اھلا و سھلا مرحبا بکم یا ضیوفنا الکرام ۔۔۔۔!
رابطہ نمبر:9199726661
آج مورخہ 17/ فروری/2023 کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق آپریشن کے فلو اپ کے لیے میں ایمس گیا، جہاں ڈاکٹر ریچا کماری، ڈاکٹر حمزہ، ڈاکٹر معراج اور ڈاکٹر دیوا کمار نے باری باری سے اپنے کیبن میں بلایا اور ڈسچارج کے بعد کی صورتحال جاننے کی کوشش کی۔ میں نے ان سبھی سے بتایا کہ الحمدللہ! کسی طرح کی بظاہر کوئی دقت نہیں ہے، البتہ آپریشن کے زخم میں ہلکا درد ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں نے اظہار اطمینان کیا اور کہا کہ جلد ہی درد بھی بند ہوجائے گا۔ ساتھ ہی اوپن آپریشن ہونے کے سبب فی الحال احتیاط برتنے کی تاکید کی۔ اس کے بعد میرے آپریشن کا ٹاکا کاٹ دیا اور گھر واپسی کی اجازت دے دی۔ ایمس سے گھر واپسی پر ابھی راستے میں ہی تھا تو برادرم قاری امتیاز احمد تیمی نے فون کیا کہ آپ کی عیادت کے لیے مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ کے ناظم اعلیٰ صاحب میرے ساتھ پٹنہ جانا چاہ رہے ہیں۔ میں نے لگے ہاتھوں کہا کہ یہ تو میری خوش قسمتی ہوگی کہ وہ میرا مہمان بننا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ ضرور تشریف لائیے! اھلا وسھلا مرحبا بکم یا ضیوفنا الکرام، چنانچہ شام میں بعد نماز مغرب میرے غریب خانہ (چاند کالونی، پھلواری شریف، پٹنہ) پر مدرسہ احمدیہ سلفیہ، ملکی محلہ آرہ بہار کے ناظم اعلیٰ، میرے مشفق و کرم فرما عزت مآب جناب محمد انور علی آروی / حفظہ اللہ اور صدر شعبہ حفظ بڑے بھائی حافظ و قاری امتیاز احمد تیمی حفظہ اللہ کی تشریف آوری ہوئی۔ دونوں حضرات نے میری علالت و صحت کی جانکاری لی اور دعاؤں سے نوازا۔ ساتھ ہی تفسیر خلیلی، سپاس نامہ، شال، فائل اور عطر سے بھی سرفراز کیا۔ دراصل مورخہ 11 اور 12 فروری, 2023 کو مدرسہ احمدیہ سلفیہ ملکی محلہ آرہ میں طلباء کے مسابقہ حفظ وقرأت اور سالانہ انعامی تقریری اجلاس کا انعقاد ہوا تھا جس میں مجھے بحیثیت جج شرکت کے لیے مدعو کیا گیا تھا، مگر اچانک میری طبیعت ناساز ہوجانے، یکے بعد دیگرے تین اسپتالوں میں ایڈمٹ ہونے اور اوپن سرجری کے سبب میں شرکت نہیں کرسکا تھا۔ آج جب ناظم اعلیٰ صاحب کو فرصت ہاتھ آئی تو آرہ سے چل کر میری عیادت کے بہانے میرے غریب خانہ پٹنہ تشریف لائے اور مجھے مذکورہ تحائف سے نوازا۔ تحفہ قبول کرنا چونکہ سنت ہے، اس لیے میں نے بخوشی قبول کرلیا۔محترم ناظم اعلیٰ محمد انور علی آروی صاحب اور قاری امتیاز احمد تیمی کی میرے یہاں آمد پر اظہار خوشی کرتا ہوں اور ان کی پرخلوص محبتوں اور عنایتوں کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ” من لا يشكر الناس لا يشكر الله “۔۔۔۔۔!!!
یہ بات مصدقہ ہے کہ علامہ ابراہیم آروی نے 1298ہجری و 1880 عیسوی میں اس کی داغ بیل ڈالی تھی۔ مدرسہ احمدیہ (قدیم نام) کو غیر منقسم ہندوستان کے مدارس میں اولیت و مرکزیت حاصل تھی۔ وہاں عرب وعجم کے طالبان علوم نبوت بڑی تعداد میں زیر تعلیم ہوا کرتے تھے۔ان دنوں علامہ عبد العزیز رحیم آبادی، شیخ عبد الرحمٰن مبارکپوری، شیخ عین الحق پھلواری ،شیخ عبد اللہ غازی پوری اور شیخ عبدالمنان وزیر آبادی جیسے کئی کبار علمائے کرام تدریسی خدمات انجام دیا کرتے تھے، مگر تن کے گورے اور من کے کالے انگریزوں کی حکومت نے اس کو ایک منظم سازش کے تحت معطل کردیا۔ برسہا برس تعطل کے بعد جناب ضیاء الحسن آروی اور جناب محمد انور علی آروی اور ان کے رفقاء نے اس کی نشأۃ ثانیہ کا بیڑا اٹھایا اور دن رات ایک کرکے اس کو ازسرنو زندہ و پائندہ کیا اور اپنے خون جگر سے سینچا۔ آج الحمدللہ و بفضلہ ! اس مدرسہ کی فلک بوس عالیشان چار منزلہ عمارت ہے، طلباء کے قیام کے لیے ہاسٹل ہے، ہزاروں کتابوں پر مشتمل شاندار لائبریری ہے، ڈائننگ ہال ہے، اجلاس کے لیے نہایت کشادہ ہال ہے، بڑی تعداد میں طلباء ہیں، جنہیں حفظ وقرأت اور عالمیت تک کی نہایت معیاری تعلیم وتربیت دی جاتی ہے، قابل و باصلاحیت اساتذہ کی اچھی ٹیم ہے، ملکی محلہ میں ہی مدرسہ کی سعودی طرز کی دو عالیشان مساجد ہیں، مدرسہ میں شعبہ تصنیف وتالیف بھی ہے جہاں سے تفسیر خلیلی اور درجنوں اسلامی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مدرسہ احمدیہ سلفیہ، ملکی محلہ آرہ ماشاءاللہ اپنے شاندار ماضی کی طرف نہایت سرعت کے ساتھ رواں دواں ہے۔ م اس کا سہرا جہاں ضیاء الحسن آروی رحمہ اللہ اور ان کے رفقاء کو باندھتا ہوں ، وہیں شیخ ابو ناصر رضاءالحسن مدنی/ حفظہ اللہ حال مقیم دوبئی اور محترم جناب محمد انور علی آروی / حفظہ اللہ کے سروں پر بھی باندھتا ہوں کہ انہوں نے مدرسہ کی چوطرفہ ترقی کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ کیا سردی، کیا گرمی، کیا برسات، کیا آندھی، کیا طوفان۔۔۔۔الغرض! حالات جیسے بھی ہوں جناب والا ہمہ وقت مدرسہ کی ترقی، تعلیم وتربیت کی بہتری، اساتذہ وطلبا کی خیرخواہی اور دعوت وتبلیغ کے لیے جد وجہد کرتے رہتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالٰی انہیں مکمل صحت و عافیت کے ساتھ اپنے حفظ وامان میں رکھے، عمر خضر عطا کرے اور حاسدوں کے حسد، بد نظروں کی بدنظری، شرپسندوں کی شرارت اور سازشیوں کی سازش سے محفوظ رکھے۔ تاکہ ان کی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو ، مدرسہ احمدیہ سلفیہ کا شاندار ماضی واپس آجائے اور ایک بار پھر اسے ہندوستان کی درسگاہوں میں مرکزیت حاصل ہوجائے،اللھم تقبل یارب العالمین!
اس دوران ہم لوگوں کے درمیان مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ کے قیام میں علامہ ابو محمد ابراہیم آروی و مکی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی کے کردار، ان کی خدمات ، مدرسہ کی تاریخی حیثیت ، اس کی دربھنگہ منتقلی، وہاں دارلعلوم احمدیہ سلفیہ کی تاسیس، آرہ میں علمائے اہلحدیث کے مذاکرہ علمیہ، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کا قیام اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ کی آرہ میں نشأۃ ثانیہ سے متعلق بہت ساری باتیں ہوئیں۔ اسی طرح مولانا عبد القیوم رحمانی بستوی، مولانا اسلم کانپوری، مولانا عبد الرؤف رحمانی جھنڈا نگری، مولانا قاری عبد الرشید علیگ، دکتور رضاء اللہ محمد ادریس رحمھم اللہ اور راقم السطور کے خسر محترم مولانا محمد مطیع الرحمان چترویدی حفظہ اللہ کے زور خطابت ، اخلاص و للہیت ، داعیانہ جذبہ، عاجزانہ ومنکسرانہ مزاج و دیگر اوصاف و کمالات کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔ نیز ماضی کے واعظین، مقررین و خطباء اور موجودہ وقت کے علماء، مقررین و خطباء کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کی بابت بھی باتوں سے باتیں نکل گئیں۔ موصوف نے اپنی گفتگو میں اظہار تأسف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اسلاف خلوص و للہیت کے پیکر تھے۔ وہ تکالیف و مشاکل جھیل کر دعوت وتبلیغ کیا کرتے تھے، جلسوں، کانفرنسوں اور دعوت وتبلیغ کے لیے ان کی کوئی فیس نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہ واقعی اسلام اور توحید کو فروغ دینا اور لوگوں کی اصلاح کرنا چاہتے تھے، مگر آج کے علماء ان تمام چیزوں سے عاری و خالی ہیں۔ سب کے سب پیشہ ور اور دنیا دار بن چکے ہیں۔ مذہب اسلام اور توحید کو عام کرنے اور دعوت وتبلیغ کا فریضہ للہ فی اللہ انجام دینے کا جذبہ کسی میں نہیں اور ناہی کوئی قوم وملت کا سچا بہی خواہ ہے۔ یقیناً مسلمان بہت ناگفتہ بہ حالات اور آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں۔۔۔!
اس سے قبل جب میں ڈاکٹر اعجاز علی کی کلینک راجہ بازار، پٹنہ میں ایڈمٹ تھا تب بھی محترم محمد انور علی آروی اور قاری امتیاز تیمی وہاں تشریف لائے تھے اور میری عیادت کی تھی۔ دعاؤں سے بھی نوازا تھا ، فجزاھما اللہ احسن الجزا فی الدنیا والآخرۃ۔۔۔۔!
آج صبح میں دیو گھر، جھارکھنڈ سے ماسٹر راشد انور بھی خیریت دریافت کرنے کے لیے پٹنہ میرے یہاں تشریف لائے تھے۔ بعد نماز مغرب ان کی واپسی ہوئی۔ میری طبیعت علیل ہونے کے بعد سے ہی موصوف فون سے مسلسل احوال وکوائف کی جانکاری لیتے رہے۔ آج کل ایسے مخلص لوگ خال خال ہی ملتے ہیں۔ کس کو پڑی ہے کہ آسمان چھوتے کرایہ اور کمر توڑتی مہنگائی کے اس دور میں اپنے پیسے خراچ کرکے دیوگھر جیسے دور دراز علاقہ سے عیادت کرنے پٹنہ آئے اور چند گھنٹوں بعد ہی واپس ہوجائے، فجزاہ اللہ احسن الجزا۔۔۔۔!
مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کس حد تک ان کی ضیافت کا حق ادا کیا، البتہ اس بات سے میں ضرور واقف ہوں کہ ضیافت و مہمان نوازی انبیاء علیہم السلام کا طرہ امتیاز و اختصاص رہا ہے۔اسلام میں مہمان نوازی کو اخلاق ِ حسنہ میں شمار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مہمان کا اکرام کرنے کی خاص تاکید فرمائی ہے۔
۱: قد قال النبی ﷺ: (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ) رواہ البخاری: ۸۱۰۶، ومسلم،:۲۸۱
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے۔
۲: وقال: (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ؛ جائزتہ۔ قال: وما جائزتہ؟ قال: یومہ ولیلتہ، والضیافۃ ثلاثۃ ایام، فما کان وراء ذلک فھو صدقۃ علیہ۔) رواہ البخاری: ۵۳۶۱، مسلم، ۰۱۶۴۔
اور آپؐ نے فرمایا: ”جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا ہے، اسے مہمان کی تکریم کرنی چاہئے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”لا تزال الملائکۃ تصلّی علی احدکم ما دامت مائدتہ موضوعۃ بین یدیہ حتی یرفع۔“ (الطبرانی فی الاوسط)
جب تک دستر خوان سامنے چنا رہتا ہے فرشتے میزبان کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
مہمان کی تکریم کرنے کے حوالے سے انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ قرآن کریم جابجا ملتا ہے، ارشاد باری تعالٰی ہے:(ھل اتاک ضیف ابراہیم المکرمین۰ اذ دخلوا علیہ فقالوا سلماًصلے قال سلم قوم منکرون۰ فراغ الی اھلہ فجاء بعجلٍ سمین۰ فقرّبہ الیھم قال الا تاکلون) الذاریات، ۴۲۔۷۲”کیا تیرے پاس ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی ہے، جب وہ ان کے پاس گئے تو انہیں سلام کیا، ابراہیمؑ نے بھی جواب میں کہا، سلام (اور کہا) انجانے لوگ ہیں۔ پھر اپنے گھر کی طرف چلے اور ایک پلا ہوا بچھڑا (بھون کر) لائے اور ان کے قریب کیا، فرمایا تم کھاتے کیوں نہیں؟“۔ان آیات میں مہمان داری کے بہت اعلی اصول ہیں۔:۔مہمان اور میزبان کا پہلا کلام سلامتی کی دعا پر مبنی ہونا۔ نا شناسا ہونے کے باوجود مہمانوں کا اکرام کرنا۔ مہمان داری کے لئے بہترین کھانے (موٹے تازے بھنے ہوئے بچھڑے کا) اہتمام کرنا۔ مہمان داری میں دیر نہ کرنا۔ کھانے کو مہمانوں کے قریب رکھنا شائستگی کی علامت ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کو خلیل اللہ کا لقب ملااورجب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل کیوں بنایا تو انہوں نے جواب دیا: کیونکہ میں نے جب بھی دو کاموں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا تو اسے اللہ کے لئے اختیار کیا اور میں نے جس چیز کا سب سے بڑھ کر اہتمام کیا وہ یہ کہ میں نے صبح یا رات کو کھانا کبھی مہمان کے بغیر نہیں کھایا“۔ (الامتاع والموانسہ، ابو حیان التوحیدی، ج۳، ص۴۰۳)
حضرت یوسف ؑ کے ہاں ان کے بھائی عراق سے مصر آئے تو انہوں نے ان کی خوب تکریم کی، اور ان سے کہا:(الا ترون انّی اوفی الکیل وانا خیر المنزلین) (یوسف، ۹۵)
”تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں“۔
رسول اللہ ﷺ پر جب حرا میں وحی نازل ہوئی، تو آپ ﷺ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی، آپؐ گھر آئے، اور فرمایا: زمّلونی، زمّلونی، (مجھے اوڑھا دو، مجھے اوڑھا دو) پھر جب آپ اٹھے اور حضرت خدیجہؓ کو ساری بات بتائی (ای خدیجہ ما لی، لقد خشیتُ علی نفسی؟) اے خدیجہ مجھے کیا ہوا؟ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، تو آپؓ نے ان الفاظ سے آپؐ کو تسلی دی: (کلّا، فابشر، فواللہ لا یخزیک اللہ ابداً، فواللہ فانّک لتصل الرّحم، وتصدّق الحدیث، وتحمل الکل، وتکسب المعدوم، وتقری الضیف) ہرگز نہیں، آپؐ خوش ہو جائیے، بخدا اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہ کرے گا، اللہ کی قسم آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور سچ بولتے ہیں، دوسروں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں، اور مہمان نواز ہیں۔(البخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: میں بھوک اور فاقے سے بے چین ہوں، تو آپؐ نے ایک آدمی کو اپنی کسی بیوی کے پاس بھیجا کہ اگر کچھ ہو تو لے آؤ۔ انہوں نے جواب دیاکہ پانی کے سوا اس وقت کچھ نہیں ہے۔ پھر دوسری بیوی کے پاس بھیجا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ یہاں تک کہ تمام بیویوں نے یہی کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے، ہمارے ہاں اس وقت پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔تب آپؐ نے لوگوں سے کہا کہ آج رات کون اس مہمان کو کھانا کھلاتا ہے؟ انصار میں سے ایک آدمی نے (اور ایک روایت کے مطابق ثابت بن قیس انصاری نے) کہا: اے اللہ کے رسول! میں کھلاؤں گا، تو وہ مہمان کو لئے اپنے گھر گئے اور بیوی سے کہا کہ یہ نبی ﷺ کے مہمان ہیں، ان کی خاطر کرو۔ ایک اور روایت میں ہے انہوں نے کہا: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ بیوی نے جواب دیا: نہیں! صرف بچوں کے لئے کھانا موجود ہے اور انہوں نے کھایا نہیں ہے۔ انصاری نے کہا: انہیں کچھ دے کر بہلا دو اور جب وہ کھانا مانگیں تو انہیں تھپک کر سلا دو، اور جب مہمان کھانا کھانے اندر آئے تو چراغ بجھا دینا اور کچھ ایسا کرنا کہ مہمان یہ سمجھے کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں،چناچہ سب لوگ کھانے بیٹھے اور مہمان آسودہ ہو کر اٹھا لیکن ان دونوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب وہ صبح کو حضور ﷺ کے پاس پہنچے تو آپؐ نے فرمایا: تم دونوں نے مہمان کے ساتھ رات جو سلوک کیا، اس سے اللہ تعالی بہت خوش ہوا ہے (ایک روایت میں ہے کہ اللہ رات کو اس فلان اور فلانی پر بہت ہنسا)۔ اور قرآن کی آیت نازل ہوئی:
(ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ) (الحشر، ۹)
”وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں“۔یہ واقعہ میزبان کے ایثار کی بہترین مثال ہے جہاں اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک پر بھوکے مہمان کو سیر ہو کر کھلانا اللہ کے ہاں مقبول اور اس کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بنا۔
مذکورہ بیانات اور دلائل و نصوص سے مہمان نوازی و ضیافت کی اہمیت و فضیلت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ یہ بھی واشگاف ہوتا ہے کہ مہمانوں کی آمد باعث خیر و برکت ہوتی ہے۔الحمداللہ! علالت کے دوران کئی مہمانوں کی ضیافت کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ میں اپنے تمام مہمانوں کاصمیم قلب سے ممنون و مشکور ہوں اور سبھوں کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی اگر کسی مہمان کی ضیافت یا تکریم میں کسی طرح کی کوئی کمی رہ گئی ہو تو میں ان سے معافی کا خواست گار ہوں۔
اپنے مضامین اور خبر بھیجیں
udannewsdesk@gmail.com
7462884092
ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں
https://www.facebook.com/udannewsurdu/