الله الصمد

الله الصمد
ریاض فردوسی۔9968012976

اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے(سورہ الاخلاق۔آیت۔2)

صمد(اسم)وہ شخصیت جس کی طرف حاجت روائی اور حل مشکلات کیلئے رجوع کیا جائے۔صمد اللہ وحدہ لا شریک کے اسما حسنی میں سے ایک نام ہے۔صمد وہ ذات کو کہتے ہیں جو کسی کی محتاج نہ ہو،اور سب اس کے محتاج ہوں۔وہ سب سے بے نیاز ہو اور کوئی اس سے بے نیاز نہ ہو۔صمد اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لئے رجوع کرتے ہوں۔
یہ قرآنِ کریم کے لفظ ’’اَلصَّمَدُ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اُردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔عام طور سے اِختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ’’بے نیاز‘‘ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔لیکن یہ پہلو اُس میں نہیں آتا کہ سب اُس کے محتاج ہیں۔اس لئے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اُس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔صمد کا مفہوم اور صمد اور غنی میں فرق :۔ صَمَدٌ میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں (1) کسی چیز کا ٹھوس اور مضبوط ہونا (2) لوگ ہر طرف سے اس کی طرف قصد کریں۔
الصَّمَدُ ایسی ذات ہے جو خود تو مستقل اور قائم بالذات ہو۔وہ خود کسی کی محتاج نہ ہو مگر دوسری سب مخلوق اس کی محتاج ہو۔ بےنیاز کے لیے عربی زبان میں غنی کا لفظ بھی آتا ہے اور اس کی ضد فقیر ہے۔غنی وہ ہے جسے کسی دوسرے کی احتیاج نہ ہو مگر یہ لفظ صرف مال و دولت کے معاملہ میں بےنیاز ہونے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور غنی دولت مند کو کہتے ہیں۔یعنی کم از کم اتنا مالدار ضرور ہو کہ اسے معاش کے سلسلے میں دوسروں کی احتیاج نہ ہو جبکہ صمد کا لفظ جملہ پہلوؤں میں بےنیاز ہونے کے معنوں میں آتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جملہ پہلوؤں میں اس کے محتاج ہوتے ہیں۔ مثلاً اللہ کھانے پینے سے بھی بےنیاز ہے اور سونے اور آرام کرنے سے بھی۔وہ اپنی زندگی اور بقا کے لیے بھی کسی کا محتاج نہیں ہے۔مگر باقی سب مخلوق ایک ایک چیز رزق،صحت،زندگی،شفائ،اولاد حتیٰ کہ اپنی بقا تک کے لیے بھی اللہ کی محتاج ہے۔ کوئی بھلائی کی بات ایسی نہیں جس کے لیے مخلوق اپنے خالق کی محتاج نہ ہو۔صَمَد کے لغوی معنی ایسی مضبوط چٹان کے ہیں جس کو سہارا بنا کر کوئی جنگجو اپنے دشمن کے خلاف لڑتا ہے تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے ۔ بعد میں یہ لفظ اسی مفہوم میں ایسے بڑے بڑے سرداروں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا جو لوگوں کو پناہ دیتے تھے اور جن سے لوگ اپنے مسائل کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اس طرح اس لفظ میں مضبوط سہارے اور مرجع (جس کی طرف رجوع کیا جائے) کے معنی مستقل طور پر آگئے۔ چناچہ اَللّٰہُ الصَّمَدُ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کا مرجع اور مضبوط سہارا ہے۔ وہ خود بخود قائم ہے ‘ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ۔ باقی تمام مخلوقات کو اس کے سہارے کی ضرورت ہے اور تمام مخلوق کی زندگی اور ہرچیز کا وجود اسی کی بدولت ہے۔
البقرۃ : ٢٥٥ میں ہے، اور وہ احاطہ نہیں کرسکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ خود چاہے “۔ ظاہر ہے وہ الحی اور القیوم ہے ‘ یعنی خود زندہ ہے اور تمام مخلوق کو تھامے ہوئے ہے۔ باقی تمام مخلوقات کے ہر فرد کا وجود مستعار ہے اور کائنات میں جو زندہ چیزیں ہیں ان کی زندگی بھی مستعار ہے۔ جیسے ہم انسانوں کی زندگی بھی ” عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن “ کے مصداق اسی کی عطا کردہ ہے۔
اگر تو ان کو سزا دے تو یقیناً وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو یقیناً تو سب پر غالب،کمال حکمت والا ہے(سورہ المائدہ۔آیت۔118)

بندوں کے تمام اعمال صالح ہو یابد،معاملات اللہ کی مشیت کے سپرد ہیں۔اللہ کی رحمت کے بغیر کو ئی بھی انسان جنت میں نہیں جا سکے گا چاہے وہ انبیا ء ہوں ،یا اولیا ء، صدیقین ہوں ،یا شہدا یا صالحین سب کے سب اللہ کی رحمت محتاج ہیں اورآخرت میں بھی ہو نگے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو اس کا عمل جنت میں لے جائے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اور نہ آپ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،نہ میں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھ کو ڈھانپ لے(صحیح مسلم،حدیث۔7113۔
حدیث۔2817 میں الگ الفاظ میں بیان ہوا ہے،لیکن لب ولہجہ یہی ہیں)

سورہ البروج۔آیت۔16 میں ہے،جو چاہتا ہے اس کو کر گزرنے والا ہے۔
سورہ الانبياء آیت۔23 میں ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے سوال نہیں کیا جاتا اور اُن سے ہی(بندوں سے) سوال کئے جاتے ہیں۔
اللہ کے سامنے بندہ عاجز و بےبس ہے۔بندہ صرف اللہ کی عظمت و جلالت،قادر مطلق اور مختار کل ہونے کااعلان بہترین الفاظ سے کرسکتا ہے،لوگوں کو بتا سکتاہے،اور خود کی،تمام امت مسلمہ اور ساری انسانیت کے لۓ عفوو مغفرت کی صرف التجا کرسکتا ہے۔بندے اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو مجبور نہیں کرسکتے کہ وہ ان کے مغفرت ہی کرے،جنت سے نوازے۔اللہ کی جو مرضی ہوگی وہ کرے گا۔اس پر کسی کا زور نہیں،سپ پر اسی کا زور ہے،سواۓ ان صالح بندوں کے جن کو وہ خود اجازت دیتاہے یا دےگا(کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اُس کی جناب میں سفارش کرے۔آیت الکرسی کے درمیان کے الفاظ)
مسند احمد جلد 5،ص۔149میں درج ہے! ایک رات انسان کامل نور مجسم ﷺ کے قلب اطہر پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے،حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔

آخر میں!

اور جب آپ کے پاس وہ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ کہہ دیں تم پر سلام ہو ، تمہارے رب نے اپنی ذات پر رحمت لازم کر رکھی ہے ، یقیناً وہ جو تم میں سے نادانی میں کوئی بُرائی کر بیٹھے ، پھر اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی تو یقیناً وہ بے حد بخشنے والا ، نہایت رحم والا ہے(سورہ الانعام۔آیت۔54)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے دست قدرت سے اپنی ذات کے لئے لکھ دیا کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے(اخرجه الترمذي في السنن، کتاب: الدعوات عن رسول اﷲ ، باب: خلق اﷲ مائة- رحمة، 5/ 549، الرقم: 3543، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 417، الرقم:7751، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 60، الرقم: 34199، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 433، الرقم: 9595)

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *