراخ دلی سے ڈونیٹ کر رہی ہے، واقعی یہ ایک ناقابل فراموش مثال ہے، یہ کوئی نئی مثال نہیں ہے، اس سے پہلے نیشنل یا انٹرنیشنل طور پر جتنی بھی انسانی آفات آئی ہیں، ان میں یہ ملک پیش پیش رہا ہے، یہ تو سرکاری طور پر جمع شدہ چندہ ہے، عوام اپنے طریقے سے جو خرچ کرتی ہے، اس کا اندازہ کر پانا ممکن ہی نہیں۔
دنیا کے ہر مشکل وقت میں ایک ہی نام سر فہرست نظر آتا ہے، جسے ہم مملکت سعودی عرب کہتے ہیں، سعودی عرب کو برا بھلا کہنے والوں کی توانائی جب ختم ہو جاتی ہے، تو دنیا کے نقشے پر یہ ملک پھر کوئی ایسا خیر کا کام سامنے لاتا ہے، کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں، دنیا میں پناہ گزینوں کا معاملہ لے لیجئے، یہ ملک اپنی غیر تشہیری سیاست پر گامزن رہتے ہوئے، ڈھائی ملین شامی لوگوں کو اپنے ملک میں پناہ دیتا ہے، ایک بھی پناہ گزین کیمپ نہیں بناتا، سب کو تکریم کے ساتھ جینے، پڑھنے، طبی سہولیات حاصل کرنے کا حق دیتا ہے، جہاں بھی کوئی مصیبت آتی ہے، وہاں پر ایک ہاتھ مصیبت زدگان کا ہاتھ تھامتے ہوئے ضرور نظر آتا ہے، وہ ہے مملکت سعودی عرب کا ہاتھ، کچھ سالوں قبل بنگلادیش میں سیلاب سے جتنا نقصان نہیں ہوا، اس کا تین گنا مملکت سعودی عرب سے ملنے والی امداد تھی، پاکستان کے سیلابوں میں متاثرین کی امداد کو لیجئے، بے حساب و کتاب مدد کی گئی، نیپال کے زلزلوں کو لیجئے بلا تفریق مذہب وملت دل کھول کر انسانی بنیادوں پر مدد کی گئی، اسلامی وانسانی اخوت کی مثال دیکھنی ہو، تو اس ملک کو دیکھ لیا جائے، جو اقوال پر نہیں افعال پر یقین رکھتا ہے، ملک عبد العزیز رحمہ اللہ ہمیشہ اس بات کو دہراتے تھے کہ میں خاموشی سے کام کرنے کا عادی ہوں، ہنگاموں کا شوقین نہیں، آپ کے جانشینوں نے بھی اس سیاست کو جاری رکھے ہوا ہے، اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے، اور حرمین شریفین کی خدمت کرنے والی اس مملکت کا جھنڈا ہمیشہ افق پر لہراتا رہے۔ آمین۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/