اردو زبان سیکھنے کے لئے مولانا مودودی جیسے گمراہ مصنفین کو پڑھنے کا مشورہ۔

اردو زبان سیکھنے کے لئے مولانا مودودی جیسے گمراہ مصنفین کو پڑھنے کا مشورہ۔

محمد ضیاء الحق تیمی
جامعہ اسلامیہ مدینہ نبویہ

ہمارے ایک محترم اور سینئر بھائی نے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے اردو زبان سیکھنے کے لئے مولانا مودودی اور دیگر منحرفین کو بھی پڑھنے کا مشورہ دیا، جس پر ہم نے ایک واٹساپ گروپ میں بعض اعتراضات کئے، ہمارے بڑے بھائی کی طرف سے بھی کچھ جوابات آئے، پھر دوبارہ ہم نے اس پر کچھ عرض کیا، بعض اخوان کے مشورے پر ذیل میں کچھ حذف واضافے کے ساتھ، صرف موضوع سے متعلق باتوں کو نشر کیا جارہا ہے۔

(1) محترم شیخ! آپ نے فرمایا کہ ”اہل نظر جب کسی کو پڑھتے ہیں تو وہ بیدار عقل اور بصیرت افروز نگاہ کے ساتھ پڑھتے ہیں“ سوال یہ ہے کہ آپ نے مضمون تو عام پلیٹ فارم پر لکھا جس میں صرف اہل نظر ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ ہر طبقہ اور کچے پکے ہر ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔
(2) اہل نظر سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگر اہل علم اور بصیرت ہیں جو کتاب وسنت کا گہرا علم رکھتے ہیں تو ان کی تعداد فیسبوک اور سوشل میڈیا پر کتنی زیادہے؟
(3) آپ کو ہم اہل نظر اور اہل علم میں شمار کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود آپ کی یہ تحریر خود ان بھٹکے ہوئے مصنفین کے فکر کی ترجمانی کر رہی ہے، کیوں کہ وہی لوگ ہر کسی کو پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں اور اپنی ذہانت وطباعی پر ان کو بہت زیادہ ناز ہوتا ہے، جبکہ سلف کا اس بات پر اجماع ہے ہر کسی کو شبہات سے دور رہنا چاہئے اور اہل بدعت کی کتابوں سے احتراز کرنا چاہئے۔ کیونکہ کہ انسانی عقل اور دل کمزور ہوتے ہیں اور شبہات انتہائی خطرناک اور دقیق ہوتے ہیں لیکن منھج سلف کے بر خلاف آپ خود بھی اس مسئلہ میں ان گمراہ مصنفین کی فکر سے کہیں نا کہیں متاثر ہو گئے ہیں پھر ہم دوسروں سے کیا امید رکھیں؟
(4) آپ نے بعض حضرات کے انحرافات کی طرف اشارہ کیا ہے، مثال کے طور پر مولانا مودودی کے بعض انحرافات کا ذکر کیا ہے، آپ کے حساب سے ایک طالب علم ان انحرافات سے واقف ہو جائے گا تو ان سے متاثر نہیں ہوگا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی بات کو نہایت مضبوط مقدمے اور ساحرانہ اسلوب میں رکھتے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ پڑھنے والا ان کے دلائل سے مطمئن ہو جائے اور اس انحراف کو قبول کر لے پھر وہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کی ضرورت ہی نہیں محسوس کرے؟
(5) آپ نے مولانا مودودی کے ایک دو انحرافات کی طرف اشارہ کیا ہے، جب کہ ان کے یہاں اصولی اور منھجی انحرافات بہت زیادہ ہیں اور ہر انحراف حد درجہ خطرناک ہے، مثلا ● توحید کے اقسام میں توحید حاکمیت کا اضافہ، ●اور پھر توحید حاکمیت کو اصل اور توحید الوہیت کو ثانوی قرار دینا جو کہ دین محمدی سے ہی نہیں بلکہ تمام انبیاء کے دین سے انحراف اور تمام آسمانی کتابوں کے نزول کے بنیادی مقصد سے بغاوت ہے، اور دین کے اندر بہت بڑا فساد اور بگاڑ ہے ●اسی طرح انہوں نے قدر اور امر ونہی میں تفریق نہیں کی اور امور کونیہ وقدریہ پر دلالت کرنے والی آیتوں سے توحید حاکمیت پر استدلال کیا اور بے شمار آیتوں میں معنوی تحریف پیدا کی، جو کہ انہیں خوارج کے منھج سے قریب کر دیا، اور امت اسلامیہ کے اندر فکر خوارج کے احیاء میں انہوں نے بہت اہم رول ادا کیا، آج امت میں خارجیت کا جو شدید تر فتنہ موجود ہے اس میں اس آدمی اور ان کے شاگرد سید قطب کی تحریروں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ●سنت کا اسخفاف اور منکرین سنت کے لیے اصول وضع کرنے اور ان کے لیے چور دروازے نکالنے کا کارنامہ بھی انہوں نے بہت چالاکی اور مہارت سے انجام دیا ہے۔ ●اپنی کتاب خلافت وملوکیت کے ذریعہ انہوں نے سبائیت کے فتنے کو از سر نو زندہ کیا اور اہل سنت میں رافضیت وتشیع کو داخل کیا۔ اور صحابہ کرام جیسے مقدس گروہ اور دین کی سب سے پہلی کڑی کو ہی مطعون کر دیا، جو کہ خالص زندقہ اور بے دینی ہے۔
●نقد و استدلال میں کتاب وسنت سے استدلال کی جگہ عقلانیت اور اعتزال کی روش اختیار کی۔
●اشاعرہ اور ماتریدیہ کے منھج پر چل کر آیاتِ صفات کی تاویلیں کیں جو کہ خود مستقل بہت بڑی بدعت اور گمراہی ہے اور جس کی وجہ سے علمائے اہل سنت نے اہل کلام پر سخت ترین ردود کئے اور صفاتِ باری تعالی کے باب میں اس بدعت کی سنگینی کو واضح کیا۔
●سلف صالحین اور علمائے امت کی شان کو گھٹانا اور خود کو سب سے بڑھا کر پیش کرنا اور اس کے ذریعے فکری آوارگی کی دعوت دینا بھی ان کی کتابوں کا ایک نمایاں وصف ہے۔۔۔ ●اس کے علاوہ انبیاء کی شان میں بھی انہوں نے غیر محتاظ زبان استعمال کیا ہے، اس طرح کے اور اصولی انحرافات ان کے پاس موجود ہیں، گویا اس آدمی نے بیک وقت خارجیت، رفض وتشیع، اعتزال، اشعریت وماتریدیت، اور انکار سنت وغیرہ فتنوں کی تجدید واحیاء کا کام کیا ہے، اور اگر ایک ایک مسئلہ میں ان کی غلطیوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید ان کا شمار آسان نہیں ہوگا۔
اب ایسی صورت میں آپ جن حضرات کو ان کی کتابوں کو پڑھنے کا مشورہ دے رہے ہیں کیا واقعی سب کا علمی سطح اس قدر بلند ہے کہ وہ ان گمراہیوں کو سونگھ لے اور انہیں کتاب وسنت پر پیش کر کے حق کی تشخیص کر سکے؟
اور باطل کی پرکھ کیا ہر کس وناکس کے بس کی بات ہے یا اس کی صلاحیت صرف راسخین فی العلم اور کبار اہل علم کے پاس ہوتا ہے ۔
ہمارے پاس سلفی عقیدہ ومنھج کے حامل اہل علم وادب کی ایک بڑی تعداد ہے، جیسے مولانا آزاد، مولانا اسماعیل سلفی، حافظ صلاح الدین یوسف، اسحاق بھٹی، علامہ نذیر حسین املوی، علامہ حنیف بھوجیانوی، مولانا حنیف ندوی، علامہ احسان الہی ظہیر ، شیخ ارشاد الحق اثری، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری، ڈاکٹر محمد لقمان سلفی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری وغیرہ۔
کیا مولانا مودودی جیسے منحرف افکار کے حامل شخص سے اردو سیکھنے کا مشورہ دینے سے بہتر نہیں ہے کہ ان حضرات کی کتابوں کو مطالعہ کرنے کا مشورہ دیں، جن سے ہماری زبان بھی درست ہوگی، نیز ہمارے علم میں رسوخ بھی پیدا ہوگا، عقیدہ ومنھج کا علم ہوگا، کتاب وسنت کی محبت پیدا ہوگی اور باطل افکار ونظریات سے آگاہی بھی حاصل ہوگی۔
اللہ ہم سب کو منھج سلف کا فہم عطا کرے اور اس پر قائم ودائم رکھے۔

(ہمارے ان اعتراضات پر صاحب مضمون کی طرف سے بھی کچھ جوابات موصول ہوئے، مجھے پڑھ کر محسوس ہوا کہ ان میں میرے بنیادی اعتراضات کے جوابات نہیں ہیں،
چنانچہ ہم نے عرض کیا):

آپ کے اس مضمون پر جو بنیادی اعتراضات تھے شاید ان کو سمجھانے میں قاصر رہا، اس لئے دوبارہ ان کا اعادہ کر دیتا ہوں:
1- آپ نے منحرفین کی کتابوں کو پڑھنے کی دعوت دی ہے، اور آپ نے بار بار کہا کہ ان کی باتوں کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر تولیں گے، اگر غلط ہوگا تو رد کر دیں گے، اب آپ پر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ اگر آپ اسی فکر کو جس کی دعوت آپ دے رہے ہیں کتاب وسنت پر پیش کرتے تو اس کے خلاف پاتے، لیکن آپ نے پیش نہیں کیا، ظاہر ہے کہ دوسرے لوگوں کے بارے بھی یہ گمان کرنا مشکل ہے کہ وہ ہر بات کو کتاب وسنت پر پیش کرسکیں گے اور باطل افکار سے بچ پائیں گے۔
2- آپ نے کہا کہ اہل نظر جب کسی کو پڑھتے ہیں تو وہ بیدار عقل کے ساتھ پڑھتے ہیں، اس پر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ آپ کے اس جملے سے واضح ہے کہ آپ بھی مانتے ہیں کہ اہل نظر ہی صحیح وغلط کی تمیز کر سکتے ہیں، اور آپ اس بات کو یقینا تسلیم کریں گے کہ آپ کی اس تحریر کو پڑھنے والے ہر کوئی اہل نظر نہیں ہیں، لہذا آپ کا اس طرح عمومی پلیٹ فارم پر عمومی مشورہ دینا خیر خواہی نہیں ہے، کیونکہ جو اہل نظر نہیں ہیں وہ غلط کو بھی صحیح سمجھ کر قبول کر سکتے ہیں۔
3- تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اہل نظر سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اگر کتاب وسنت کے ماہرین ہیں، تو یقینا وہ ایسا کر سکتے ہیں، اور ان جیسے منحرفین کی کتاب تنقید کے لئے پڑھ سکتے ہیں، اور اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ کسی بھی فن کے با شعور لوگ، تو یقینا یہ بات تجربہ اور حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ کتاب وسنت کا گہرا علم رکھنے والوں میں سے بھی بہت سارے لوگ ان منحرفین کی کتابوں کو پڑھنے سے متاثر ہوگئے، اور ان کی گمراہ کن فکر کے داعی ہوگئے، پھر غیر متخصصین کے بارے اس طرح کی خوش فہمی سوائے دھوکہ کے کچھ نہیں ہے۔
4- پھر کتاب وسنت کا علم چند اسباق کا نام نہیں ہے کہ ہر کسی کو ازبر ہوجائے اور اور باطل پر فٹ کرکے اس کی پرکھ کر سکے بلکہ اس میں سمندر کی سی وسعت اور گہرائی ہے، اور اس کے اصولی اور بنیادی امور پر راسخین فی العلم کو ہی گرفت ہو سکتی ہے، جو باطل کو دیکھ کر ہی پرکھ سکے۔
لہذا یہ سمجھنا کہ ہر کس وناکس باطل افکار کو کتاب وسنت پر پیش کرکے ان کی پہچان کر سکتا ہے انتہائی ہلکی بات ہے۔
5- بطور مثال میں نے مولانا مودودی کے جن انحرافات کا اوپر ذکر کیا ہے، چند سال پہلے مجھے خود ان میں سے دو فیصد چیزوں کا بھی شعور نہیں تھا، ظاہر ہے دیگر طلبہ کا بھی تقریبا یہی حال ہوگا۔
(5) (((اب دیکھیے آپ نے جن بزرگوں کا نام لکھا ہے ان پر بھی ہمارے بہت سے احباب کو تحفظات ہیں ۔ مولانا آزاد اور مولانا اسحاق بھٹی کے یہاں بھی ایسی چیزیں موجود ہیں جن پر تحفظات ہو سکتے ہیں))) جہاں تک ان بزرگوں کی بات ہے تو ان کے یہاں کچھ تسامحات ہیں لیکن وہ اصولی قسم کے کم ہیں، اسی طرح وہ باضابطہ کسی بدعت کے داعی ومبلغ نہیں تھے، جبکہ مولانا مودودی جیسے لوگوں کی بات بالکل مختلف ہے۔
(6) (( ڈاکٹر طہ حسین کو پڑھنے کی دعوت دینے والے پر آپ کیا فیصلہ صادر فرمائیں گے؟))) یہ سوال اصولی طور پر نہایت غلط ہے، کیونکہ یہ انتہائی مشہور مسئلہ ہے کہ کسی فعل پر کوئی حکم لگایا جائے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ فاعل پر بھی وہی حکم لگے گا، مثلا کسی عمل پر شرک یا کفر کا حکم لگانے سے فاعل پر کافر یا مشرک کا حکم لازم نہیں آتا ہے، یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے، جبکہ اہل سنت کے یہاں یہ دو الگ مسائل ہیں، فاعل پر حکم لگانے کے بہت سارے شروط وموانع ہیں،
اس لئے ہم نے آپ پر بھی کوئی حکم نہیں لگایا ہے، بلکہ ہم نے آپ کی اس فکر پر تنقید کی یے، اس لئے آپ کا یہ مطالبہ اصول سلف کے خلاف ہے۔
جہاں تک طہ حسین کی کتاب “الأیام” اور “على هامش السيرة” پڑھنے کا مشورہ دینے کی بات ہے تو اس سے بھی آپ کا استدلال کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ خالص ادبی کتابیں ہیں، فکری کتابیں نہیں ہیں، جن میں پوری ترکیز جملے کی ساخت اور بناوٹ پر ہوتی ہے ، کہانی یا فکر پر نہیں، لہذا اس باب میں علماء کے یہاں عموما تساہل پایا جاتا ہے۔ ہم بھی غالب اور میر تقی میر، حالی اور عبد الحلیم شرر وغیرہ شعراء اور ادباء کو پڑھنے سے نہیں روکتے ہیں۔ جہاں پورا معاملہ زبان وبیان کے ارد گرد گھومتا ہے۔

(7) “اگر آپ نے مودودی صاحب کے انحراف کو ان کی کتابوں کے مطالعہ سے جانا ہے تو یہی تو میرا کہنا ہے کہ انسان کو کسی بھی مصنف کو آنکھ کھول کر پڑھنا چاہیے”
میں نے ان انحرافات کو کیسے جانا اس سے قطع نظر آپ کی یہ بات بھی اصولی طور پر درست نہیں ہے کہ کوئی بھی انسان کسی بھی مصنف کو آنکھ کھول کر پڑھنا شروع کر دے گرچہ وہ ان کے یہاں انحرافات وضلالات موجود ہوں، کیونکہ ہر کسی کے پاس یہ اہلیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ صحیح وغلط کے درمیان تمیز کر سکے گرچہ وہ آنکھ کھلا ہی رکھے، اس لئے اگر ثقہ اہل علم نے کسی مصنف کی گمراہی کو دلائل کی روشنی میں واضح کیا ہو تو اس کی بنیاد پر بھی رد کیا جا سکتا ہے، مثلا اگر کوئی حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب “خلافت وملوکیت کی شرعی حیثیت” کو پڑھ کر مولانا مودودی کی کتاب “خلافت وملوکیت” میں موجود گمراہی کو واضح کرنا چاہے تو یقینا کر سکتا ہے، اگر کوئی “منھاج السنہ” لشيخ الإسلام کی روشنی میں روافض کے عقائد کو بیان کرتا ہے، اور مولانا اسماعیل سلفی کی مختلف کتابوں کو پڑھ کر مولانا مودودی کی انحرافات کو واضح کرتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مطالبہ نہیں کیا جائے گا کہ آپ اصل کتاب کو خود سے پڑھیں، پھر لکھیں، کیونکہ ان اہل علم کی امانتداری اور ثقاہت ہمارے یہاں مسلم ہے، اور یہی شرط کافی ہے۔ ورنہ اس سے یہ لازم آئے گا کہ ان اہل علم کے ردود کو یا تو ہم نا قابل اعتبار سمجھتے ہیں، یا ان سے زیادہ ہم اپنے آپ کو علم وفقہ کا مالک سمجھتے ہیں۔
ہم نے مختلف گمراہ فرقوں کے عقائد کو اور ان پر ردود کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابوں کے واسطے جانا، کیا ہم پر ضروری ہے کہ ان گمراہ فرقوں کی اصل کتابوں کی طرف رجوع کرنے کے بعد ہی ان کو بیان کریں، ہرگز نہیں۔
در اصل آپ کی یہ فکر بھی اسی کا تسلسل ہے کہ ہر انسان صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کر سکتا ہے، اور کتاب وسنت کی کسوٹی پر توکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ہاں اگر کسی کے پاس اہلیت ہے اور کسی مسئلہ کی تحقیق کرنا چاہتا ہے تو وہ ضرور اصل مصادر کی طرف رجوع کرے، لیکن نہ ہی بغیر اہلیت کے اس چیز کا مطالبہ درست ہے، اور نہ ہی رد کرنے کے لئے یہ بنیادی شرط ہے۔
هذا ما عندي والله الموفق والهادي الى سواء السبيل

اپنے مضامین اور خبر بھیجیں


 udannewsdesk@gmail.com
 7462884092

ہمیں فیس بک پیج پر بھی فالو کریں


  https://www.facebook.com/udannewsurdu/

loading...
udannewsdesk@gmail.comآپ بھی اپنے مضامین ہمیں اس میل آئی ڈی پر بھیج سکتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *